ارت تونڈی گاؤں کی تنگ گلیوں سے ایک میٹھی، میوہ دار اور نشہ آور خوشبو اٹھ رہی ہے۔

یہاں ہر گھر کے سامنے والے صحن میں بانس کی چٹائیوں، نرم دریوں اور مٹی کے فرش پر پیلے، سبز اور بھورے رنگ کے مہوا کے پھول سوکھ رہے ہیں۔ تازہ چُنے گئے زرد اور سبز رنگ کے پھول دھوپ میں خشک ہو کر بھورے اور سخت ہو جاتے ہیں۔

انتخابات قریب ہیں، اور مہاراشٹر کے گوندیا ضلع میں مہوا کا موسم چل رہا ہے۔

’’اپریل میں مہوا اور مئی میں تیندو کے پتے۔ ہمارے یہاں یہی ملتا ہے،‘‘ سارتھیکا کیلاش آڑے (۳۵) طنزیہ لہجے میں کہتی ہیں۔ وہ اور مانا اور گونڈ قبیلے سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد روزانہ صبح گرد و نواح کے جنگلات میں جاتے ہیں اور ۵-۴ گھنٹے تک مہوا کے اونچے درختوں سے گرنے والے نرم پھولوں کو چنتے ہیں۔ اس موسم میں مہوا کے پتے سرخی مائل ہو جاتے ہیں۔ یہاں دوپہر تک درجہ حرارت ۴۱ ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے اور گرمی ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔

مہوا کے ہر درخت سے اوسطاً ۴ سے ۶ کلوگرام پھول نکلتے ہیں۔ ارت تونڈی (جسے مقامی لوگ ارک تونڈی بھی کہتے ہیں) گاؤں کے لوگ اسے بانس کی ٹوکریوں یا پلاسٹک کی بوریوں میں جمع کر کے دھوپ میں خشک کرنے کے لیے گھر لاتے ہیں۔ ایک کلو سوکھے مہوا سے انہیں ۳۵ سے ۴۰ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ ایک شخص ایک دن میں اوسطاً ۵ سے ۷ کلو تک مہوا کے پھول جمع کر سکتا ہے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar

مشرقی ودربھ کے گوندیا، بھنڈارا، گڑھ چرولی اور چندر پور اضلاع میں ۱۹ اپریل کو عام انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹنگ کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس پورے خطے میں مرد، عورتیں اور بچے صبح میں مہوا کے پھول جمع کرنے میں مصروف ہیں

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

مہوا کے پھولوں کو جمع کرنے میں دن میں پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ پھولوں کو جمع کرنے کے بعد انہیں اپریل کی تپتی دھوپ میں بانس کی چٹائیوں، دریوں اور چادروں پر سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ وسطی ہندوستان کے لوگوں کا ایک سالانہ ذریعہ معاش ہے

مہوا (مدھوکا لانگیفولیا) کا درخت وسطی اور مشرقی ہندوستان کی قبائلی آبادیوں کی زندگیوں میں بے مثال ثقافتی، غیبی اور اقتصادی اہمیت کا حامل ہے۔ مشرقی ودربھ کے گوندیا ضلع کے پسماندہ آدیواسی علاقوں (بشمول تصادم کا شکار گڑھ چرولی ضلع) میں مہوا روزی روٹی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، یہاں درج فہرست ذاتوں کی آبادی کل آبادی کا ۳ء۱۳ فیصد اور درج فہرست قبائل کی آبادی کل آبادی کا ۲ء۱۶ فیصد ہے۔ یہاں عوام کے لیے روزی روٹی کا ایک اور متبادل مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی (منریگا) پروگرام ہے۔

اس خشک خطے میں چھوٹے پیمانے پر کاشت کاری والے گاؤوں میں جیسے ہی کھیتوں پر کام ختم ہوتا ہے، کھیتی سے باہر کام تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اپریل کے مہینہ میں لاکھوں لوگ اپنے کھیتوں میں یا ارجنی-مورگاؤں تحصیل کے گرد و نواح کے جنگلاتی علاقوں میں روزانہ کئی گھنٹوں تک مہوا کے پھول چنتے ہیں۔ سال ۲۰۲۲ کا ضلعی سماجی و اقتصادی جائزہ کے مطابق، گوندیا کی ۵۱ فیصد زمین پر جنگل کا پھیلاؤ ہے، اور اس کا تقریباً نصف حصہ تحفظ شدہ علاقہ ہے۔

سال ۲۰۱۹ میں ممبئی اسکول آف اکنامکس اینڈ پبلک پالیسی (ایم ایس ای اینڈ پی پی) کی ایک پہل کے ذریعے مہوا کی پیداوار اور قبائلی ذریعہ معاش کی صورتحال پر کرائے گئے ایک تحقیقی مطالعہ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مشرقی ودربھ کے علاقے میں تقریباً ۱۵ء۱ لاکھ میٹرک ٹن (ایم ٹی) مہوا جمع کیا جاتا ہے۔ اس میں گوندیا ضلع کا حصہ ۴۰۰۰ ایم ٹی سے کچھ زیادہ ہے، جبکہ کل ریاستی پیداوار کا ۹۵ فیصد حصہ گڑھ چرولی ضلع سے آتا ہے، معروف ماہر اقتصادیات اور ایم ایس ای اینڈ پی پی  کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر نیرج ہاتیکر کہتے ہیں۔

مطالعہ کے مطابق ایک کلو مہوا ایک آدمی کی ایک گھنٹہ کی مزدوری کے برابر ہے۔ ہزاروں کنبے اپریل میں مہوا کے پھول جمع کرنے میں دن کے ۵ سے ۶ گھنٹے صرف کرتے ہیں۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

چُنے گئے مہوا کے پھولوں کو گاؤں کی سطح پر (بائیں) چھتیس گڑھ کے تاجروں کے ذریعے جمع کیا جاتا ہے اور رائے پور پہنچایا جاتا ہے۔ ارک تونڈی گاؤں کے کنبے جنگل پر مبنی ذریعہ معاش پر انحصار کرتے ہیں، جیسے کہ اپریل میں مہوا جمع کرنا اور مئی میں تیندو کے پتے اکٹھا کرنا

پڑوسی ریاست چھتیس گڑھ جمع شدہ مہوا کے پھولوں کا بڑا ذخیرہ کرنے والا مرکز ہے، جہاں یہ پھول بنیادی طور پر شراب کی پیداوار، کھانے کی مصنوعات اور مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر ہاتیکر بتاتے ہیں، ’’جمع شدہ مہوا کے پھول اصل پیداوار سے بہت کم ہوتے ہیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں، لیکن بنیادی طور پر یہ کام محنت طلب اور بہت وقت طلب ہے۔‘‘ انہوں نے مہاراشٹر میں مہوا سے متعلق پالیسی میں بنیادی اصلاحات کی تجویز پیش کی ہے، جہاں مہوا سے بنائی گئی شراب غیر قانونی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قیمتوں کو مستحکم کرنے، ویلیو چین کو ہموار کرنے اور منڈیوں کو منظم کرنے کے اقدامات سے گونڈ قبائلی آبادی کو فائدہ پہنچے گا، جو اس پر انحصار کرتے ہیں۔

*****

اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ سارتھیکا کبھی اروند پانگریہ کا مضمون ’ڈونٹ لوز سلیپ اوور اِن ایکویلیٹی‘ (عدم مساوات پر اپنی نیند خراب نہ کریں) پڑھیں گی۔ یہ مضمون انگریزی کے معروف روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں ۲ اپریل ۲۰۲۴ کو شائع ہوا تھا۔ اور پانگریہ کا سارتھیکا سے کبھی ملاقات کرنے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔

ان کی اپنی الگ الگ دنیا ہے، جو آپس میں ایک دوسرے سے کہیں نہیں ملتی۔

پانگریہ غالباً ہندوستان میں آمدنی کے سب سے اوپر کے ایک فیصد کے قوسین میں ہیں۔ وہ بھلے ہی ایلیٹ ڈالر ارب پتیوں کی لیگ (جماعت) میں نہ ہوں، لیکن بااثر پالیسی سازوں کی لیگ میں ضرور ہیں۔

سارتھیکا اور ان کے گاؤں والے ملک کے سب سے نچلے طبقے کے غریب اور بے اختیار ۱۰ فیصد لوگوں میں سے ہیں۔ ان کے گھر سہولیات سے عاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فیملی کی آمدنی تمام ذرائع سے ۱۰ ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔

دو بچوں کی ماں سارتھیکا کہتی ہیں – اور ان کے آس پاس موجود دوسرے افراد پر زور طریقے سے حامی بھرتے ہیں – کہ ان کے لیے زندگی گزارنا دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور آمدنی کے محدود ہوتے ذرائع کی وجہ سے ان کی نیند غائب ہوتی جا رہی ہے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

سارتھیکا آڑے (سر پر بندھے نیلے دوپٹے میں) ایک چھوٹی کسان ہیں، جو مہوا اور مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم پر انحصار کرتی ہیں۔ منریگا کے تحت چھ سے سات گھنٹے تک کام کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ۱۰ سالوں میں منریگا کی مانگ میں صرف اضافہ ہوا ہے، اور اس میں پڑھے لکھے مرد اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ گاؤں کی دوسری خواتین کے ساتھ (دائیں)

ارک تونڈی کی خواتین کہتی ہیں، ’’خوردنی تیل، چینی، سبزیاں، ایندھن، بجلی، نقل و حمل، کاپی کتاب، کپڑے ہر ایک چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ اور یہ فہرست بہت لمبی ہے۔

سارتھیکا کے پاس بارش پر منحصر کاشتکاری کے لیے ایک ایکڑ سے بھی کم زمین ہے، جس پر وہ دھان اگاتی ہیں۔ اس سے انہیں تقریباً ۱۰ کوئنٹل فصل ملتی ہے، جس میں سال بھر کی اپنی ضرورت کے بعد فروخت کرنے کے لیے شاید ہی کوئی اضافی غلہ بچتا ہو۔

تو پھر سارتھیکا جیسے آدیواسی کیا کریں؟

’’مئی سے مارچ کے درمیان تین چیزیں ہماری روزی روٹی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں،‘‘ گاؤں میں ریاستی دیہی روزی روٹی مشن ’اُمید‘ کی کمیونٹی ریسورس پرسن، الکا مڈاوی کہتی ہیں۔

وہ ان کا شمار بھی کرتی ہیں: جنگل کی معمولی پیداوار - اپریل میں مہوا، مئی میں تیندو کے پتے۔ منریگا کا کام اور ریاست کی طرف سے دیا جانے والا سستا اناج۔ ’’اگر آپ ان تینوں کو ہٹا دیتے ہیں، تو ہم یا تو مستقل طور پر کام کے لیے شہروں کی طرف ہجرت کر جائیں گے، یا یہیں بھوک سے مر جائیں گے،‘‘ مڈاوی کہتی ہیں جو یہاں سیلف ہیلپ گروپ چلاتی ہیں۔

سارتھیکا اور ان کی گونڈ برادری کے افراد صبح تقریباً پانچ گھنٹے تک جنگلات سے مہوا چنتے ہیں، پانچ سے چھ گھنٹے تک منریگا کے تحت سڑک کی تعمیر میں کام کرتے ہیں، اور شام کا وقت کھانا پکانے، برتن دھونے، مویشیوں اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے اور صفائی ستھرائی جیسے گھریلو کاموں میں صرف کرتے ہیں۔ کام کے مقام پر سارتھیکا پلاسٹک کے برتن کو سخت مٹی کے ڈھیلوں سے بھرتی ہیں، اور ان کے ساتھی انہیں اپنے سروں پر اٹھا کر سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں۔ بعد میں مرد اسے برابر کرتے ہیں۔ ہر ایک مزدور کھیت کے گڑھوں سے سڑک تک آنے جانے کا عمل کئی دفعہ دہراتا ہے۔

ریٹ کارڈ کے مطابق ان کے ایک دن کے کام کی اجرت ۱۵۰ روپے ہے۔ مہوا کے سیزن کی آمدنی کے ساتھ ساتھ وہ پورے دن کام کر کے ۲۵۰ سے ۳۰۰ روپے کما سکتے ہیں۔ مئی آتے ہی وہ تیندو کے پتے اکٹھا کرنے جنگلوں میں چلے جاتے ہیں۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

الکا مڈاوی (بائیں) گاؤں میں ریاستی دیہی روزی روٹی مشن، اُمید کے لیے بطور کمیونٹی ریسورس پرسن کام کرتی ہیں۔ سارتھیکا (دائیں) جنگل میں مہوا چنتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے رکتی ہیں

ستم ظریفی یہ ہے کہ منریگا ملک کے بڑے حصوں میں غریبوں کے لیے واحد ذریعہ معاش بنا ہوا ہے، حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بار بار اسے کانگریس پارٹی کی ’ناکامی کی زندہ یادگار‘ قرار دیا ہے، جبکہ منریگا کے تحت چھ سے سات گھنٹے کام کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ مودی کے اقتدار کے دس سال بعد بھی اس پروگرام کی مانگ میں ۲۰۲۴ میں صرف اضافہ ہی ہوا ہے، اور کام مانگنے والوں میں پڑھے لکھے مرد اور پڑھی لکھی خواتین دونوں شامل ہیں۔

سارتھیکا اور دیگر خواتین کو ہندوستان کے امیر ترین شخص مکیش امبانی کی ایک دن کی آمدنی کی برابری کرنے میں سینکڑوں سال لگ جائیں گے۔ ماہر اقتصادیات پانگریہ لکھتے ہیں کہ غیر مساوی آمدنی ایسی چیز ہے جس پر ہمیں نیند نہیں آنی چاہیے۔

’’میرے پاس نہ تو کھیت ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا کام ہے،‘‘ منریگا سائٹ پر اپنا پسینہ بہا رہی ۴۵ سالہ سمیتا آڑے کہتی ہیں۔ ’’روزگار ہی [منریگا] واحد کام ہے جس سے ہم کچھ آمدنی حاصل کر پاتے ہیں۔‘‘ سارتھیکا اور دیگر خواتین ’’بہتر اجرت اور پورے سال کام‘‘ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

سمیتا بتاتی ہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں میں جنگل کی پیداوار پر تنازع شدت اختیار کر گیا ہے، کیونکہ پورے سال کام نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ جنگل پر مبنی ذریعہ معاش پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ ارک تونڈی گاؤں نویگاؤں نیشنل پارک کے جنوب میں جنگلاتی منظرنامے کے قریب واقع ہے، اور اسے ابھی تک جنگلات کے حقوق کا قانون کے تحت کمیونٹی جنگلات کے حقوق نہیں ملے ہیں۔

’’لیکن،‘‘ سارتھیکا کہتی ہیں، ’’[روزی روٹی کا] ایک چوتھا ذریعہ بھی ہے: موسمی مہاجرت۔‘‘

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

سارتھیکا اور دیگر خواتین کو ہندوستان کے امیر ترین شخص مکیش امبانی کی ایک دن کی آمدنی کی برابری کرنے میں سینکڑوں سال لگ جائیں گے۔ ماہر اقتصادیات پانگریہ لکھتے ہیں کہ غیرمساوی آمدنی ایسی چیز ہے جس پر ہمیں نیند نہیں آنی چاہیے۔ سارتھیکا (دائیں) اور دیگر افراد پورے سال بہتر اجرت اور کام کا مطالبہ کر رہے ہیں

ہر سال اکتوبر سے فروری تک تقریباً آدھا گاؤں دوسروں کے کھیتوں، صنعتوں یا کام کے دیگر مقامات پر کام کرنے کے لیے اپنے گھر چھوڑ کر دور دراز مقامات پر چلا جاتا ہے۔

’’میں اور میرے شوہر اس سال دھان کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے کرناٹک کے یاڈگیر گئے تھے،‘‘ سارتھیکا بتاتی ہیں۔ ’’مردوں اور عورتوں پر مشتمل ۱۳ افراد کے ہمارے گروپ نے ایک گاؤں میں کھیتی کا سارا کام کیا اور فروری کے آخر میں ہم واپس آ گئے۔‘‘ یہ سالانہ آمدنی ان لوگوں کے لیے ایک بڑا سہارا ہے۔

*****

مشرقی ودربھ کے چاول کے کٹورے اور جنگلات سے بھرپور اضلاع – بھنڈارا، گوندیا، گڑھ چرولی، چندر پور اور ناگپور- میں کل پانچ پارلیمانی حلقے ہیں۔ وہاں ۱۹ اپریل کو ۲۰۲۴ کے عام انتخابات کے پہلے مرحلہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔

عوام کے مسائل سے مکمل بے حسی کی وجہ سے ارک تونڈی کے گاؤوں میں سیاسی طبقوں اور افسر شاہی کے تئیں سخت مایوسی پائی جاتی ہے۔ مودی حکومت کے ۱۰ سالوں کے دوران اپنی مشکلات میں اضافے کی وجہ سے غریب ترین لوگوں میں بھی غصہ صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

’’ہمارے لیے کچھ نہیں بدلا ہے،‘‘ سارتھیکا کہتی ہیں۔ ’’ہمارے پاس کھانا پکانے کی گیس ہے، لیکن یہ بہت مہنگی ہے۔ اجرت وہی ہے؛ اور پورے سال کے دوران کوئی مستقل کام نہیں ہوتا۔‘‘

PHOTO • Jaideep Hardikar

ارک تونڈی گاؤں کا منریگا سائٹ۔ یہاں سیاسی طبقوں اور نوکرشاہی کے تئیں سخت مایوسی ہے۔ مودی حکومت کے ۱۰ سالوں کے دوران اپنی مشکلات میں اضافے کی وجہ سے بھی غریب ترین لوگوں میں غصہ صاف طور پر دکھائی دیتا ہے

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

مشرقی ودربھ کے چاول کے کٹورے اور جنگلات سے بھرپور اضلاع – بھنڈارا، گوندیا، گڑھ چرولی، چندر پور اور ناگپور- میں کل پانچ پارلیمانی حلقے ہیں۔ وہاں ۱۹ اپریل ۲۰۲۴ کو عام انتخابات کے پہلے مرحلہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے

بھنڈارا-گوندیا حلقہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے دوبارہ میدان میں اترنے والے رکن پارلیمنٹ سنیل مینڈھے کے لیے لوگوں میں زیادہ ناراضگی ہے۔ ’’وہ کبھی ہمارے گاؤں نہیں آئے،‘‘ اس بڑے حلقے میں بنیادی طور پر دیہی عوام کی جانب سے جاری ہونے والا یہ عام جملہ ہے۔

مینڈھے کا براہ راست مقابلہ کانگریس کے ڈاکٹر پرشانت پڈولے سے ہے۔

ارک تونڈی کے لوگ ۲۰۲۱ کے موسم گرما میں کووڈ۔۱۹ کے پہلے لاک ڈاؤن کے دوران گھر لوٹنے کے اپنے مشکل اور تکلیف دہ پیدل سفر کو نہیں بھولے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ۱۹ اپریل کو جب وہ اپنا ووٹ ڈالنے جائیں گے، تو بہت ممکن ہے کہ صبح پانچ گھنٹے مہوا جمع کرنے کے بعد جائیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یقینی طور پر وہ ایک دن کی اجرت کھو دیں گے کیونکہ اس دن منریگا کے تحت چلنے والا کام بند ہو گا۔

وہ کسے ووٹ دیں گے؟

وہ اپنی پسند کے بارے میں تو کچھ نہیں بتاتے، لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ ’’پرانا وقت بہتر تھا۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Editor : Priti David

ਪ੍ਰੀਤੀ ਡੇਵਿਡ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਇੰਡੀਆ ਦੇ ਇਕ ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ ਪਾਰੀ ਵਿਖੇ ਐਜੁਕੇਸ਼ਨ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਪੇਂਡੂ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਕਲਾਸਰੂਮ ਅਤੇ ਪਾਠਕ੍ਰਮ ਵਿੱਚ ਲਿਆਉਣ ਲਈ ਸਿੱਖਿਅਕਾਂ ਨਾਲ ਅਤੇ ਸਮਕਾਲੀ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਦਸਤਾਵੇਜਾ ਦੇ ਰੂਪ ’ਚ ਦਰਸਾਉਣ ਲਈ ਨੌਜਵਾਨਾਂ ਨਾਲ ਕੰਮ ਕਰਦੀ ਹਨ ।

Other stories by Priti David
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam