گوٹھی بستی کی مرکزی تنگ گلی میں تقریباً ہر گھر کے سامنے کئی بوریاں رکھی ہوئی ہیں اور کچلے ہوئے پتھروں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ ہر عمر کی خواتین، اسکول کی طالبات بھی، ان موٹے ڈھیروں کے اوپر بیٹھ کر پتھروں کو ایک ایک کرکے ہتھوڑوں اور شکنجوں سے توڑ رہی ہیں۔ پہاڑوں اور ندیوں کے کنارے سے پتھر نکالنے کے بعد اس بستی کے مرد حضرات گلیوں میں گھروں کے باہر کیرم اور تاش کھیلتے ہیں۔

گوٹھی، کالیکا پنچایت گاؤں کی ایک بستی ہے، جو اتراکھنڈ کے مشرقی پتھورا گڑھ ضلع میں جولجیبی بازار کے علاقے سے دھارچولا شہر کی شاہراہ پر واقع ہے۔ جولجیبی میں دو ندیاں – کالی اور گوری - ملتی ہیں، جہاں پر مسلسل پانی کے بہنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ نیپال وہاں سے چند میٹر کے فاصلے پر ہی واقع ہے، جہاں دونوں ملکوں کو جوڑنے والے تنگ پیدل پل ہیں۔ یہ پل اتنے ہی خستہ حال ہیں جتنا ان کے دونوں طرف رہنے والوں کی زندگیاں۔

Woman on road outside house. Road lined with stacked stones
PHOTO • Arpita Chakrabarty

گوٹھی بستی کے تقریباً ہر گھر کے باہر پتھروں کے ڈھیر پڑے ہیں جن کا استعمال گھروں اور سڑکوں کی تعمیر میں کیا جاتا ہے

گاؤں کے سرکاری اسکول کی باورچی پھولمتی ہنر (۳۲) کہتی ہیں، ’’یہاں نوکری ملنا مشکل ہے۔ گرمیوں کے دوران، ہم اپنے بالائی ہمالیائی گھروں میں واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘ ان کے یہ گھر ہند - چین سرحد کے انتہائی قریب بالائی ہمالیہ کی درما وادی میں گو اور بون نام کے گاؤوں میں ہیں۔

یہاں، ۲۵۰۰ میٹر کی اونچائی پر، متعدد خاندان مئی کے وسط سے تقریباً ۴۵ دنوں تک یارساگُمبا جمع کرتے ہیں۔ یارساگُمبا ایک نایاب اور قیمتی پھپھوند ہے جس میں طبی (ادویات سازی کی) خصوصیات موجود ہوتی ہیں، حالانکہ اس خطے سے نکلنے والی اس کی اعلیٰ قدروقیمت والی بین الاقوامی تجارت کا صرف ایک حصہ ہی قانونی ہے۔ لوگ کُماؤں خطے کے مختلف علاقوں میں فروخت کرنے کے لیے باورچی خانہ میں استعمال ہونے والی جڑی- بوٹیاں بھی جمع کرتے ہیں۔ پھولمتی کہتی ہیں، ’’ہم ان جڑی بوٹیوں کو بیچ کر کچھ پیسے کما لیتے ہیں۔ تاہم، یہ گھر چلانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس لیے ہم ان پتھروں کو توڑ کر بیچتے ہیں۔‘‘

مقامی بچولیے توڑے ہوئے پتھروں کو خرید کر ان ٹھیکیداروں کو بیچ دیتے ہیں جو سڑکیں یا مکانات بنا رہے ہوتے ہیں۔ سال بھر یہی سرگرمی چلتی رہتی ہے، اور اس میں ۲۰۱۳ میں آنے والے سیلاب کے بعد اضافہ ہوا ہے۔ اسی سال جون میں، اتراکھنڈ کے بیشترعلاقوں میں غیرمتوقع موسلادھار بارش ہوئی۔ دھارچولا بلاک کے گوٹھی، نئی بستی، کالیکا اور بلواکوٹ میں کالی ندی کی طغیانی نے کئی مکانات اور سڑکیں بہا دیں۔ ان تباہ شدہ گھروں اور سڑکوں کو دوبارہ بنانے کے ساتھ ساتھ نئے مکانات کی تعمیر کے لیے بھی ان پتھروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پھولمتی بتاتی ہیں کہ توڑے ہوئے پتھروں کی ہر بوری کی قیمت ۴۵ روپے ہے۔ ایک دن میں وہ دو بوریاں بھر پاتی ہیں۔ وہ اسکول میں مڈ ڈے میل میں انڈے کا سالن بناتے ہوئے کہتی ہیں، ’’کچھ عورتیں دن میں تین بوریاں بیچتی ہیں۔ اس میں بہت وقت لگتا ہے، کیونکہ گھر کے کام بھی کرنے ہوتے ہیں۔‘‘

Woman breaking stones
PHOTO • Arpita Chakrabarty
Woman breaking stones with hammer and clamp.
PHOTO • Arpita Chakrabarty

بتولی دیوی (۶۵) کسی طرح کے حفاظتی آلے کا استعمال کیے بغیر صرف ہتھوڑے اور شکنجے سے پتھر توڑتی ہیں۔ بعض اوقات ان کی آنکھوں میں پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پڑ جاتے ہیں یا ان کی انگلیاں زخمی ہوجاتی ہیں

گوٹھی کی ایک گلی میں، دو عورتیں پتھر کے بڑے ٹکڑوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ رہی ہیں، انہیں شکنجے سے پکڑ کر ان پر ہتھوڑے مار رہی ہیں۔ پتھر چکناچور ہو جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ پاؤں اور چہرے دھول سے بھر گئے ہیں۔ وہ کوئی حفاظتی دستانے یا ماسک کا استعمال نہیں کرتیں۔ ’’کبھی کبھی، پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہماری آنکھوں میں پڑ جاتے ہیں اور ہمیں فوری طور پر ہسپتال بھاگنا پڑتا ہے جو دھارچولا میں واقع ہے [ یہاں سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر]۔ بعض اوقات ہماری انگلیاں زخمی ہوجاتی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ تو چلتا ہی رہتا ہے،‘‘ ۶۵ سالہ بتولی دیوی کہتی ہیں۔ دوپہر کا وقت ہے، اور انہوں نے پتھروں سے بھری بوری جمع کرلی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ دن کی روشنی ختم ہونے تک کام کرتی رہیں گی۔

پتھروں کو توڑنا گوٹھی کی خواتین کے لیے نہ صرف پتھروں کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے ہے بلکہ ان کے ہاتھوں سے بنی ہوئی روایتی مصنوعات کی گرتی ہوئی مانگ کی وجہ سے بھی مستقل ذریعہ معاش بن گیا ہے۔ یہاں کی زیادہ تر خواتین بھوٹیا قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں، جو اپنی بہترین بُنائی اور مہارت کے لیے مشہور ہیں۔ وہ کسی بھی چیز کی بُنائی کر سکتی ہیں، چٹائیوں سے لے کر کمبل تک، سویٹر سے لے کر موزوں تک، اس خطے میں یہ سب کچھ بھیڑوں سے حاصل کیے گئے اون سے ہوتا ہے۔ بھوٹیا خواتین کو بُنائی کرنا سب سے زیادہ پسند ہے۔ اسی سے وہ اپنی روزی روٹی کماتی تھیں۔ ان کے ہنر کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ بتولی دیوی پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ ایک الگ ہی دور تھا۔

اب لکڑی کے کرگھوں پر – جو کہ زیادہ تر سیلاب میں بہہ گئے یا خراب ہو گئے اور انہیں دوبارہ بنانا پڑا – بہت سے گھروں کے کونوں میں دھول جمع ہو رہی ہے۔ سیلاب سے بچ جانے والے کرگھوں میں سے کچھ سو سال پرانے ہیں، جو ماؤں کی طرف سے بیٹیوں اور بہوؤں کو بیش قیمتی تحائف کے طور پر دیے گئے تھے۔ بُنائی کی مہارت بھی نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔ قسمتی دیوی (۵۲) کہتی ہیں، ’’اگر اور کچھ نہیں تو بھوٹیا لڑکی کو یہ ضرور معلوم ہوگا کہ بُنائی کیسے کی جاتی ہے اور [گیہوں سے] شراب کیسے بنائی جاتی ہے۔‘‘

Woman weaving carpet outside her home.
PHOTO • Arpita Chakrabarty
Woman weaving a carpet inside her home.
PHOTO • Arpita Chakrabarty

مصنوعی قالین نے ہاتھ سے بُنی ہوئی قالین کی قدروقیمت ختم کردی ہے، لیکن آرتی بونا (بائیں) اور کشما کُٹیال (دائیں) جیسی بُنکر اب بھی کبھی کبھار انہیں بناتی ہیں

پھولمتی کہتی ہیں کہ وہ خالص اون سے چٹخے اور موٹے کمبل بناتی تھیں اور نومبر کے مہینے میں انہیں جولجیبی میں لگنے والے سالانہ میلے میں فروخت کر دیا کرتی تھیں۔ کمبل وزنی ہے، کماؤں کی سرد آب و ہوا کے لیے بہت ہی معقول اور مناسب ہے۔ ’’ہمارے باپ اور بھائی چٹخے بیچنے الموڑہ اور پتھورا گڑھ شہر جاتے تھے۔ ہر ایک کی قیمت اون کے معیار کے لحاظ سے ۳۵۰۰ سے ۶۰۰۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ لیکن اسے بنانے میں سخت محنت اور کافی وقت لگتا ہے،‘‘ پھولمتی کی والدہ، سپو دیوی کہتی ہیں۔ ’’اگر کوئی سارا دن اسے گھماتا رہے تو ایک چٹخا بنانے میں تقریباً ۲۰-۱۵ دن لگتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک عدد کو مکمل کرنے میں تین مہینے لگ سکتے ہیں۔‘‘

Woman holding up weaving thread outside her home.
PHOTO • Arpita Chakrabarty

سپو دیوی جس سوت کو چٹخا بنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں، وہ ایک موٹا کمبل ہے جو سو سال تک چل سکتا ہے

لیکن ہاتھ سے بنا یہ کمبل اب زیادہ فروخت نہیں ہوتا۔ ’’جب کمبل اور لحاف بہت سستے داموں پر مل جاتے ہیں، تو کوئی ۲۰۰۰ روپے سے زیادہ اس کی قیمت کیوں ادا کرے گا۔‘‘ سپو دیوی میرے کیمرے کے لیے دھاگے کو کھولتے ہوئے سوالیہ لہجے میں کہتی ہیں۔ ایک چٹخا کئی نسلوں تک کارآمد رہتا ہے، کم از کم سو سال تک تو کام میں آتا ہی ہے۔

خواتین نے روایتی طور پر تُھلما (ایک الگ طرح کا کمبل)، پٹّو (موٹا اونی قالین)، پنکھی (اونی چادر)، دنّ (قالین) اور آسن (عبادت کرنے کے لیے چٹائی) بھی بنائی ہے۔ چٹائیوں اور قالینوں پر خوبصورت اور دیدہ زیب نقشے بنائے گئے ہیں جو تبتی نقشوں سے بہت حد تک مشابہت رکھتے ہیں – روشن ہندسی نمونوں، مقدس علامتوں اور پھولوں کا استعمال کرکے اس کی اہمیت کو مزید دوبالا کردیا گیا ہے۔

لیکن اب کرگھے کو کبھی کبھار ہی قالین اور چٹائیاں بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آسن کا ایک جوڑا - لمبا، تنگ اور پیچیدہ – ۲۰ ہزار روپے میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ بڑے قالین کی قیمت زیادہ ہو سکتی ہے۔ لیکن خریدار کم ہیں۔ ہند - چین سرحدی تجارت اور پنجاب سمیت میدانی علاقوں سے کم لاگت والے مصنوعی کمبل، قالین اور ریپر نے کماؤنی گھروں میں ان روایتی اونی مصنوعات کی جگہ لے لی ہے۔ خواتین اب صرف اپنے خاندانوں کے لیے یا بھوٹیا برادری میں پوجا اور تہواروں کے لیے ہی چٹخے بناتی ہیں۔

Carpet on floor
PHOTO • Arpita Chakrabarty
Woman showing a thick banket (chutka) inside her home.
PHOTO • Arpita Chakrabarty

بائیں: بھوٹیا خواتین کے ہاتھوں سے بُنی ہوئی اس طرح کی قالینوں کو بنانے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ دائیں: پھولمتی ہنر اپنا بُنا ہوا چٹخا دکھا رہی ہیں

’’ہمیں سڑکوں پر نکلنا اور پتھر توڑنا پسند نہیں ہے، لیکن ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ پیسہ کیسے کمایا جائے،‘‘ شانتی دیوی کہتی ہیں۔ بتولی دیوی جہاں کام کر رہی ہیں وہاں سے تھوڑی ہی دور پر وہ بھی پتھر توڑ رہی ہیں، ان کی توجہ اپنے کام پر مرکوز ہے، شکنجہ اور ہتھوڑا بھی اپنے پاس رکھے ہوئی ہیں۔ قریب میں ہی چند بوریاں ایک دوسرے کے ساتھ رکھی ہوئی ہیں، جن میں دو آدمی مزید پتھر بھر رہے ہیں۔

توڑے گئے ہوئے پتھروں کے یہ ڈھیر ضلع پتھورا گڑھ کے دھارچولا اور منسیاری بلاکوں میں ہر جگہ موجود ہیں۔ عورتیں اور لڑکیاں بھی ان کو توڑ رہی ہیں، اس وسیع و عریض اور کھلے نظارے کے درمیان، جہاں پہاڑ آسمان کو چھونے میں کوشاں ہے۔ یہ طبعی جگہ بہت وسیع ہے، لیکن یہاں رہنے والے لوگوں کی مہارتیں اور ذریعہ معاش اب شدید طور پر خطرات سے دوچار ہیں۔

مترجم: سبطین کوثر

Arpita Chakrabarty

Arpita Chakrabarty is a Kumaon-based freelance journalist and a 2017 PARI fellow.

Other stories by Arpita Chakrabarty
Editor : Sharmila Joshi

ਸ਼ਰਮਿਲਾ ਜੋਸ਼ੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਸਾਬਕਾ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਅਤੇ ਕਦੇ ਕਦਾਈਂ ਲੇਖਣੀ ਅਤੇ ਪੜ੍ਹਾਉਣ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser