میں جب فروری ۲۰۱۸ کے آخری ہفتے میں ایٹوکولا کوٹا گیا تھا، تو پوڈیم باپی راجو اور ان کا کنبہ ترپال کے خیمے میں مقیم تھا۔ ۱۰ اکتوبر ۲۰۱۷ کو آندھرا پردیش کے پولاورم منڈل کے اس گاؤں میں آئے سیلاب میں مٹی اور اینٹوں سے تعمیر شدہ ان کے چار کمروں کا مکان جزوی طور پر گر گیا تھا۔

۴۵ سالہ کویا آدیواسی کسان باپی راجو کہتے ہیں، ’’ہم نے مجموعی طور پر ۱۰ ہزار روپے سے زیادہ مالیت کے برتن، مرغیاں، بکریاں [اور دیگر اشیاء] کھو دیں۔ ایٹوکولاکوٹا بنیادی طور پر ایک قبائلی گاؤں ہے، جہاں تقریباً ۱۸۰ کویا کنبے آباد ہیں۔ پوڈو (جنگل) کی دو ایکڑ اراضی کو باپی راجو کاشت کرتے ہیں اور ۱۰ ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے زمین کے تین مزید قطعے لیز پر لے رکھے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں ان پانچ ایکڑ زمین پر کالے چنے اگاتا ہوں۔ سیلاب میں فصل تباہ ہو گئی اور میں نے جولائی [۲۰۱۷] میں جو ۷۰ ہزار روپے کا سرمایہ اس میں لگایا تھا وہ پانی کی نذر ہوگیا۔‘‘

خیمے کی ترپال کی قیمت ۲۵۰۰ روپے تھی، جسے باپی راجو نے قریب کے کھیتوں میں کام کرکے کچھ رقم بچانے کے بعد، تقریباً چھ کلومیٹر دور پولاورم قصبے سے خریدا تھا۔ خیمہ نصب ہونے سے پہلے انہوں نے اور ان کے اہل خانہ نے ایک ماہ سے زیادہ وقت اپنے تباہ شدہ مکان کے پاس کھانا پکا کر کھلے آسمان کے نیچے رات گزاری تھی۔ موسم سرما میں کھلے آسمان کے نیچے راتیں سرد تھیں۔ ان کے پڑوسیوں، جن کے کنکریٹ کے مکانات تھے اور جنہیں سیلاب میں نقصان نہیں پہنچا تھا، نے انہیں کھانا اور کمبل فراہم کیا۔

جب میں نے اپریل کے وسط میں دوبارہ ایٹوکولا کوٹا کا دورہ کیا تھا تو یہ کنبہ (جس میں باپی راجو، ان کی بیوی، ۲۲ سالہ بیٹا موتیالا راؤ، بہو اور ۱۹ سالہ بیٹی پرسنا انجلی شامل تھے) ابھی تک خیمے میں ہی مقیم تھا۔ کھانا پکانے کے لیے ایک عارضی باورچی خانہ اور نہانے کے لیے ایک کھلی جگہ تھی۔ دسمبر میں مقامی ٹریڈ یونین کے کارکنوں نے خیمے سے متصل ایسبیسٹوس کی چھتوں والے شیڈ بنا دیے تھے۔ اس کے بعد یہ کنبہ دونوں کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔

گاؤں والوں اور میری گنتی کے مطابق اسی طرح کے ۱۶ دیگر کویا کنبے تھے جنہوں نے سیلاب میں اپنے گھر کھو دیے تھے۔

Bapiraju stands in front of his demolished house
PHOTO • Rahul Maganti
The remaining rooms of the house are covered with tarpaulin sheets. There is a bed and some vessels piled up in this room
PHOTO • Rahul Maganti

پوڈیم باپی راجو اپنے گھر کے سامنے، جسے سیلاب سے نقصان پہنچا ہے۔ دائیں: ٹوٹے ہوئے گھر کے کچھ حصے اب ترپال سے ڈھانپ دیے گئے ہیں

۲ اکتوبر سے ۱۲ اکتوبر کے درمیان ۱۰ دنوں کے عرصے میں گاؤں میں تین بار پانی داخل ہوا تھا۔ پہلا اور تیسرا سیلاب معمولی تھا، لیکن ۱۰ اکتوبر کو ایٹوکولاکوٹا میں آنے والے پانی نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ پانی کی دھارا تقریباً تین فٹ اونچی تھی، لیکن راحت کی بات یہ رہی کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، کیونکہ لوگ گاؤں میں کنکریٹ کے گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے تھے۔

۱۷۴ کلومیٹر لمبی اندرا ساگر (پولاورم) دائیں نہر، جو مغربی گوداوری اور کرشنا اضلاع سے گزرتی ہے، ۲۰۱۶-۲۰۱۵ میں مکمل ہوئی تھی۔ ایٹوکولاٹوٹا گاؤں پاپی کونڈالو پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے۔ یہ گاؤں نہر کا نقطہ آغاز ہے، جو گوداوری ندی کے طاس سے کرشنا ندی کے طاس تک پانی لے جاتی ہے۔ پہاڑی کی چوٹی پر واقع میٹھاپّاکوٹا اور سنتلاگنڈی (چیگونڈاپلّی گاؤں کی بستیاں) سے دو دھارائیں نکلتی ہیں اور نیچے کی طرف ایٹوکالا کوٹا پہنچنے سے کچھ پہلے ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں۔ اس کے بعد یہ بڑی دھارا ایٹوکولاکوٹا میں پولاورم دائیں نہر میں شامل ہو جاتی ہے۔

یہ دھارائیں چھ پائپوں کے ذریعہ ملتی ہیں۔ یہ پائپیں پانی کی دھارا کو نہر میں آزادانہ طور پر خارج ہونے دیتی ہیں۔ ۲۰۱۶ کے مانسون میں ان پائپوں میں کچرا نہیں بھرا تھا اس لیے سیلاب نہیں آیا تھا۔

لیکن صورتحال تیزی سے تبدیل ہو گئی۔ ’’سیلاب کی بنیادی وجہ پلاسٹک کے کچرے سے چار پائپوں کا مکمل طور پر اور باقی دو کا جزوی طور پر بند ہونا تھا،‘‘ ایٹوکولا کوٹا کے ایک کسان، ۵۸ سالہ شیوا رام کرشنا، جن کا گھر سیلاب سے متاثر نہیں ہوا تھا، کہتے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کا زیادہ تر کچرا ایٹوکولاکوٹا کے اوپر والے گاؤں سے آتا ہے۔

The Polavaram Right Canal
PHOTO • Rahul Maganti
The water level can be seen on the white wall
PHOTO • Rahul Maganti

ایٹوکولاکوٹا دریائے گوداوری سے نکلنے والے پولاورم دائیں نہر کا نقطہ آغاز ہے۔ دائیں: گاؤں کی اس دیوار پر سیلاب کے پانی کی سطح دیکھی جا سکتی ہے

’’اگر محکمہ آبپاشی اور پولاورم پروجیکٹ کے لوگوں [محکمہ آبی وسائل] کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا اور وہ اس مہینے کے شروع میں آنے والے چھوٹے سیلاب کے بعد پائپوں کو صاف کر دیتے، تو اس سیلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اتنے بڑے مادی نقصان سے بچا جا سکتا تھا،‘‘ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسوادی) کے کارکن اور گاؤں کے واحد غیرکویا کنبے سے تعلق رکھنے والے رام کرشنا کہتے ہیں۔

ایک ۳۸ سالہ بیوہ مَدَکم لکشمی نے بھی سیلاب میں اپنا گھر کھو دیا ہے۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں انہوں نے پولاورم شہر سے ۲۰۰۰ روپے میں ترپال کی چادریں خریدی تھیں۔ ’’میں نے ملحقہ عمارت کی چھت پر اپنا خیمہ نصب کیا۔ میرے پڑوسی کافی دریا دل ہیں، لیکن میں وہاں ہمیشہ نہیں رہ سکتی ہوں،‘‘ فروری میں ہماری ملاقات کے دوران لکشمی نے کہا تھا۔ جنگل کی زمین پر لکشمی کا ایک ایکڑ کا قطعہ ہے جو ان کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس زمین پر لگی ان کی مکئی کی فصل سیلاب میں مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔

’’میں نے ’روزگار مزدوری‘ [منریگا] کا کام بھی چھوڑ دیا ہے، کیونکہ وہ کام مکمل کرنے کے بعد ادائیگی نہیں کر رہے ہیں۔ ان پر میرے ۷۰۰۰ روپے واجب الادا ہیں۔ ہم نے منڈل ڈیولپمنٹ آفس [پولاورم قصبے] کے قریب متعدد بار احتجاج کیا، لیکن کسی نے پرواہ نہیں کی،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ لکشمی اپنے پیسوں سے اپنے گھر کی دوبارہ تعمیر کرنے کی امید کر رہی ہیں، اور انہوں نے آہستہ آہستہ جنگل کی اپنی زمین پر دوبارہ کھیتی شروع کر دی ہے۔

سیلاب میں ۱۷ مکانات کے منہدم ہونے کے علاوہ ۲۰ سے زائد کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔ ’’گاؤں کا آیا کٹ [کل کاشت کا رقبہ] ۳۰۰ ایکڑ ہے، جس میں سے ۱۵۰ ایکڑ سے زیادہ کی کھڑی فصلیں ضائع ہو گئی ہیں،‘‘ لیز پر لی گئی زمین پر سبز اور کالے چنے اگانے والے ۵۰ سالہ کرایہ دار کسان، تما بالاراجو تخمینہ لگاتے ہیں۔ ’’پانچ مہینے بعد ہمیں حکومت سے معاوضہ کا ایک روپیہ نہیں ملا ہے،‘‘ پوڈیام بلاراجو کہتے ہیں۔

Tama Balaraju in front of his field which got whitewashed in October floods. He again started cultivating maize after the floods receded (top left). 
Balaraju is living in this hut right now which he constructed after spending more than 45 days of cold winter nights right under the sky (top right). Mutyala Rao and his sister Prasanna Anjali stand on the top of the ruins of their house which got collapsed during the floods (bottom left). 
Madakam Lakshmi in front of her demolished house. She is trying to build a new one but couldn’t manage to set aside money for the same. So, she is living on the top of the terrace of the adjacent building (bottom right)
PHOTO • Rahul Maganti

سیلاب کا پانی کم ہونے کے بعد تما بالاراجو نے آہستہ آہستہ دوبارہ مکئی کی کاشت شروع کردی ہے (اوپر بائیں)، اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ دوبارہ تعمیر شدہ اس جھونپڑی (اوپر دائیں) میں قیام پذیر ہیں۔ نیچے بائیں: پوڈیم باپی راجو کے بچے اپنے گھر کے کھنڈرات کے سامنے۔ نیچے دائیں: مدکم لکشمی اس پلاٹ پر جہاں ان کا گھر کھڑا تھا، جسے وہ دوبارہ تعمیر کرنے کی استطاعت نہیں رکھتیں

گھریلو سامان کے علاوہ، بالاراجو نے ۵۰ ہزار روپے کی ایک بھینس اور ۱۰ مرغیاں کھو دیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجموعی طور پر تقریباً ۲۵ بکریاں، ۱۵۰ مرغیاں، برتن، کپڑے اور دیگر اشیاء جو گاؤں سے سیلابی پانی میں غائب ہو گئی تھیں، پانی کم ہونے پر پائپوں کے پاس [تیرتے ہوئے، تقریباً ۳۰۰ میٹر دور] پائی گئیں،‘‘ بالاراجو کہتے ہیں۔

نقصانات کی مار سے ابھی تک جوجھ رہے گاؤں والوں کی پریشانی میں ریاستی انتظامیہ کی بے حسی نے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ بالاراجو کہتے ہیں، ’’اپنی بے عملی [پائپوں میں رکاوٹ] کی وجہ سے پیدا شدہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے ابھی تک حکومت نے جو کیا ہے وہ ہے ہمیں ایک دن کے لیے کھانا مہیا کرانا۔‘‘ جب قبائلیوں نے ریونیو ڈویژنل آفیسر (آر ڈی او) اور منڈل ریونیو آفس (ایم آر او) سے مطالبہ کیا کہ ان کے مکانات کی تعمیر نو میں مدد کے لیے ہر کنبے کو کم از کم ۱۰ ہزار روپے کا معاوضہ دیا جائے، تو عہدیداروں نے ایک غیرمعروف قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معاوضہ کی اہلیت حاصل کرنے کے لیے سیلابی پانی کا علاقے میں کم از کم تین دن تک رکنا لازمی ہے۔

جب میں نے (اس وقت کے) ایم آر او سے کہا کہ وہ مجھے اس قانون سے روشناس کرائیں، تو انہوں نے جواب دیا، ’’حکومت نے ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ، ۲۰۰۵ کے لیے ریاستی قوانین جاری کیے تھے۔‘‘ جب میں نے ان سے آرڈر نمبر اور نفاذ کے سال کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’میرے پاس ابھی چیک کرنے اور بتانے کا وقت نہیں ہے۔‘‘ جب میں نے نئے ایم آر او سریش کمار سے بات کی تو انہوں نے کہا، ’’پچھلے ایم آر او نے تمام مسائل کو حل کر دیا ہے، اور اس مسئلے کے متعلق دفتر میں کوئی فائل زیر التوا نہیں ہے۔‘‘

جب ۱۱ اکتوبر کو ایم آر او نے یہاں کا دورہ کیا تو ۱۸۰ کویا کنبوں کے ارکین نے ان کا گھیراؤ کیا۔ اس احتجاج نے اس شام حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ہر کنبے کو ۱۰ کلو چاول مہیا کرائے۔ ’’ہم اتنی بڑی مصیبت میں تھے اور ہمارے آنسو پونچھنے کے لیے وہ ہمیں ۱۰ کلو چاول دے رہے تھے؟‘‘ باپی راجو کہتے ہیں۔  ان کے بیٹے متیالہ کی شادی حال ہی میں ہوئی ہے اور ان کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے۔ ’’یہ حقیقت افسران کے لیے میرے بیٹے کو ۱۰ کلو چاول دینے سے انکار کے لیے کافی تھی،‘‘ باپی راجو مزید کہتے ہیں۔

The debris/ruins of Bapiraju’s house
PHOTO • Rahul Maganti
Temporary sheds given by Visakhapatnam Steel Plant Employees Union
PHOTO • Rahul Maganti

باپی راجو کے گھر کا ملبہ (بائیں)؛ بہت سے کنبے خیموں یا شیڈوں میں منتقل ہو گئے ہیں، جیسے کہ یہ (دائیں) جسے وشاکھاپٹنم اسٹیل پلانٹ ایمپلائیز یونین نے عطیہ کیا ہے

پولاورم حلقہ سے تیلگو دیشم پارٹی کے ایم ایل اے (ممبر قانون ساز اسمبلی) مُدیم سرینواس، جو خود کویا برادری سے تعلق رکھتے ہیں، نے ۲۵ اکتوبر کو گاؤں کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے گاؤں والوں سے وعدے کیے اور ۱۵ سے ۲۰ منٹ بعد وہاں سے چلے گئے۔ ’’ہم افسران سے بہت مایوس تھے...‘‘ بالاراجو کہتے ہیں۔

حالانکہ حکومت مسئلے سے الگ تھلگ رہی، لیکن کچھ تنظیموں اور افراد نے آگے بڑھ کر متاثرین کی مدد کی۔ سنٹر فار انڈین ٹریڈ یونین سے وابستہ وشاکھاپٹنم اسٹیل پلانٹ ایمپلائز یونین نے ۱۷ کنبوں، جن کے گھرمکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے، کو ۳ لاکھ روپے مالیت کے ایسبیسٹوس شیڈ کا عطیہ دیا۔

باپی راجو کہتے ہیں، ’’فصل تباہ ہو جانے کے بعد دوبارہ کھیتی کے لیے مجھے نجی ساہوکاروں سے قرضہ لینا پڑا۔ بہت سے دوسرے آدیواسی کسانوں کی طرح ان کے پاس قرض کی اہلیت کا کارڈ (ایل ای سی) یا جنگلاتی زمین کا پٹہ نہیں ہے، جس سے ان کو ادارہ جاتی قرضوں تک رسائی مل سکتی تھی۔ ۲۰۰۶ کا جنگلاتی حقوق کا قانون جنگل کی زمین پر کھیتی کے لیے آدیواسیوں کے حق کو تسلیم کرتا ہے، اور یہ حکم دیتا ہے کہ محکمہ جنگلات قبائلی کاشتکاروں کے لیے زمین کے پٹے مہیا کرائے۔ اور آندھرا پردیش لینڈ لائسنس یافتہ کاشتکار ایکٹ، ۲۰۱۱ کہتا ہے کہ محکمہ محصولات کو تمام کرایہ دار کسانوں کو ایل ای سی دینا لازمی ہے تاکہ وہ ادارہ جاتی قرض حاصل کرسکیں۔ دونوں کی غیرموجودگی میں پچھلے کئی سالوں کے دوران  ۳۶ فیصد کی کمر توڑ سود کی شرح پر باپی راجو کا قرضہ ۲ لاکھ روپے ہو گیا ہے۔

انہوں نے دسمبر میں جو کالے چنے کی فصل اگائی تھی اور مارچ ۲۰۱۸ میں اس کی کٹائی کے بعد اس میں سے جو تھوڑی بہت بچت کی تھی، اس رقم سے وہ اپنے گھر کی دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہیں قرض کی ادائیگی کے لیے ایک یا دو سال انتظار کرنا پڑے گا۔ اس وقت تک وہ مزید قرض میں ڈوب سکتے ہیں۔  اور اگلے مانسون کے بعد گاؤں میں دوبارہ سیلاب آسکتا ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

ਸ਼ਰਮਿਲਾ ਜੋਸ਼ੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਸਾਬਕਾ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਅਤੇ ਕਦੇ ਕਦਾਈਂ ਲੇਖਣੀ ਅਤੇ ਪੜ੍ਹਾਉਣ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam