جن دنوں میں جیہ لکشمّا کو کام مل جاتا ہے، ۱۲ گھنٹے تک مزدوری کرنے کے بعد انہیں اجرت کے طور پر چاول دیے جاتے ہیں۔ اس چاول کی مقدار جیل میں کسی مجرم کو دیے جانے والے چاول کی متعینہ مقدار سے ایک چوتھائی ہوتی ہے۔ انہیں پورے دن کے لیے اوسطاً جتنا چاول ملتا ہے، وہ کسی قیدی کو ایک وقت کے کھانے میں ملنے والے چاول سے بھی کافی کم ہوتا ہے۔

جیہ لکشمّا جیل میں بند کوئی مجرم نہیں ہیں۔ وہ ایک معمولی کسان ہیں، جن کے شوہر ایچ ایم کرشنا (۴۵ سالہ) نے چار سال قبل مانڈیا ضلع کے ہلوگن ہلّی گاؤں میں خود کشی کر لی تھی۔ کرناٹک میں سال ۲۰۰۳ میں کسانوں کی خودکشی کے معاملے میں یہ ضلع سب سے آگے تھا۔ اس ریاست میں، اپنے بی پی ایل (خطِ افلاس سے نیچے) کارڈ سے انہیں ایک مہینہ میں صرف چار کلو چاول (اور ایک کلو گیہوں) مل سکتا ہے۔ یہ چار کلو چاول ریاست کے ذریعے انہیں رعایتی قیمت (سبسڈی) پر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر انہیں اس سے زیادہ خریدنا ہو، تو وہ بازار سے مہنگی قیمت پر چاول نہیں خرید سکتیں۔ وہ اُن ایک لاکھ عورتوں میں بھی شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ ۱۴ برسوں کے دوران زرعی بحران کے سبب کسانوں کے ذریعے کی جانے والی خودکشی میں اپنے شوہروں کو کھو دیا ہے۔

ٹی یشونت کہتے ہیں، ’’ایک مہینہ میں چار کلو کا مطلب ہوا، روزانہ کا ۱۳۵ گرام۔‘‘ یشونت اس ضلع کی ایک کسان فیملی سے ہیں اور اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) کے ریاستی نائب صدر بھی ہیں۔ ’’ایک زیر سماعت ملزم یا سزا یافتہ مجرم کو بھی اس سے زیادہ کھانا ملتا ہے۔‘‘ یہی نہیں، انہیں پکا ہوا کھانا ملتا ہے۔ جب کہ اِنہیں صرف چار کلو اناج مل رہا ہے۔ ریاست کی جیلوں میں الگ الگ قسم کا کھانا ملتا ہے، جو اس بات پر منحصر ہے کہ قیدی کو کھانے میں ’چاول‘ چاہیے، ’راگی‘ چاہیے یا پھر ’چپاتی‘ چاہیے۔ بنگلورو جیل کے اہلکاروں نے ’دی ہندو‘ اخبار کو بتایا، ’’چاول کھانے والے جو قیدی ہیں اور جنہیں جیل میں سخت محنت کرنی پڑتی ہے، انہیں ہر وقت کے کھانے میں ۷۱۰ گرام پکا ہوا چاول ملتا ہے۔ جن کی پہلی پسند چاول نہیں ہے انہیں ۲۹۰ گرام چاول ملتا ہے۔ زیر سماعت ملزم یا جنہیں معمولی سزا (جو چاول کھاتے ہیں) ملی ہوئی ہے انہیں ہر بار کے کھانے میں ۵۰۵ گرام چاول ملتا ہے۔‘‘

قید با مشقت کی سزا پانے والے قیدی آٹھ گھنٹے تک کڑی محنت کرتے ہیں۔ دوسری طرف، جیہ لکشمّا ۱۲ گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کڑی محنت کرتی ہیں۔ یشونت بتاتے ہیں، ’’لیکن اگر وہ دن میں تین بار کھانا کھاتی ہیں، تو ایک وقت میں وہ صرف ۴۵ گرام چاول کھا پاتی ہیں،‘‘ حالانکہ، جیہ لکشما کے پاس موازنہ کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ان کی بیٹی اب بنگلورو کی ایک کپڑا کمپنی میں بیحد معمولی تنخواہ پر کام کرتی ہیں۔ جیہ لکشمّا نے مجھے اپنے گاؤں میں بتایا، ’’وہ ایک سال میں زیادہ سے زیادہ ۵۰۰ روپے بھیج سکتی ہے۔‘‘ بیٹی کے باہر رہنے کی وجہ سے گھر پر اپنے بیٹے کے ساتھ بس وہی رہ جاتی ہیں۔ بی پی ایل کارڈ سے مشترکہ طور پر انہیں ایک دن میں صرف ۲۷۰ گرام اناج ملتا ہے۔ یعنی: دونوں کو ملا کر ’راگی‘ کھانے والے قیدی سے بھی کم چاول ملتا ہے، جب کہ راگی کھانے والے قیدی کو ۲۹۰ گرام یا اس سے زیادہ چاول ملتا ہے۔

PHOTO • P. Sainath

ان کے پاس صرف اعشاریہ چار ایکڑ زمین ہے اور انہوں نے کرشنا کی خودکشی سے پہلے دو ایکڑ زمین لیز (پٹّہ) پر لے رکھی تھی۔ ’’پہلے والے کھیت میں ہم سبزیاں اُگاتے تھے۔ بعد والے میں ہم ریشم کی پیداوار کرتے تھے۔ سبزیوں کی قیمت بہت کم رہی ہے۔ ایک بار ہمیں ایک کلو ٹماٹر کا ایک روپیہ ملا۔ اور سینچائی میں استعمال ہوئے پانی کی قیمت چھ مہینوں کی مدت میں ۹ ہزار روپے (یا ۷۰ روپے فی گھنٹہ) پڑی۔‘‘ اب ان کے پاس صرف صفر اعشاریہ چار ایکڑ زمین ہے۔ ’’ان کی موت کے بعد ہم نے اپنے تمام مویشیوں کو بھی بیچ دیا۔‘‘ وہ ان کے ذریعہ لیے گئے قرض کو چکاتی رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ معاوضہ میں انہیں جو کچھ ملا اسے انہوں نے قرض چکانے میں ہی لگا دیا ہے۔ ’’میرا بیٹا نندیپا دوسروں کی بکریاں چراتا ہے، لیکن اس سے کوئی یومیہ آمدنی نہیں ہوتی ہے۔‘‘ لیکن، اگر ان بکریوں سے کوئی بچہ ہوا، تو اس میں سے انہیں ایک دو بچہ مل جاتا ہے۔ ’’میں خود کھیتی کا سیزن نہ ہونے کے سبب ادھر ادھر کام کرکے ایک دن میں ۳۵ روپے کما پاتی ہوں۔‘‘

’’میں نندیپا کو پڑھانا چاہتی تھی۔ لیکن وہ اس کے لیے تیار نہیں تھا۔ تین سال پہلے، جب اس کی عمر ۱۲ سال تھی، وہ بنگلورو بھاگ گیا اور ایک ہوٹل میں کام کرنے لگا۔ وہاں ہوٹل کا مالک اس کی پٹائی کرتا تھا۔ اس لیے، وہ وہاں سے بھاگ نکلا، لیکن غلط ٹرین پکڑنے کی وجہ سے ممبئی پہنچ گیا۔ کچھ دنوں بعد اسے وہاں سے واپس گھر لایا گیا۔‘‘

کرناٹک راجیہ رعیتو سنگھ (پُتّنیّا گروپ) کی خواتین شاخ کی صدر سُنندا جے رام کہتی ہیں، ’’تمام بیوہ عورتوں کی اپنی مشکلیں ہیں۔ لیکن جنہیں زرعی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ کچھ زیادہ ہی پریشان ہیں۔ اپنے شوہر کو کھونے کے بعد بھی انہیں اپنے ساس سسر کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے، اپنے بچوں اور کھیت کی بھی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے، جب کہ ان کے پاس خود کے لیے بھی کوئی اقتصادی تحفظ نہیں ہے۔ اور وہ اپنے شوہر کے ذریعے لیے گئے قرض کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔ ان کے شوہر نے تو اپنی جان لے لی۔ انہیں زندگی بھر قیمت چکانی ہوگی۔‘‘

بِدرہوسلّی گاؤں میں چِکّت یمّا کی حالت اس بات کی مثال ہے۔ ان کے شوہر ہنومیگوڑا (۳۸ سالہ) نے سال ۲۰۰۳ میں خود کشی کر لی تھی۔  بغیر کسی پشیمانی کے وہ کہتی ہیں، ’’ہمارے حصے صرف قرض ہی رہ گیا۔ ہم جو کچھ کماتے ہیں اس سے ہم ساہوکار (مہاجن) کے قرض کا سود بھی ادا نہیں کر سکتے۔‘‘ انہیں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ انہیں اسکول چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑے، جب کہ وہ سبھی پڑھائی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ’’لڑکیوں کو بھی پڑھائی کرنی چاہیے۔ لیکن بعد میں ہمیں ان کی شادی کے لیے بھی کافی پیسہ جمع کرنا ہوگا۔‘‘

ان کی ایک لڑکی شروتی نے ایس ایس ایل سی کا امتحان دیا ہے، اور دوسری لڑکی بھارتی ۱۲ویں جماعت میں پڑھ رہی ہے۔ ان کا بیٹا ہنومیش آٹھویں کلاس میں ہے۔ ان کی ساس اور دو دیگر رشتہ دار بھی اسی گھر میں رہتے ہیں۔ کم از کم پانچ لوگوں کے خرچ کی ذمہ داری چکّت یمّا پر ہی ہے۔ ’’ہمارے پاس صرف ڈیڑھ ایکڑ زمین ہے (جس کے کچھ حصے پر وہ آم کی باغبانی کرتی ہیں)۔ اس لیے جب ممکن ہو پاتا ہے، میں مزدوری بھی کرتی ہوں، جس کے عوض مجھے ایک دن کے ۳۰ روپے مل جاتے ہیں۔ میرے پاس بی پی ایل کارڈ تھا، لیکن انہوں نے (حکام نے) یہ کہتے ہوئے کارڈ لے لیا کہ ’تمہیں ایک نیا کارڈ دیں گے‘۔‘‘ جناب یشونت کہتے ہیں کہ پھر وہ کاروڈ واپس نہیں ملا۔ ’’اس کی جگہ پر انہوں نے ایک اے پی ایل (خط افلاس سے اوپر) کارڈ دے دیا۔‘‘

PHOTO • P. Sainath

قرض کا بھاری بوجھ

ہولیگیرے پورہ میں چینمّا اور ان کی فیملی پر ۲ لاکھ روپے کا قرض ہے، جو چار سال پہلے خود کشی کر لینے والے ان کے ۶۰ سالہ شوہر کاڈے گوڑا نے لیا تھا۔ ان کا بیٹا سدّھی راج بتاتا ہے، ’’گنّے کی فصل برباد ہو گئی اور اس نے ان کی جان لے لی۔‘‘ چینمّا کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس صرف تین ایکڑ زمین ہے۔ اس کے سہارے اب گزارہ کرنا تک مشکل ہے۔‘‘ لیکن وہ ان کے بیٹے اب بھی کوشش کر رہے ہیں۔ فیملی اس سال دھان کی کھیتی کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔

تھورے شیتّ ہلّی میں، کئی دہائیوں سے کھیتی کر رہے یشونت کے والد تھمّنّا کہتے ہیں کہ زرعی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ ’’گنّے کے زیادہ تر کسان اپنی لاگت بھی نہیں نکال پا رہے ہیں۔ اس کی کھیتی میں لگنے والا خرچ بڑھتا جا رہا ہے، جب کہ آمدنی گھٹ رہی ہے۔ اس کے علاوہ، پچھلے مہینے اسی گاؤں میں ۴۰ بورویل (کنویں) کھودے گئے، لیکن ایک ہی سے پانی نکل پایا۔ لوگ مایوس ہو رہے ہیں۔ کھیتی کے سیزن میں  بھی آپ کو استعمال کے بغیر بیکار پڑے نظر آ جائیں گے۔‘‘

سیلف ہیلپ گروپ کا کیا حال ہے؟ جیہ لکشمّا نے ابتدائی رقم جمع کر دی ہے۔ ’’لیکن گروپ ابھی تک شروع نہیں ہوا ہے۔ اور میں ہر ہفتے ۲۵ روپے نہیں دے سکتی۔ نہ ہی ہر سال ۲۴ فیصد سود ادا کر سکتی ہوں۔‘‘ چکّت یمّا مسلسل اسی طرح رقم ادا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں۔ کے آر آر ایس لیڈر کے ایس پُتّنیّا کہتے ہیں، ’’ایس ایچ جی (سیلف ہیلپ گروپ) کا خیال تو اچھا ہے۔ لیکن کچھ معاملوں میں، وہ ساہوکار بھی بن گئے ہیں۔ دریں اثنا، ابتدائی معاوضے کے بعد، ریاست کے پاس خودکشی کرنے والے کسانوں کی بیواؤں اور یتیم بچوں کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ کیا انہوں نے اس کے بارے میں کبھی سوچا بھی ہے؟‘‘

جے رام کہتی ہیں، ’’یاد رکھیں، یہ اور کھیتوں پر کام کرنے والی تمام دیگر عورتیں گھر سنبھالتی ہیں اور مزدوری کرتی رہی ہیں۔ اس کے باوجود، ان کے پاس زمین کا مالکانہ حق نہیں ہے اور نہ ہی زمین کا تحفظ۔ زرعی مزدوری کرتے ہوئے انہیں مردوں سے بھی کم اجرت ملتی ہے۔ شوہروں کی خودکشی کے سبب بیوہ ہوئی عورتیں لگاتار تناؤ میں رہتی ہیں۔ ان کے سر پر قرض کا بوجھ لدا ہوا ہے، جسے انہوں نے اپنے لیے نہیں لیا تھا۔ گھر میں بیٹیاں ہیں، جن کی شادی ہونی باقی ہے۔ لامتناہی دباؤ بنا ہوا ہے۔‘‘ سچائی یہی ہے۔ لیکن، یہ تینوں عورتیں اور ان کے جیسی دیگر بہت سی عورتیں مانڈیا میں پوری مضبوطی سے مشکلوں کا مقابلہ کر رہی ہیں اور ابھی بھی اپنی کھیتی کر رہی ہیں اور پورے عز و وقار کے ساتھ اپنی فیملی کا پیٹ پال رہی ہیں۔

یہ مضمون سب سے پہلے دی ہندو میں ۲۹ مئی، ۲۰۰۷ کو شائع ہوا تھا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique