مغربی بنگال میں اپنے گاؤں تیمار پور کے سرکاری پرائمری اسکول میں رتنا بسواس کو ہر مہینے ۱۵ دن کا ہی کام ملتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے ۲۰ کمرے اور چار باتھ روم صاف کرنے پڑتے ہیں یعنی ہر روز ۶ گھنٹے صفائی کا کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘ رتنا کو یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ اس اسکول کی ملازمہ ہیں یا ایک ’غیر رسمی‘ کارکن۔ وہاں سے انہیں ۲۵۰۰ روپے کی تنخواہ ملتی ہے۔ مہینے کے بقیہ ۱۵ دنوں کے لیے، وہاں ایک اور صفائی ملازم یہی کام کرتا ہے۔
مزید یہ کہ ۳۵ سالہ رتنا کو کبھی اس بات کا بھی یقین نہیں ہوتا ہے کہ انہیں اس ’جز وقتی‘ کام کے لیے تنخواہ ملے گی بھی یا نہیں۔ ’’اسکول نے مجھے ایک سال سے تنخواہ نہیں دی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’پنچایت کا کہنا ہے کہ انہیں فنڈز نہیں ملے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہمیں ادائیگی نہیں کرسکتے۔‘‘
اپنی نوعیت کے ایک الگ تاریخی کسان مکتی مورچہ میں حصہ لینے کے لیے نومبر ۲۰۱۸ میں رتنا، دیگر سرکاری اسکولوں کے کارکنوں کے ساتھ دہلی آئی تھیں – ان سبھی کا تعلق مغربی بنگال کے اُتّر دیناج پور ضلع کے کرن ڈیگہی بلاک کے مختلف گاؤوں سے تھا۔
اسی گروپ میں روشن گنج گاؤں سے تعلق رکھنے والی تقریباً ۴۰ سالہ سنتال آدیواسی خاتون، پھول مونی کسکو بھی شامل تھیں – یہ بھی اپنے گاؤں کے سرکاری پرائمری اسکول میں روزانہ ۱۰ کمرے اور تین باتھ رومز کی صفائی گزشتہ ۱۵ سالوں سے کر رہی ہیں۔ انہیں ۱۵ دنوں کے کام کے لیے یومیہ ۱۵۰ روپے ملتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’'ہمیں مستقل ملازمت کی پیشکش بھی کی جانی چاہیے، تاکہ ہمیں مستقبل میں پنشن کا فائدہ مل سکے۔‘‘
ان کے ساتھ لُطفہ بیگم بھی تھیں۔ مہینہ کے ۱۵ دن کی اجرت کے بجائے، انہیں سال کے صرف ۱۰ مہینوں کی تنخواہ ملتی ہے۔ لُطفہ (۳۰) بھبانی پور گاؤں کے ایس ایس کے پرائمری گورنمنٹ اسکول میں ۱۵ سال سے مڈ ڈے میل بنا رہی ہیں۔ ان کے فرائض میں اسکول میں پڑھ رہے ۲۰۰ بچوں کے لیے کھانا پکانا (دو دیگر مڈ ڈے میل ورکرز کے ساتھ)، ان بچوں کی دیگر ضروریات پوری کرنا اور برتن صاف کرنا شامل ہے۔ ان سب کاموں میں انہیں ہر روز چار گھنٹے سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔
’’وہ ہمیں گرمی کی چھٹیوں، اتوار اور درگا پوجا کی چھٹیوں کے لیے ادائیگی نہیں کرتے، حالانکہ اسکول کے اساتذہ کو [چھٹیوں کے ان ایام میں] تنخواہیں دی جاتی ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہماری تنخواہیں بڑھائی جائیں۔‘‘ انہوں نے یہ کام ۲۰۰۴ میں شروع کیا تھا، تب لطفہ کو محض ۳۰۰ روپے ہی ماہانہ ملتے تھے – یہ رقم اتنے برسوں بعد صرف ۱۵۰۰ روپے تک ہی بڑھ پائی ہے۔
جنوب مغربی دہلی کے بجواسن میں کسان مکتی مارچ کے رضاکاروں کی طرف سے لگائے گئے کیمپ میں جن سرکاری اسکولوں کے کارکنوں سے میری ملاقات ہوئی، انہوں نے اس اضافی کام کے بارے میں بتایا جو وہ تھوڑا زیادہ کمانے کے لیے کرتے ہیں۔ اسکول میں چھ گھنٹے کام کرنے کے بعد، رتنا تقریباً سات گھنٹے لوگوں کے گھروں کی صاف صفائی کا کام کرتی ہیں - گھریلو ملازمہ کے طور پر وہ صبح ۶ بجے سے کام شروع کرتی ہیں اور ماہانہ ۱۶۰۰ روپے کماتی ہیں۔ نیز وہ ایک تیسرا کام بھی کرتی ہیں: مہینے میں ۱۰ دن وہ اپنے گاؤں کے کسانوں کے ذریعہ کاشت کیے گئے چاولوں کو جھاڑ کر ان میں سے بھوسہ ہٹاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’اس کام کے عوض وہ مجھے تقریباً پانچ کلو چاول دیتے ہیں۔‘‘ پانچ سال پہلے، ان کے شوہر نے فیملی کو چھوڑ دیا تھا؛ رتنا کو نہیں معلوم کہ وہ اب کہاں ہیں؟ ان کی بیٹیاں- سرسوتی (۱۴) اور بھومیکا (۱۰) گاؤں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
بھبانی پور گاؤں سے ہی تعلق رکھنے والی ۳۲ سالہ سفینہ بیبی، جو کہ اسی اسکول میں پانچ سال سے خادمہ کے طور پر مہینے میں ۱۵ دن کام کرتی ہیں جہاں لطفہ کام کرتی ہیں، اضافی آمدنی کے لیے بیڑیاں بناتی ہیں۔ وہ قریبی گاؤں کی ایک فیکٹری میں کام کرتی ہیں، جہاں سے انہیں ۱۰۰۰ بیڑیاں بنانے کے عوض ۱۴۵ روپے ملتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’بیڑیاں بنا کر میں ہر مہینے ۶۰۰-۵۰۰ روپے کما لیتی ہوں۔‘‘ وہ تین بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں ہیں، جن کی عمریں ۱۲ سے ۴ سال کے درمیان ہیں، یہ سبھی بچے گاؤں میں پڑھ رہے ہیں۔
پھول مونی کے شوہر دھابو مردی کا چار سال قبل تپ دق کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔ وہ مایوسی سے کہتی ہیں، ’’میرے بیٹے کی موت آٹھ سال قبل اسہال کی وجہ سے ہو گئی تھی۔ زمین [ایک ایکڑ سے کم] میرے شوہر کے نام ہے اور میں نہیں جانتی کہ میں اسے اپنے نام کیسے منتقل کراؤں۔‘‘ چند مزدوروں کی مدد سے، پھول مونی اپنی زمین پر دھان کی تھوڑی بہت کھیتی کرنے کا انتظام کر لیتی ہیں۔
پشچم پپلا گاؤں سے تعلق رکھنے والی سوندھا منڈل (۴۲) اپنے شوہر اجیت کے ساتھ اپنے خاندان کی ایک ایکڑ زمین پر بیج بونے سے لے کر دھان اور سرسوں کی فصل کاٹنے تک کا زیادہ تر کام کرتی ہیں۔ سوندھا اپنے گاؤں کے سرکاری پرائمری اسکول میں مڈ ڈے میل کارکن بھی ہیں۔ وہ سوالیہ لہجے میں کہتی ہیں، ’’پچھلے چار مہینوں سے مجھے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ ہمارا گزارہ کیسے ہوگا؟‘‘ جب میں ان سے دن میں کئی گھنٹے کی سخت مشقت کی بابت پوچھتا ہوں، تو وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہمارے لیے [کام کے] چوبیس گھنٹے بھی کم ہیں۔‘‘
مترجم: سبطین کوثر