ایک ماہر حیاتیات ہے، ایک فوج کا جوان ہے، ایک گھریلو خاتون ہے تو ایک جغرافیہ گریجویٹ۔
موسم گرما کے ایک دن رانچی کی مصروف سڑکوں سے دور چار افراد کا یہ غیرمتوقع گروپ اکٹھا ہوا ہے۔ ان کا تعلق خصوصی طور پر کمزور قبائلی گروپوں (پی وی ٹی جی) سے ہے اور یہ سبھی جھارکھنڈ کے دارالحکومت میں ریاست کے قبائلی تحقیقی ادارے (ٹی آر آئی) کے ایک تالیفی ورکشاپ میں حصہ لے رہے ہیں۔
’’میری خواہش ہے کہ ہمارے بچے اپنی مادری زبان پڑھ سکیں،‘‘ مال پہاڑیہ برادری سے تعلق رکھنے والے اور ماونو زبان بولنے والے جگن ناتھ گِرہی کہتے ہیں۔ ۲۴ سالہ جگن ناتھ معدومیت کے خطرے سے دوچار اپنی مادری زبان ماونو کی قواعد تحریر کرنے رانچی کے ٹی آر آئی میں حاضر ہوئے ہیں۔ وہ دمکا ضلع میں واقع اپنے گاؤں سے ۲۰۰ کلومیٹر سے زیادہ دوری کا سفر طے کر کے یہاں آئے ہیں۔
ان کے چند دوسرے منصوبے بھی ہیں: ’’ہماری یہ بھی خواہش ہے کہ ہم ماونو زبان میں ایک کتاب شائع کریں۔‘‘ وہ اپنے گاؤں بلیاکھوڑہ کے واحد شخص ہیں جہنوں نے ہندی ذریعہ تعلیم کے ساتھ حیاتیات میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ’’زیادہ آبادی والی برادری کی زبان یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہے،‘‘ وہ نشاندہی کرتے ہیں، ’’یہاں تک کہ جھارکھنڈ اسٹاف سلیکشن کمیشن (جے ایس ایس سی) کا نصاب کھورٹھا اور سنتھالی جیسی آدیواسی زبانوں میں آسانی سے دستیاب ہے، لیکن ہماری زبان [ماونو] میں دستیاب نہیں ہے۔‘‘
’’اگر یہ [حاشیہ کاری] جاری رہی، تو میری زبان آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔‘‘ مل پہاڑیہ بولنے والوں میں سے تقریباً ۱۵ فیصد کا تعلق جھارکھنڈ سے ہے۔ باقی پڑوسی ریاستوں میں رہتے ہیں۔
ان کی زبان ماونو ایک ہند آریائی زبان ہے جس میں دراوڑی اثرات نمایاں ہیں۔ معدومیت کے خطرے سے دوچار اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد ۴۰۰۰ سے بھی کم ہے، اور اسے سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ لسانی جائزہ ہند (ایل ایس آئی) جھارکھنڈ کے مطابق اسکولوں میں ماونو کا استعمال ذریعہ تعلیم کے طور پر نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی علاحدہ رسم الخط ہے۔
مال پہاڑیہ برادری اپنی بقا کے لیے زراعت اور جنگلاتی پیداوار پر انحصار کرتی ہے۔ جھارکھنڈ میں انہیں پی وی ٹی جی کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر دمکا، گوڈا، صاحب گنج اور پاکور اضلاع میں مقیم ہیں۔ برادری کے لوگ صرف گھر میں ہی ماونو بولتے ہیں۔ چونکہ تمام سرکاری مواصلات ہندی اور بنگالی جیسی غالب زبانوں میں ہوتے ہیں، اس لیے انہیں ڈر ہے کہ ان کی زبان ختم ہو سکتی ہے۔
ماونو زبان بولنے والے منوج کمار دِہری بھی جگن ناتھ سے متفق ہیں۔ پاکوڑ ضلع کے سہرپور گاؤں سے تعلق رکھنے والے ۲۳ سالہ منوج کمار ایک جغرافیہ گریجویٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ریاست کی جانب سے ہندی اور بنگلہ کو بطور ذریعہ تعلیم ترجیح دینے سے ماونو کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘ جھارکھنڈ کے زیادہ تر اسکولوں اور کالجوں میں ذریعہ تعلیم ہندی ہے اور اساتذہ بھی ہندی بولنے والے ہیں۔
یہاں غالب زبانوں کے علاوہ، ’رابطے کی زبانوں‘ کا بھی مسئلہ ہے۔ رابطے کی زبانیں وہ ہیں جنہیں آدیواسی برادریاں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے لیے استعمال کرتی ہیں، اور جو اکثر علاقے کی مقامی اور غالب زبان کے درمیان پل کا کام کرتی ہیں۔
’’کسی بچے سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واحد رابطے کی زبان میں بات کرے، جسے عام طور پر سبھی لوگ سمجھتے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ اپنی مادری زبان سے مزید دور ہو جاتا ہے،‘‘ پرمود کمار شرما، جو ایک ریٹائرڈ استاد ہیں، کہتے ہیں۔ وہ ٹی آر آئی کی طرف سے پی وی ٹی جی کی معاونت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔
ماونو کے معاملے میں رابطے کی زبانوں کی حیثیت سے کھورٹھا اور کھیتڑی کم استعمال شدہ ماونو بولنے والوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ ’’غالب برادریوں کی زبانوں کے زیر اثر ہم اپنی مادری زبان کو فراموش کر رہے ہیں،‘‘ منوج مزید کہتے ہیں۔
دو ماہ کے عرصے پر محیط اس ورکشاپ کے اختتام کے بعد معدومیت کے خطرے سے دوچار ان زبانوں کے بولنے والے شرکا میں سے ہر ایک کے پاس ایک درسی قاعدہ ہوگا۔ یہ کتاب ان کی متعلقہ مادری زبان کے قواعد کا بنیادی خاکہ پیش کرے گی۔ یہ اپنی نوعیت کی انوکھی کتابیں ہوں گی جنہیں ماہرین لسانیات نے نہیں بلکہ برادری کے لوگوں نے لکھی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ان کی کوششوں سے حالات میں بہتری آئے گی۔
’’دیگر [غیر پی وی ٹی جی] برادریوں کو اپنی زبان میں تحریر کردہ کتابوں تک رسائی حاصل ہے۔ جب وہ اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، تو انہیں روزگار کے بہتر مواقع دستیاب ہوتے ہیں،‘‘ جگن ناتھ نشاندہی کرتے ہیں۔ لیکن ان کی برادری کے لیے یہ تب ممکن ہے جب وہ بھی اپنی زبان بولتے رہیں۔ ’’آج صرف میرے دادا دادی اور والدین ہی روانی سے ماونو بول سکتے ہیں۔ ہمارے بچے گھر پر سیکھنے کے بعد ہی یہ زبان بول سکیں گے۔‘‘
*****
سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں ہندوستان میں ۱۹۰۰۰ سے زیادہ مادری زبانوں کا اندراج کیا گیا ہے۔ ان میں سے صرف ۲۲ زبانیں آئین کی آٹھویں جدول میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ ہیں۔ کئی مادری زبانوں کو ’زبان‘ کا درجہ رسم الخط کے فقدان یا اسے بولنے والوں کی کم ہوتی تعداد کی وجہ سے نہیں ملتا۔
جھارکھنڈ میں ۳۱ سے زیادہ مادری زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہیں ہے، جس کی وجہ سے ۸ویں شیڈول میں شامل دو زبانوں ہندی اور بنگالی جھارکھنڈ کی غالب زبانیں ہیں۔ انہیں اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور ریاست کی طرف سے رسمی مواصلت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سنتھالی جھارکھنڈ کی واحد آدیواسی زبان ہے جو ۸ویں شیڈول کی زبان کے طور پر درج ہے۔
ریاست کی ۳۱ دیگر زبانوں، خاص طور پر پی وی ٹی جی کی زبانوں، پر معدومیت کا حقیقی خطرہ منڈلا رہا ہے۔
’’ہماری بھاشا مکس ہوتی جا رہی ہے [ہماری مادری زبان مخلوط ہوتی جا رہی ہے]،‘‘ سبر برادری کی نمائندگی کرنے والے ایک فوجی جوان مہادیو (اصل نام نہیں) کہتے ہیں۔
جھارکھنڈ میں ۳۲ مادری زبانیں ہیں، جن میں سے صرف سنتھالی کو سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ اسے آئین کی ۸ویں شیڈول میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود، ہندی اور بنگالی ریاست کی غالب زبانیں ہیں
مہادیو کا کہنا ہے کہ ان کی زبان کا پسماندگی گرام پنچایتوں میں برادری کی کم نمائندگی سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ’’سبر برادری کے لوگ بکھرے ہوئے ہیں۔ اس گاؤں میں جہاں ہم رہتے ہیں [جمشید پور کے قریب] وہاں ہمارے صرف ۸ سے ۱۰ کنبے آباد ہیں۔ باقی دیگر آدیواسی برادریوں کے لوگ ہیں اور کچھ غیر آدیواسی بھی ہیں۔ اپنی زبان کو معدوم ہوتے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے،‘‘ وہ پاری سے کہتے ہیں۔
مہادیو کا نکتہ یہ ہے کہ ان کی مادری زبان، سَبر کو بمشکل تمام ایک زبان کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، ’’جو زبان تحریری شکل میں ہوتی ہے، اس کی آواز ہمیشہ پہلے سنی جاتی ہے۔‘‘
*****
ٹی آر آئی کا قیام ۱۹۵۳ میں عمل میں آیا تھا۔ اس ادارے کا مقصد قبائلی برادریوں کے سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور تاریخی پہلوؤں پر تحقیق کرکے ان کا رابطہ دوسری برادریوں سے استوار کرنا تھا۔
سال ۲۰۱۸ کے بعد سے، ٹی آر آئی نے کئی کمزور آدیواسی گروپوں کے زبانوں کے قاعدے شائع کیے ہیں جن میں آسور اور بِرجیا شامل ہیں۔ علاوہ از این کتابوں کے اس سلسلے میں کہاوتوں، محاوروں، لوک کہانیوں اور ان زبانوں کی نظموں کو بھی شائع کیا جاتا ہے۔
اگرچہ اس اقدام کے تحت ایسے قاعدے شائع کیے گئے ہیں جن کی تالیف خود برادریوں نے کی ہیں، لیکن اس میں زیادہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ جگن ناتھ کہتے ہیں، ’’ہمارے بچے اپنی مادری زبان اسی صورت میں پڑھ سکتے ہیں جب یہ کتابیں ٹی آر آئی کی الماریوں سے نکل کر اسکولوں تک پہنچ جائیں۔‘‘
ٹی آر آئی کے سابق ڈائریکٹر رَنِندر کمار اپنے دور میں ان کتابوں کی اشاعت شروع کرنے میں پیش پیش تھے، لیکن وہ بھی کہتے ہیں، ’’کتابیں ان اسکولوں تک پہنچنی چاہئیں، جہاں پی وی ٹی جی کے بچے پڑھتے ہیں، اسی صورت میں اس کام کا اصل مقصد پورا ہوگا۔‘‘
سب سے بڑا چیلنج ایسے لوگوں کی شناخت کرنا ہے جو زبان کو روانی سے بول سکتے ہوں۔ پرمود کہتے ہیں، ’’جو لوگ اپنی مادری زبان کو روانی سے بول سکتے ہیں، وہ اکثر لکھنا نہیں جانتے ہیں۔‘‘ لیکن کسی متبادل کی غیرموجودگی میں ان زبانوں کی قواعد تیار کرنے کے لیے ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جن کی زبان شاید اتنی رواں نہیں ہوتی یا جو مخلوط زبان بولتے ہیں اور لکھنا جانتے ہیں۔
’’ہم نے اس کام کے لیے زبان کے اسکالر ہونے کی شرط نہیں رکھی۔‘‘ صرف زبان جاننا کافی ہے۔ جھارکھنڈ ایجوکیشنل ریسرچ کونسل (جے ای آر سی) کے ایک سابق فیکلٹی ممبر پرمود کہتے ہیں، ’’ہمیں یقین ہے کہ اگر بولی جانے والی زبان میں ہی قواعد تیار کیا جائے تو یہ زیادہ عملی ہو گا۔‘‘
ستم ظریفی یہ ہے کہ زبان کے قاعدے، قواعد کی کتابیں اور پی وی ٹی جی کی زبانوں کے وسائل کے لیے دیوناگری رسم الخط کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کسی زبان میں کوئی حرف یا آواز ہے جو ہندی میں موجود ہے اور ان کی زبان میں نہیں ہے تو وہ اس مخصوص زبان کے حروف تہجی کے نظام سے اس آواز کو ہٹا دیتے ہیں۔ ’’ماونو زبان میں حرف ’نڑ‘ موجود ہے، لیکن سبر میں نہیں ہے۔ لہذا، ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہم سبر حروف تہجی میں ’نڑ‘ نہ لکھیں، اور صرف ’نہ‘ لکھیں،‘‘ پرمود وضاحت کرتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی آواز یا حرف ہندی میں موجود نہیں ہوتا اور دستاویز سازی کی جانے والی آدیواسی زبان میں موجود ہوتا ہے، تو وہ اس حرف کو متعارف کراتے ہیں اور اس کی توضیح کرتے ہیں۔
’’لیکن ہم صرف رسم الخط ادھار لیتے ہیں، حروف اور الفاظ بہرحال ان کی مادری زبان کی تلفظ کے مطابق لکھے جاتے ہیں،‘‘ ۶۰ سالہ پرمود کہتے ہیں۔
*****
اب شام ڈھل چکی ہے اور جگن ناتھ، منوج اور مہادیو دوسرے شرکاء کے ساتھ مورآبادی چوک پر چائے کے وقفے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ زبان کی بحث اب دوسرے پہلوؤں کا احاطہ کرنے لگی ہے، جس میں مادری زبان میں بات کرنے کی ہچکچاہٹ بھی شامل ہے۔
اگر وہ اپنی زبان میں بات بھی کرتے ہیں، تو ہمیشہ ان کی بات نہیں سمجھی جاتی۔ پرہیہ برادری سے تعلق رکھنے والی اور آٹھویں جماعت میں پڑھائی ترک کر دینے والی رمپو کماری کا تجربہ کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ سارا دن خاموش رہنے کے بعد آخر کار وہ جھجکتے ہوئے اپنی خاموشی توڑتی ہیں، ’’جب میں پرہیہ میں بات کرتی ہوں تو لوگ ہنستے ہیں،‘‘ اپنی برادری سے باہر شادی کرنے والی ۲۶ سالہ خاتون کہتی ہیں، ’’اگر خود میرے اپنے سسرال والے ہی میرا مذاق اڑائیں، تو میں دنیا کو کیا بتاؤں؟‘‘
وہ اس ’شرم‘ کا خاتمہ چاہتی ہیں جسے وہ اور ان کی برادری کے دوسرے لوگ اپنی مادری زبان میں بات کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر اٹھ جاتی ہیں کہ ’’میں یہاں اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی۔ اگر آپ مزید جاننا چاہتے ہو تو میرے گاؤں تشریف لائیں۔‘‘
یہ رپورٹر اس اسٹوری میں تعاون کے لیے رنندر کمار کا شکرگزار ہے۔
پاری کے معدومیت کے خطرے سے دوچار زبانوں کے پروجیکٹ (ای ایل پی) کا مقصد ہندوستان کی کمزور زبانوں کی ان کے بولنے والے لوگوں کی آوازوں اور ان کے تجربات کے ذریعے دستاویز سازی کرنا ہے۔
مترجم: شفیق عالم