آج جب کہ ممبئی کا ہر کونا میٹرو اور ایکسپریس ویز سے جڑ چکا ہے، دامو نگر کے باشندوں کا اپنے گھروں سے آنے جانے کے لیے اپنے معمول کے چھوٹے (لیکن رابطے کے لیے بہت مشکل) راستے کے ساتھ تگ و دو جاری ہے۔ یعنی انہیں رفع حاجت کے لیے استعمال میں لائے جانے والے میدان سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ یہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک فٹ اونچی دیوار عبور کر کے کوڑے کے ڈھیر سے گزرتے ہیں، جہاں سے انسانی فضلے کی تیز بو آتی ہے۔ یہ خشک گھاس والا ایک کھلا میدان ہے، اور شاید یہاں چند درخت بھی ہیں جو کچھ سایہ اور رازداری فراہم کرتے ہیں؟
بالکل نہیں۔ ’’یہاں رازداری نام کی کوئی چیز نہیں ہے،‘‘ دامو نگر میں ایک طویل عرصے سے رہائش پذیر ۵۱ سالہ میرا یڑے کہتی ہیں۔ ’’اگر عورتیں کسی کے قدموں کی چاپ سنتی ہیں تو اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔‘‘ وقت گزرنے کے ساتھ اس میدان کو بالترتیب خواتین اور مردوں کے استعمال کے لیے بائیں اور دائیں حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ لیکن، میرا کہتی ہیں، ’’دونوں حصوں میں بہت کم فاصلہ ہے: شاید چند میٹر کا۔ ویسے بھی اس کی پیمائش کس نے کی ہے؟‘‘ دونوں حصوں کے درمیان کوئی طبعی رکاوٹ یا دیوار بھی نہیں ہے۔
دامو نگر کے باشندوں کے لیے، جن میں سے اکثر پہلی یا دوسری نسل کے دیہی مہاجرین ہیں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ممبئی نارتھ حلقے کے اس حصے میں انتخابات کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔ ان کے یہ مسائل آج بھی پریشانی کا باعث ہیں، جب ہندوستان اپنی ۱۸ویں لوک سبھا کے لیے ۵۴۳ ممبران پارلیمنٹ کو منتخب کرنے کے لیے مرحلہ وار ووٹنگ کر رہا ہے۔ ’’آج یہ کہانی گڑھی جا رہی ہے کہ ملک میں سب کچھ اچھا ہے،‘‘ میرا کے بیٹے پرکاش یڑے کہتے ہیں۔ پرکاش اپنی رہائش گاہ کی دہلیز پر ہم سے بات کر رہے ہیں، جس کی چھت دھات کی چادروں سے بنی ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے شاید اندر کی گرمی کی شدت میں چند ڈگری کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
’’ملک کے ان حصوں میں کوئی بھی حقیقی مسائل کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا،‘‘ ۳۰ سالہ پرکاش کہتے ہیں۔ وہ اس جانب توجہ مبذول کراتے ہیں کہ کیسے دامو نگر کے ۱۱ ہزار سے زیادہ باشندے بیت الخلاء، پانی، اور بجلی تک رسائی نہ ہونے سے پیدا ہونے والی مشکلات اور خطرات سے دوچار ہیں۔ دامو نگر ایک جھگی بستی ہے، جسے مردم شماری میں بھیم نگر کے نام سے جانا اور درج کیا گیا ہے۔ یہاں ۲،۳۰۰ سے زیادہ گھر ہیں، جن کی دیواریں کمزور ہیں اور چھتیں ترپال اور ٹین کی چادروں کی بنی ہیں۔ یہ آبادی سنجے گاندھی نیشنل پارک کے اندر ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ ان گھروں تک پہنچنے کے لیے آپ کو تنگ، ناہموار، پتھریلے راستوں سے گزرتے ہوئے نالی کے پانی سے بچتے بچاتے اوپر چڑھنا پڑتا ہے۔
اس کے باوجود گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی یہاں کے لوگوں کے ووٹ صرف بنیادی سہولتوں کی کمی کے حوالے سے نہیں ڈالے جائیں گے۔
’’یہ سب خبروں کی وجہ سے ہے۔ خبریں حقیت پر مبنی ہونی چاہئیں۔ میڈیا ہم جیسے لوگوں کے بارے میں سچ نہیں بتا رہا ہے،‘‘ پرکاش یڑے کہتے ہیں۔ وہ غلط معلومات، جعلی اور متعصب خبروں کے بارے میں شکایت کرتے ہے۔ ’’لوگ جو دیکھیں اور سنیں گے اسی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔ اور جو کچھ وہ سنتے اور دیکھتے ہیں وہ صرف وزیر اعظم مودی کی تعریف ہوتی ہے۔‘‘
پرکاش خود اپنی زیادہ تر معلومات اشتہارات سے پاک آزاد صحافت کے پلیٹ فارموں سے حاصل کرتے ہیں۔ ’’یہاں میری عمر کے بہت سے لوگ بے روزگار ہیں۔ وہ ہاؤس کیپنگ اور دستی مزدوری کے کاموں میں مصروف ہیں۔ بہت کم لوگ ہیں جو بارہویں پاس ہیں اور عزت کے ساتھ روزی روٹی کما کھا رہے ہیں،‘‘ وہ نوجوانوں میں بے روزگاری کے بارے میں بات کرتے ہیں، جو ملک بھر میں تشویش کا باعث ہے۔
بارہویں جماعت مکمل کرنے کے بعد پرکاش نے ملاڈ کے ایک پرائیویٹ فرم میں ۱۵ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر فوٹو ایڈیٹر کی نوکری کر لی، لیکن مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی ٹیکنالوجی نے ان کے کام کی افادیت کو ختم کر دیا۔ ’’تقریباً ۵۰ ملازمین کو برطرف کر دیا گیا۔ مجھے بھی بے روزگار ہوئے ایک مہینہ ہو گیا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
انڈیا ایمپلائمنٹ رپورٹ ۲۰۲۴ ہمیں بتاتی ہے کہ پورے ملک کے تمام بے روزگاروں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا حصہ بھی سال ۲۰۰۰ میں ۲ء۵۴ فیصد سے بڑھ کر ۲۰۲۲ میں ۷ء۶۵ فیصد ہو گیا ہے۔ یہ رپورٹ ۲۶ مارچ کو دہلی میں بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن ڈیولپمنٹ (آئی ایچ ڈی) نے جاری کی تھی۔
پرکاش کی آمدنی کی حیثیت ان کے کنبے کی ترقی میں ایک سنگ میل کی تھی، جسے انہوں نے صرف پچھلے دو سالوں میں حاصل کی تھی۔ یہ ایک سانحہ کے بعد فتح کی کہانی تھی۔ سال ۲۰۱۵ میں دامو نگر میں کوکنگ گیس سیلنڈر کے سلسلہ وار دھماکوں کی وجہ سے آگ لگ گئی تھی۔ یڑے کنبہ بھی نقصان اٹھانے والوں میں شامل تھا۔ ’’ہم اپنے جسم پر صرف کپڑے لے کر بھاگے تھے۔ دستاویزات، زیورات، فرنیچر، برتن، الیکٹرانکس باقی سب کچھ راکھ میں تبدیل ہو گیا تھا،‘‘ میرا یاد کرتی ہیں۔
’’ونود تاوڑے [اُس وقت مہاراشٹر کے وزیر تعلیم اور بوریولی اسمبلی حلقہ کے ایم ایل اے] نے وعدہ کیا تھا کہ ہمیں ایک مہینہ کے اندر ایک پکا مکان مل جائے گا،‘‘ بھیانک آگ سے ہونے والی تباہی کے بعد ملنے والی اس یقین دہانی کو یاد کرتے ہوئے پرکاش کہتے ہیں۔
اس وعدہ کے بعد آٹھ سال گزر چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ۲۰۱۹ کے عام انتخابات اور اسی سال ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالے تھے۔ زندگی ویسی ہی رہی۔ پرکاش کے دادا دادی جالنہ ضلع کے بے زمین زرعی مزدور تھے، جو ۱۹۷۰ کی دہائی میں ممبئی ہجرت کر کے آئے تھے۔
ان کے والد ۵۸ سالہ گیان دیو اب بھی بطور پینٹر کام کرتے ہیں اور ماں میرا ایک عارضی صفائی ملازم ہیں۔ وہ گھروں سے کچرا اکٹھا کرتی ہیں۔ میرا کہتی ہیں، ’’پرکاش کی تنخواہ ملا کر ہم تینوں لوگ مہینہ میں ۳۰ ہزار روپے کما لیتے تھے۔ سیلنڈر، تیل، اناج اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں [جو اس وقت اتنی زیادہ نہیں تھیں جتنی کہ اب ہیں] کے ساتھ ہم نے اچھی طرح سے گزارہ کرنا شروع کر دیا تھا،‘‘ میرا کہتی ہیں۔
جب جب زندگی کو پٹری پر لانے کی ان کی کوششیں بارآور ہونے لگیں تو کسی نہ کسی نئی آفت نے انہیں گھیر لیا۔ ’’آگ لگنے کے بعد نوٹ بندی نافذ ہوئی، پھر کورونا اور لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کی طرف سے کوئی راحت نہیں ملی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت مودی حکومت کی ’’ہاؤسنگ فار آل (شہری)‘‘ اسکیم مشن کا مقصد ۲۰۲۲ تک تمام اہل خاندانوں کو مکان فراہم کرنا تھا۔ پرکاش یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا کنبہ اس اسکیم کے لیے ’اہل‘ بنا رہے۔
’’میں اپنے گھروالوں کے لیے اس اسکیم کے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ لیکن آمدنی کے ثبوت اور درست دستاویزات کے بغیر میں شاید ہی کبھی اس کی اہلیت حاصل کر سکوں گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
اس سال فروری (۲۰۲۴) میں مہاراشٹر کے لیے حق تعلیم ( آر ٹی ای ) ایکٹ کے قوانین میں ریاستی حکومت کی ترمیم کے نوٹیفکیشن کو وہ اور بھی زیادہ پریشان کن خیال کرتے ہیں۔ اس ترمیم کے تحت اگر بچے کی رہائش گاہ کے تین کلومیٹر کے اندر کوئی سرکاری یا سرکاری امداد یافتہ اسکول موجود ہے، تو اسے وہاں داخلہ لینا ہی ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں (جن میں انگلش میڈیم اسکول بھی شامل ہیں) کو پسماندہ طبقات کے بچوں کے لیے آر ٹی ای کے ۲۵ فیصد کوٹہ کے تحت داخلہ دینے سے روک دیا گیا ہے۔ ’’دراصل اس نوٹیفکیشن نے آر ٹی ای ایکٹ کو کٹہرے میں کھڑا دیا ہے،‘‘ انودانیت شکشا بچاؤ سمیتی کے پروفیسر سدھیر پرانجپے پاری کو بتاتے ہیں۔
’’ایسے فیصلوں سے ہم معیاری تعلیم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ واحد قانون، جو اس بات کی ضمانت دیتا تھا، (اس ترمیم کے بعد) اب موجود نہیں ہے۔ پھر ہم ترقی کیسے کریں گے؟‘‘ ان کے لہجے میں ناراضگی ہے۔
دامو نگر میں پرکاش اور دوسرے افراد یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگلی نسل کے لیے معیاری تعلیم ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ اور یہاں کے بچوں کی پسماندہ حیثیت کے بارے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں کی اکثریت نو بدھ مت کی پیروکار ہے، یعنی دلت ہے۔ ان میں سے کچھ چار دہائیوں سے اس جھگی بستی میں آباد ہیں۔ ان کے مطابق ان کے دادا دادی اور والدین ۱۹۷۲ کی خطرناک خشک سالی کے دوران جالنہ اور سولاپور سے ممبئی ہجرت کر کے آئے تھے۔ اس خشک سالی نے ریاست میں تباہی برپا کر دی تھی۔
دراصل یہ صرف آر ٹی ای ہی نہیں ہے، جسے حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا مشکل ہے۔ پرکاش کے پڑوسی اَبَا صاحب مہسکے ’لائٹ بوتل‘ بنانے کا چھوٹا کاروبار شروع کرنا چاہتے تھے، لیکن ان کی کوششیں بھی ناکام ہوگئیں ہیں۔ ۴۳ سالہ مہسکے کہتے ہیں، ’’یہ اسکیمیں صرف نام کی ہیں۔ میں نے مُدرا یوجنا کے تحت قرض لینے کی کوشش کی، لیکن مجھے اس وجہ سے قرض نہیں ملا کیونکہ مجھے بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا۔ میں نے بینک سے لیے گئے اپنے ۱۰ ہزار روپے کے پچھلے قرض پر صرف ایک ای ایم آئی میں تاخیر کی تھی۔
پاری دیہی اور شہری غریبوں کے لیے صحت اور بہبود کی مختلف اسکیموں تک رسائی کی صورتحال کے پر باقاعدگی سے رپورٹنگ کرتا رہا ہے۔ [مثلاً پڑھیں: مفت ڈائلیسس کے لیے اسپتال تک کا مہنگا سفر اور پختہ مکان کی تلاش میں بھٹکتے خانہ بدوش قبائل ]۔
مہسکے اپنے ۱۰ جمع ۱۰ فٹ کے کمرے میں اپنی ورکشاپ چلاتے ہیں اور اپنی فیملی کی کفالت کرتے ہیں۔ گھر میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف باورچی خانہ اور موری [باتھ روم] ہیں۔ اس سے ملحق الماریاں ہیں جن میں بوتلوں کو سجانے کے لیے درکار تمام مواد کو منظم طریقے سے محفوظ کیا جاتا ہے۔
’’میں ان لائٹوں کو کاندی ولی اور ملاڈ میں گھوم گھوم کر بیچتا ہوں۔‘‘ وہ شراب کی دکانوں اور ردی ڈیلروں سے شراب کی خالی بوتلیں حاصل کرتے ہیں۔ ’’ومل [ان کی بیوی] انہیں صاف کرنے، دھونے اور خشک کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ پھر میں ہر بوتل کو مصنوعی پھولوں اور دھاگوں سے سجاتا ہوں۔ اور انہیں تاروں اور بیٹریوں سے منسلک کرتا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں، اور ’لائٹ بوتل‘ بنانے کے عمل کی مختصراً وضاحت کرتے ہیں۔ ’’سب سے پہلے میں چار ایل آر۴۴ بیٹریاں ان سے جوڑتا ہوں، جو کاپر وائر (تانبے کے تار) کی ایل ای ڈی لائٹ کی ایک دم پتلی لڑیوں سے جڑی ہوتی ہیں۔ پھر لائٹ کو بوتل کے اندر کچھ مصنوعی پھولوں کے ساتھ ڈال دیتا ہوں۔ اس طرح لیمپ تیار ہو جاتا ہے۔ آپ اسے بیٹری پر آن-آف سوئچ کے ساتھ استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘ وہ ان آرائشی لائٹوں کو فنکارانہ ٹچ دیتے ہیں جسے کچھ لوگ اپنے گھروں میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔
اَبَا صاحب مہسکے کہتے ہیں، ’’مجھے فن کا جنون ہے، اور میں اپنی صلاحیتوں کو وسعت دینا چاہتا ہوں، تاکہ اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکوں اور اپنی تین بیٹیوں کو اچھی تعلیم دلا سکوں۔‘‘ ہر بوتل کو بنانے میں ۳۰ سے ۴۰ روپے کی لاگت آتی ہے، جسے وہ فی لائٹ ۲۰۰ روپے کے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔ ان کی روزانہ کی آمدنی عموماً ۵۰۰ روپے سے بھی کم ہوتی ہے۔ ’’میں پورے ۳۰ دن کام کرنے کے بعد ایک مہینہ میں ۱۰ہزار سے ۱۲ ہزار روپے کماتا ہوں،‘‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ روزانہ اوسطاً دو بوتلیں فروخت کرتے ہیں۔ ’’اس آمدنی پر پانچ افراد کے کنبے کی کفالت مشکل ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ مہسکے کا آبائی وطن جالنہ ضلع کے بھارے پوری تعلقہ میں واقع ہے۔
اپنی ڈیڑھ ایکڑ زمین پر سویابین اور جوار کاشت کرنے کے لیے وہ ہر سال جون کے آس پاس اکیلے اپنے گاؤں جاتے ہیں۔ ’’میں ہمیشہ ناکام رہتا ہوں۔ کم بارش کے کی وجہ سے کبھی بھی اچھی پیداوار حاصل نہیں ہوتی،‘‘ وہ شکایتی لہجہ میں بات کرتے ہیں۔ مہسکے نے پچھلے دو سالوں سے کاشتکاری بند کر دی ہے۔
پرکاش، میرا، مہسکے اور دامو نگر کی جھگیوں کے دیگر باشندے ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں درج کیے گئے پورے ہندوستان کی جھگیوں میں رہنے والے ۶۵ ملین سے زیادہ لوگوں کا ایک معمولی حصہ ہیں۔ لیکن دوسری جھگی بستیوں کے ساتھ وہ آر/ایس میونسپل وارڈ کے ووٹروں کا ایک قابل قدر حصہ ہیں۔
ابا صاحب کہتے ہیں، ’’جھگی کی دنیا دیہی مہاجروں کی ایک بالکل الگ دنیا ہے۔‘‘
آئندہ ۲۰ مئی کو کاندی ولی کے لوگ ممبئی نارتھ پارلیمانی حلقہ کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ اس حلقہ سے موجودہ رکن پارلیمنٹ، بھارتیہ جنتا پارٹی کے گوپال شیٹی نے ۲۰۱۹ میں کانگریس پارٹی کی ارمیلا ماتونڈکر کے خلاف ساڑھے چار لاکھ سے بھی زیادہ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔
ممبئی نارتھ سے اس دفعہ بی جے پی نے گوپال شیٹی کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ ان کی جگہ مرکزی وزیر پیوش گوئل انتخابی میدان میں ہیں۔ ’’بی جے پی نے یہاں دو بار [۲۰۱۴ اور ۲۰۱۹] میں کامیابی حاصل کی۔ اس سے پہلے اس سیٹ پر کانگریس کا قبضہ تھا۔ لیکن جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں، بی جے پی کے فیصلے غریبوں کے حق میں نہیں ہیں،‘‘ ابا صاحب مہسکے کہتے ہیں۔
میرا یڑے کو ای وی ایم پر شبہ ہے اور وہ کاغذی بیلٹ کو زیادہ معتبر سمجھتی ہیں۔ ’’مجھے یہ ووٹنگ مشین جعلی لگتی ہے۔ کاغذی ووٹنگ بہتر تھی۔ اس سے مجھے اس بات کا زیادہ یقین تھا کہ میں نے کس کو ووٹ دیا ہے،‘‘ میرا کہتی ہیں۔
خبروں اور غلط معلومات کی ترسیل پر بے روزگار پرکاش کے خیالات؛ صفائی ملازم میرا کا ای وی ایم پر عدم اعتماد؛ اور سرکاری اسکیموں کے ساتھ اپنا چھوٹا کاروبار قائم کرنے کی مہسکے کی ناکام کوششیں۔ ہر شخص کے پاس سنانے کے لیے اپنی کہانی ہے۔
پرکاش کہتے ہیں، ’’میں ایک اچھے امیدوار کو ووٹ دینے کی امید کرتا ہوں، جو واقعی ہمارے مسائل کو سمجھ سکے، اور اس کی ترجمانی کر سکے۔‘‘
’’اب تک جو بھی جیتا ہے، اس نے ہمارے لیے کبھی کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا ہے۔ خواہ ہم نے کسی کو ووٹ دیا ہو ہماری جدوجہد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہم صرف اپنی محنت کے دم پر زندہ ہیں، جیتنے والے لیڈر کی وجہ سے نہیں۔ ہمیں خود ہی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کرنی ہیں، جیتنے والے لیڈر کو نہیں،‘‘ میرا کہتی ہیں۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتخاب صرف بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے نہیں ہے، بلکہ ہم جیسے پسماندہ شہریوں کے حقوق کو محفوظ کرنے کے لیے بھی ہے،‘‘ آبا صاحب اپنی بات ختم کرتے ہیں۔ اگر دوسرے لفظوں میں کہیں تو دامو نگر کے لوگ جمہوریت کو بچانے کے لیے ووٹ دیں گے۔
مترجم: شفیق عالم