مچھلی کے کاروبار میں برف بیچنے والوں کا اہم رول ہوتا ہے۔ خاص کر، تمل ناڈو کے ساحل پر واقع اور کافی مصروف رہنے والے کڈلور فشنگ ہاربر میں اس کی کافی ضرورت پڑتی ہے، جہاں کا موسم عام طور پر بہت گرم ہوتا ہے۔ یہاں شہر کے اولڈ ٹاؤن ہاربر میں بڑی بڑی کمپنیاں مچھلی کے بڑے تاجروں اور مشینوں سے چلنے والی کشتیوں کو بڑی مقدار میں برف سپلائی کرتی ہیں۔

ان سب کے درمیان اپنی الگ پہچان بناتی ہوئی کویتا، ایک برف فروش کے طور پر مچھلی کا کاروبار کر رہے مرد و عورت کو برف بیچنے کا کام کرتی ہیں۔ وہ برف کی بڑی سلیاں ۸۰۰ روپے فی سلّی کے حساب سے خریدتی ہیں اور اُن سلّیوں کو آٹھ برابر ٹکڑوں میں توڑ کر ان میں سے ہر ایک کو ۱۰۰ روپے میں بیچ دیتی ہیں۔ یہ سخت جسمانی محنت کا کام ہے۔ اس کے لیے کویتا نے الگ سے مزدور رکھا ہوا ہے، جسے وہ ۶۰۰ روپے کی دہاڑی کے علاوہ دن میں دو وقت کا کھانا بھی دیتی ہیں۔

’’میں اُن عورتوں تک چھوٹی سلیوں کو پہنچانےمیں مدد کرتی ہوں، جنہیں اس کی ضرورت ہوتی ہے،‘‘ ۴۱ سالہ کویتا کہتی ہیں۔ ’’یہ بہت محنت کا کام ہے، اس کے بعد بھی ہم مشکل سے زندگی جینے لائق ہی کما پاتے ہیں۔ میں بھی پیسہ بچانا چاہتی ہوں، لیکن میں ان بڑی بڑی کمپنیوں سے مقابلہ کیسے کر سکتی ہوں؟‘‘

برف بیچنے کا کام کویتا نے ۲۰۱۷ میں شروع کیا تھا۔ کویتا بتاتی ہیں، ’’میں اپنے سسر امرت لنگم کی صحت خراب ہونے کے بعد برف بیچنے کے کام میں ان کی مدد کرنے لگی۔ اس کام میں میرے شوہر کی کوئی دلچسپی نہیں تھی، جب کہ میرے دیور ملک سے باہر چلے گئے تھے۔‘‘ اس کے علاوہ، اسکولی تعلیم حاصل کر چکیں کویتا کے پاس اس کاروبار کی مناسب سمجھ تھی۔

کویتا اپنے پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ ان کے والد، جو خود سے سیکھ کر میکینک کا کام کرتے تھے، اچانک بیمار پڑ گئے، جب کویتا صرف ۱۴ سال کی تھیں اور ۹ویں جماعت میں پڑھتی تھیں۔ ظاہر ہے، انہیں اپنی پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑنی  پڑی اور وہ اپنی ماں کے ساتھ زرعی دہاڑی مزدور کے طور پر روپائی کے ساتھ ساتھ گھاس پھوس چننے کا کام کرنے لگیں۔

Kavitha's husband, Anbu Raj brings ice to the Cuddalore fish harbour in a cart (left) and unloads it (right)
PHOTO • M. Palani Kumar
Kavitha's husband, Anbu Raj brings ice to the Cuddalore fish harbour in a cart (left) and unloads it (right)
PHOTO • M. Palani Kumar

کویتا کے شوہر امبو راج برف کی سلیوں کو ٹھیلے (بائیں) میں لاد کر کڈلور مچھلی بندرگاہ پر پہنچاتے ہیں، اور وہاں ان سلیوں کو اتارتے (دائیں) ہیں

They bring the ice blocks to the fish market (left), where they crush them (right)
PHOTO • M. Palani Kumar
They bring the ice blocks to the fish market (left), where they crush them (right)
PHOTO • M. Palani Kumar

وہاں سے برف کی ان سلیوں کو مچھلی بازار (بائیں) لے جایا جاتا ہے، جہاں ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے (دائیں) کیے جاتے ہیں

جب امبو راج سے ان کی شادی ہوئی، تب کویتا ۲۳ سال کی تھیں۔ امبو راج ایک فنکار ہیں اور پینٹنگ کرتے ہیں۔ یہاں میاں بیوی کڈلور اولڈ ٹاؤن ہاربر کے قریب ایک چھوٹی سی بستی، سندرور پالیَم میں اپنے بچوں وینکٹیشن (۱۷ سالہ) اور تنگ مترا (۱۵ سالہ) کے ساتھ رہتے ہیں۔

ان کے ۷۵ سالہ سسر امرت لنگم، ۲۰ سال سے بھی زیادہ عرصے سے بندرگاہ میں برف بیچنے کا کام کرتے آ رہے تھے۔ تب برف کے چھوٹے ٹکڑے بیچنے کا کام کوئی نہیں کرتا تھا، اور کاروباریوں کو برف کی بڑی مقدار ہی بیچی جاتی تھی۔ امرت لنگم کے پاس اتنی پونجی نہیں تھی کہ وہ بڑی مقدار میں برف کی سپلائی کر پاتے، اس لیے انہیں چھوٹے کاروباریوں کو برف بیچنے کا موقع ہاتھ لگ گیا۔

کویتا کہتی ہیں، ’’بڑے کاروباریوں کے پاس اپنی خود کی برف کی فیکٹری، ڈھلائی کرنے والے مزدور، نقل و حمل کے وسائل اور بیچنے والے لوگ ہوتے ہیں۔‘‘ کویتا کے اپنے چھوٹے اور معمولی وسائل ۲۰ مربع فٹ کی ایک دکان تک ہی محدود ہیں، جن کے عوض انہیں ہر مہینے ۱۰۰۰ روپے کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسی دکان میں برف کی بڑی سلیاں لا کر انہیں بیچنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑا جاتا ہے۔

’’برف کے بڑے کاروباریوں کے ساتھ ہمارا مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے، لیکن مجھے ڈٹے رہنا ہوگا،‘‘ کویتا پورے اعتماد سے کہتی ہیں۔

مچھلی کے کاروبار میں پروسیسنگ، ذخیرہ، تقسیم اور مارکیٹنگ کی مختلف سطحوں پر برف کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سنٹرل میرن فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے شائع سمندری مچھلیوں کی گنتی ۲۰۱۶ کے مطابق، مچھلی کی صنعت میں شامل روزگاروں میں مچھلی کی مارکیٹنگ، جال بنانا اور اس کی مرمت، تحفظ، پروسیسنگ اور ان کی صفائی جیسے کام شامل ہیں۔ کارکنوں کو بھی ’مزدور‘ اور ’دیگر‘ کے زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ’دیگر‘ میں وہ لوگ آتے ہیں جو نیلامی، برف کی سلیاں توڑنے، صدف یا سیپی، خول اور سمندری گھاس، سجاوٹی مچھلی وغیرہ جمع کرنے جیسے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔

تمل ناڈو میں، ۲۷۰۰ خواتین اور ۲۲۲۱ مردوں کو ’دیگر‘ کے زمرے میں رکھا گیا ہے، جب کہ کڈلور ضلع میں یہ عدد ۴۰۴ خواتین اور ۳۵ مردوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے تین چوتھائی آبادی کڈلور اولڈ ٹاؤن ہاربر کے آس پاس کے گاؤوں میں رہتی ہے۔ برف سے جڑے روزگاروں میں عام طور پر وہ لوگ ہیں جو سلیوں کی ڈھلائی کرنے کے علاوہ مچھلیوں کو برف کے ساتھ باکس میں پیک کرتے ہیں اور انہیں ان گاڑیوں پر لادتے ہیں جو انہیں دوسری جگہوں پر لے جاتی ہیں۔

کویتا دو کمپنیوں سے برف کی سلیاں خریدتی ہیں، جو پاس میں ہی اسٹیٹ انڈسٹریز پروموشن کارپوریشن آف تمل ناڈو لمیٹڈ (ایس آئی پی سی او ٹی) کے صنعتی علاقے میں واقع ہیں۔ وہ برف کو چھوٹے کاروباریوں سے لے کر اسے سر پر ڈھونے والوں تک کو بیچتی ہیں۔

Left: They use a machine to crush them, and then put the crushed ice in a bag to sell.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: Kavitha and Anbu Raj bringing a load to vendors under the bridge
PHOTO • M. Palani Kumar

وہ برف کے چھوٹے ٹکڑے کرنے کے لیے ایک مشین کا استعمال کرتے ہیں، پھر ان ٹکڑوں کو بیچنے کے لیے ایک بوری میں رکھ دیتے ہیں۔ دائیں: کویتا اور امبو راج برف کی ایک سلی کو پل کے نیچے بیٹھنے والے کاروباریوں کو پہنچا رہے ہیں

کویتا کی لمبی اور دبلی پتلی جسامت سے ان کی سخت محنت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے۔ ’’بندرگاہ پر ہماری دکان سے پل کے نیچے تک، جہاں عورتیں ان دنوں مچھلی بیچنے کے لیے بیٹھتی ہیں، سر پر برف اٹھا کر لے جانا خاصا مشکل کام ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ برف کی سلیوں کو دکان سے بازار تک لے جانے کے لیے کرایے کی ایک موٹر سائیکل وین لینے پر ایک چکر کا ۱۰۰ روپے دینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ، برف توڑنے والی مشین میں ڈالنے کے لیے کویتا کو روزانہ ۲۰۰ روپے کا ڈیزل بھی بھرانا پڑتا ہے۔

اس کاروبار کو چلانا کوئی سستا کام نہیں ہے۔ کویتا برف کی ۲۱۰ سلیاں ۲۱ ہزار روپے میں خریدتی ہیں اور مزدور، ایندھن، کرایے اور ٹرانسپورٹ کے لیے اضافی ہفتہ واری رقم بھی ادا کرتی ہیں۔ ان سبھی کو ملانے کے بعد ان کا خرچ ۲۶ ہزار روپے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ جہاں تک ان کی کمائی کا سوال ہے، تو یہ بمشکل ۲۹ ہزار سے ۳۱ ہزار ۵۰۰ روپے کے آس پاس ہوتی ہے۔ اس حساب سے انہیں ایک ہفتہ میں صرف ۳۰۰۰ سے ۳۵۰۰ روپے کا ہی منافع ہوتا ہے، جسے کسی بھی نظریہ سے کافی نہیں کہا جا سکتا۔ اور، یہ کمائی بھی کویتا اور ان کے شوہر امبو راج کی مشترکہ کمائی ہے۔

چونکہ وہ خود ایک ماہی گیر نہیں ہیں، اس لیے کویتا کسی خواتین ماہی گیر کوآپریٹو سوسائٹی کی رکن بننے کی اہلیت نہیں رکھتی ہیں۔ اس لیے وہ کسی بھی سرکاری فلاحی اسکیم کے دائرے میں نہیں آتی ہیں۔ وہ وَنّیار برادری سے تعلق رکھتی ہیں، جسے ایک انتہائی پس ماندہ طبقہ (ایم بی سی) کے طور پر درج کیا گیا ہے اور ماہی پروری اور کاروبار سے جڑی ذاتوں میں اس کا شمار نہیں ہوتا ہے۔

سرکاری پالیسیاں کویتا جیسی عورتوں کے بارے میں سطحی طور پر ذکر کرتی دکھائی دیتی ہیں، جن کی محنت مچھلیوں کے شعبہ میں حاشیہ پر رہ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، تمل ناڈو میں مچھلیوں اور متعلقہ کاروبار سے جڑے ماہی گیروں اور مزدوروں کے سماجی تحفظ اور فلاح کا قانون، ۲۰۰۷ کے مطابق، کویتا کی محنت کو ’ساحل سمندر پر کام کرنے والوں‘ کے طور پر زمرہ بند کیا جا سکتا ہے، جس میں برف کی ڈھلائی کرنا اور اسے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑنا، مچھلی کو باکس میں پیک کرنا اور انہیں بھیجنے کے لیے گاڑیوں پر لادنے جیسے کام شامل ہیں۔ لیکن اس زمرہ بندی سے انہیں فائدہ کی شکل میں کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا ہے۔

*****

Left: Kavitha, her mother-in-law Seetha, and Anbu Raj waiting for customers early in the morning.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: They use iron rod to crack ice cubes when they have no electricity
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: صبح صبح گاہکوں کے آنے کا انتظار کرتیں کویتا، ان کی ساس سیتا اور امبو راج۔ دائیں: بجلی نہیں ہونے کی صورت میں برف کی سلیوں کو توڑنے کے لیے وہ لوہے کی راڈ کا استعمال کرتے ہیں

کویتا اور ان کے شوہر امبو راج (۴۲ سالہ) کے لیے دن کی شروعات صبح صبح ہی ہو جاتی ہے، جب وہ ۳ بجے ہاربر کے لیے روانہ ہوتے ہیں اور وہاں برف بیچنے کے اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ برف اسی وقت فروخت ہوتی ہے، ’’صبح ۳ بجے سے ۶ بجے تک،‘‘ جب الگ الگ ریاستوں سے کاروباری مچھلیاں خریدنے آتے ہیں۔ زیادہ تر ماہی گیر اپنی پکڑی ہوئی مچھلیاں اسی وقت کشتیوں سے ساحل پر اتارتے ہیں اور انہیں مچھلیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے برف کی ضرورت پڑتی ہے۔

صبح ۶ بجے کویتا کی ساس سیتا (۶۵ سالہ) ان کا کام سنبھالنے پہنچ جاتی ہیں۔ کویتا گھر لوٹ کر بچوں کے اسکول جانے سے پہلے ان کے لیے کھانا پکاتی ہیں۔ تقریباً ۱۰ بجے وہ برف بیچنے کے لیے دوبارہ ہاربر پہنچ جاتی ہیں۔ وہ گھر سے ہاربر آنے جانے کے لیے سائیکل کا استعمال کرتی ہیں۔ سائیکل کی مدد سے انہیں گھر سے ہاربر پر موجود اپنی دکان تک پہنچنے اور وہاں سے اپنے گھر لوٹنے میں صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔ حالانکہ، ہاربر میں بیت الخلاء یا ہاتھ پیر دھونے کی کوئی سہولت نہیں ہے، اور یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔

خاندانی معاملوں میں فیصلہ لینے میں سیتا کا اہم رول ہوتا ہے۔ کویتا بتاتی ہیں، ’’برف توڑنے والی مشین خریدنے کے لیے انہوں نے ہی ایک پرائیویٹ مالیاتی کمپنی سے ۵۰ ہزار روپے قرض لیے تھے۔‘‘

ساتھ ہی، وہ یہ بھی کہتی ہیں: ’’میں تو یہ بھی نہیں جانتی ہوں کہ ہمارے قرض کا سود کتنا ہے۔ میری ساس ہی یہ سب سنبھالتی ہیں، اور گھر کے سبھی بڑے فیصلے بھی وہی لیتی ہیں۔‘‘

Left: Kavitha (blue sari) sometimes buys fish from the market to cook at home.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: The Cuddalore fish market is crowded early in the morning
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: کئی بار گھر پر پکانے کے لیے کویتا (نیلی ساڑی میں) بازار سے مچھلی خریدتی ہیں۔ دائیں: کڈلور مچھلی بازار میں صبح صبح بھیڑ لگ جاتی ہے

Left: Kavitha returns home to do housework on a cycle.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: Kavitha and Seetha love dogs. Here, they are pictured talking to their dog
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: کویتا گھر کے کام نمٹانے کے لیے سائیکل سے لوٹتی ہیں۔ دائیں: کویتا اور سیتا کو کتے سے بہت پیار ہے۔ اس تصویر میں، وہ دونوں اپنے پالتو کتے کے ساتھ بات کر رہی ہیں

تاہم، کویتا کو کاروبار کرنے کے سبھی طور طریقے معلوم ہیں۔ جب وہ کسی کو اُدھار پر سامان بیچتی ہیں، تو وہ فوراً گاہک کا نام اور بقایا رقم وغیرہ لکھ لیتی ہیں۔ ساتھ ہی، وہ برف کی خرید و فروخت کا حساب کتاب بھی رکھتی ہیں۔ لیکن، آخرکار انہیں اپنی ساری کمائی اپنے ساس کے ہاتھوں میں رکھ دینی ہوتی ہے۔

کویتا کو کسی قسم کی کوئی شکایت بھی نہیں ہے، کیوں کہ ان کی تمام ضرورتوں کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میری ایک آمدنی ہے اور اس کی وجہ سے گھر میں مجھے عزت ملتی ہے، بھلے ہی میرے ہاتھ میں پیسے نہیں رہتے۔‘‘ ان کی فیملی تین کمروں والے گھر میں رہتی ہے، جو ہاربر سے ۲ کلومیٹر دور ہے۔

وہ بتاتی ہیں، ’’ہماری فیملی آپس میں بہت جڑی ہوئی ہے اور ہم ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔‘‘ ان کے بچوں کی فیس ان کے دیور ارول راج ادا کرتے ہیں، جنہوں نے میکینکل انجینئرنگ کی پڑھائی کی ہے اور سنگاپور میں کام کرتے ہیں۔

جیسے جیسے ان کے ساس سسر کی عمر بڑھ رہی ہے، انہیں صحت سے متعلق مسائل بھی پیش آنے لگے ہیں۔ کویتا کو فیملی کے تئیں اپنی بڑھتی ذمہ داریوں کا احساس ہے، ساتھ ہی انہیں برف کے کاروبار کا بھی پورا خیال رکھنا ہوتا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Nitya Rao

ਨਿਤਯਾ ਰਾਓ, ਯੂਕੇ ਦੇ ਨੋਰਵਿਚ ਵਿਖੇ ਸਥਿਤ ਯੂਨੀਵਰਸਿਟੀ ਆਫ਼ ਈਸਟ ਅੰਗਲਿਆ ਵਿੱਚ ਜੈਂਡਰ ਐਂਡ ਡਿਵਲਪਮੈਂਟ ਦੀ ਪ੍ਰੋਫ਼ੈਸਰ ਹਨ। ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੇ ਪਿਛਲੇ ਤਿੰਨ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਵੱਧ ਸਮੇਂ ਤੋਂ, ਔਰਤਾਂ ਦੇ ਅਧਿਕਾਰਾਂ, ਰੁਜ਼ਗਾਰ ਅਤੇ ਸਿੱਖਿਆ ਦੇ ਖੇਤਰ ਵਿੱਚ ਇੱਕ ਖ਼ੋਜਾਰਥੀ, ਅਧਿਆਪਕ ਅਤੇ ਵਕੀਲ ਵਜੋਂ ਵਿਆਪਕ ਤੌਰ 'ਤੇ ਕੰਮ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by Nitya Rao
Photographs : M. Palani Kumar

ਐੱਮ. ਪਲਾਨੀ ਕੁਮਾਰ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੇ ਸਟਾਫ਼ ਫ਼ੋਟੋਗ੍ਰਾਫ਼ਰ ਹਨ। ਉਹ ਮਜ਼ਦੂਰ-ਸ਼੍ਰੇਣੀ ਦੀਆਂ ਔਰਤਾਂ ਅਤੇ ਹਾਸ਼ੀਏ 'ਤੇ ਪਏ ਲੋਕਾਂ ਦੇ ਜੀਵਨ ਨੂੰ ਦਸਤਾਵੇਜ਼ੀ ਰੂਪ ਦੇਣ ਵਿੱਚ ਦਿਲਚਸਪੀ ਰੱਖਦੇ ਹਨ। ਪਲਾਨੀ ਨੂੰ 2021 ਵਿੱਚ ਐਂਪਲੀਫਾਈ ਗ੍ਰਾਂਟ ਅਤੇ 2020 ਵਿੱਚ ਸਮਯਕ ਦ੍ਰਿਸ਼ਟੀ ਅਤੇ ਫ਼ੋਟੋ ਸਾਊਥ ਏਸ਼ੀਆ ਗ੍ਰਾਂਟ ਮਿਲ਼ੀ ਹੈ। ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ 2022 ਵਿੱਚ ਪਹਿਲਾ ਦਯਾਨੀਤਾ ਸਿੰਘ-ਪਾਰੀ ਦਸਤਾਵੇਜ਼ੀ ਫੋਟੋਗ੍ਰਾਫ਼ੀ ਪੁਰਸਕਾਰ ਵੀ ਮਿਲ਼ਿਆ। ਪਲਾਨੀ ਤਾਮਿਲਨਾਡੂ ਵਿੱਚ ਹੱਥੀਂ ਮੈਲ਼ਾ ਢੋਹਣ ਦੀ ਪ੍ਰਥਾ ਦਾ ਪਰਦਾਫਾਸ਼ ਕਰਨ ਵਾਲ਼ੀ ਤਾਮਿਲ (ਭਾਸ਼ਾ ਦੀ) ਦਸਤਾਵੇਜ਼ੀ ਫ਼ਿਲਮ 'ਕਾਕੂਸ' (ਟਾਇਲਟ) ਦੇ ਸਿਨੇਮੈਟੋਗ੍ਰਾਫ਼ਰ ਵੀ ਸਨ।

Other stories by M. Palani Kumar
Editor : Urvashi Sarkar

ਉਰਵਸ਼ੀ ਸਰਕਾਰ ਇੱਕ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ 2016 ਦੀ ਪਾਰੀ ਫੈਲੋ ਹਨ।

Other stories by Urvashi Sarkar
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique