پرکاش بوندی وال اپنے پان کے باغیچہ (پان واڑی) میں کھڑے ہیں۔ دل کی شکل کے پان کے پتّے گھنی قطاروں میں پتلی بیلوں پر اُگتے ہیں؛ انہیں تیز ہواؤں اور دھوپ سے بچانے کے لیے سنتھیٹک جال سے ڈھانپا گیا ہے۔

پورے ہندوستان میں رات کے کھانے کے بعد پان کھایا جاتا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے پان کا پتّہ۔ تازگی سے بھری خوشبو اور بہترین ذائقہ کے لیے، پان کے پتّے میں پہلے کتّھا اور چونا لگایا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں سونف، سپاری، گل قند وغیرہ ڈال کر اسے لپیٹا جاتا ہے۔

اس گاؤں کی کل آبادی ۱۱۹۵۶ ہے اور یہ گاؤں اپنے اچھے پان کے پتّوں کے لیے مشہور ہے۔ پرکاش نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، تب سے پایا ہے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ کُکڑیشور کے دوسرے لوگوں کی طرح ہی پان کی کھیتی کرتے ہیں۔ وہ مدھیہ پردیش میں او بی سی (دیگر پس ماندہ طبقہ) کے طور پر درج تمبولی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ پرکاش کی عمر ۶۰ سال سے زیادہ ہو چکی ہے اور وہ محض نو سال کی عمر سے پان کے باغ میں کام کر رہے ہیں۔

حالانکہ، مئی ۲۰۲۳ میں آئے سمندری طوفان بپرجوائے نے چھوٹی کاشت والے کسان بوندی وال کی صفر اعشاریہ دو (۲ء۰) ایکڑ کی کھیتی کو تباہ کر دیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں کوئی بیمہ نہیں ملتا ہے اور نہ ہی طوفان میں ہوئے نقصان کے عوض حکومت سے کوئی مدد ہی ملتی ہے۔‘‘

مرکزی حکومت قومی زرعی بیمہ اسکیم (این آئی ایس) کے تحت کئی زرعی پیداواروں کا موسم سے متعلق بیمہ کرتی ہے، لیکن پان اس فہرست میں شامل نہیں ہے۔

Paan fields are covered with a green synthetic net (left) in Kukdeshwar village of Neemuch district and so is Prakash Bundiwaal's paanwari (right)
PHOTO • Harsh Choudhary
Paan fields are covered with a green synthetic net (left) in Kukdeshwar village of Neemuch district and so is Prakash Bundiwaal's paanwari (right)
PHOTO • Harsh Choudhary

نیمچ ضلع کے کُکڑیشور گاؤں میں پان کے کھیت ہرے سنتھیٹک جال (بائیں) سے ڈھکے ہوئے ملتے ہیں، اور پرکاش بوندی وال کا پان کا باغیچہ (دائیں) بھی بالکل ویسے ہی جال سے ڈھکا ہوا ہے

Left: Entrance to Prakash's field 6-7 kilometres away from their home.
PHOTO • Harsh Choudhary
Right: The paan leaves grow on thin climbers in densely packed rows
PHOTO • Harsh Choudhary

بائیں: پرکاش کے گھر سے ۷-۶ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ان کے کھیت میں جانے کا راستہ۔ دائیں: پان کے پتّے گھنی قطاروں میں پتلی بیلوں پر اُگتے ہیں

پرکاش کی بیوی آشا بائی بوندی وال کہتی ہیں، ’’پان کی کھیتی میں کافی محنت لگتی ہے۔ کھیتوں میں اتنا کام ہوتا ہے کہ سارا دن چلا جاتا ہے۔‘‘ میاں بیوی کو ہر تیسرے دن کھیت میں پانی دینا پڑتا ہے۔ پرکاش بتاتے ہیں، ’’کچھ کسان کھیتوں میں سینچائی کے لیے نئی تکنیک والی مشینوں کا استعمال کرتے ہیں، لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ اب بھی روایتی گھڑوں کا ہی استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

پان کی بوائی ہر سال مارچ کے مہینہ میں کی جاتی ہے۔ پرکاش کہتے ہیں، ’’مٹی میں چھاچھ، اُڑد دال اور سویابین کے آٹے جیسی گھریلو غذائی اشیاء ملائی جاتی ہیں۔ پہلے ہم گھی کا بھی استعمال کرتے تھے، لیکن اب گھی بہت مہنگا ہو گیا ہے، اس لیے اسے نہیں ڈالتے۔‘‘

پان کے باغیچہ میں بیل کی چھنٹائی کا کام زیادہ تر عورتیں کرتی ہیں اور دن بھر میں تقریباً ۵۰۰۰ پتّے توڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ سنتھیٹک جال کی مرمت اور بیلوں کے سہارے کے لیے بانس کے ڈنڈے بھی لگاتی ہیں۔

پرکاش کی بہو رانو بوندی وال کہتی ہیں، ’’عورتیں، مردوں سے دو گنا زیادہ کام کرتی ہیں۔‘‘ تقریباً ۳۰ سال کی رانو گزشتہ ۱۹ برسوں سے کھیت میں کام کر رہی ہیں۔ وہ مزید بتاتی ہیں، ’’ہمیں صبح ۴ بجے اٹھنا پڑتا ہے اور گھر کا سارا کام، صاف صفائی اور کھانا پکانا ہوتا ہے۔‘‘ اُن سبھی کو دوپہر کا کھانا بھی ساتھ میں لے جانا ہوتا ہے۔

پرکاش کہتے ہیں، ’’پانی اور زرخیز مٹی کی کمی کے سبب، گھر کے بزرگ سال ۲۰۰۰ کے آس پاس اپنے پان کے باغیچہ کو گھر سے ۷-۶ کلومیٹر دور واقع دوسرے کھیت میں لے آئے تھے۔‘‘

Left: Prakash irrigates his field every three days using a pot.
PHOTO • Harsh Choudhary
Right: A hut in their paanwari to rest and make tea
PHOTO • Harsh Choudhary

بائیں: پرکاش ہر تیسرے دن گھڑے سے اپنے کھیت کی سینچائی کرتے ہیں۔ دائیں: ان کے پان کے باغیچہ میں آرام کرنے اور چائے بنانے کے لیے ایک جھونپڑی بنی ہوئی ہے

انہیں بیج، سینچائی اور مزدوری کی مد میں تقریباً دو لاکھ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ حالانکہ، مزدوروں کی ضرورت انہیں کبھی کبھی ہی پڑتی ہے۔ پرکاش کہتے ہیں، ’’کبھی کبھی تو پورے سال میں ۵۰ ہزار روپے تک کی کمائی کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ، ان کے پاس صفر اعشاریہ ایک ایکڑ زمین اور ہے، جس پر اضافی کمائی کے لیے وہ گندم، کچھ پھلوں اور سبزیوں کی کھیتی کرتے ہیں۔

رانو بتاتی ہیں کہ ہم سب پہلے خراب پتّوں میں سے اچھے پتّے کو الگ کرتے ہیں، اور پھر بازار لے جانے کے لیے انہیں ایک ساتھ ترتیب سے لگاتے ہیں۔‘‘ آشا بائی کہتی ہیں، ’’جس دن ہم پان کی چھنٹائی کرتے ہیں اُس دن ہمیں دیر رات تک کام کرنا ہوتا ہے۔ اور کبھی کبھی تو رات کے ۲ بج جاتے ہیں۔‘‘

روزانہ صبح ساڑھے چھ بجے سے ساڑھے سات بجے تک لگنے والے بازار میں ۱۰۰ کے بنڈل میں پان بیچے جاتے ہیں۔ بازار میں پان بیچنے آئے ۳۲ سالہ سنیل مودی کہتے ہیں، ’’اس منڈی میں تقریباً ۱۰۰ پان فروش آتے ہیں، لیکن صرف ۱۰-۸ خریدار ہی انہیں خریدنے آتے ہیں۔ عام طور پر پتّے ۳-۲ دنوں کے بعد خراب ہو جاتے ہیں، اس لیے ہمیں انہیں جلد از جلد فروخت کرنا ہوتا ہے۔‘‘

سنیل بتاتے ہیں، ’’آج کا دن اچھا تھا۔ پان کا ایک بنڈل ۵۰ روپے میں فروخت ہوا ہے، جو کہ عام دنوں سے زیادہ ہے۔ شادی کے سیزن میں ہمیں زیادہ منافع ہوتا ہے۔ شادیوں میں پان کے پتّوں کا استعمال پوجا میں کیا جاتا ہے، کیوں کہ اسے مقدس مانا جاتا ہے۔ شادیوں میں لوگ پان کا اسٹال لگانا پسند کرتے ہیں اور ان دنوں ہماری اچھی کمائی ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ، یہ دھندہ مندا ہی رہتا ہے۔ اور یہ سیزن پر بھی منحصر ہے۔‘‘

Paan leaves are cleaned and stacked in bundles of 100 (left) to be sold in the mandi (right) everyday
PHOTO • Harsh Choudhary
Paan leaves are cleaned and stacked in bundles of 100 (left) to be sold in the mandi (right) everyday
PHOTO • Harsh Choudhary

بازار (دائیں) میں بیچنے کے لیے روزانہ پان کے پتّوں کو صاف کرکے ۱۰۰ کے بنڈلوں (بائیں) میں رکھا جاتا ہے

پان کے دھندے پر آسانی سے دستیاب تمباکو کے پیکٹوں نے بھی اثر ڈالا ہے۔ پرکاش بتاتے ہیں، ’’اب کوئی بھی پان نہیں خریدنا چاہتا۔‘‘ ایک پان کی قیمت ۳۰-۲۵ روپے ہوتی ہے، اور اتنے میں تمباکو کے ۵ پاؤچ آ جاتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’صحت کے لحاظ سے پان زیادہ بہتر ہوتا ہے، اس کے باوجود لوگ تمباکو کے پاؤچ کھانا پسند کرتے ہیں، کیوں کہ یہ سستا پڑتا ہے۔‘‘

سوربھ ٹوڈاوال پان کی کھیتی کرتے تھے، لیکن غیر مستحکم آمدنی سے افسردہ ہو کر انہوں نے ۲۰۱۱ میں یہ پیشہ چھوڑ دیا اور پنساری کی ایک چھوٹی سی دکان چلانے لگے۔ دکان سے وہ ہر سال ڈیڑھ لاکھ روپے کی کمائی کر لیتے ہیں، جو پان کی کھیتی کرنے سے ہونے والی ان کی آمدنی سے تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔

وشنو پرساد مودی نے ۱۰ سال پہلے پان کی کھیتی چھوڑ کر کمپیوٹر پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پان کی کھیتی میں اب فائدہ نہیں ہے۔ ’’پان کی کھیتی کے لیے کوئی مناسب وقت ہوتا ہی نہیں ہے۔ گرمیوں میں پتّے لو برداشت کرتے ہیں، اور سردیوں میں بیلوں کے بڑھنے کی رفتار دھیمی ہو جاتی ہے۔ مانسون کے دوران، بھاری بارش اور طوفان سے پتّوں کے خراب ہونے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔‘‘

اپریل ۲۰۲۳ میں بنارسی پان کو جی آئی (جغرافیائی شناخت) ٹیگ ملا۔ اس کے ردعمل میں پرکاش کے بیٹے پردیپ، جو خود بھی پان کی کھیتی کرتے ہیں، کہتے ہیں، ’’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمیں بھی جی آئی ٹیگ دے، کیوں کہ اس سے ہمارے پیشہ کو کافی فائدہ ہوگا۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Harsh Choudhary

ਹਰਸ਼ ਚੌਧਰੀ ਅਸ਼ੋਕਾ ਯੂਨੀਵਰਸਿਟੀ, ਸੋਨੀਪਤ ਦੇ ਇੱਕ ਵਿਦਿਆਰਥੀ ਹਨ। ਉਹ ਮੱਧ ਪ੍ਰਦੇਸ਼ ਦੇ ਕੁਕਦੇਸ਼ਵਰ ਵਿੱਚ ਵੱਡੇ ਹੋਏ ਹਨ।

Other stories by Harsh Choudhary
Editor : Sanviti Iyer

ਸੰਵਿਤੀ ਅਈਅਰ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਕੰਟੈਂਟ ਕੋਆਰਡੀਨੇਟਰ ਹਨ। ਉਹ ਉਹਨਾਂ ਵਿਦਿਆਰਥੀਆਂ ਦੀ ਵੀ ਮਦਦ ਕਰਦੀ ਹਨ ਜੋ ਪੇਂਡੂ ਭਾਰਤ ਦੇ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਲੈ ਰਿਪੋਰਟ ਕਰਦੇ ਹਨ ਜਾਂ ਉਹਨਾਂ ਦਾ ਦਸਤਾਵੇਜ਼ੀਕਰਨ ਕਰਦੇ ਹਨ।

Other stories by Sanviti Iyer
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique