جولین سنگا کے کام میں خامیاں تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
ہاتھ سے بُنی ان کی چٹائی کو دیکھ کر سمجھ پانا مشکل ہوتا ہے کہ اس کی بُنائی کہاں سے شروع کی گئی ہے – چٹائیاں چاروں طرف سے ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ اگر بُنتے وقت کوئی بھی گڑبڑی ہوئی، تو سمجھیے کہ مہینہ بھر کی محنت بیکار۔ اس لیے، ۶۶ سالہ جولین غلطی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی ہیں۔ ان کے ہاتھ اس کام میں ماہر ہیں، اور وہ لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے بھی بُنائی جاری رکھتی ہیں۔
جولین اور ان کے آنجہانی شوہر یعقوب کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ ان کا سب سے بڑا بیٹا ۲۰۰۱ میں الگ رہنے لگا۔ اس کے بعد، ایک کے بعد ایک مصیبتیں آنے لگیں اور سال ۲۰۰۴ سے ۲۰۱۰ کے درمیان یعقوب، ان کی بیٹیوں راحیل اور نیل منی، اور پھر بیٹے سیلاس کا انتقال ہو گیا۔
جولین کہتی ہیں، ’’فیملی میں ہوئی ان اموات کے سبب میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کروں کیا۔ فیملی کو چلانے کے لیے کوئی متبادل بچا نہیں تھا، اس لیے میں نے چٹائی بُننے کا کام شروع کر دیا۔‘‘
جھارکھنڈ کے چلانگی گاؤں کی آبادی تقریباً ۱۲۲۱ (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق) ہے، اور جولین اپنے گاؤں میں چٹائی بُننے والی اکیلی خاتون ہیں۔ بہت چھوٹی سی عمر سے وہ چٹائی بُن رہی ہیں، اور ۲۵ سے زیادہ چٹائیاں بُن چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ کام دیکھنے میں جتنا مشکل ہے، کرنے میں اتنا ہی آسان ہے۔‘‘ انہوں نے پڑوس کی عورتوں کو دیکھ دیکھ کر یہ کام سیکھ لیا تھا۔ ’’مجھ میں یہ ہنر بچپن سے ہی تھا، لیکن یہ کام تو میں نے غریبی اور پیسے کی کمی کے سبب شروع کیا۔‘‘
انہوں نے ۷ویں جماعت تک پڑھائی کی ہوئی ہے۔ ’’میرے زمانے میں پڑھائی کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ پڑھائی کے لیے اسکول کو وقت کی بربادی سمجھا جاتا تھا۔‘‘ ان کی مہینے کی کمائی چٹائی بیچ کر، کھیتی باڑی سے اور زرعی مزدوری کرکے ہوتی ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’کھیتی باڑی کا کام چٹائی بننے کے کام سے آسان ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ زرعی مزدوری صرف برسات میں ہوتی ہے، اور مزدوری صبح ۱۰ بجے سے شام کے ۵ بجے تک چلتی ہے۔ وہیں، ایک چٹائی کو بُننے میں ۴۰ سے ۶۰ دن لگ سکتے ہیں، جو کہ اس کے سائز پر منحصر ہے۔ جولین کہتی ہیں کہ چٹائی بُنتے ہوئے ان کی کمر درد سے ٹوٹنے لگتی ہے، اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو آنے لگتے ہیں۔
جولین اور ان کی دو بیٹیاں – ایلسبا (۶) اور ونیتا (۲۴) – مُنڈا برادری سے ہیں، جو درج فہرست قبائل میں شامل ہیں۔ وہ سبھی جھارکھنڈ کے کھونٹی ضلع میں رہتی ہیں۔
*****
چٹائی بُننے کے سب سے پہلے مرحلہ میں، کھجور کے پتوں کو درخت سے کاٹ کر دھوپ میں سُکھایا جاتا ہے۔ پتوں کو بازار سے خریدا جا سکتا ہے، لیکن جولین کو ان کی قیمت زیادہ لگتی ہے، اس لیے وہ پتوں کو خود جنگل سے چن کر لاتی ہیں۔ جس سائز کی چٹائی انہیں بُننی ہوتی ہے اس کی بنیاد پر وہ چٹائی کا انتخاب کرتی ہیں۔ ڈنٹھل سے الگ کرنے کے بعد، پتوں کو پانی میں بھگو دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد، وہ بنائی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
جولین پہلے ایک لمبی پٹی کی بُنائی شروع کرتی ہیں جس کی چوڑائی ہتھیلی کے برابر ہوتی ہے۔ پتلے پتوں کو ایک دوسرے کے اوپر نیچے رکھ کر ان کو چوٹی جیسا بُن لیا جاتا ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ وہ محتاط رہتی ہیں، تاکہ کوئی غلطی نہ ہو جائے اور پٹیوں کی بُناوٹ میں کوئی ڈھیلاپن نہ رہے۔ ڈھیلی بُناوٹ چٹائی کے پورے پیٹرن کو ہی خراب کر دیتی ہے۔
ایک بار پٹیاں تیار ہو جاتی ہیں، تب وہ ناپ کر انہیں ایک لمبائی میں کاٹ لیتی ہیں۔ یہ لمبائی بُنی جانے والی چٹائی کے سائز پر منحصر ہوتی ہے۔ کاٹی گئی پٹیاں ایک دوسرے سے سٹا کر رکھی جاتی ہیں، کیوں کہ بعد میں ان کی ایک ساتھ سلائی کرنی ہوتی ہے۔ سلائی کے لیے جولین ایک موٹی سوئی اور پلاسٹک کے دھاگوں کا استعمال کرتی ہیں۔ سوئی کی قیمت ۱۰ روپے اور ایک ریل دھاگے کی قیمت ۴۰ روپے ہوتی ہے، اور انہیں خریدنے کے لیے گاؤں سے دو کلومیٹر دور چوک [بازار] جانا پڑتا ہے۔ ’’پہلے میں یہی دھاگہ صرف ۱۰ روپے میں اور سوئی ۵ روپے میں خریدتی تھی،‘‘ وہ شکایتی لہجے میں کہتی ہیں۔
چٹائیوں کی سلائی کا کام، بُنائی کی بہ نسبت آسان ہے اور جلدی ہو جاتا ہے۔ اگر بغیر رکے سلائی کی جائے، تو پوری چٹائی دو دنوں میں سلی جا سکتی ہے۔ ایک نئی بُنی ہوئی چٹائی کا وزن پانچ کلو سے زیادہ ہوتا ہے، لیکن استعمال کیے جانے کے بعد یہ دھیرے دھیرے ہلکی ہونے لگتی ہے۔
اپنی موٹائی کے سبب کھجور کے پتوں سے بنی یہ چٹائی، پلاسٹک کی بنی چٹائی کی بہ نسبت کسی بھی موسم میں استعمال کیے جانے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ خاص طور پر جاڑے کے موسم کے لیے تو یہ بہت اچھی مانی جاتی ہے۔ اس قسم کی ایک چٹائی پانچ سال سے بھی زیادہ وقت تک چلتی ہے – اور ٹھیک سے استعمال میں لائی جائے، تو مزید پائیدار ثابت ہوتی ہے۔
’’میں اس چٹائی کا استعمال گزشتہ سات سالوں سے کر رہی ہوں، اور یہ ابھی کچھ اور سالوں تک میرے کام آئے گی،‘‘ جولین اپنے گھر کی ایک پرانی چٹائی دکھاتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’میں اسے پانی سے بچا کر رکھتی ہوں اور ایک بچے کی طرح اس کی حفاظت کرتی ہوں۔‘‘
*****
’’میری ماں کو چٹائی بنانا بہت پسند ہے۔ جب کبھی ان کے پاس وقت ہوتا ہے، وہ بُنائی شروع کر دیتی ہیں،‘‘ جولین کی بڑی بیٹی ایلسبا کہتی ہیں۔ ایلسبا نے اپنی ماں سے بُنائی نہیں سیکھی ہے، لیکن وہ پتوں کو تیار کرنے، بُنی ہوئی پٹیوں کو کاٹنے اور چٹائی کو سلنے میں ان کی مدد ضرور کرتی ہیں۔
جولین کی چھوٹی بیٹی ونیتا پولیو کی شکار ہیں اور بغیر سہارے کے چل بھی نہیں پاتی ہیں۔ ’’ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہم کسی اچھے اسپتال کا خرچ اٹھا سکیں۔ اس کا علاج ایک سرکاری اسپتال میں ہو رہا ہے۔ وہاں ہمیں مفت میں ہر مہینے دوائیں ملتی ہیں اور اس کی مالش کی جاتی ہے۔‘‘
دہاڑی پر کام کرنے والے زرعی مزدوروں کو آٹھ گھنٹے کی مزدوری کے بعد صرف ۱۰۰ روپے ملتے ہیں۔ بہرحال، اب ان کے پاس کھیتی کرنے لائق اپنی زمین ہے، اس لیے وہ اپنی ضرورت بھر کا اناج خود اگاتی ہیں۔ جولین کو اندرا گاندھی قومی بیوہ پنشن اسکیم کے تحت ہر مہینے ۱۰۰۰ روپے بھی ملتے ہیں۔ ان کی بیٹی ونیتا کو بھی سوامی وویکانند نیشکت سواولمبن پروتساہن یوجنا کے تحت ہر مہینے ۱۰۰۰ روپے ملتے ہیں۔
’’جب ہماری پوری فیملی ساتھ تھی، تب ہم سب پتھر کی کانوں میں مزدوری کرتے تھے۔ شام کو ہم سبھی تھکے ماندے گھر لوٹتے تھے، لیکن ہم ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے تھے،‘‘ جولین یاد کرتی ہیں۔ ’’تب ہمارے لیے اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنا آسان ہوا کرتا تھا۔‘‘
*****
اپنے گھر کے برآمدے میں بیٹھی جولین کہتی ہیں، ’’میں درخت کے سایہ میں بیٹھ کر چٹائی بُنتی تھی۔‘‘ یہ برآمدہ، جسے انہوں نے اپنے خود کے پیسوں سے بنوایا ہے، اب ان کے کام کرنے کا نیا ٹھکانہ ہے۔ کبھی کبھی پڑوسیوں کی میٹنگ بھی اسی جگہ ہوتی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ تقریباً بیس سال پہلے گرمیوں (فروری سے جون) میں گاؤں کے لوگ ایک جگہ اکٹھا ہوتے تھے اور ساتھ بیٹھ کر چٹائی بُنتے تھے۔ اس سے عورتوں کو آپس میں بات چیت اور اپنا سکھ دکھ شیئر کرنے کا موقع ملتا تھا۔ اس زمانے میں کھجور کے پتوں سے بنی چٹائیاں ۶۵۰-۶۰۰ روپے میں فروخت ہوتی تھیں۔
آج، جولین جو چٹائیاں بُنتی ہیں ان کی قیمت ان چٹائیوں کے سائز کے مطابق ۱۲۰۰ سے ۲۵۰۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ ان کی بُنائی میں لگنے والے وقت اور محنت کی نظر سے دیکھیں، تو یہ رقم بہت کم ہے۔ حالانکہ، آج کل لوگ پلاسٹک کی چٹائی خریدنا زیادہ پسند کرتے ہیں – ان کی قیمت (۱۰۰ روپے سے شروع ہو کر) بھی سستی ہوتی ہے، اور وہ ہلکی اور رنگین بھی ہوتی ہیں۔
جولین بتاتی ہیں کہ پہلے گاؤں کے ہر گھر میں بُنی ہوئی چٹائی ہوا کرتی تھی، لیکن اب یہ چٹائیاں صرف آدیواسی برادری کے لوگوں کے گھروں میں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ بھی صرف اس روایت کی وجہ سے کہ شادی کے بعد دلہن کو اپنے نئے گھر لے جانے کے لیے یہ چٹائی تحفے میں دی جاتی ہے۔
جولین مایوسی کے ساتھ بتاتی ہیں کہ بُنی ہوئی چٹائیاں اب آہستہ آہستہ غائب ہوتی جا رہی ہیں، اور یہ بھی کہتی ہیں کہ کچھ سالوں میں چٹائی بُننے والے لوگ شاید گزرے زمانے کی بات ہو جائیں۔
اس اسٹوری کو پورا کرنے میں مدد کرنے کے لیے ہم پاری کے سابق انٹرن پروین کمار اور امرتا راجپوت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہم اس کا انگریزی ترجمہ کرنے میں مدد کرنے کے لیے پاری کی سابق انٹرن دھیانوی کتھا رانی کے بھی شکر گزار ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز