سنیتا نشاد کو کورونا وبائی مرض کے دوران اپنا وہ سفر یاد ہے، جب ہریانہ سے انہیں اتر پردیش کے مہاراج گنج میں واقع اپنے گھر واپس لوٹنا پڑا تھا۔ اس سفر میں اپنے پیروں کے سوا ان کا کوئی اور سہارا نہیں تھا۔

جب سرکار نے ایک رات اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا، تو اس وقت سنیتا ان لاکھوں مہاجر مزدوروں میں ایک تھیں جب انہیں اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گاؤوں کی طرف لوٹنا پڑا تھا۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ خواہ سرکاری اسکیمیں بجٹ کے تحت ہوں یا کوئی اور لبھانے والا وعدہ، سنیتا کا ان وعدوں سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔

وہ اس رپورٹر سے کہتی ہیں، ’’مجھ سے یہ پوچھنے کی بجائے کہ میں نے بجٹ کے بارے میں سنا ہے یا نہیں، آپ سرکار سے کیوں نہیں پوچھتے کہ کیا ان کے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں تھا کہ وہ ہمیں کورونا میں اپنے گھر تک پہنچا دیتے؟‘‘

سنیتا (۳۵) آج کل ہریانہ میں ہیں اور روہتک ضلع کے لاڑھوت گاؤں میں پلاسٹک اور دیگر بوتلوں کو ری سائیکل کرنے کے لیے چھانٹتی ہیں۔ ’’مجبور ہوں، اس لیے دوبارہ آنا پڑا۔‘‘

پرفیوم کی خالی بوتلوں میں لوہے کے نکیلے چھرّے سے سوراخ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’میرے پاس بڑا موبائل نہیں ہے، چھوٹا موبائل ہے۔ میں کیا جانوں بجٹ کیا ہے؟‘‘ ہر پروسیس کے ڈیجیٹل ہوتے جانے اور اس پر آئے دن بڑھتے انحصار کے سبب ایک اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی سہولت ہونا لازمی ہو گیا ہے، تاکہ سرکاری اسکیموں تک رسائی حاصل کی جا سکے۔ آج بھی ہندوستان کے دیہی علاقوں میں اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ لوگوں کے خواب ہی بن کر رہ گئے ہیں۔

PHOTO • Amir Malik

روہتک ضلع کے لاڑھوت گاؤں میں پلاسٹک کے ڈبوں کو ری سائیکل کے لیے چھانٹتیں سنیتا دیوی

PHOTO • Amir Malik
PHOTO • Amir Malik

کوشلیہ دیوی، روہتک ضلع ہی کے بھیا پور گاؤں میں بھینس پالتی ہیں۔ بجٹ کے سلسلے میں جب ان کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی، تو ان کا جواب تھا، ’بجٹ؟ اس سے کیا لینا دینا‘

پڑوسی گاؤں بھیا پور میں بھینس پالنے والی ۴۵ سالہ کوشلیہ دیوی بھی بجٹ سے زیادہ پرجوش نظر نہیں آتی ہیں۔

’’بجٹ؟ اس سے کیا لینا دینا؟ میں ایک عورت ہوں، گوبر گھیتی (اٹھاتی) ہوں، ڈانگر (جانور) پالتی ہوں۔ جے رام جی کی۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ بجٹ پر ہونے والی گفتگو کو ختم کر دیتی ہیں۔

کوشلیہ دیوی کی فکر یہ ہے کہ سرکار کتنی کم قیمت پر چیزیں خریدتی ہے، خاص کر دودھ۔ گوبر ڈھونے کے لیے استعمال ہونے والے دو تسلوں میں سے ایک کو اٹھاتے ہوئے وہ سنجیدہ لہجے میں مذاق کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں دونوں تسلے خود ہی اٹھا لوں گی، بس مجھے دودھ کی صحیح قیمت دے دو۔‘‘

دوسرا تسلہ اٹھاتے ہوئے وہ ایک بڑا سوال چھوڑ جاتی ہیں، ’’سرکار اگر دودھ کی عزت نہ کر سکے، تو اس کی کون سی اسکیم ہماری عزت کر سکے گی؟‘‘

ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز

Amir Malik

ਆਮਿਰ ਮਿਲਕ ਇੱਕ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ ਤੇ 2022 ਦੇ ਪਾਰੀ ਫੈਲੋ ਹਨ।

Other stories by Amir Malik
Editor : Swadesha Sharma

ਸਵਦੇਸ਼ਾ ਸ਼ਰਮਾ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿੱਚ ਇੱਕ ਖੋਜਕਰਤਾ ਅਤੇ ਸਮੱਗਰੀ ਸੰਪਾਦਕ ਹੈ। ਉਹ ਪਾਰੀ ਲਾਇਬ੍ਰੇਰੀ ਲਈ ਸਰੋਤਾਂ ਨੂੰ ਠੀਕ ਕਰਨ ਲਈ ਵਲੰਟੀਅਰਾਂ ਨਾਲ ਵੀ ਕੰਮ ਕਰਦੀ ਹੈ।

Other stories by Swadesha Sharma
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique