سال ۱۹۴۷ کی خونی تقسیم کے بعد الگ ہوئے دو ممالک کے درمیان سرحد کو نشان زد کرتی ریڈکلف لائن پنجاب کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ پنجاب کے جغرافیہ کے ساتھ ساتھ یہ لائن (جس کی وجہ تسمیہ ایک برطانوی وکیل ہیں، جنہوں نے باؤنڈری کمیشن کے چیئرمین کے طور پر کام کیا تھا) پنجابی زبان کے دو رسم الخط کو بھی تقسیم کرتی ہے۔ ریاست کے لدھیانہ ضلع کی پائل تحصیل کے گاؤں کٹہری سے تعلق رکھنے والے کرپال سنگھ پَنّو کہتے ہیں، ’’تقسیم نے پنجابی زبان کے ادب اور اس کے دو رسم الخط پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔‘‘

پَنّو ۹۰ سالہ سابق فوجی ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کی تین دہائیاں تقسیم کے اس خاص زخم پر مرہم لگانے میں وقف کر دیں۔ بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) سے ڈپٹی کمانڈنٹ کے طور پر سبکدوش ہونے والے پَنّو نے صحیفوں اور مقدس کتابوں جیسے گرو گرنتھ صاحب، مہان کوش (پنجاب کی سب سے قابل احترام انسائیکلو پیڈیا میں سے ایک) اور دیگر ادبی تخلیقات کا گرومکھی سے شاہ مکھی میں اور شاہ مکھی سے گرومکھی میں ٹرانسلٹریشن (حروف کی منتقلی) کیا ہے۔

شاہ مکھی اردو کی طرح دائیں سے بائیں جانب لکھی جاتی ہے۔ سال ۱۹۴۷ کے بعد سے ہندوستانی پنجاب میں اس کا استعمال نہیں ہوتا۔ سال ۱۹۹۵-۱۹۹۶ میں پَنّو نے ایک کمپیوٹر پروگرام تیار کیا، جس سے گرو گرنتھ صاحب کو گرومکھی سے شاہ مکھی اور پھر شاہ مکھی سے گرومکھی میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔

تقسیم سے قبل اردو داں طبقہ بھی شاہ مکھی میں لکھی ہوئی پنجابی پڑھ سکتا تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے زیادہ تر ادبی تصانیف اور سرکاری اور درباری دستاویزات شاہ مکھی میں لکھی ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ ’قصہ‘، جو سابقہ غیرمنقسم صوبے کی روایتی کہانی سنانے کا فن تھا، اس میں بھی صرف شاہ مکھی کا استعمال ہوتا تھا۔

گرومکھی، جو بائیں سے دائیں جانب لکھی جاتی ہے اور جو دیوناگری رسم الخط سے کچھ مشابہت رکھتی ہے، پاکستانی پنجاب میں استعمال نہیں ہوتی۔ نتیجتاً، پنجابی بولنے والے پاکستانیوں کی بعد کی نسلیں جو گرومکھی پڑھنے سے قاصر تھیں، اپنے ادب سے دور ہوگئیں۔ یہ نسلیں غیرمنقسم پنجاب کے عظیم ادبی سرمائے کو صرف اسی وقت پڑھ سکتی ہیں جب اسے شاہ مکھی رسم الخط میں منتقل کیا جائے گا، جسے وہ جانتے ہیں۔

Left: Shri Guru Granth Sahib in Shahmukhi and Gurmukhi.
PHOTO • Courtesy: Kirpal Singh Pannu
Right: Kirpal Singh Pannu giving a lecture at Punjabi University, Patiala
PHOTO • Courtesy: Kirpal Singh Pannu

بائیں: شاہ مکھی اور گرومکھی میں شری گرو گرنتھ صاحب۔ دائیں: کرپال سنگھ پَنّو پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ میں لیکچر دیتے ہوئے

پٹیالہ میں مقیم ۶۸ سالہ ڈاکٹر بھوج راج ایک ماہر لسانیات ہیں۔ فرانسیسی زبان کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ شاہ مکھی بھی پڑھ لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’۱۹۴۷ سے قبل شاہ مکھی اور گرومکھی دونوں کا استعمال ہوتا تھا، لیکن گرومکھی زیادہ تر گرودواروں (سکھوں کی عبادت گاہوں) تک محدود تھی۔‘‘ بھوج راج کے مطابق آزادی سے پہلے کے برسوں میں، پنجابی زبان کے امتحان دینے والے طلباء سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ شاہ مکھی میں پرچہ لکھیں گے۔

بھوج راج کہتے ہیں، ’’یہاں تک کہ ہندو مذہبی کتابیں جیسے رامائن اور مہابھارت بھی فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی گئی تھیں۔‘‘ جیسے ہی پنجاب کا بٹوارہ ہوا، زبان بھی تقسیم ہو گئی، شاہ مکھی ہجرت کرکے مغربی پنجاب چلی گئی اور پاکستانی بن گئی، اور گرومکھی ہندوستان میں تنہا رہ گئی۔

پَنّو کا پروجیکٹ پنجابی ثقافت، زبان، ادب اور تاریخ کے ایک اہم جز کے ضائع ہونے کو لے کر دہائیوں سے جاری بے چینی کو دور کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔

پَنّو کہتے ہیں، ’’مشرقی پنجاب (ہندوستانی پنجاب) کے ادیب اور شاعر چاہتے تھے کہ ان کی تخلیقات مغربی پنجاب (پاکستانی پنجاب) میں پڑھی جائیں اور مغربی پنجاب کے ادیب اور شاعر چاہتے تھے کہ ان کی تخلیقات مشرقی پنجاب میں پڑھی جائیں۔‘‘ ٹورنٹو (کناڈا) کی ادبی محفلوں میں شرکت کے دوران انہوں نے پاکستانی اور دیگر قومیتوں کے پنجابیوں کو اس نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سنا تھا۔

ایسی ہی ایک میٹنگ میں قارئین اور اہل علم نے ایک دوسرے کا ادب پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پَنّو نے کہا، ’’یہ تبھی ممکن ہوگا جب دونوں فریق دونوں رسم الخط سیکھ لیں۔ تاہم، یہ کہنا آسان ہے لیکن کرنا مشکل۔‘‘

اس مسئلہ کا واحد حل یہ تھا کہ عظیم ادبی تخلیقات کو اس رسم الخط میں منتقل کیا جائے جس میں وہ دستیاب نہیں ہیں۔ یہاں پَنّو کے ذہن میں ایک خیال آیا۔

آخرکار پَنّو کا کمپیوٹر پروگرام پاکستانی قارئین کو شاہ مکھی رسم الخط میں سکھ مذہب کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب تک رسائی کرانے والا تھا اور اسے پڑھنے کے قابل بنانے والا تھا۔ یہی پروگرام اردو یا شاہ مکھی سے پاکستان میں دستیاب کتابوں اور متن کو گرومکھی میں منتقل کرنے والا تھا۔

Pages of the Shri Guru Granth Sahib in Shahmukhi and Gurmukhi
PHOTO • Courtesy: Kirpal Singh Pannu

شاہ مکھی اور گرومکھی میں شری گرو گرنتھ صاحب کے انگ (صفحات)

*****

پنو ۱۹۸۸ میں ریٹائرمنٹ کے بعد کناڈا چلے گئے اور وہاں انہوں نے کمپیوٹر کے استعمال کا مطالعہ کیا۔

کناڈا میں پنجابیوں کی بڑی آبادی اپنے وطن کی خبریں پڑھنے کی خواہش مند تھی۔ پنجابی روزنامے ’اجیت‘ اور ’پنجابی ٹربیون‘ ہندوستان سے ہوائی جہاز کے ذریعے کناڈا منگوائے جاتے تھے۔

پَنّو کا کہنا ہے کہ ان دونوں اخبارات کے علاوہ دیگر اخبارات کی کٹنگ کو ٹورنٹو میں نئے اخبارات کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ چونکہ یہ اخبارات مختلف اشاعتوں کی کٹنگ کے کولاج کی طرح تھے، اس لیے ان میں کئی فونٹس ہوتے تھے۔

ایسا ہی ایک اخبار ’ہمدرد ویکلی‘ تھا، جہاں پَنّو نے بعد میں کام کیا۔ سال ۱۹۹۳ میں اس کے ایڈیٹروں نے اپنے اخبار کو ایک ہی فونٹ میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔

پَنّو کہتے ہیں، ’’فونٹس آنا شروع ہو گئے تھے، اور اب کمپیوٹر کا استعمال ممکن ہو گیا تھا۔ پہلے میں نے گرومکھی کے ایک فونٹ کو دوسرے فونٹ میں بدلنا شروع کیا۔‘‘

اننت پور فونٹ میں ہمدرد ویکلی کی پہلی ٹائپ شدہ کاپی نوے کی دہائی کے اوائل میں ٹورنٹو میں ان کی رہائش گاہ سے جاری ہوئی تھی۔ پھر ٹورنٹو میں ۱۹۹۲ میں شروع کی گئی پنجابی مصنفین کی ایک تنظیم، پنجابی قلماں دا قافلہ (پنجابی رائٹرز ایسوسی ایشن) کے ایک اجلاس میں اس کے اراکین نے فیصلہ کیا کہ گرومکھی اور شاہ مکھی کے درمیان ٹرانسلٹریشن (حروف کی منتقلی) ضروری ہے۔

Left: The Punjabi script as seen on a computer in January 2011.
PHOTO • Courtesy: Kirpal Singh Pannu
Kirpal Singh Pannu honoured by Punjabi Press Club of Canada for services to Punjabi press in creating Gurmukhi fonts. The font conversion programmes helped make way for a Punjabi Technical Dictionary on the computer
PHOTO • Courtesy: Kirpal Singh Pannu

بائیں: جنوری ۲۰۱۱ میں کمپیوٹر پر لکھا گیا پنجابی رسم الخط۔ دائیں: کرپال سنگھ پَنّو کی گرومکھی فونٹس کے ذریعہ پنجابی پریس کی خدمات کے لیے پنجابی پریس کلب آف کناڈا کی جانب سے عزت افزائی کی گئی۔ فونٹ کے کنورژن پروگراموں نے کمپیوٹر پر پنجابی کی تکنیکی ڈکشنری کے لیے راستہ ہموار کیا

پنو ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جو آسانی سے کمپیوٹر استعمال کر سکتے تھے، اس لیے انہیں اس کام کی ذمہ داری سونپی گئی۔ پنجابی ادب کے لیے وقف ایک دوسری تنظیم ’اکیڈمی آف پنجاب ان نارتھ امریکہ (اپنا)‘ نے ۱۹۹۶ میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا، جہاں پنجابی کے سب سے مشہور شاعروں میں سے ایک نوتیج بھارتی نے اعلان کیا: ’’کرپال سنگھ پنو ایک پروگرام ڈیزائن کر رہے ہیں کہ تُسی اِک کلک کروگے گرومکھی توں شاہ مکھی ہو جاؤگا، اک کلک کروگے تے شاہ مکھی توں گرومکھی ہو جاؤگا [آپ صرف ایک کلک کریں گے تو متن گرومکھی سے شاہ مکھی میں تبدیل ہو جائے گا اور ایک کلک کریں گے تو شاہ مکھی سے گرومکھی میں تبدیل ہو جائے گا]۔‘‘

پنو بتاتے ہیں کہ شروع میں انہیں لگا کہ وہ اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں۔ لیکن کچھ ابتدائی تکنیکی مشکلات کے بعد انہیں کامیابی مل گئی۔

انہوں نے بتایا، ’’جوش میں آ کر میں اسے اردو اور شاہ مکھی کے معروف ادیب، جاوید بوٹا کو دکھانے لے گیا۔‘‘

بوٹا نے نشاندہی کی کہ پَنّو نے شاہ مکھی کے لیے جو فونٹ استعمال کیا تھا وہ دیوار میں کنکریٹ کے بلاکس کے سلسلہ کی طرح سپاٹ تھا۔ انہوں نے پَنّو کو بتایا کہ یہ کوفی (عربی میں استعمال کیا جانے والا فونٹ) کی طرح ہے، جسے کوئی اردو پڑھنے والا قبول نہیں کرے گا۔ نستعلیق فونٹ، جو سوکھے درخت پر بغیر پتوں کی ٹہنیوں کی طرح نظر آتا ہے، کو اردو اور شاہ مکھی میں قبول کیا جاتا ہے۔

پنو مایوس ہو کر واپس لوٹ آئے۔ بعد میں ان کے بیٹوں اور ان کے دوستوں کے بیٹوں نے ان کی مدد کی۔ انہوں نے ماہرین سے مشورہ کیا اور لائبریریوں کا دورہ کیا۔ بوٹا اور ان کے اہل خانہ نے بھی ان کی مدد کی۔ بالآخر پَنّو کو نوری نستعلیق فونٹ مل گیا۔

Left: Pannu with his sons, roughly 20 years ago. The elder son (striped tie), Narwantpal Singh Pannu is an electrical engineer; Rajwantpal Singh Pannu (yellow tie), is the second son and a computer programmer; Harwantpal Singh Pannu, is the youngest and also a computer engineer.
PHOTO • Courtesy: Kirpal Singh Pannu
Right: At the presentation of a keyboard in 2005 to prominent Punjabi Sufi singer
PHOTO • Courtesy: Kirpal Singh Pannu

بائیں: پَنّو اپنے بیٹوں کے ساتھ تقریباً ۲۰ سال پہلے۔ بڑے بیٹے (دھاری دار ٹائی میں) نرونت پال سنگھ پَنّو الیکٹریکل انجینئر ہیں۔ دوسرے بیٹے راجونت پال سنگھ پَنّو (پیلی ٹائی میں) کمپیوٹر پروگرامر ہیں۔ تیسرے اور سب سے چھوٹے بیٹے ہرونت پال سنگھ پَنّو بھی کمپیوٹر انجینئر ہیں۔ دائیں: ممتاز پنجابی صوفی گلوکار کو ۲۰۰۵ میں کی بورڈ دیتے ہوئے

اب تک انہوں نے فونٹس کا خاصا علم حاصل کر لیا تھا، اور نوری نستعلیق کو اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ پنو کہتے ہیں، ’’میں نے اسے گرومکھی کے متوازی تیار کیا تھا۔ اس لیے ایک اور بڑا مسئلہ رہ گیا۔ ہمیں ابھی بھی اسے دائیں طرف لانا تھا تاکہ اسے دائیں سے بائیں لکھا جا سکے۔ لہٰذا، جس طرح کوئی رسی اور کھمبے سے بندھے جانور کو کھینچتا ہے، میں نے ہر حرف کو بائیں سے دائیں کھینچا۔‘‘

رسم الخط کی منتقلی کے لیے ایک سے دوسرے میں تلفظ کا ملنا ضروری ہوتا ہے، لیکن ان دونوں میں کچھ آوازیں ایسی ہیں جن کے لیے ایک دوسرے میں مساوی حروف نہیں ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شاہ مکھی کا حرف ’ن‘ (نون) ہے، جو ناک کی ایک خاموش آواز سے ادا کیا جاتا ہے، لیکن گرومکھی میں یہ نہیں ہے۔ ایسی ہر آواز کے لیے، پَنّو نے موجودہ حرف میں کچھ عناصر کو شامل کرکے ایک نیا حرف بنایا۔

پنّو اب گرومکھی میں ۳۰ سے زیادہ فونٹس میں کام کرسکتے ہیں اور ان کے پاس شاہ مکھی کے تین یا چار فونٹس ہیں۔

*****

پَنّو کا تعلق کسانوں کے خاندان سے ہے۔ اس خاندان کے پاس کٹہری میں ۱۰ ایکڑ زمین ہے۔ پَنّو کے تینوں بیٹے انجینئر ہیں اور کناڈا میں مقیم ہیں۔

سال ۱۹۵۸ میں انہوں نے سابقہ ریاست پٹیالہ اور ایسٹ پنجاب اسٹیٹس یونین (پی ای پی ایس یو) کی مسلح پولیس میں شمولیت اختیار کی، جو خطے کی سابقہ ریاستوں کی یونین تھی۔ وہ قلعہ بہادر گڑھ، پٹیالہ میں بحیثیت سینئر گریڈ کانسٹیبل تعینات ہوئے۔ سال ۱۹۶۲ کی جنگ کے دوران انہیں گرداس پور کے ڈیرہ بابا نانک میں ہیڈ کانسٹیبل کے طور پر تعینات کیا گیا۔ اس وقت پنجاب آرمڈ پولیس (پی اے پی) ریڈکلف لائن کی حفاظت کرتی تھی۔

سال ۱۹۶۵ میں پی ای پی کو بی ایس ایف میں ضم کر دیا گیا اور انہیں لاہول اسپتی میں تعینات کیا گیا، جو اس وقت پنجاب کا حصہ تھا۔ انہوں نے محکمہ تعمیرات عامہ کے ساتھ بی ایس ایف کے پل کے تعمیراتی کاموں میں حصہ لیا۔ بعد میں انہیں سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ وہ ترقی کرتے کرتے بی ایس ایف کے اسسٹنٹ کمانڈنٹ کے عہدے تک پہنچے۔

Left: Pannu in uniform in picture taken at Kalyani in West Bengal, in 1984.
PHOTO • Courtesy: Kirpal Singh Pannu
He retired as Deputy Commandant in 1988 from Gurdaspur, Punjab, serving largely in the Border Security Force (BSF) in Jammu and Kashmir . With his wife, Patwant (right) in 2009
PHOTO • Courtesy: Kirpal Singh Pannu

بائیں: سال ۱۹۸۴ میں مغربی بنگال کے کلیانی میں لی گئی تصویر میں وردی پہنے ہوئے پَنّو۔ وہ ۱۹۸۸ میں پنجاب کے گرداس پور سے ڈپٹی کمانڈنٹ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) میں انہوں نے اپنی زیادہ تر خدمات جموں و کشمیر میں انجام دیں۔ سال ۲۰۰۹ میں اپنی بیوی پتونت (دائیں) کے ساتھ

ان کا کہنا ہے کہ ادب اور شاعری سے ان کی محبت ان کے خیالات کی آزادی اور سرحدوں پر ان کی زندگی سے پروان چڑھی، جہاں وہ گھر سے محروم رہے۔ انہوں نے اپنی بیوی کے لیے ایک شعر پڑھا:

’’پل وی سہیا نہ جاوے وے تیری جدائی آ سچ اے
پر ایداں جدائیاں وچ ہی ایہ بیت جانی اے زندگی۔‘‘

[کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جب میں تیری جدائی میں مرتا نہیں ہوں، لیکن اسی جدائی کی حالت میں میری زندگی ختم ہو جانی ہے۔]

کھیم کرن میں بی ایس ایف کے کمپنی کمانڈنٹ کے طور پر تعیناتی کے دوران انہوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب اقبال خان کے ساتھ ایک روایت شروع کی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ان دنوں سرحد کے دونوں طرف کے لوگ سرحد کا دورہ کرتے تھے۔ پاکستانی مہمانوں کو چائے پیش کرنا میری ذمہ داری تھی اور وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ ہندوستانی مہمان ان کی طرف چائے پئے بغیر کبھی واپس نہ جائیں۔ چائے کے چند کپ زبان کو میٹھا اور دلوں کو نرم کر دیتے تھے۔‘‘

پَنّو نے آخر اپنی گرومکھی سے شاہ مکھی رسم الخط کی منتقلی ڈاکٹر کلبیر سنگھ ٹِھنڈ کو دکھائی، جو ایک نیورولوجسٹ ہیں، اور پنجابی ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔ انہوں نے بعد میں پنو کے ٹرانسلٹریشن کو اپنی ویب سائٹ شری گرنتھ ڈاٹ او آر جی پر اپ لوڈ کیا۔ پَنّو کہتے ہیں، ’’یہ کئی سال سے وہاں موجود تھا۔‘‘

سال ۲۰۰۰  میں ڈاکٹر گربچن سنگھ نے شری گرو گرنتھ صاحب کے لیے فارسی حروف کو عربی ورژن میں استعمال کیا۔ ایسا کرتے وقت انہوں نے پَنّو کے تیار کردہ پروگرام کو استعمال کیا۔

Left: The cover page of Computran Da Dhanantar (Expert on Computers) by Kirpal Singh Pannu, edited by Sarvan Singh.
PHOTO • Courtesy: Kirpal Singh Pannu
Right: More pages of the Shri Guru Granth Sahib in both scripts
PHOTO • Courtesy: Kirpal Singh Pannu

بائیں: کرپال سنگھ پَنّو کی کتاب کمپیوٹراں دا دھننتر (کمپیوٹر کے ماہر) کا سرورق، جس کی تدوین سرون سنگھ نے کی۔ دائیں: دونوں رسم الخط میں شری گرو گرنتھ صاحب کے انگ (صفحات)

اس کے بعد پَنّو نے پنجاب کے سب سے قابل احترام انسائیکلو پیڈیا ’مہان کوش‘ کے ٹرانسلٹریشن کا کام کیا، جسے بھائی کاہن سنگھ نابھا نے ۱۴ سالوں میں مرتب کیا تھا، جو بنیادی طور پر گرومکھی میں تیار کی گئی تھی۔

انہوں نے ۱۰۰۰ صفحات پر مشتمل شاعری کی کتاب ’ہیر وارث کے شعروں کا حوالہ‘ کا گرومکھی میں ترجمہ بھی کیا۔

پاکستان کی شکر گڑھ تحصیل (جو ۱۹۴۷ سے پہلے ہندوستان کے گرداس پور ضلع کا حصہ تھی) سے تعلق رکھنے والی ۲۷ سالہ صحافی صبا چودھری نے کہا کہ اس خطے کی نئی نسل بمشکل پنجابی جانتی ہے، کیونکہ اسے پاکستان میں اردو بولنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اسکول کے نصاب میں پنجابی نہیں پڑھائی جاتی۔ یہاں کے لوگ گرومکھی نہیں جانتے اور نہ ہی میں جانتی ہوں۔ صرف ہماری پچھلی نسلیں اس سے واقف تھیں۔‘‘

پنو کے لیے یہ سفر ہمیشہ حوصلہ افزا نہیں تھا۔ سال ۲۰۱۳ میں کمپیوٹر سائنس کے ایک پروفیسر نے ٹرانسلٹریشن کے اس کام پر اپنا دعویٰ پیش کیا، جس کی وجہ سے پَنّو نے ان کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے ایک کتاب لکھی۔ انہیں ہتک عزت کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ نچلی عدالت کی جانب سے پَنّو کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد وہ فیصلہ اپیلی عدالت میں زیر التوا ہے۔

پَنّو کے پاس برسوں کے کام کا نتیجہ دیکھ کر خوش ہونے کی کئی وجہیں ہیں، جس نے تقسیم کے گہرے زخموں میں سے ایک کو بھرنے میں کچھ مدد کی ہے۔ پنجابی زبان کا سورج اور چاند – یہ دونوں رسم الخط – سرحدوں کے آر پار ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں اور کرپال سنگھ پَنّو وہ ہیرو ہیں جنہوں نے دونوں طرف محبت اور چاہت کی اس زبان کو سمجھنے میں مدد کی ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Amir Malik

ਆਮਿਰ ਮਿਲਕ ਇੱਕ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ ਤੇ 2022 ਦੇ ਪਾਰੀ ਫੈਲੋ ਹਨ।

Other stories by Amir Malik
Editor : Kavitha Iyer

ਕਵਿਥਾ ਅਈਅਰ 20 ਸਾਲਾਂ ਤੋਂ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ। ਉਹ ‘Landscapes Of Loss: The Story Of An Indian Drought’ (HarperCollins, 2021) ਦੀ ਲੇਖਕ ਹਨ।

Other stories by Kavitha Iyer
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam