عزیز قارئین،
پاری ( www.ruralindiaonline.org ) کے لیے یہ ایک مصروف سال رہا۔
ایسے میں جب کہ ۲۰۲۳ اب ختم ہونے والا ہے، پاری کی ٹیم نے اس سال شائع کی گئی اپنی اہم رپورٹوں اور تصویروں کا جائزہ لینے کا منصوبہ بنایا ہے، جسے آئندہ نو دنوں تک روزانہ شائع کیا جائے گا۔ پاری کی ان مخصوص رپورٹوں کا انتخاب ہمارے ایڈیٹروں کی پسند کے مطابق کیا گیا ہے، اور یہ رپورٹ اسٹوریز، نظموں، موسیقی اور خاکہ نگاری، فلموں، تصاویر، لائبریری، چہروں، سوشل میڈیا اور طلباء کے ساتھ ہماری تخلیقی شراکت داری پر مرکوز ہوگی۔
اس مدت میں ہم نے ملک کے کونے کونے سے بھیجی گئی رپورٹوں کو شائع کیا، اور اس سال شمال مشرق سمیت ان میں متعدد نئے مقامات کو شامل کرنے کا کام بھی کیا۔ زرعی شعبے میں ہماری کوریج کے موضوعات میں چنبیلی کے پھول، تل، سوکھی مچھلیاں اور کئی دوسری چیزیں شامل کی گئی ہیں، جس پر اپرنا کارتکیئن نے پوری گہرائی سے تحقیق کی ہے۔ جے دیپ ہرڈیکر کی رپورٹوں کی شکل میں انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان مسلسل ٹکراؤ کے سبب زراعت پر پڑنے والے اثرات سے متعلق ایک دلچسپ سیریز پڑھی جا سکتی ہے۔ ان ٹکراؤ کے سنگین نتائج سے جانوروں کی پناہ گاہوں (سینکچریز) کے ارد گرد رہنے والے لوگوں کو گزرنا پڑا ہے – ہمارے لیے یہ کسی ’خشک سالی‘ سے کم خطرناک نہیں ہے۔
پلنی کمار نے مجسمہ سازوں، ٹرانس اداکاروں اور تمل ناڈو کے ماہی گیروں جیسے حاشیہ پر زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی حیرت انگیز تصویریں لیں۔ رتائن مکھرجی اور مزمل بھٹ نے مویشی پروروں اور چرواہوں کے ساتھ کشمیر اور لداخ کے دورے کیے اور اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں پر کام کرتے ہوئے ان کی نایاب تصویریں لیں، جب وہ ماحولیاتی تبدیلی کی دشواریوں کا سامنا کر رہے تھے۔ جیوتی شنولی نے مہاراشٹر کے دیہی علاقوں کی عام زندگی سے متعلق ایسے بے شمار سوال اٹھائے جن کا سیدھا تعلق نا انصافی اور غیر برابری سے تھا، دوڑ لگانے والے نوجوانوں، مہاجر مزدوروں اور کئی دیگر مسائل ان میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ، بہار کی موسہر برادری اور زہریلی شراب پینے سے ہونے والی اموات پر پاری فیلو اُمیش کمار رائے کی تحریر کردہ سنسنی خیز سیریز بھی ہم نے شائع کی۔
سال گزشتہ میں ہم نے کمیونٹیز اور تحفظ سے متعلق نئی اور معنی خیز رپورٹنگ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ وشاکھا جارج نے مشرقی ہمالیہ میں پرندوں کی نایاب نسل – بوگون لیوچیکلا کو درپیش خطرات اور اسے روکنے کے لیے جاری مقامی لوگوں کی کوششوں اور ان کی حساسیت پر تفصیلی رپورٹ لکھی ہے؛ پریتی ڈیوڈ نے راجستھان میں تیزی سے غائب ہوتے گوڈاون (تغدار پرندہ، گریٹ انڈین بسٹرڈ) اور قابل تجدید توانائی کے پلانٹوں کے ذریعہ قبضہ کیے گئے مقدس باغات کی اہم کوریج کی۔
ہم نے نیوز اسٹوریز کو ان کی سنجیدگی کی بنیاد پر اہمیت دینے کا کام کیا۔ ہم مہاراشٹر کے کسانوں کے احتجاجی مظاہرے میں ان کے ساتھ چلے، اور اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے آدیواسیوں اور ہڑتال کر رہی آنگن واڑی ملازمین کے ساتھ بات چیت کی۔ ہم نے اتنی ہی مستعدی سے دسمبر ۲۰۲۳ میں مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات کو کور کیا۔ پارتھ ایم این نے بلڈوزر کا قہر جھیلتے مظلومین کے حالات سے ہمیں واقف کرایا، اور انتخابی میدان میں اترنے کی تیاری کرتی ان ریاستوں میں آدیواسیوں پر ہونے والے مظالم اور پولیس کی حراست میں ہوئی اموات پر رپورٹ لکھی۔
زمینی رپورٹنگ کرنے کے سلسلے میں جب اسمیتا کھٹور مرشد آباد کی بیڑی مزدوروں پر رپورٹ لکھ رہی تھیں، تب ان کا تعارف خواتین کے گیتوں اور بچوں کے ڈراموں سے ہوا۔ کچھ ذاتی تجربات پر بھی مبنی رپورٹیں لکھی گئیں۔ مثال کے طور پر، خود بھی ایک ٹیچر کے طور پر فعال میدھا کالے نے معذور شکار افراد کو تعلیم فراہم کرنے والے مخصوص اساتذہ پر مرکوز شاندار کوریج کی۔ ہمارے نامہ نگاروں نے دیہی ہندوستان کے تہواروں اور تقاریب کو نہ صرف قریب سے دیکھا، بلکہ انہیں دستاویزی شکل بھی دی، مثلاً ماں بون بی بی، شیلا نرتیہ، چادر بادنی، پِلی ویشا وغیرہ۔ ساتھ ہی ’آخر کس کی آہٹ سے دھڑکے گا ان درگاہوں کا دل؟‘ جیسی رپورٹ بھی ہم نے شائع کی۔
اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ پاری کے رکن ہندوستان کے الگ الگ علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں، ہم نے بے سہارا ’گگ ورکر (جز وقتی ملازم)‘، مہاجر مزدوروں اور ان کے ذریعہ بولی جانے والی زبانوں اور الفاظ، اور یہاں تک کہ دیہی ہندوستان کے دور افتادہ علاقوں میں رہنے والی خواتین کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے ’فرصت کے لمحات‘ کو درج کرنے والی رپورٹیں شائع کیں۔ اگلے سال ہم ایسی مزید رپورٹیں شائع کریں گے، ہمیں اس بات کی قوی امید ہے۔
نمیتا وائیکر کے ذریعہ شروع کیے گئے ’گرائنڈ مل سانگس پروجیکٹ‘ (جی ایس پی)، جس پر پاری کو فخر ہے، ایک ایسا تحفہ ہے جس نے اس سال بھی اپنے شاندار ویڈیو کے ذریعہ ہمیں مالا مال کرنا جاری رکھا۔ سال ۲۰۲۳ میں ہم نے کچھّ کے رن سے جمع کیے گئے گیتوں کی ریکارڈنگ کے ذریعہ اپنے مجموعہ میں مزید اضافہ کیا۔ ان گیتوں کی پیشکش کی ذمہ داری شاعرہ پرتشٹھا پانڈیہ نے سنبھالی۔
کنیکا گپتا کی نگرانی میں پاری نے اوڈیشہ کے دیہی علاقوں کے آدیواسی اسکولی بچوں کے ذریعہ بنائی گئی پینٹنگز کو جگہ دی۔ خاکہ نگار لابنی جنگی نے مغربی بنگال کی دیوچا پاچامی کوئلہ کان میں خواتین کے احتجاجی مظاہرہ کو کور کرتے ہوئے رپورٹ تیار کی، جو خاکہ نگاری کے ذریعے بیان کردہ پہلی اسٹوری تھی۔
پاری - ایم ایم ایف کے ساتھیوں نے شدید محرومیوں کے شکار دستکاروں اور کاریگروں کی تکلیفوں کو درج کرنے کا کام کیا۔ مہاراشٹر میں سنکیت جین نے چھوٹے گاؤں میں رہنے والے اُن غیر معروف کاریگریوں پر رپورٹ لکھی جو جھونپڑی اور جالی کے علاوہ کئی اور چیزیں بناتے ہیں۔ شروتی شرما نے دستکاری کے ذریعہ کھیل کے سامان بنانے کے ہنر کے علاوہ اس کے تاریخی، سماجی و ثقافتی پس منظر کے بارے میں لکھا۔ آسام کے ماجولی سے پرکاش بھوئیاں نے وہاں کی راس لیلا کی روایت پر رپورٹنگ کی۔ شمالی کیرالہ سے سنگیت شنکر نے تول پاوکوت کی روایت اور فیصل احمد نے کرناٹک میں تلوناڈو کے بھوتوں پر کوریج کی۔
آندھرا پردیش سے رپورٹنگ کرتے ہوئے پاری کی فیلو امرتا نے قرض میں ڈوبے خاندانوں پر رپورٹنگ کی اور صنفی غیر برابری پر مبنی ہماری لگاتار رپورٹوں کی ترجیح کو ایک نئی جہت بخشی۔
مذکورہ موضوعات کے علاوہ پاری کے پرانے اور موجودہ نامہ نگاروں نے ہماری اسٹوری کے مجموعہ میں بیش بہا اضافہ کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ پرشوتم ٹھاکر نے چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ سے رپورٹنگ کرتے ہوئے ہمیں آدیواسی برادریوں کی زندگی، معاش اور تہواروں پر مبنی اہم تصویریں اور ویڈیو بھیجے۔ شالنی سنگھ نے یمنا ندی سے بے گھر کیے گئے کسانوں اور اُروَشی سرکار نے کیکڑا پکڑنے سے متعلق سندر بن کے ایک سہ ماہی رسالہ پر منفرد رپورٹنگ کی۔ کویتا ایئر نے اوڈیشہ میں دیہی اسکولوں کے بند ہونے، ایس سینتھالر نے بیلاری کی خواتین کان مزدوروں، شویتا ڈاگا نے ہماچل پردیش کی پرائڈ پریڈ، جگیاسا مشرا نے دلہنوں کی خرید و فروخت کی روایت اور اُمیش سولنکی نے چھلنی اور لفافے جیسے متعدد موضوعات پر لکھا۔ آکانکشا اور اسمیتا تمولورو نے بالترتیب ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں گا بجا کر پیٹ بھرنے والوں اور تمل ناڈو میں قلا بازیاں دکھانے والوں پر لکھا۔
ہمارے لیے ڈاکٹر نتیہ راؤ اور ڈاکٹر او وی تھوراٹ جیسے دانشوروں اور ماہرین تعلیم نے کڈلور میں مچھلیوں کی وسیع دنیا اور ہمالیہ میں مویشی پروری جیسے موضوعات پراسٹوری لکھی۔ ان اسٹوریز کے علاوہ، انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ طلباء نے بھی پاری کے لیے اُن موضوعات پر کافی رپورٹنگ کی، تاکہ ان لوگوں اور برادریوں کے بارے میں بہتر سمجھ پیدا کر سکیں جن کا وہ مطالعہ کر رہے ہیں، مثلاً ڈی نوٹیفائیڈ یا نیم خانہ بدوش قبائل، بہار کے دیہی علاقوں میں رقص کرنے والی لڑکیاں، کوچی کے دھوبی مرد و عورت وغیرہ۔ ہائی اسکول کے ایک اسٹوڈنٹ نے دیہی ہندوستان کے ایک ڈاکیہ (پوسٹ مین) پر بھی ایک خوبصورت رپورٹ لکھی۔
اب ہم سال ۲۰۲۳ میں پاری کی بہترین رپورٹوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔ دلکش اور شاندار تصویروں کے ساتھ یہ جھلکیاں اگلے ہفتے کے بعد بھی کچھ دنوں تک چلتی رہیں گی۔
ہم موسیقی، نظموں اور گیتوں کے ساتھ جھلک پیش کرنے کی شروعات کر رہے ہیں، جس نے اس سال ہمارے آرکائیو کو بیش قیمتی بنانے کا کام کیا ہے۔ اس کے بعد ہماری لائبریری ٹیم کی باری آتی ہے، جو ہمیں یہ بتائے گی کہ ہماری سینکڑوں رپورٹوں میں نشان زد کیے جانے کے لائق کون سی رپورٹ ہے۔ پاری فلم ٹیم نے کامیاب فلمیں بنائی ہیں، اور متعدد فلم سازوں اور ویڈویو گرافر کے یو ٹیوب پلے لسٹ میں شامل ہونے کی راہ ہموار کی ہے۔ پاری ٹیم کے ذریعہ بنائی گئی سب سے اہم فلمیں شریا کاتیائنی کے ذریعہ مدرسہ عزیزیہ میں آگ لگانے کا واقعہ، اور اورجا کے ذریعہ جیسلمیر میں اورنوں کو بچانے کی جدوجہد پر مبنی ہے۔ ردّی بیننے والوں کو اُن کے حقوق سے محروم کر دیے جانے پر کویتا کارنیرو کے ذریعہ بنائی گئی فلم پاری کی بہترین فلموں میں شامل ہے۔ آنے والے سالوں میں ہم ایسے متعدد اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے، ایسی امید ہے۔
’پاری پر شائع ہونے والی تمام اسٹوریز ہمارے لیے ۱۴ دیگر ہندوستانی زبانوں میں دستیاب ہوتی ہیں۔‘ ہم اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کسی اسٹوری کا ترجمہ آپ کو پوری طرح خامیوں سے پاک حالت میں دستیاب ہو۔ یہ ہمارے کام کاج کے جمہوری طریقہ کار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پاری بھاشا – جو ہمارے ترجمہ نگاروں اور زبان کے با صلاحیت ایڈیٹروں کی ٹیم ہے – کی کوششوں سے یہ ممکن ہو پاتا ہے۔ ان کے کرداروں پر بھی اس اختتام سال کی پیشکش میں بات چیت ہوگی۔
تصویروں کو پاری میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سال ۲۰۲۳ میں ہماری تصویروں کا انتخاب دیکھئے، اور اس بات پر غور کیجئے کہ طلباء کے لیے پاری انٹرن شپ کی کیا اہمیت ہے۔ ہماری سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعہ تیار کردہ پورے سال دکھائی گئی ریلز کا موقع بھی کسی حال میں نہ گنوائیں۔ آخر میں، ہم اس سال کا اختتام کرتے ہوئے ایڈیٹروں کی پسند پر مبنی پاری پر موجود کچھ چنندہ ’چہرے‘ بھی شائع کریں گے۔ یہ ہمارا منفرد پروجیکٹ ہے جو ہندوستانی چہروں کے تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔
سال ۲۰۲۳ کے اختتام کے ساتھ، ہمیں ملے قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ اور انعامات کی تعداد گزشتہ نو سالوں میں بڑھ کر ۶۷ تک جا پہنچی ہے۔ دسمبر میں یو این کرسپانڈنٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے پاری کی شریک کار بانی شالنی سنگھ کو ملا انعام اس فہرست میں تازہ ترین ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ ایوارڈ پر پہلا حق عام لوگوں کا ہے، جو ہم سے اور ہمارے نامہ نگاروں سے اپنی زندگی اور جدوجہد کے تجربات کا دل کھول کر اشتراک کرتے ہیں، کیوں کہ ان کے تعاون کے بغیر اُن اسٹوریز، ویڈیوز، تصاویر اور ترجمے پر کام کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
پاری کے ایڈیٹر، نامہ نگاروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ وہ نامہ نگاروں کو ضروری مشورے دیتے ہیں اور ان کے ساتھ تال میل قائم کرکے کسی بھی رپورٹ کی حتمی شکل و صورت تیار کرتے ہیں۔ ان کا ہونا پاری کے لیے کافی معنی رکھنا ہے، اور ان میں انگریزی اور ہندوستانی زبانوں کے ایڈیٹر، فوٹو ایڈیٹر اور فری لانس ایڈیٹر شامل ہیں۔
ایک آن لائن رسالہ شائع کرنے کے ساتھ ساتھ ایک آرکائیو بنانے کا کام پاری ڈیسک کے بغیر ناممکن تھا، جس نے ایڈٹنگ، حقائق کی تصدیق اور خاکہ تیار کرنے کے کام کو انجام دیا۔ وہ نامہ نگاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی شروعات کے ساتھ رپورٹ تیار کرنے کے آخری عمل تک اپنی ادارت کے باریک کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ اشاعت کا کوئی کام ان کے بغیر ادھورا ہے اور وہ اس چیلنج بھرے کام کو کامیابی سے انجام دیتے ہیں۔
ہم اپنی باقاعدہ اشاعت کے ساتھ نئے سال ۲۰۲۴ کی ۲ جنوری کو واپس لوٹیں گے۔ اور، آپ قارئین کو اگرتلہ کے میلہ کا ’موت کا کنواں‘، بہار کے چھاپہ کاریگر، مہاراشٹر میں ہو رہی فرقہ وارانہ کارروائیاں، میرٹھ کے لوہا مزدور اور متعدد دیگر اسٹوریز پڑھنے کو ملیں گی۔
اگلے سال ہم زیادہ سے زیادہ اسٹوریز کے ساتھ موجود ہوں گے۔ ہم اپنی رپورٹنگ کے معیار کو مزید بہتر کریں گے، اچھی تصویروں اور ویڈیو کی شوٹنگ ہمارا ہدف ہوگا، اور ہم اس کے ہنر کو بھی بہتر کریں گے، تاکہ عام لوگوں کی روزمرہ کی زندگیوں کے اور بھی پہلوؤں کو سامنے لایا جا سکے۔
شکریہ!
پاری ٹیم
مترجم: محمد قمر تبریز