آسامی تہوار رونگالی بیہو کے نزدیک آتے ہی کرگھے کے پائدانوں اور نالوں (شٹلز) کی فریم سے ٹکرانے کی آوازیں اس پورے محلہ میں سنی جا سکتی ہیں۔
بھیلا پاڑہ کے علاقہ کی ایک پُرسکون گلی میں پٹنی دیوری اپنے کرگھے پر کام میں مصروف ہیں۔ وہ بجرجھار گاؤں کے اپنے گھر میں اینڈی گاموسا (گمچھا) بن رہی ہیں۔ ان گمچھوں کو اپریل ماہ کے آس پاس پڑنے والے آسامی نئے سال کے لیے وقت پر تیار کرنا ضروری ہے۔
لیکن یہ معمولی گمچھے نہیں ہیں۔ ان گمچھوں کو اس ۵۸ سالہ دستکار نے تیار کیا ہے، جو ان پر پھولوں کے پیچیدہ نقش ابھارنے کے لیے مشہور ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے پاس بیہو سے پہلے ۳۰ گمچھے مکمل کرلینے کے آرڈر ہیں، کیونکہ اس موقع پر لوگ انہیں مہمانوں کو تحفہ کے طور پر دیتے ہیں۔‘‘ گمچھوں – تقریباً ڈیڑھ میٹر لمبے کپڑے کے بُنے ہوئے ٹکڑوں – کی آسامی ثقافت میں کافی اہمیت ہے۔ خاص طور پر تہواروں کے دوران مقامی لوگوں کے درمیان ان کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ اس کے سرخ دھاگے تہواروں کی خوشی کو ظاہر کرتے ہیں۔
’’کپڑوں کے تانے بانے میں پھولوں کے نقش ابھارنا میرا جنون ہے۔ میں اپنے کپڑوں پر کسی بھی پھول کا ڈیزائن بنا سکتی ہوں۔ مجھے اس پھول کو صرف ایک بار دیکھنا ہوتا ہے،‘‘ دیوری فخریہ انداز سے مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔ دیوری برادری کو آسام میں درج فہرست قبائل کے طور پر درج کیا گیا ہے۔
آسام کے مازبت سب ڈویژن کے اس گاؤں کے بُنکر ریاست کے ۶۹ء۱۲ لاکھ ہتھ کرگھا گھرانوں کا حصہ ہیں، جن میں ۱۲ لاکھ سے زیادہ بنکر آباد ہیں۔ یہ تعداد ملک کی کسی بھی ریاست کی بنکر آبادی سے زیادہ ہے۔ آسام کرگھا پر مصنوعات تیار کرنے والی ملک کی سرفہرست ریاستوں میں بھی شامل ہے، خاص طور پر ریشم کی چار اقسام ایڑی، موگا، شہتوت اور ٹسر کے معاملے میں۔
دیوری ایری (کپاس اور ریشم دونوں) کا استعمال کرتی ہیں۔ اسے مقامی بوڈو زبان میں ’اینڈی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ’’میں نے اپنی ماں سے چھوٹی عمر میں ہی بُنائی سیکھ لی تھی۔ جب سے میں نے خود کرگھے کو سنبھالنا سیکھ لیا، اس کے بعد سے ہی بُنائی شروع کر دی۔ اور تب سے میں یہ کام کر رہی ہوں،‘‘ اپنے کام میں مہارت رکھنے والی دیوری کہتی ہیں۔ وہ گمچھا اور پھولم گمچھا (دونوں طرف پھولوں کے ڈیزائن والے آسامی تولیے)، میکھلا چادر (خواتین کے لیے دو ٹکڑوں کا روایتی آسامی لباس) اور اینڈی چادر (ایک بڑی شال) بُن سکتی ہیں۔
اپنی مصنوعات کی فروخت میں اضافہ کے لیے انہوں نے ۱۹۹۶ میں ایک سیلف ہیلپ گروپ (ایس ایچ جی) قائم کیا تھا۔ ’’جب ہم نے بھیلا پاڑہ کھودرا سنچوئے [چھوٹی بچت] ایس ایچ جی کی بنیاد رکھی، تو میں نے جو کچھ بنایا تھا اسے بیچنا شروع کر دیا،‘‘ وہ اپنی کارجوئی پر فخر کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
لیکن دیوری جیسے بنکر یہ محسوس کرتے ہیں کہ سوت کی خریداری بہتر کمائی کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سوت خریدنے کے لیے انہیں اپنی استطاعت سے زیادہ سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے وہ کمیشن پر کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں، جہاں وہ دکانداروں یا وینڈروں سے سوت حاصل کرتی ہیں اور وہی بتاتے ہیں کہ انہیں کیا بنانا ہے۔ ’’گمچھے کے تانے بانے کے لیے مجھے کم از کم تین کلو سوت خریدنا پڑتا ہے۔ ایک کلو اینڈی کی قیمت ۷۰۰ روپے ہوتی ہے۔ میں ۲۱۰۰ خرچ کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ تاجر انہیں ایک ساتھ ۱۰ گمچھوں یا تین ساڑیوں کے لیے سوت دیتے ہیں۔ ’’میں اس پر کام کرتی ہوں اور جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔
مادھوی چَہریا کہتی ہیں کہ وہ بھی اپنے کام کی رفتار کم کر دیتی ہیں، کیونکہ وہ سوت کا ذخیرہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔ وہ دیوری کی پڑوسی ہیں، اور اپنے گمچھوں کی سُوت کی خریداری کے لیے دوسروں پر منحصر ہیں۔ ’’میرے شوہر یومیہ اجرت والے مزدور ہیں۔ انہیں کبھی کام ملتا ہے، کبھی نہیں ملتا۔ ایسی صورت میں، میں سوت نہیں خرید سکتی،‘‘ وہ پاری کو بتاتی ہیں۔
آسام میں ۶۹ء۱۲ لاکھ ہتھ کرگھا گھرانے ہیں اور ہاتھ سے بُنی ہوئی مصنوعات کی پیداوار کے معاملے میں یہ ریاست ملک کی سرفہرست ریاستوں میں شامل ہے
مادھوی اور دیوری جن حالات سے دوچار ہیں وہ غیرمعمولی نہیں ہیں: ریاست کے سبھی گھریلو بنکر ایسے ہی مسئلوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ یہ باتیں ڈبرو گڑھ یونیورسٹی کی ۲۰۲۰ کی رپورٹ میں کہی گئیں ہیں۔ یہ رپورٹ بلاسود قرضوں اور قرضوں کی بہتر سہولیات کی وکالت کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواتین بنکروں کے درمیان ایک مضبوط اور فعال تنظیم کی عدم موجودگی نے انہیں سرکاری اسکیموں، صحت بیمہ، قرضوں کی دستیابی اور بازار کے رابطوں سے بڑی حد تک دور رکھا ہے۔
’’میں تین دنوں میں ایک چادر بُن سکتی ہوں،‘‘ دیوری مزید کہتی ہیں۔ ایک درمیانے سائز کا گمچھا بننے میں دیوری کا پورا دن صرف ہو جاتا ہے۔ اور ہر کپڑے کے لیے انہیں ۴۰۰ روپے کی اجرت ملتی ہے۔ بازار میں آسامی میکھلا چادر کی قیمت ۵۰۰۰ روپے سے کچھ لاکھ روپے تک ہوتی ہے، لیکن دیوری جیسے دستکاروں کی ماہانہ آمدنی تقریباً ۶۰۰۰ سے ۸۰۰۰ روپے تک ہوتی ہے۔
بُنائی سے ہونے والی آمدنی سات افراد پر مشتمل ان کے کنبے کی کفالت کے لیے ناکافی ہے، اس لیے وہ ایک مقامی پرائمری اسکول میں بطور باورچی بھی کام کرتی ہیں۔ ان کے کنبے میں ان کے شوہر ۶۶ سالہ نبین دیوری کے علاوہ دو بچے ۳۴ سالہ راجونی اور ۲۶ سالہ رومی اور ان کے مرحوم بڑے بیٹے کی فیملی کے افراد شامل ہیں۔
چوتھی کل ہند ہتھ کرگھا سینسس (۲۰۱۹-۲۰۲۰) کے مطابق آسام کے تقریباً تمام (۷۹ء۱۱ لاکھ) بنکر خواتین ہیں، اور انہیں بنائی کے ساتھ ساتھ گھر کے دوسرے کام بھی کرنے پڑتے ہیں اور دیوری کی طرح کچھ دوسری نوکریاں بھی کرتی ہیں۔
چونکہ دیوری کے ذمے دن میں کئی دوسرے کام بھی ہوتے ہیں اس لیے ان کا دن جلدی شروع ہو جاتا ہے۔ وہ صبح ۴ بجے کرگھے کے سامنے بینچ پر بیٹھ جاتی ہیں، جس کے زنگ آلود پایوں کو توازن کے لیے اینٹوں پر رکھا گیا ہے۔ ’’صبح ساڑھے سات یا ۸ بجے تک کام کرنے کے بعد میں کھانا پکانے اسکول جاتی ہوں؛ ۲ اور ۳ بجے کے درمیان واپسی پر کچھ دیر آرام کرتی ہوں؛ اور شام کے ۴ بجے تک دوبارہ کام شروع کرکے رات ۱۰ سے ۱۱ بجے تک جاری رکھتی ہوں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
بنائی کے علاوہ دیوری کو سوت کی تیاری کا جسمانی محنت والا کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ ’’سوت کو بھگو کر اسے اسٹارچ میں ڈالنا ہوتا ہے اور پھر اینڈی کو مضبوطی دینے کے لیے اسے خشک کرنا ہوتا ہے۔ میں دھاگوں کو پھیلانے کے لیے بانس کے دو کھمبے گاڑتی ہوں۔ جب دھاگے تیار ہو جاتے ہیں، تو میں انہیں را [تانا بیلن] میں لپیٹ دیتی ہوں۔ پھر آپ کو تانا بیلن کو لوم کے بالکل آخر تک دھکیلنا ہوتا ہے اس کے بعد بنائی کرنے کے لیے آپ اپنے ہاتھ پاؤں چلاتے ہیں،" وہ بتاتی ہیں۔
دیوری کہتی ہیں کہ ان کے دونوں کرگھے روایتی انداز کے ہیں اور دونوں کرگھے تقریباً تین دہائی قبل خریدے گیے تھے۔ ان میں لکڑی کے فریم ہیں جو سپاری کے درخت کے دو کھمبوں پر ٹکے ہوئے ہیں۔ ان کے پائدان بانس سے بنے ہیں۔ روایتی انداز کے کرگھا استعمال کرنے والی بزرگ بنکر پیچیدہ ڈیزائنوں کے لیے بانس کی پتلی پٹیوں کے ساتھ ساتھ ناریل کے پتوں کے درمیانی ڈنٹھل کا استعمال کرتی ہیں۔ کسی ڈیزائن کو ابھارنے کے لیے وہ منتخب تانوں کے درمیان سے دھاگوں کو دستی طور پر گزارتی ہیں۔ کپڑے میں رنگین دھاگوں کی بنائی کے لیے پائدان کو دبانے کے بعد بانوں (عمودی دھاگوں) سے سیری (بانس کی پتلی پٹی) کو گزار کر بُنائی کرنی پڑتی ہے۔ یہ ایک وقت طلب عمل ہے اور اس سے ان کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔
اگرچہ ۲۰۱۷-۲۰۱۸ میں اپنائی گئی آسام حکومت کی ہینڈ لوم پالیسی کرگھوں کی تجدید کاری اور سوت کی فراہمی کو بہتر بنانے کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہے، لیکن دیوری کہتی ہیں کہ اس کام کے لیے انہیں کوئی مالی مدد نہیں ملی ہے۔ ’’ہینڈلوم ڈپارٹمنٹ سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ یہ کرگھے پرانے ہیں اور مجھے محکمہ سے کوئی فائدہ نہیں ملا ہے۔‘‘
ذریعہ معاش کے طور پر بُنائی جاری رکھنے سے قاصر، اُدلگڑی ضلع میں واقع ہٹی گڑھ گاؤں کی تارو بروا نے یہ کام چھوڑ دیا ہے۔ ’’میں بُنائی میں ماہر تھی۔ لوگ میرے پاس میکھلا چادر اور گمچھے بنوانے آتے تھے۔ لیکن پاور لومز اور سستی آن لائن مصنوعات سے مل رہی مسابقت کی وجہ سے میں نے اب بُنائی ترک کر دی ہے،‘‘ اپنے ترک شدہ ایری پلانٹیشن (جس میں اب ریشم کے کیڑے نہیں ہیں) کے نزدیک کھڑی ۵۱ سالہ تارو کہتی ہیں۔
’’میں اب لوگوں کو ہاتھ کے بنے کپڑے پہنتے نہیں دیکھتی۔ لوگ زیادہ تر پاورلوم والے سستے کپڑے پہنتے ہیں۔ لیکن میں صرف گھر میں بنے قدرتی دھاگوں سے بنے کپڑے پہنتی ہوں اور جب تک میں زندہ ہوں بُنائی کرتی رہوں گی،‘‘ ماکو (شٹل) کو آگے بڑھانے کے لیے پائدان پر زور دیتے ہوئے اور بڑی مہارت سے آسامی گمچھوں پر پھولوں کے ڈیزائن ابھارتے ہوئے دیوری کہتی ہیں۔
اس اسٹوری کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی فیلوشپ کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم