نرین ہزاریکا دھان کے ایک چمکدار سرسبز کھیت میں کھڑے ہو کر بڑے پیار سے گیت سناتے ہیں، جو کچھ ہی دنوں میں پک کر سنہرے رنگ کا ہو جائے گا۔ نرین (۷۰) دا کے ساتھ ڈھول پر ۸۲ سالہ جتین ہزاریکا اور تال پر ۶۰ سالہ رابن ہزاریکا ساتھ دے رہے ہیں۔ تینوں تیتابر سب ڈویژن میں واقع بالیجان گاؤں کے چھوٹے کسان ہیں۔ وہ اپنی نوجوانی میں بہترین بیہوا (بیہو فنکار) ہوا کرتے تھے۔
’’تمہاری باتیں ختم ہو جائیں گی، لیکن رنگالی [موسم بہار کا جشن] بیہو کے قصے نہیں ختم ہوں گے!‘‘
جیسے جیسے فصل کی کٹائی کا موسم (نومبر-دسمبر) قریب آتا ہے اور دھان کی فصل پک چکی ہوتی ہے، مقامی اناج کے گودام ایک بار پھر بورا ، جوہا ، اور آئیجنگ (چاول کی مقامی قسمیں) سے بھر جاتے ہیں۔ پیداوار کے ساتھ سوتیا برادری کی خوشی و طمانیت کا جذبہ بیہو نام (گیتوں) میں بیان ہوتا ہے، جو آسام کے جورہاٹ ضلع میں نسل در نسل چلی آ رہی وراثت کا اہم حصہ ہیں۔ سوتیا برادری کے لوگ یہاں کے قدیم باشندے ہیں، جو بڑے پیمانے پر زراعت پر منحصر ہیں اور بنیادی طور پر آسام کے اوپری علاقوں میں رہتے ہیں۔
آسامی میں ’تھوک‘ لفظ کا استعمال کسی چیز کی بہتات ہونے پر استعمال کیا جاتا ہے، جیسے بڑی مقدار میں سپاری (چھالیا)، ناریل اور کیلے کے بے شمار درخت۔ گیتوں میں ’مرمر تھوک‘ اور ’مرم‘ جیسے جملوں کا مطلب محبت ہے – جو محبت کے عوض حاصل ہوتا ہے۔ اس کاشتکار برادری کے لیے محبت کی یہ بہتات بھی بہت قیمتی ہے، اور کھیتوں کے درمیان تیرتی موسیقاروں کی آواز یہی کہتی ہے۔
’’گانے میں غلطی ہو، تو معاف کر دینا‘‘
وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل بھی موسیقی کی اس روایت کو اپنائے، تاکہ یہ وراثت دم نہ توڑے۔
’’اے محبوب،
سورج تو اپنی راہ پر تیار ہے کھڑا…‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز