سنتوش ہلدنکر کے پاس کوچرے گاؤں میں کبھی ہاپوس (الفانسو آم) کے ۵۰۰ درخت ہوا کرتے تھے، جو پھلوں سے لدے ہوتے تھے۔ لیکن، آم کا یہ باغ اب پوری طرح سے بنجر ہو چکا ہے۔
بے موسم بارش اور درجہ حرارت میں اچانک اتار چڑھاؤ کی وجہ سے مہاراشٹر کے سندھو دُرگ ضلع میں الفانسو (میگنی فیرا انڈیکا ایل) کی پیداوار کافی گھٹ گئی ہے۔ اس کی وجہ سے یہاں کے کسان اب کولہا پور اور سانگلی کے بازاروں میں بہت کم مقدار میں آم بھیج پا رہے ہیں۔
ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے الفانسو کی پیداوار کرنے والے سنتوش کہتے ہیں، ’’پچھلے تین سالوں میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پہلے ہم اپنے گاؤں سے بازار میں آم سے بھری ہوئی ۱۲-۱۰ گاڑیاں بھیجتے تھے، لیکن آج ایک گاڑی بھی نہیں بھیج پا رہے ہیں۔‘‘
یہ آم سندھو دُرگ کے وینگرلا بلاک میں پیدا ہونے والی تین اہم اشیاء میں سے ایک ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)۔ سنتوش بتاتے ہیں کہ خراب موسم نے اس بلاک میں الفانسو کے باغات کو اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ اس سال کی پیداوار آم کی اوسط پیداوار کا ۱۰ فیصد بھی نہیں ہے۔
کسان سورا ہلدنکر کہتی ہیں، ’’گزشتہ ۳-۲ برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ موسم کی تبدیلیوں کے نتیجہ میں تھرپس اور جیسڈز (جسے مینگو ہوپر یا آم کا کیڑا بھی کہا جاتا ہے) جیسے نئے کیڑوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے، جو آم کی فصل کو خراب کر دیتے ہیں۔
زراعت میں گریجویشن کرنے کے بعد کاشتکاری کو اپنا پیشہ بنانے والے نلیش پرب آموں پر تھرپس کے اثرات کا مطالعہ کرتے رہے ہیں اور انہوں نے پتہ لگایا ہے کہ ’’اُن (کیڑوں) پر کوئی بھی حشرہ کش اثر نہیں کرتا ہے۔‘‘
چونکہ پیداوار کافی گھٹ گئی ہے اور کوئی منافع بھی نہیں مل رہا ہے، اس لیے سنتوش اور سورا جیسے کسان نہیں چاہتے کہ اُن کے بچے اس پیشہ کو جاری رکھیں۔ ’’بازار میں آم کی قیمتیں بہت کم ہیں، تاجر ہمیں دھوکہ دیتے ہیں، اور اتنی محنت کرنے کے بعد بھی، ہم اپنی تمام آمدنی تبخیر (دھونی دینے) اور مزدوروں پر خرچ کر دیتے ہیں،‘‘ سورا کہتی ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز