’’کیا فرق پڑتا ہے کہ کون جیت رہا ہے؟ یا آئی پی ایل چل رہا ہے یا ورلڈ کپ؟‘‘
جس ملک میں کرکٹ کو مذہب مانا جاتا ہو، وہاں مدن کا یہ سوال اسے ناپاک کرنے والا ہے۔
حالانکہ، وہ اسے آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کوئی بھی جیتے، ہمیں کام مل جاتا ہے۔‘‘ مدن (۵۱ سالہ) کرکٹ کی گیندیں بناتے ہیں، اور میرٹھ شہر میں چمکدار لال اور سفید گیند بنانے والی ڈھیروں اکائیوں میں سے ایک کے مالک ہیں۔
مارچ کا مہینہ چل رہا ہے، اور ان کے چاروں طرف تقریباً ۱۰۰ باکس رکھے ہوئے ہیں، جن میں سے ہر ایک میں چھ چمڑے سے بنی گیندیں ہیں، جو مردوں کے کرکٹ کے اس مصروف ترین کیلنڈر میں کھیلے جانے کو تیار ہیں۔ دو مہینے تک چلنے والی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے لیے سیزن کی پہلی گیند مارچ کے آخر میں پھینکی جانی ہے۔ اس کے بعد، جون میں آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چمپئن شپ کا فائنل ہونا ہے۔ اکتوبر اور نومبر میں ہندوستان کو مردوں کے ایک روزہ بین الاقوامی ورلڈ کپ کی میزبانی کرنی ہے۔
مدن کہتے ہیں، ’’گیند کا استعمال کس سطح پر ہوگا، اس سے کون کھیلے گا، اس سے کتنے اوور پھینکے جائیں گے، یہ گیند کے معیار سے طے ہوگا۔‘‘
کرکٹ کو لے کر ملک کے جنون پر زور دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’بڑے ٹورنامنٹوں سے پہلے کھیل کے سامان کے تھوک اور خوردہ فروش پہلے ہی ہمارے پاس آ جاتے ہیں۔ دو مہینے پہلے مانگ کافی بڑھ جاتی ہے اور موقع کے حساب سے بڑے شہروں کی دکانیں گیندوں کا اسٹاک کر لینا چاہتی ہیں۔‘‘ یہ گیندیں ڈھائی سو روپے سے لے کر ساڑھے تین ہزار کے درمیان فروخت ہوتی ہیں، جو اس بات پر منحصر ہے کہ کھیل کون رہا ہے اور اس پر کتنا داؤ لگا ہے۔
مدن کو ممبئی، احمد آباد، بڑودہ، جے پور، بنگلورو اور پونے کی کرکٹ اکادمیوں، تقسیم کاروں اور خوردہ فروشوں سے سیدھے آرڈر ملتے ہیں۔ ان کی یونٹ میں بنی گیندوں کا استعمال نچلی سطح پر کھیل کی مشق اور میچوں کے لیے ہوتا ہے۔
ہم ان کی ورکشاپ میں ہیں اور ایک چھوٹے اور تھوڑی گھماؤدار ڈسپلے والے ٹی وی پر لائیو کرکٹ میچ آ رہا ہے۔ ٹی وی کی اسکرین آٹھ کاریگروں کی طرف ہے، جو خاموش تماشائی بن کر بیٹھے ہیں۔ مگر وہ اسے صرف سن ہی سکتے ہیں، ان کی نظریں اپنے کام پر ہیں۔ مدن بولتے ہیں، ’’ہمیں ابھی بالکل فرصت نہیں ہے۔‘‘
وہ اوسط معیار والی ۶۰۰ ٹو پیس کرکٹ گیندوں کے آرڈر کے لیے لوہے کے کلیمپ پر جھک کر سلائی کا مشکل کام کر رہے ہیں۔ خریدار مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر سے ہے اور انہیں تین دنوں میں یہ ڈیلیوری چاہیے۔
مدن چمکدار لال رنگ والی ایک گیند اٹھاتے ہیں، جسے بھیجا جانا ہے۔ ’’ایک گیند بنانے میں تین چیزیں لگتی ہیں – باہری حصے کے لیے پھٹکری سے گھسا گیا چمڑا، کارک سے بنا اندرونی حصہ [گولا] اور سلائی کے لیے سوتی دھاگہ۔ یہ تینوں چیزیں میرٹھ ضلع میں ہی مل جاتی ہیں، اور ’’ایک بار جب کوئی خریدار ہمیں اپنی معیار سے متعلق ضرورتیں بتاتا ہے، تب ہم اس کے مطابق چمڑے اور کارک کا انتخاب کرتے ہیں۔‘‘
ڈسٹرکٹ انڈسٹری پروموشن اینڈ انٹرپرینئر ڈیولپمنٹ سنٹر (ڈی آئی پی ای ڈی سی) کے مطابق، میرٹھ میں کرکٹ کی گیند بنانے والی ۳۴۷ اکائیاں ہیں۔ اس تعداد میں صنعتی علاقوں میں موجود بڑے کارخانے اور ضلع کے شہری اور دیہی رہائشی علاقوں میں واقع چھوٹی پروڈکشن اکائیاں شامل ہیں۔
حالانکہ، اس میں کئی ادھر ادھر موجود غیر منظم پیداواری مرکز اور گھریلو اکائیاں شامل نہیں ہیں، جہاں پوری گیندیں بنتی ہیں یا پھر کسی خاص کام کو کرایا جاتا ہے۔ ان میں میرٹھ ضلع کے پار موجود جنگیٹھی، گگول اور بھاون پور جیسے گاؤوں آتے ہیں۔ مدن کا کہنا ہے، ’’آج گاؤوں کے بغیر بالکل پورتی (سپلائی) نہیں ہوگی میرٹھ میں [کرکٹ کی گیندوں کی]۔‘‘
وہ بتاتے ہیں، ’’گاؤوں اور شہر کی بڑی فیکٹریوں میں زیادہ تر کاریگر جاٹو ہیں، کیوں کہ گیندیں چمڑے سے بنتی ہیں۔‘‘ سال ۱۹۰۴ کے ضلع گزیٹیئر کے مطابق، جاٹو یا چمار برادری (یوپی میں درج فہرست ذات کے طور پر درج) میرٹھ میں چمڑا صنعت میں کارکنوں کا سب سے بڑا سماجی گروپ تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’لوگوں کو کرکٹ کی گیند کی شکل میں چمڑے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر جب اس کے ساتھ کام کرنے کی بات آتی ہے، تو انہیں مسئلہ ہونے لگتا ہے۔‘‘
ان کی فیملی کے پاس شوبھا پور میں چمڑے کا کارخانہ بھی ہے۔ یہ ایک واحد علاقہ ہے، جہاں کرکٹ کی گیند کی صنعت کے لیے کچے چمڑے کو پھٹکری سے صاف کیا جاتا ہے (پڑھیں: میرٹھ کے چمڑا کاریگروں نے ابھی ہار نہیں مانی ہے )۔ وہ کہتے ہیں، ’’پھٹکری سے چمڑا صاف کرنے کی بڑھتی مانگ کو دیکھ کر مجھے لگا کہ کرکٹ کی گیندوں کی مانگ کبھی کم نہیں ہوگی۔‘‘ بازار کے اچھے حالات دیکھ کر ۲۰ سال پہلے انہوں نے ’میسرز بی ڈی اینڈ سنس‘ کی شروعات کی تھی۔ یہ علاقے میں کرکٹ کی گیند بنانے والی دو اکائیوں میں سے ایک ہے۔
مدن کہتے ہیں کہ ایک گیند بنانے میں لگنے والے گھنٹوں کا صحیح صحیح حساب لگانا مشکل ہے کیوں کہ کئی کام ساتھ چلتے ہیں۔ موسم اور چمڑے کا معیار بھی اس میں لگنے والے وقت پر اثر ڈالتا ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’دو ہفتے لگتے ہیں ایک گیند کو تیار ہونے میں کم از کم۔‘‘
مدن کی اکائی کے ملازم پہلے چمڑے کو پھٹکری سے صاف کرتے ہیں، لال رنگ میں رنگتے ہیں، دھوپ میں سُکھاتے ہیں، تیل یا جانوروں کی چربی سے چکنا کرتے ہیں اور پھر اسے نرم بنانے کے لیے لکڑی کے ہتھوڑے سے کچلتے ہیں۔ مدن کے مطابق، ’’سفید گیندوں کے لیے کسی رنگائی کی ضرورت نہیں پڑتی کیوں کہ پھٹکری سے صاف کی ہوئی کھال پہلے سے ہی سفید ہوتی ہے۔ ان کے لیے گائے کے دودھ سے بنے دہی کا استعمال چکنائی کے طور پر کیا جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا، ’’لائن سے کام ہووے ہے اور ایک کاریگر ایک ہی کام کرے ہے۔‘‘ کاریگر پھر چمڑے کو یا تو دو گول ٹکڑوں میں یا چار بیضوی ٹکڑوں میں کاٹتا ہے۔ کرکٹ کی گیندیں یا تو چمڑے کے دو ٹکڑوں سے یا پھر چار ٹکڑوں سے بنی ہوتی ہیں۔
مدن کا کہنا ہے، ’’یہ ٹکڑے یکساں موٹائی کے ہونے چاہئیں اور ان میں بالوں کے دانے بھی یکساں ہونے چاہئیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’اس وقت چھانٹنے میں غلطی ہو گئی، تو سمجھ لو کہ گیند ڈی شیپ ہوگا ہی۔‘‘
گیند بنانے کے جسمانی طور پر مشقت بھرے کام میں سب سے ہنر والا کام ہے ہاتھ سے سوتی دھاگوں سے چمڑے کی سلائی کرنا، جس کے سروں پر سؤر کے بال لگے ہوتے ہیں۔ مدن کہتے ہیں، ’’سوئیوں کی جگہ سخت بالوں کا استعمال ہوتا ہے، کیوں کہ وہ لچکدار اور مضبوط ہوتے ہیں اور اتنے تیز نہیں ہوتے کہ چمڑا کٹ جائے۔ وہ لمبے ہوتے ہیں، پکڑنے میں آسان ہوتے ہیں اور سلائی کرنے والوں کی انگلیوں میں بھی سوراخ نہیں کرتے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’لیکن صرف اسی چیز کی وجہ سے ہمارے مسلمان بھائی یہ کام نہیں کر سکتے۔ ان کو سؤر سے دقت ہوتی ہے نا۔‘‘
مدن کی اکائی میں گیند بنانے کے سب سے تجربہ کار کاریگر دھرم سنگھ کے مطابق، ’’چار ٹکڑوں والی گیند کے لیے تین طرح کے ٹانکے لگانے کے ہنر میں مہارت حاصل کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔‘‘ تقریباً ۵۰ سالہ دھرم سنگھ جموں و کشمیر کے گاہک کے آرڈر والی گیندوں پر وارنش لگا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جیسے جیسے ایک کاریگر ایک قسم کی سلائی سے دوسری قسم کی سلائی کی طرف بڑھتا ہے، ٹکڑے کی مزدوری بھی بڑھتی جاتی ہے۔‘‘ ہر اگلی سلائی کی الگ تکنیک ہوتی ہے اور الگ طرح کا کام کرتی ہے۔
پہلے چمڑے کے دو بیضوی ٹکڑوں کو اندر سے سلائی کے ذریعے جوڑ کر ایک گولہ یا کپ بنایا جاتا ہے، جسے مقامی طور پر پیس جڑائی کہا جاتا ہے۔ پہلی سلائی عام طور پر کوئی نو آموز کرتا ہے، جسے ہر گولے کے لیے ساڑھے سات روپے ملتے ہیں۔ دھرم بتاتے ہیں، ’’پیس جڑائی کے بعد کپ کو چمڑے کے پتلے ٹکڑوں کے ساتھ مضبوطی سے جوڑتے ہیں، جنہیں لپّے کہتے ہیں۔‘‘ گدے دار چمڑے کے گولوں کو پھر گولائی مشین کی مدد سے ایک سانچے میں ڈال کر متعینہ گول شکل دی جاتی ہے۔
کاریگر دونوں گولوں کو جوڑ کر بیچ میں دبی ہوئی گول کارک کے ساتھ دونوں طرف سے ٹانکے لگا کر ایک گیند بناتے ہیں، جسے کپ جڑائی کہا جاتا ہے۔ کپ جڑائی کی مزدوری ۱۷ سے ۱۹ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ ٹو پیس گیندیں بھی کپ جڑائی کے ذریعے ہاتھ کی سلائی سے نکلتی ہیں۔
دھرم کہتے ہیں، ’’دوسری سلائی کے مکمل ہونے کے بعد ہی ’بال‘ (گیند) لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلی بار چمڑا ایک گیند کی شکل لیتا ہے۔‘‘
دھرم نے تقریباً ۳۵ سال پہلے سورج کنڈ روڈ پر ایک فیکٹری میں گیند بنانے کا ہنر سیکھا تھا، جہاں ۱۹۵۰ کی دہائی میں کھیل کا سامنا بننا شروع ہوا تھا۔ ملک کی تقسیم کے بعد کھیل کے سامان کی صنعت سیالکوٹ (اب پاکستان میں) کے پناہ گزینوں نے قائم کی تھی، جنہیں میرٹھ میں سورج کنڈ روڈ اور وکٹوریہ پارک کے آس پاس کھیل کالونیوں میں بسایا گیا تھا۔ ’’میرٹھ کے آس پاس کے گاؤوں کے لوگ شہر گئے، ہنر سیکھا اور اسے واپس لائے۔‘‘
چار ٹکڑوں والی گیند کے لیے سلائی کا تیسرا مرحلہ سب سے اہم ہوتا ہے۔ اس میں پیچیدہ طریقے سے چار متوازی قطاروں میں گیند سلائی (سیم) کی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’سب سے اچھی گیندوں میں تقریباً ۸۰ ٹانکے ہوتے ہیں۔‘‘ ٹانکوں کی تعداد کی بنیاد پر ایک کاریگر کی کمائی فی گیند ۳۵ سے ۵۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ ٹو پیس گیندوں کے لیے مشین سے سلائی ہوتی ہے۔
دھرم کہتے ہیں، ’’اسپنر ہو یا تیز گیند باز، دونوں سیم کے سہارے ہی گیند پھینکتے ہیں۔‘‘ ایک بار جب سیم کے ٹانکے پورے ہو جاتے ہیں، تو گیند پر ابھری ہوئی سیم کو ہاتھ سے دبایا جاتا ہے اور پھر گیند پر وارنش اور مہر لگائی جاتی ہے۔ ’’کھلاڑی کیا پہچانتے ہیں؟ صرف چمکتی ہوئی گیند، سونے کی مہر کے ساتھ۔‘‘
مدن پوچھتے ہیں، ’’کرکٹ کی گیند کی ایک خاص بات بتائیے۔‘‘
وہ کہتے ہیں، ’’یہ واحد کھیل ہے جس کے فارمیٹ بدل گئے ہیں، لیکن گیند بنانے والا، گیند بنانے کی تکنیک، طریقہ اور چیزیں بالکل نہیں بدلیں۔‘‘
مدن کے کاریگر ایک دن میں اوسطاً ۲۰۰ گیندیں بنا سکتے ہیں۔ ایک گیند یا گیندوں کا ایک بیچ بنانے میں تقریباً دو ہفتے لگتے ہیں۔ چمڑے کی صفائی سے لے کر تیار گیند تک ’’کم از کم ۱۱ کاریگروں کا ہنر لگتا ہے، جیسے ۱۱ کرکٹر ایک ٹیم بناتے ہیں،‘‘ مدن اپنے اس موازنہ پر مسکرانے لگتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں، ’’مگر کھیل کا اصلی کاریگر تو کھلاڑی ہی ہووے ہے۔‘‘
رپورٹر اس اسٹوری میں بیش قیمتی تعاون کے لیے بھارت بھوشن کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔
یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز