’’ایس ڈی ایم [سب ڈویژنل مجسٹریٹ] جون میں آئے اور کہا، ’یہ رہا منتقلی کا نوٹس‘۔‘‘

بابو لال آدیواسی اپنے گاؤں گہدرا کے داخلی دروازہ پر کھڑے برگد کے بڑے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہیں – یہ وہ جگہ ہے جہاں برادری کی میٹنگیں ہوتی ہیں – اور یہی وہ مقام ہے جہاں ایک ہی دن میں ان کے لوگوں کا مستقبل بدل گیا ہے۔

مدھیہ پردیش میں پنّا ٹائیگر ریزرو (پی ٹی آر) کے گرد و نواح کے ۲۲ گاؤوں کے ہزاروں باشندوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ڈیم اور دریا کو جوڑنے والے منصوبے کے لیے اپنے گھر اور زمین سے دست بردار ہو جائیں۔ اس منصوبہ کے لیے حتمی ماحولیاتی اجازت نامہ ۲۰۱۷ میں ہی مل گیا تھا، اور اب نیشنل پارک میں درختوں کی کٹائی شروع ہو گئی ہے، اور زمین سے بے دخلی کے خوف نے زور پکڑ لیا ہے۔

دو دہائیوں سے زیر غور  کین اور بیتوا ندیوں کو ۲۱۸ کلومیٹر لمبی نہر سے جوڑنے کے اس منصوبہ کے لیے ۴۴۶۰۵ ​​کروڑ روپے ( پہلا مرحلہ ) مختص کیے گئے ہیں۔

اس منصوبہ کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ۳۵ سال سے آبی وسائل کے شعبہ سے وابستہ سائنسداں ہمانشو ٹھاکر کہتے ہیں، ’’اس منصوبہ کا کوئی جواز نہیں ہے، یہاں تک کہ ہائیڈرولوجیکل جواز بھی نہیں ہے۔  اول تو یہ کہ کین ندی میں اضافی پانی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی قابل اعتبار تخمینہ یا معروضی مطالعہ پیش نہیں کیا گیا ہے، صرف پہلے سے طے شدہ فیصلہ صادر کر دیا گیا ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

ٹھاکر جنوبی ایشیا ڈیم، ندی اور عوام کے نیٹ ورک (ایس اے این ڈی آر پی) کے کوآرڈینیٹر ہیں۔ وہ ندیوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے سال ۲۰۰۴ کے آس پاس وزارت آبی وسائل (اب جل شکتی) کے ذریعہ قائم کی گئی ماہرین کی کمیٹی کے رکن تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس منصوبہ کی بنیاد ہی حیران کن ہے: ’’ندیوں کو جوڑنے سے ماحولیات پر مرتب ہونے والے اثرات اور اس کے نتیجے میں جنگل، دریا، حیاتیاتی تنوع پر جو سماجی اثرات مرتب ہوں گے اس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ساتھ بندیل کھنڈ اور اس سے بعید بھی آبادیاں غربت کا شکار ہو جائیں گی۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: پنّا ضلع میں گہدرا گاؤں کے داخلا دروازہ پر کھڑا برگد کا درخت۔ یہ وہی مقام ہے جہاں منعقد ایک میٹنگ میں مقامی لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ اس گاؤں کو محکمہ جنگلات نے دریا کو جوڑنے کے منصوبہ کے لیے معاوضہ اراضی کے طور پر اپنی تحویل میں لیا ہے۔ دائیں: گہدرا کے بابو لال آدیواسی کا کہنا ہے کہ ان کی رضامندی نہیں لی گئی، صرف بے دخلی کی اطلاع دی گئی

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: مہاسنگھ راجبھور چھتر پور ضلع کے سکھواہا گاؤں کے ایک گلہ بان ہیں۔  ڈیم کی تعمیر کے بعد ان کا گاؤں ڈوب جائے گا۔ دائیں: گاؤں کی خواتین لکڑیاں جمع کرنے کے بعد گھر لوٹ رہی ہیں، یہ کھانا پکانے کا اہم ایندھن ہے

ڈیم کے ۷۷ میٹر اونچے آبی ذخیرہ میں ۱۴ گاؤوں ڈوب جائیں گے۔ یہ ڈیم باگھوں کی بنیادی رہائش گاہ کو غرق آب کرنے کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کی اہم راہداریوں کو بھی کاٹ دے گا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ریاست نے بابو لال کے گاؤں کی طرح آٹھ دیگر گاؤوں کو معاوضہ اراضی کے طور پر محکمہ جنگلات کی تحویل میں دے دیا ہے۔

اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ غیر معمولی نہیں ہے۔ دیہی ہندوستان میں لاکھوں لوگ، خاص طور پر آدیواسی، چیتوں، باگھوں ، قابل تجدید توانائی، ڈیموں اور کانوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے معمول کے مطابق بے گھر ہو رہے ہیں۔

اپنے ۳۶۸۲ باگھوں (۲۰۲۲ کی گنتی) کے ساتھ پروجیکٹ ٹائیگر اپنی شاندار کامیابی کے ۵۱ویں سال میں داخل ہوچکا ہے۔ اس کامیابی کے لیے ہندوستان کی مقامی جنگلاتی برادریوں کو بڑی قیمت چکانی پڑی ہے۔ مجموعی طور پر یہ برادریاں ملک کے سب سے زیادہ پسماندہ شہریوں میں سے ایک ہیں۔

سال ۱۹۷۳ میں ہندوستان میں باگھوں کے نو ریزرو (پناہ گاہ) تھے، آج ۵۳ ہیں۔ سال ۱۹۷۲ کے بعد ہر ایک اضافہ شدہ باگھ کے عوض ہم  نے جنگلوں میں آباد اوسطاً ۱۵۰ لوگوں کو بے گھر کیا ہے۔ یہ بھی اعداد و شمار کا ایک محتاط اندازہ ہے۔

یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، ۱۹ جون ۲۰۲۴ کو نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی (این ٹی سی اے) کی جانب سے جاری کردہ ایک خط میں مزید لاکھوں لوگوں  کو منتقل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔  این ٹی سی اے کے مطابق ملک بھر کے ۵۹۱ گاؤوں  کو ترجیحی بنیادوں پر منتقل کیا جائے گا۔

پنّا ٹائیگر ریزرو (پی ٹی آر) میں ۷۹ بڑی بلیاں ہیں اور جب ڈیم جنگل کے مرکزی علاقہ کے ایک بڑے حصہ کو غرق آب کر دے گا، تو اس کی تلافی کرنی ہی ہوگی۔ لہٰذا، گہدرا میں بابو لال کو اپنی زمین اور اپنا گھر باگھوں کے لیے دینا ہی ہوگا۔

صاف لفظوں میں کہیں تو ’معاوضہ‘ محکمہ جنگلات کو دیا جا رہا ہے، نہ کہ بے گھر ہونے والے گاؤں والوں کو، جو ہمیشہ کے لیے اپنے گھروں سے ہاتھ دھو لیں گے۔

PHOTO • Raghunandan Singh Chundawat
PHOTO • Raghunandan Singh Chundawat

پّنا ٹائیگر ریزرو کو اقوام متحدہ کے کرہ حیات ریزرو کے نیٹ ورک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ بہت سے زیر خطر جانوروں اور پرندوں کا مسکن ہے۔ ڈیم اور ندی کو جوڑنے کے منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد جنگل کا ساٹھ مربع کلومیٹر کا مرکزی علاقہ زیر آب آ جائے گا

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: پنّا ٹائیگر ریزرو کے اندر کل ۱۴ گاؤوں، جو کسانوں اور گلہ بانوں کے مسکن رہے ہیں، ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے۔ دائیں: گلہ بانی ایک اہم ذریعہ معاش ہے، اور یہاں سُکھواہا میں مقیم زیادہ تر کنبے جانور پالتے ہیں

’’ہم یہاں دوبارہ شجر کاری کریں گے،‘‘ پنّا رینج کی ڈپٹی فاریسٹ آفیسر، انجنا تِرکی کہتی ہیں۔ "ہمارا کام اسے گھاس کے میدان میں تبدیل کرنا اور جنگلی حیات کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘ وہ منصوبہ کے زرعی-ماحولیاتی پہلوؤں پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے مزید کہتی ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکام نے اعتراف کیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ صرف یہ کرسکتے ہیں کہ زیر آب آنے والے ۶۰ مربع کلومیٹر کے گھنے اور حیاتیاتی تنوع والے جنگل کی تلافی کے لیے شجرکاری کر سکتے ہیں۔ یہ یونیسکو کے ذریعہ پنا کو کرہ حیات ریزرو کے عالمی نیٹ ورک میں شامل کیے جانے کے صرف دو سال بعد ہوا ہے۔ قدرتی جنگلات سے تقریباً ۴۶ لاکھ درختوں کو کاٹنے (۲۰۱۷ میں جنگلاتی مشاورتی کمیٹی کے اجلاس کے تخمینہ کے مطابق) کے ہائیڈرولوجیکل مضمرات کیا ہوں گے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا گیا ہے۔

صرف باگھ ہی بدقسمت جنگلی جانور نہیں ہیں، بلکہ ہندوستان کے گھڑیالوں کی صرف تین پناہ گاہوں میں سے ایک مجوزہ ڈیم کی نشیب میں چند کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ علاقہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ یہاں ہندوستانی گدھ اپنا گھونسلا بناتے ہیں- یہ پرندے شدید خطرے سے دو چار آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے دیگر بڑے سبزی خور اور گوشت خور جانور ہیں جو اپنی رہائش سے محروم ہو جائیں گے۔

بابو لال ایک چھوٹے کسان ہیں، جن کے پاس آبپاشی کے لیے بارش پر منحصر چند بیگھہ زمین ہے۔ ان کے کنبے کی کفالت کا انحصار اسی قطعہ اراضی پر ہے۔ ’’چونکہ منتقلی کی کوئی تاریخ طے نہیں تھی، اس لیے ہم نے سوچا کہ کھانے کے لیے کچھ مکئی اگا لیں۔‘‘ جب وہ اور گاؤں کے سینکڑوں دوسرے لوگ اپنے کھیت تیار کر رہے تھے، اسی دوران جنگل کے رینجرز نمودار ہوئے۔ ’’انہوں نے ہمیں رکنے کو کہا۔ انہوں نے کہا، ’اگر آپ نہیں سنیں گے تو ہم ٹریکٹر لا کر آپ کی فصلوں کو روند دیں گے‘۔‘‘

پاری کو اپنی خالی پڑی زمین دکھاتے ہوئے بابو لال اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہیں، ’’نہ تو انہوں نے ہمیں ہمارا پورا معاوضہ دیا ہے تاکہ ہم نقل مکانی کر سکیں، اور نہ ہی یہاں قیام کرنے اور فصلیں اگانے کی اجازت دی ہے۔ حکومت سے ہماری گزارش ہے کہ  جب تک ہمارا گاؤں یہاں ہے، ہمیں اپنے کھیت جوتنے دیں… یا پھر ہم کھائیں گے کیا؟‘‘

آبائی گھروں کو کھونا ایک بڑا صدمہ ہے۔ پاری سے بات چیت کرتے ہوئے بظاہر فکرمند سوامی پرساد پروہار کہتے ہیں کہ ان کا خاندان گہدرا میں ۳۰۰ سالوں سے مقیم ہے۔ ’’ہمارے پاس کھیتی کی آمدنی تھی، مہوا، تیندو جیسی جنگلاتی پیداوار سے سال بھر ملنے والی آمدنی تھی…اب ہم کہاں جائیں گے؟ ہم کہاں مریں گے؟ ہم کہاں ڈوبیں گے… کون جانے؟ ۸۰ سالہ بزرگ کو یہ فکر ستا رہی ہے کہ جنگل کے ساتھ آنے والی نسلوں  کے تمام روابط منقطع ہو جائیں گے۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: گہدرا میں بابو لال آدیواسی اپنا وہ کھیت دکھا رہے ہیں جس میں انہیں اس موسم (۲۰۲۴) میں کھیتی کی اجازت نہیں ملی، کیونکہ ان کی بے دخلی قریب ہے۔ دائیں: سوامی پرساد پروہار (انتہائی دائیں)، ساتھ میں  (بائیں سے دائیں) پرمالال، سداما پرساد، شرد پرساد اور بیریندر پاٹھک۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ معاوضہ کا مکمل اور آخری تصفیہ کب ہوگا

*****

ندیوں کو جوڑنے کا منصوبہ ریاست کا ’ترقی‘ کے نام پر زمین پر قبضہ کا تازہ ترین منصوبہ ہے۔

اکتوبر ۲۰۲۳ میں جب کین-بیتوا ریور لنکنگ پروجیکٹ (کے بی آر ایل پی) کے لیے حتمی منظوری منظر عام پر آئی، تو اس وقت کے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے اس کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے اسے ’’بندیل کھنڈ کے عوام کے لیے خوش آئند دن قرار دیا، جو ترقی کی دوڑ میں پیچھے چھوٹ گئے تھے۔‘‘ انہوں نے اپنی ریاست کے ہزاروں کسانوں، گلہ بانوں، جنگل میں رہنے والوں اور ان کے  کنبوں کا کوئی ذکر نہیں کیا، جو اس منصوبہ کی وجہ سے محرومی کا شکار ہوں گے۔ نہ ہی انہوں نے یہ دیکھا کہ جنگل کا اجازت نامہ اس بنیاد پر دیا گیا تھا کہ بجلی کی پیداوار پی ٹی آر سے باہر ہوگی، لیکن اب یہ اندر ہوگی۔

فاضل پانی کو دریائی طاسوں سے جوڑنے کا خیال ۱۹۷۰ کی دہائی میں شروع ہوا، اور نیشنل واٹر ڈیولپمنٹ ایجنسی (این ڈبلو ڈی اے) وجود میں آئی۔ اس کے بعد ایجنسی نے ملک میں ۳۰ ندیوں کو – ’نہروں کی گرینڈ مالا‘ – کے ذریعہ جوڑنے کے امکان کا مطالعہ شروع کیا۔

کین ندی وسطی ہندوستان میں واقع کیمور کی پہاڑیوں سے نکلتی ہے۔ یہ گنگا کے طاس کا حصہ ہے اور اتر پردیش کے باندا ضلع میں جمنا ندی میں مل جاتی ہے۔ اپنے ۴۲۷ کلومیٹر طویل سفر کے دوران یہ پنّا ٹائیگر ریزرو سے گزرتی ہے۔ پارک کے اندر واقع گاؤں ڈھوڈن گاؤں میں ڈیم کی تعمیر ہونی ہے۔

کین کے مغرب بعید میں بیتوا بہتی ہے۔ کے بی ایل آر پی کا مقصد کین سے ’اضافی‘ پانی لینا اور اسے ’کمی والے‘ بیتوا میں منتقل کرنا ہے۔ ایسی امید کی جا رہی ہے کہ دونوں ندیوں کو جوڑ کر بندیل کھنڈ میں پانی کی کمی والے علاقوں کے ۳۴۳۰۰۰ ہیکٹیئر زمین کو سیراب کیا جائے گا۔ یہ علاقہ اقتصادی طور پر پسماندہ علاقہ ہے اور سیاسی پارٹیوں کے لیے ایک ووٹ بینک ہے۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بندیل کھنڈ سے پانی لے کر بالائی بیتوا کے طاس کے علاقوں میں پانی فراہم کرے گا۔

PHOTO • Courtesy: SANDRP (Photo by Joanna Van Gruisen)
PHOTO • Bhim Singh Rawat

بائیں: کین کے بہاؤ کی جانب تقریباً پانچ سے چھ کلومیٹر آگے کا منظر جو ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے ڈوب جائے گا۔ بشکریہ: ایس اے این ڈی آر پی (تصویر از جوانا وان گروسن)۔ دائیں: ٹائیگر ریزرو میں جانوروں کے علاوہ، کین کے کنارے آباد گلہ بان برادریاں اپنے جانوروں کے لیے اس پانی پر انحصار کرتی ہیں

PHOTO • Courtesy: SANDRP and Veditum
PHOTO • Courtesy: SANDRP and Veditum

بائیں: امن گنج کے قریب پنڈون میں، اپریل ۲۰۱۸ میں کین ندی کا بڑا حصہ خشک ہو گیا تھا، اور کوئی بھی ندی کے بیچ سے گزر سکتا تھا۔ دائیں: پاوائی میں کین میلوں تک خشک پڑی ہوئی ہے

ڈاکٹر نچیکیت کیلکر کا کہنا ہے کہ کین میں اضافی پانی کے تصور پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کین پر پہلے سے موجود ڈیموں – بریار پور بیراج، گنگاؤ ڈیم اور پاوائی کے ڈیم – کے پانی کو آبپاشی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔ جنگلاتی حیات تحفظ ٹرسٹ کے اس ماہر ماحولیات نے مزید کہا، ’’جب میں نے کچھ سال پہلے کین کے ساتھ باندہ اور گردونواح کا دورہ کیا، تو میں نے باقاعدگی سے سنا کہ آبپاشی کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے۔‘‘

ایس اے این ڈی آر پی کے محققین نے ۲۰۱۷ میں ندی کے ہمراہ پیدل سفر کیا تھا۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا، ’’…کین اب ہر مقام پر دوامی ندی نہیں رہی… ایک طویل حصہ تک اس ندی میں نہ بہاؤ ہے نہ پانی ہے۔‘‘

کین میں خود آبپاشی کے لیے مطلوبہ پانی کی کمی ہے، اس لیے اگر اس کا پانی بیتوا میں منتقل کیا گیا تو اس کے اپنے کمانڈ ایریا کو مشکل پیش آئے گی۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کی بازگشت نلیش تیواری کی باتوں میں بھی سنائی دی۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی پنّا میں گزاری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیم کو لے کر کافی غصہ ہے، کیونکہ یہ مدھیہ پردیش کے لوگوں کو مستقل طور پر نقصان پہنچے گا جبکہ ایسا لگتا ہے کہ فائدہ پڑوسی اتر پردیش کو ہوگا۔

’’ڈیم لاکھوں درختوں، ہزاروں جانوروں کو غرق آب کر دے گا۔ لوگ [جنگل میں رہنے والے] اپنی آزادی کھو دیں گے، وہ بے گھر ہو جائیں گے۔ لوگ ناراض ہیں، لیکن ریاست توجہ نہیں دے رہی ہے،‘‘ تیواری کہتے ہیں۔

’’کہیں، انہوں [ریاست] نے ایک قومی پارک قائم کیا، کہیں اس دریا پر ڈیم بنایا اور اس پر…اور لوگ بے گھر ہو گئے، باہر منتقل ہو گئے…‘‘ جَنکا بائی کہتی ہیں جن کا اُمراوَن میں واقع گھر ۲۰۱۵ پی ٹی آر کی توسیع کی نذر ہو گیا تھا۔

گونڈ قبائلیوں کے گاؤں اُمراوَن کی رہائشی خاتون، جن کی عمر پچاس کی دہائی میں پہنچ چکی ہے، ایک دہائی سے مناسب معاوضہ کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ’’ریاست کو ہمارے مستقبل کی، ہمارے بچوں کے مستقبل کی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے ہمیں بیوقوف بنایا ہے،‘‘ وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ باگھوں کے لیے لی گئی ان کی زمین پر ایک ریزارٹ کی تعمیر کی جائے گی۔ ’’یہاں دیکھیں یہ وہ زمین ہے جس کا انہوں نے ہمیں باہر نکالنے کے بعد سیاحوں کے آنے اور قیام کرنے کے لیے سروے کیا ہے۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: جنکا بائی اپنے شوہر کپور سنگھ کے ساتھ اپنے گھر میں۔ دائیں: امراوَن میں شاسکیہ پراتھمک شالہ (سرکاری پرائمری اسکول) جہاں اساتذہ کا کہنا ہے کہ حاضری تیزی سے کم ہوئی ہے کیونکہ مقامی لوگوں کو یقین نہیں ہے کہ وہ کب بے گھر ہوں گے

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: جنکا بائی اس مقام پر کھڑی ہیں جہاں انہوں نے اور اُمراوَن کی دیگر خواتین نے بے دخلی کے خلاف احتجاج کے طور پراپنے گاؤں سے بجلی کا ٹرانسفارمر لے جانے والے سرکاری ٹریکٹر کو روکا اور اسے گزرنے نہیں دیا۔ دائیں: جنکا بائی کے ساتھ سُرمیلا (سرخ ساڑھی)، لیلا (جامنی ساڑھی) اور گونی بائی جو ریاستی احکامات کے باوجود اُمراوَن میں رہتی ہیں

*****

دسمبر ۲۰۱۴ میں ایک عوامی سماعت میں کین-بیتوا دریا کے لنک کا اعلان کیا گیا تھا۔

تاہم، مقامی لوگ حلف اٹھا کر کہتے ہیں کہ وہاں کوئی عوامی سماعت نہیں ہوئی تھی، صرف بے دخلی کے نوٹس اور زبانی وعدے کیے گئے تھے۔ یہ زمین کے حصول، بحالی اور آبادکاری میں منصفانہ معاوضہ اور شفافیت کے حق کے قانون (ایل اے آر آر اے)، ۲۰۱۳ کی خلاف ورزی ہے۔ یہ قانون اس بات کو لازمی قرار دیتا ہے کہ: ’’زمین کے حصول کے معاملات کا اعلان سرکاری گزٹ، مقامی اخبارات، مقامی زبان میں، متعلقہ سرکاری سائٹس پر کیا جانا چاہیے۔‘‘ نوٹیفیکشن کے بعد گاؤں کی گرام سبھا کو اس مقصد کے لیے بلائے گئے اجلاس کے ذریعے مطلع کیا جانا چاہیے۔

’’حکومت نے عوام کو مطلع کرنے کے لیے قانون میں بیان کیے گئے طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار نہیں کیا تھا۔ ہم نے کئی بار پوچھا ہے، ’ہمیں بتائیں کہ آپ قانون کی کس شق کے تحت ایسا کر رہے ہیں‘،‘‘ سماجی کارکن امیت بھٹناگر کہتے ہیں۔ اس سال جون میں، انہوں نے ضلع کلکٹر کے دفتر کے سامنے گرام سبھا کے دستخط کے ثبوت دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔ اس احتجاج میں مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا گیا تھا۔

’’پہلے ہمیں بتائیں کہ آپ [ریاست] نے گرام سبھا کی کون سی میٹنگ طلب کی۔ آپ نہیں بتائیں گے کیوں کہ آپ نے کوئی میٹنگ نہیں بلائی،‘‘عام آدمی پارٹی کے رکن بھٹناگر کہتے ہیں۔ ’’دوسرے، قانون کے مطابق اس اسکیم میں عوام کی رضامندی ضروری ہے، جو ان کے پاس نہیں ہے۔ اور تیسرے یہ کہ اگر لوگ جا رہے ہیں تو آپ انہیں کہاں بھیج رہے ہیں؟ آپ نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا، کوئی نوٹس یا اطلاع نہیں دی۔‘‘

نہ صرف ایل اے آر آر اے کو نظر انداز کیا گیا بلکہ ریاستی عہدیداروں نے عوامی فورموں سے وعدے بھی کیے۔ ڈھوڈن کے رہائشی گرودیو مشرا کا کہنا ہے کہ ہر شخص ٹھگا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ’’افسروں نے کہا، ’ہم آپ کو آپ کی زمین کے بدلے زمین دیں گے، آپ کے گھروں کے بدلے ایک پکے مکان دیں گے، آپ کو روزگار ملے گا۔ آپ کی رخصتی ویسی ہی ہوگی جیسی شادی کے بعد بیٹی کی ہوتی ہے‘۔‘‘

گرودیو مشرا سابق سرپنچ ہیں اور گاؤں کی ایک غیر رسمی میٹنگ کے دوران پاری سے بات کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارا مطالبہ صرف وہی ہے جس کا حکومت نے وعدہ کیا تھا، جو وعدہ [چھتر پور کے] ضلع کلکٹر، وزیر اعلیٰ، [کے بی آر ایل پی] منصوبے کے عہدیداروں نے یہاں آ کر کیے تھے۔ لیکن انہوں نے وعدہ پورا نہیں کیا۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: ڈیم پر احتجاج کرنے والے امیت بھٹناگر اس مقام پر گلہ بان بہاری یادو سے بات کر رہے ہیں، جہاں ڈھوڈن کے مقام پر  کین ندی پر ڈیم کی تعمیر ہوگی۔ دائیں: ندیوں کو جوڑنے کے منصوبہ پر عمل درآمد کے بعد ڈھوڈن گاؤں اور اس کے گردونواح کے علاقے زیر آب آ جائیں گے

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: ڈھوڈن گاؤں کے گرودیو مشرا پوچھ رہے ہیں کہ انتظامیہ معاوضہ اور باز آبادکاری کے اپنے وعدوں پر عمل کیوں نہیں کر رہی ہے۔ دائیں: کیلاش آدیواسی ڈیم سے بمشکل ۵۰ میٹر کے فاصلہ پر رہتے ہیں، لیکن چونکہ ان کے پاس زمین کی ملکیت کے کاغذات نہیں ہیں، اس لیے انہیں معاوضہ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے

گہدرا میں پی ٹی آر کے مشرقی جانب بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔ ’’[پنّا کے] کلکٹر نے کہا تھا کہ ہم آپ کو دوبارہ آباد کریں گے جس طرح آپ رہ رہے تھے بالکل ویسے ہی۔ یہ آپ کی سہولت کے مطابق ہوگا۔ ہم آپ کے لیے اس گاؤں کو دوبارہ بنائیں گے،‘‘ ۸۰ سالہ پروہار کہتے ہیں۔ ’’کچھ نہیں کیا گیا، اور اب ہمیں یہاں سے جانے کے لیے کہا جا رہا ہے۔‘‘

معاوضہ کی رقم بھی واضح نہیں ہے۔ اس ضمن میں بہت سے اعداد و شمار گردش کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا کہ ہر ۱۸ سال سے زیادہ عمر کے  مرد کو ۱۲سے ۲۰ لاکھ روپے کے درمیان معاوضہ ملے گا۔ یہاں لوگ دریافت کرتے ہیں کہ: ’’آیا یہ رقم فی کس ہے یا فی کنبہ؟ جن کنبوں کی ذمہ داری عورتوں پر ہے ان کا کیا؟ اور کیا زمین کا معاوضہ الگ سے ملے گا؟ ہمارے جانوروں کا کیا ہوگا؟ ہمیں واضح طور پر کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔‘‘

ریاستی کارراوئی کے پس پشت جھوٹ اور ابہام کا اثر یہ ہے کہ پاری نے جس گاؤں کا دورہ کیا، اس گاؤں میں کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کب اور کہاں جائیں گے، یا مکانات، زمینوں، مویشیوں اور درختوں کے معاوضہ کی صحیح رقم/ شرح کیا ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ ۲۲ گاؤوں کے لوگوں کی زندگیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔

فکر میں ڈوبے کیلاش آدیواسی ڈھوڈن میں اپنے اس گھر کے سامنے بیٹھے ہیں جو ڈیم کی تعمیر کے بعد زیر آب آ جائے گا۔ وہ اپنی زمین کی ملکیت ثابت کرنے کے لیے ماضی کی رسیدیں اور سرکاری کاغذات دکھا رہے ہیں۔ ’’وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس پٹہ [ملکیت کی سرکاری دستاویز] نہیں ہے۔ لیکن میرے پاس یہ رسیدیں ہیں۔ میرے والد کی، ان کے والد، ان کے والد…ان سب کے پاس یہ زمین تھی۔ میرے پاس تمام رسیدیں ہیں۔‘‘

جنگلاتی حقوق کے قانون ۲۰۰۶ آدیواسی یا جنگل میں رہائش پذیر قبائل کو ’’پٹہ یا بٹائی یا کسی مقامی مقتدرہ یا کسی ریاستی حکومت کے ذریعہ جاری کردہ عطیہ کو جنگل کی زمینوں پر مالکانہ حق میں تبدیل کرنے کی اجازت ہے۔‘‘

لیکن کیلاش کو معاوضہ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے کیونکہ ان کے کاغذات ’کافی نہیں ہیں‘۔ ’’ہم ابھی واضح نہیں ہیں کہ اس زمین اور مکان پر ہمارا حق ہے یا نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ ہمیں معاوضہ ملے گا یا نہیں۔ وہ ہمیں یہاں سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ کوئی سننے والا نہیں ہے۔‘‘

ڈیم کے آبی مخزن کے اندر۱۴ گاؤوں ڈوب جائیں گے، آٹھ دیگر گاؤوں کو ریاست نے محکمہ جنگلات کو معاوضہ کے طور پر سونپ دیا ہے

ویڈیو دیکھیں: ’ہم آندولن  کے لیے تیار ہیں‘

پڑوس کے گاؤں پالکوہا میں جُوگل آدیواسی تنہائی میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ’’پٹواری نے اعلان کیا ہے کہ ہمارے پاس آپ کے پٹو ں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔‘‘ جب وہ یہ باتیں کہہ رے تھے تو ہم  گاؤں کے مرکز سے باہر نکل رہے تھے۔ ’’آدھے لوگوں کو کچھ معاوضہ ملا ہے اور باقی کو کچھ نہیں۔‘‘ انہیں خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے ابھی اپنی سالانہ مہاجرت اختیار کی تو وہ معاوضہ سے محروم رہ سکتے ہیں، اور ان کے سات بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

’’بچپن میں ہم زمین پر کام کرتے تھے اور ہم جنگل میں بھی جاتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ لیکن پچھلے ۲۵ سالوں میں، ٹائیگر ریزرو بن جانے کی وجہ سے جنگل میں داخلے پر پابندی نے ان جیسے آدیواسیوں کو یومیہ اجرت پر کام کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

بے گھر ہونے والے گاؤں کی خواتین اپنا منصفانہ حق حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ’’[وزیراعظم] مودی ہمیشہ کہتے ہیں کہ ’یہ اسکیم خواتین کے لیے... وہ اسکیم خواتین کے لیے۔‘ ہم وہ نہیں چاہتے۔ ہم وہ چاہتے ہیں جو ہمارا حق ہے،‘‘ پالکوہا کی ایک کسان سُنی بائی کہتی ہیں جن کا تعلق (دلت) روی داس برادری سے ہے۔

’’صرف مردوں کو [معاوضہ کا] پیکیج کیوں مل رہا ہے، خواتین کو کیوں نہیں مل رہا۔ حکومت نے یہ قانون سازی کس بنیاد پر کی ہے؟‘‘ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی یہ ماں دریافت کرتی ہیں۔ ’’اگر کوئی عورت اپنے شوہر  سے الگ ہو جائے  تو وہ اپنے بچوں اور خود کی کفالت کیسے کرے گی؟ قانون کواس کا خیال رکھنا چاہیے… آخر وہ بھی تو ووٹر ہیں۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: چھتر پور ضلع کے پالکوہا میں جگل آدیواسی مظاہرین کے ذریعہ استعمال شدہ پوسٹر دکھا رہے ہیں۔ دائیں: سُنی بائی اپنے بچوں، وجے، ریشما (کالا کرتہ) اور انجلی کے ساتھ۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے معاوضہ پر غور نہیں کیا جا رہا ہے

*****

یہاں لوگ پاری کو بتاتے ہیں، ’’ہم جل، جیون، جنگل اور جانور  کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘‘

ڈھوڈن کی گلاب بائی ہمیں اپنا بڑا صحن دکھاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ گھر کے معاوضہ میں صحن اور کچن کو چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ وہ رہائشی کمروں کی ’دیواروں‘ سے باہر ہیں۔ ۶۰ سالہ بزرگ ہمت نہیں ہار رہی ہیں۔ ’’[میرے جیسے] آدیواسیوں کو شاسن [انتظامیہ] سے کچھ نہیں ملا۔ میں یہاں سے بھوپال [ریاستی دارالحکومت] تک لڑوں گی۔ مجھ میں طاقت ہے۔ میں وہاں گئی ہوں۔ میں خوفزدہ نہیں ہوں۔ میں آندولن (احتجاج) کے لیے تیار ہوں۔‘‘

کے بی آر ایل پی کے خلاف احتجاج کی شروعات ۲۰۱۷ میں گاؤں کے اجلاس کے ساتھ چھوٹے پیمانے پر ہوئی تھی۔ اس نے رفتار پکڑا اور ۳۱ جنوری ۲۰۲۱ کو، ۳۰۰ سے زیادہ لوگ چھتر پور ضلع کلکٹر کے دفتر کے سامنے ایل اے آر آر  اے کی خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ تین جل ستیہ گرہوں (پانی سے متعلق  احتجاج) میں سے پہلے ستیہ گرہ میں یوم جمہوریہ ۲۰۲۳ کے موقع پر پی ٹی آر کے ۱۴ گاؤوں کے ہزاروں لوگ اپنے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے شامل ہوئے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا غصہ وزیر اعظم تک پہنچا دیا گیا ہے جنہوں نے گزشتہ سال ڈیم کے افتتاح کے لیے ڈھوڈن نہ آنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن یہ رپورٹر آزادانہ طور پر اس امر کی تصدیق نہیں کر سکا۔

اس منصوبہ کے ارد گرد موجود تنازعات اور خرابی نے اگست ۲۰۲۳ میں شروع ہونے والے ٹینڈرنگ کے عمل کو متاثر کیا۔ اس میں حصہ لینے والا کوئی نہیں تھا۔ چنانچہ تاریخوں میں چھ ماہ کی توسیع کر دی گئی۔

PHOTO • Priti David

ڈھوڈن گاؤں کی گلاب بائی کہتی ہیں کہ وہ منصفانہ معاوضہ کی لڑائی کے لیے تیار ہیں

ریاستی کارراوئی کے پس پشت جھوٹ اور ابہام کا اثر یہ ہے کہ پاری نے جس گاؤں کا بھی دورہ کیا، اس گاؤں میں کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کب اور کہاں جائیں گے، یا مکانات، زمینوں، مویشیوں اور درختوں کے معاوضہ کی صحیح رقم/ شرح کیا ہوگی اور کب دی جائے گی

*****

’’ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو وسطی ہندوستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، لیکن یہاں  ہم شدید بارش کے واقعات کے ساتھ ساتھ خشک سالی میں تیزی سے اضافہ دیکھ رہے ہیں، دونوں ہی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی نشاندہی کرتے ہیں،‘‘ ماہر ماحولیات کیلکر کہتے ہیں۔ ’’وسطی ہندوستان میں زیادہ تر ندیوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیز بہاؤ دیکھا جا رہا ہے، لیکن وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا۔ ہوسکتا ہے کہ اس بہاؤ نے اضافی پانی کے تصور کو جنم دیا ہو، لیکن موسمیاتی تبدیلی کے تخمینوں سے یہ واضح ہے کہ بہاؤ میں یہ تبدیلی قلیل مدتی ہے۔‘‘

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان قلیل مدتی تبدیلیوں کی بنیاد پر ندیوں کو جوڑا گیا، تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں اس خطے کو کہیں زیادہ سنگین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ٹھکر نے اس بات کو لے کر بھی خبردار کیا ہے کہ قدرتی جنگلات کے ایک بڑے رقبہ کی تباہی کے آبیاتی (ہائیڈرولوجیکل) اثرات بہت بڑی غلطی کے روپ میں سامنے آئیں گے۔ ’’سپریم کورٹ کی مرکزی بااختیار کمیٹی کی رپورٹ نے اس پر روشنی ڈالی ہے، لیکن اس رپورٹ پر سپریم کورٹ نے غور تک نہیں کیا ہے۔‘‘

سال ۲۰۲۳ میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) ممبئی کی طرف سے نیچر کمیونیکیشن میں ندیوں کو جوڑنے کے موضوع پر شائع ایک مقالہ میں بھی خبردار کیا گیا ہے: ’’منتقل شدہ پانی سے آبپاشی میں اضافہ کرنے سے ہندوستان میں پہلے ہی سے آبی بحران سے دو چار علاقوں میں ستمبر میں اوسط بارش ۱۲ فیصد تک کم ہو جاتی ہے…ستمبر کی بارش میں کمی کی وجہ سے مانسون کے بعد ندیاں خشک ہو سکتی ہیں، ملک بھر میں پانی کے بحران میں اضافہ ہوسکتا ہے اور ندیوں کو جوڑنے کا عمل بیکار ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: موسم گرما میں کین اکثر کئی مقامات پر سوکھ جاتی ہے۔ دائیں: ۲۰۲۴ کے مانسون کے بعد ٹائیگر ریزرو کے قریب کین۔ مانسون کے بعد اس طرح کے بہاؤ کا مطلب اضافی پانی نہیں ہے

ہمانشو ٹھکر نے مزید کہا کہ نیشنل واٹر ڈیولپمنٹ ایجنسی (این ڈبلیو ڈی اے) کے ذریعہ جو بھی ڈیٹا استعمال کیا گیا ہے اور جو اس منصوبہ کی بنیاد ہے، قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے، سائنسدانوں کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا رہا ہے۔

سال ۲۰۱۵ میں جب اس ڈیم کے وجود میں آنے کا حقیقی امکان نظر آنے لگا، تو ایس اے این ڈی آر پی  میں ٹھکر اور دیگر لوگوں نے ماحولیاتی تشخیص کمیٹی (ای اے سی) کو کئی خط لکھے تھے۔ ایسے ہی ایک خط کا عنوان تھا ’ناقص کین بیتوا ای آئی اے اور عوامی سماعت کی خلاف ورزیاں‘۔ اس خط میں کہا گیا تھا کہ ’’منصوبہ کا ای آئی اے بنیادی طور پر ناقص اور نامکمل ہے اور اس کی عوامی سماعتوں میں متعدد خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ اس طرح کے ناکافی مطالعات کے ساتھ پروجیکٹ کے لیے کوئی بھی منظوری نہ صرف غلط ہوگی بلکہ قانونی طور پر ناقابل قبول بھی ہوگی۔‘‘

اس دوران ۱۵-۲۰ لاکھ سے زیادہ درخت کاٹے جا چکے ہیں۔ بے دخلی کی دھمکیاں گردش کر رہی ہیں اور معاوضہ کی کوئی واضح شکل نہیں ہے۔ کاشتکاری روک دی گئی ہے۔ یومیہ اجرت پر کام کے لیے نقل مکانی کرنے سے کسی بھی ممکنہ معاوضے سے خارج ہونے کا خدشہ ہے۔

سُنی بائی نے ان چند الفاظ میں اس کا خلاصہ کیا: ’’ہم سب کچھ کھو رہے ہیں۔ وہ ہم سے چھین کر لے جا رہے ہیں۔ انہیں ہماری مدد کرنی چاہیے۔ اس کے بجائے وہ کہتے ہیں ’یہ پیکج ہے، فارم پر دستخط کرو، اپنے پیسے لو اور یہاں سے چلے جاؤ‘۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Priti David

ਪ੍ਰੀਤੀ ਡੇਵਿਡ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਇੰਡੀਆ ਦੇ ਇਕ ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ ਪਾਰੀ ਵਿਖੇ ਐਜੁਕੇਸ਼ਨ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਪੇਂਡੂ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਕਲਾਸਰੂਮ ਅਤੇ ਪਾਠਕ੍ਰਮ ਵਿੱਚ ਲਿਆਉਣ ਲਈ ਸਿੱਖਿਅਕਾਂ ਨਾਲ ਅਤੇ ਸਮਕਾਲੀ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਦਸਤਾਵੇਜਾ ਦੇ ਰੂਪ ’ਚ ਦਰਸਾਉਣ ਲਈ ਨੌਜਵਾਨਾਂ ਨਾਲ ਕੰਮ ਕਰਦੀ ਹਨ ।

Other stories by Priti David

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam