ولاپرلا تروپتماّ نے اس وقت راحت کی سانس لی جب انہیں گنٹور ضلع کے نیروکونڈا گاؤں میں نئی تعمیر شدہ ایس آر ایم یونیورسٹی میں فرش پر گرے پینٹ کے چھینٹوں کو صاف کرنے کا کام مل گیا۔ ’’تین چار برسوں سے ہمارے پاس زیادہ کام نہیں ہے، لہذا کام ملنے سے ہم خوش تھے۔ لیکن یہ خوشی تھوڑے دنوں کے لیے ہی تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ دو ہفتوں کے بعد ۲۹ سالہ ولاپرلا کو بغیر کوئی وجہ بتائے کام سے ہٹا دیا گیا۔

اُستلا میری ماتا (۴۰) کو بھی کام سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ’’پینٹ کے چھینٹوں کی صفائی کے لیے وہ ہمیں روزانہ ۲۵۰ روپے دیتے تھے۔ جب کام ختم ہو گیا تو ہمیں وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ’بوڑھے‘ ہو چکے ہیں اور اب کام کرنے کے قابل نہیں رہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

مئی ۲۰۱۸ میں مزدوروں کی تلاش میں ٹھیکیداروں نے تقریباً ۱۵۰۰ کی آبادی والی نیروکونڈا کی دلت کالونی کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران ۲۰ افراد پر مشتمل ایک گروپ کو کام پر رکھا گیا تھا۔ اس گروپ میں مرد  اور عورتیں دونوں شامل تھے۔ ’’جب بھی کام ہوتا ہے وہ آتے ہیں اور ہمیں لے جاتے ہیں۔ کام ختم ہونے کے بعد کسی نہ کسی بہانے ہمیں واپس بھیج دیتے ہیں،‘‘ ۶۰ سالہ کُراگَنٹی وجرم کہتی ہیں۔ ’’ویسے بھی مزدوروں کی کمی نہیں ہے کیونکہ ہم سب بے روزگار ہیں۔‘‘

چند دیگر گاؤں والے یونیورسٹی کے باغبانی اور ہاؤس کیپنگ محکموں میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن انہیں بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کا کام کب تک جاری رہے گا۔ پرائیویٹ ایس آر ایم یونیورسٹی اور دیگر کئی ادارے آندھرا پردیش کی نئی راجدھانی امراوتی ’نالج سٹی‘ (علم کا شہر) کے ’نالج ہب‘ (علم کا مرکز) کا حصہ ہوں گے۔ اس مرکز میں اعلیٰ تعلیمی ادارے، کارپوریٹ اور پبلک سیکٹر کے تحقیق و ترقی کے محکمے، ’ہنر مندی کے فروغ‘ کے ادارے اور ’اسٹارٹ اپ ہب‘ شامل ہوں گے۔ آندھرا پردیش کیپٹل ریجن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (اے پی سی آر ڈی اے) کی ایک دستاویز کے مطابق، ۷۵ ایکڑ میں پھیلے اس حصے کا ایک مرحلہ ۲۰۲۲ تک اور دوسرا مرحلہ ۲۰۳۷ تک مکمل ہو جائے گا۔

PHOTO • Rahul Maganti
PHOTO • Rahul Maganti

اُستلا اَجاریاّ اور اُستلا میری ماتا: ’جب تک کسانوں نے پولنگ (ذخیرہ) کے لیے اپنی زمینیں نہیں دی تھیں اس وقت تک ہم بطور مزدور کام کرتے تھے‘

بہرحال اس ’ہب‘ کے آس پاس کھوئی ہوئی زرعی ملازمتوں کی بنجر زمینیں موجود ہیں۔ یونیورسٹی میں کام کر رہے اور کام سے نکالے گئے تمام مزدور بے زمین دلت ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مالا برادری سے ہے۔ سال ۲۰۱۴ کے بعد سے اس خطے میں زرعی کام کے سوتے اس وقت سے سوکھنے لگے تھے، جب زمین مالکان نے ’رضاکارانہ طور پر‘ اپنے پلاٹ لینڈ پولنگ اسکیم (ایل پی ایس) کے تحت آندھرا پردیش حکومت کو امراوتی کے لیے دینا شروع کر دیا تھا۔ میری کے شوہر اُستلا اجاریاّ (۵۲) کہتے ہیں، ’’میں اور میری بیوی اس وقت تک مزدوروں کے طور پر کام کرتے رہے جب تک کہ کسانوں نے اپنی زمینیں پولنگ کے لیے نہیں دے دیں۔ اس کے بعد سے ہمارے پاس زیادہ کام نہیں بچا ہے۔‘‘

نیروکونڈا گاؤں مشرقی گوداوری، مغربی گوداوری، کرشنا اور گنٹور کے چار اضلاع  پر محیط کرشنا-گوداوری کے زرخیز ڈیلٹا میں واقع ہے۔ یہ گاؤں ایک پہاڑی کے دامن میں آباد ہے اور کونڈاویتی واگو (نہر) سے ملحق ہے۔ ڈیلٹا کے دیہی علاقوں میں زرعی مزدوروں کی یومیہ اجرت ریاست میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں مردوں کی مزدوری ۴۰۰-۵۰۰ روپے اور خواتین کی مزدوری ۱۵۰-۲۰۰ روپے یومیہ ہے۔ میری کہتی ہیں، ’’دو مزدوروں پر مشتمل ایک فیملی ہر مہینے ۱۲۰۰۰ سے ۱۵۰۰۰ روپے کے درمیان کما سکتی تھی۔ آخری دفعہ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر یہ آمدنی ۲۰۱۵ کے اوائل میں امراوتی سے متعلق کام شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد حاصل کی تھی۔

ایل پی ایس کے تحت نئی ’گرین فیلڈ‘ راجدھانی کے لیے اپنی زمین ریاست کو دینے والے زمین مالکان ہی معاوضے کے حقدار ہیں۔ بٹائی دار کسانوں اور زرعی مزدوروں کو کوئی معاوضہ نہیں ملے گا۔ روزی روٹی سے محروم زرعی مزدوروں کے لیے حکومت نے دس سال تک فی کنبہ ۲۵۰۰ روپے ماہانہ پنشن دینے کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم یہ رقم ۸۴۷۶ روپے کی اس رقم سے بہت کم ہے جو کہ ستمبر ۲۰۱۷ میں ورلڈ بینک کے معائنہ کرنے والے پینل کی رپورٹ کے مطابق یہاں بے زمین مزدوروں کی اوسط ماہانہ آمدنی تھی۔ اور یہ معمولی رقم بھی ۲۰۱۵ کے وسط میں اے پی سی آر ڈی اے کے برانچ آفس میں نیروکونڈا سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تلّور منڈل کے وجئے واڑہ میں مزدوروں کے سلسلہ وار احتجاج کے بعد منظور ہوئی تھی۔

PHOTO • Rahul Maganti

نیلاپڈو گاؤں میں بے زمین دلت خواتین اور بزرگوں کو اب کام نہیں ملتا، جب کہ ان کے کنبے کے مرد اب کم اجرت والی نوکریوں کی تلاش میں دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں

’’چار افراد پر مشتمل کنبے کے لیے ۲۵۰۰ روپے کیسے کافی ہوں گے؟‘‘ میری پوچھتی ہیں۔ ’’یہ معمولی رقم بھی ہمیں ایک ماہ یا دو ماہ یا کبھی کبھی تین ماہ کی تاخیر سے ملتی ہے۔‘‘ ان کا کنبہ گاؤں کے اونچی ذات کے کسانوں سے قرض لے کر حالات سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

نیروکونڈا ان ۲۹ گاؤوں میں سے ایک ہے جہاں زمین مالکان زمین کی ’پولنگ‘ کر رہے ہیں اور اسے ریاستی حکومت کو دے رہے ہیں۔ یہ گاؤں امراوتی کے جنوبی سرے پر واقع ہے، اور اس کی شمالی سرحد پر کرشنا ندی سے ملحق دوسرے گاؤں واقع ہیں۔ پورے کیپٹل سٹی پروجیکٹ کے پہلے مرحلے میں ریاست ۳۳۰۰۰ ایکڑ (اور ۲۰۵۰ میں تیسرے مرحلے میں کل ایک لاکھ ایکڑ) زمین تحویل میں لے گی۔

دریا کے دوسرے کنارے پر ۲۹ گاؤوں میں سے ایک نیلاپڈو گاؤں بھی ہے، ’’ہمارے پاس [ایک ہفتہ میں] ۵-۶ دنوں کی زرعی مزدوری کا کام ہوتا تھا،‘‘ نیلاپڈو کی رہنے والی بی مریماّ (۴۰) کہتی ہیں۔ ’’اگر کام کی کمی نہ ہوتی تو ہم آپ کو یہاں [گھر پر] نہیں ملتے۔‘‘

نیلاپڈو کے تقریباً ۱۰۰ بے زمین دلت گھرانے زرعی مزدوری پر منحصر ہیں۔ تاہم، ۲۰۱۴ کے بعد سے – جب زمین کی ’پولنگ‘ شروع ہوئی
– انہیں کام کی تلاش میں دور دراز مقامات پر جانا پڑا۔ مالا دلت برادری سے تعلق رکھنے والی ایک زرعی مزدور کومّوری چٹّماّ کہتی ہیں، ’’ہم ۳۰-۴۰ کلومیٹر دور ویکنٹ پورم، گاراپڈو اور لنگ پورم گاؤوں جاتے ہیں۔ اور وہاں [مرچ کے کھیتوں میں] صرف نومبر سے مارچ تک کام دستیاب رہتا ہے۔ ان پانچ مہینوں میں بھی ہمیں مشکل سے ۵۰-۷۰ دن کا کام ملتا ہے [اور اس دوران ہمیں  روزانہ ۱۵۰-۲۰۰ روپے کی آمدنی ہوتی ہے]۔‘‘

PHOTO • Rahul Maganti
PHOTO • Rahul Maganti

مریماّ اور بکا دونیش: ’جب کوئی کام ملتا ہے تبھی ہم کھانا کھا پاتے ہیں، ورنہ بھوکے سو جاتے ہیں‘

’’ہمیں صبح سویرے ۵ بجے اٹھ کر کھانا پکانا، لنچ پیک کرنا اور پھر صبح ۷ بجے تک کام کے لیے نکل جانا پڑتا ہے۔ جب گاؤں واپس آتے ہیں، تو اس وقت تک شام کے ۸ بج چکے ہوتے ہیں،‘‘ ۳۵ سالہ کوموری چٹّماّ کہتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ سفر اور معمول تھکا دینے والا ہوتا ہے۔

’’ہم تمام بے زمین کنبوں کے لیے [بطور پنشن] کم از کم ۱۰ ہزار روپے ماہانہ کا مطالبہ کرتے ہیں،‘‘ کویاّگور نرملا (۵۰) کہتی ہیں، جنہوں نے تلّور میں نکالے گئے کچھ احتجاجی جلوسوں میں حصہ لیا تھا۔ ’’۲۵۰۰ روپے سے کیا ہوگا، جب کہ تلّورو کے پرائیویٹ ہسپتال میں ایک بار جانے پر ۵۰۰ روپے خرچ ہو جاتے ہیں؟‘‘

حکومت نے مزدوروں سے منریگا کے تحت ۳۶۵ دن کے کام کا وعدہ بھی کیا ہے، لیکن گاؤں والوں کی شکایت ہے کہ انہیں ۲۰۱۴ کے بعد سے اس اسکیم کے تحت ایک دن کا بھی کام نہیں ملا ہے۔ تاہم، نیلاپڈو میں تیلگو زبان میں لکھا سائن بورڈ بتا رہا کہ منریگا فنڈز کے استعمال سے یہاں سیمنٹ کی سڑکیں بنائی گئی ہیں۔ جب میں نے اسے پڑھ کر سنایا تو نرملا نے کہا، ’’ہم میں سے کسی کو بھی منریگا کے تحت کوئی کام نہیں ملا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ بورڈ کب اور کیسے لگائے گئے۔‘‘

تاہم، جب میں نے تلّور منڈل کے ریونیو افسر اے سدھیر بابو سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا، ’’سال ۲۰۱۷ میں جب سڑکیں بنی تھیں تو نیلاپڈو گاؤں کے لوگوں کو بھی اے پی سی آر ڈی اے کے ضابطوں کے مطابق منریگا کے تحت کام دیا گیا تھا۔‘‘

نیلاپڈو راجدھانی خطہ کے ان تین یا چار گاؤوں میں سے ایک ہے جہاں نئی عمارتوں کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے۔ لارسن اینڈ ٹوبرو اور شاپورجی پالونجی جیسی بڑی کمپنیاں کئی دیگر کمپلیکس کے ساتھ ساتھ ’جسٹس سٹی‘ (ہائی کورٹ کیمپس)، ایم ایل اے کوارٹرز، اور آئی اے ایس افسران کی کالونی کی تعمیر کر رہی ہیں۔

PHOTO • Rahul Maganti
PHOTO • Rahul Maganti

بائیں: نیلاپڈو میں لگا بورڈ گاؤں میں منریگا کے کام کا اعلان کر رہا ہے، حالانکہ یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں ۲۰۱۴ کے بعد سے اس اسکیم کے تحت کوئی کام نہیں ملا ہے۔ دائیں: نیروکونڈا کے نزدیک ایس آر ایم یونیورسٹی کا کھیل کا میدان؛ یہ یونیورسٹی امراوتی میں ایک ’نالج ہب‘ کا حصہ ہوگی

’’تمام تعمیراتی مزدور مغربی بنگال، بہار اور جھارکھنڈ سے آتے ہیں،‘‘ مریماّ کے شوہر بَکّا دونیش (۴۸) کہتے ہیں۔ ’’کوئی بھی مزدور آندھرا پردیش کا نہیں ہے، اس گاؤں کو تو بھول ہی جائیں۔ کمپنیاں انہیں کام پر اس لیے رکھتی ہیں کیونکہ وہ کم اجرت پر کام کرتے ہیں۔‘‘

دونیش ایک بار ایک تعمیراتی مقام پر گارڈ کی نوکری کی تلاش میں گئے تھے۔ ’’انہوں نے مجھ سے سانپ پکڑنے کو کہا۔ جب میں نے سانپ کو مارا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اسے زندہ پکڑنا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ انہیں ایسا چوکیدار ضلع میں کہیں بھی نہیں ملے گا اور میں واپس آگیا۔‘‘ اب جب بھی موقع ملتا ہے دونیش تلور کے تعمیراتی مقامات پر کام کی تلاش میں جاتے ہیں۔

نیلاپڈو کے دلت کنبے کام کی کمی اور حکومت کی جانب سے ملنے والی معمولی امداد سے کیسے کام چلاتے ہیں؟ یہ سن کر مریماّ ہنس پڑتی ہیں اور کہتی ہیں، ’’جب کوئی کام ملتا ہے تبھی ہم کھانا کھاتے ہیں، ورنہ بھوکے سو جاتے ہیں۔‘‘

نیروکونڈا کے مضافات میں گنٹور اور پرکاسم اضلاع کے قحط زدہ گاؤوں کے تقریباً ۲۰ کنبے ترپال کے خیموں میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ بھی یونیورسٹی میں کام کرتے ہیں۔ ’’ہمیں [باغبانی کا] ٹھیکیدار لے کر آیا تھا اور ہم یہاں ایک سال سے زیادہ عرصے سے [اکتوبر ۲۰۱۷ سے] ہیں۔ ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ٹھیکہ کب ختم ہوگا،‘‘ ۲۵۰ روپے یومیہ کمانے والی رما دیوی (۴۰) کہتی ہیں۔

PHOTO • Rahul Maganti
PHOTO • Rahul Maganti

نیروکونڈا کے مضافات میں پرکاسم اور گنٹور اضلاع کے قحط زدہ گاؤوں کے کنبے عارضی خیموں میں قیام پذیر ہیں۔ رما دیوی کہتی ہیں، ’ٹھیکیدار ہمیں لے کر آیا تھا... ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ٹھیکہ کب ختم ہوگا‘

پرکاسم ضلع کے مرکاپور گاؤں سے تعلق رکھنے والی گورلماّ (۳۵) کہتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں پانی کی کمی کی وجہ سے کوئی زرعی کام دستیاب نہیں ہے۔ اس لیے ہم اپنا گھر چھوڑ کر یہاں آگئے۔ گورلماّ نے اپنے بچوں کو ان کے دادا دادی کے پاس گاؤں میں ہی چھوڑ دیا ہے۔ ’’میں واپس جانا چاہتی ہوں، مگر ہمارے گاؤں میں کوئی کام نہیں ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

امراوتی کیپٹل سٹی پلان میں نیروکونڈا پہاڑی کے اوپر آندھرا پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور تیلگو دیشم پارٹی کے بانی  این ٹی راما راؤ کے ایک بہت بڑے مجسمے اور یادگار کی تعمیر کا بھی منصوبہ ہے۔ اس سے گاؤں والے بے گھر ہو جائیں گے، لیکن حکومت نے ابھی تک اس منصوبے کی اطلاع انہیں نہیں دی ہے۔ میری، جو دوسرے دلت کنبوں کے ساتھ پہاڑی پر رہتی ہیں، ڈرتی ہیں کہ وہ اپنا گھر کھو دیں گی، کیونکہ ان کے کنبے کے پاس زمین کا مالکانہ حق نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم گھر کے مالکانہ حق چاہتے ہیں تاکہ اگر حکومت ہمیں ہٹا بھی دے، تو بھی ہمیں کچھ نہ کچھ معاوضہ مل جائے۔‘‘

نیروکونڈا کے لوگوں کو امید ہے کہ جب اس بڑے شہر کے لیے انہیں اپنا گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا جائے گا، جہاں وہ طویل عرصے سے رہ رہے ہیں، تو انہیں معاوضے کی شکل میں کم از کم کسی اور مقام پر ایک گھر مل جائے گا۔ اس شہر کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان جیسے چھوٹے لوگوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

ਸ਼ਰਮਿਲਾ ਜੋਸ਼ੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਸਾਬਕਾ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਅਤੇ ਕਦੇ ਕਦਾਈਂ ਲੇਖਣੀ ਅਤੇ ਪੜ੍ਹਾਉਣ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam