موہن لال لوہار کی یادداشت ان کے ماضی میں جہاں تک جاتی ہے وہاں سے اب تک وہ ہتھوڑے کی ضرب سے نکلنے والی آواز کے آہنگ سے مسحور ہوتے رہے ہیں۔ جھنکار کے اس آہنگ کو سن کر بڑے ہوتے ہوئے انہیں معلوم تھا کہ یہ کام ان کی پوری زندگی کا جنون بن جائے گا۔
موہن لال کی پیدائش راجستھان کے ضلع باڑمیر کے نند گاؤں میں لوہاروں کے ایک گھرانے میں ہوئی تھی۔ آٹھ سال کی عمر سے ہی وہ ہتھوڑے اور دیگر اوزاروں کے استعمال میں اپنے والد آنجہانی بھَورا رام لوہار کا ہاتھ بٹانے لگے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں کبھی اسکول نہیں گیا اور ہمیشہ ان اوزاروں کے ساتھ کھیلتا رہا۔‘‘
اس فیملی کا تعلق راجستھان میں دیگر پسماندہ طبقات کے تحت درج گڈولیہ لوہار برادری سے ہے، اور یہ لوگ مارواڑی اور ہندی بولتے ہیں۔ موہن لال نوعمری میں ہی پچاس سال قبل ۱۹۸۰ کی دہائی کے اوائل میں مزید کام کی تلاش میں جیسلمیر آئے تھے۔ اس کے بعد سے انہوں نے ایلومینیم، چاندی، اسٹیل اور یہاں تک کہ پیتل جیسی دھاتوں سے مورچنگ بنائے ہیں۔
’’میں لوہے کے ٹکڑے کو محض چھو کر بتا سکتا ہوں کہ آیا اس سے اچھی آواز نکلے گی یا نہیں،‘‘ موہن لال کہتے ہیں۔ انہوں نے ۲۰ ہزار گھنٹے سے زیادہ وقت تک کام کرکے لال گرم لوہے پر ہتھوڑے کی ضرب لگا کر موسیقی کے ساز مورچنگ کو شکل دی ہے۔ مورچنگ جیسلمیر کے ریت کے ٹیلوں پر سنائی دینے والا ایک ضربی ساز ہے۔
’’مورچنگ بنانا مشکل ہے،‘‘ ۶۵ سالہ لوہار کہتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں یاد نہیں کہ انہوں نے آج تک کتنے مورچنگ بنائے ہیں: ’’گنتی سے باہر ہیں وہ۔‘‘
مورچنگ (جسے مورسِنگ بھی کہا جاتا ہے) تقریباً ۱۰ انچ لمبا ساز ہوتا ہے۔ اس کی شکل گھوڑے کی نال کی طرح کے دھاتی چھلے جیسی ہوتی ہے، جن سے دو شاخیں نکلتی ہیں۔ ان شاخوں کے درمیان آخری سرے پر ایک دھاتی لَبلَبی ہوتی ہے، جسے محرک یا ٹریگر کہا جاتا ہے۔ موسیقار اس ساز کو اپنے اگلے دانتوں سے پکڑ کر اس کے ذریعے اپنی سانسیں اندر اور باہر کرتا ہے اور ایک ہاتھ سے محرک کو حرکت دیتا ہے، جس سے موسیقی کی دھن نکلتی ہے۔ دوسرا ہاتھ لوہے کے چھلے پر اپنی گرفت برقرار رکھتا ہے۔
یہ ساز کم از کم ۱۵۰۰ سال پرانا ہے۔ ’’مویشی چراتے وقت چرواہے اکثر مورچنگ بجایا کرتے تھے،‘‘ موہن لال کہتے ہیں۔ یہ موسیقی اور یہ ساز چرواہوں کے ساتھ سفر میں رہے۔ اسے بجاتے ہوئے چرواہے جیسے جیسے لمبی دوری طے کرتے رہے، اس کی مقبولیت میں بھی وسعت آتی گئی، اور اس کی شہرت پورے راجستھان، خاص طور پر جیسلمیر اور جودھ پور اضلاع میں پھیل گی۔
عمر کی ساٹھویں منزل عبور کر چکے موہن لال کو ایک مورچنگ بنانے میں تقریباً آٹھ گھنٹے لگتے ہیں، جبکہ پہلے وہ دن میں آسانی سے دو ساز بنا سکتے تھے۔ ’’میں دن میں صرف ایک مورچنگ بناتا ہوں کیونکہ میں معیار سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ مزید اضافہ کرتے ہیں، ’’میرے مورچنگ اب دنیا بھر میں مشہور ہیں۔‘‘ انہوں نے لاکیٹ کی سائز کی مورچانگ بنانے کے ہنر میں بھی مہارت حاصل کر لی ہے، جو سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ صحیح قسم کے لوہے کی شناخت بہت اہم ہے کیونکہ ’’ہر لوہے سے اچھا مورچنگ نہیں بن سکتا۔‘‘ انہیں بہترین لوہے کے انتخاب کا ہنر سیکھنے میں ایک دہائی سے زیادہ کا وقت لگا تھا۔ وہ جیسلمیر سے ۱۰۰ روپے فی کلو کے حساب لوہا خریدتے ہیں۔ مورچنگ کا وزن ۱۵۰ گرام سے زیادہ نہیں ہوتا ہے، کیونکہ موسیقار ہلکے وزن والے ساز کو ترجیح دیتے ہیں۔
موہن لال کی فیملی مارواڑی زبان میں دھامن کے نام سے مشہور لوہاروں کی روایتی بھٹی کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’’آپ کو پورے جیسلمیر شہر میں اس قسم کی بھٹی دکھائی نہیں دے گی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’یہ بھٹی کم از کم ۱۰۰ سال پرانی ہے اور صحیح طریقے سے کام کرتی ہے۔‘‘
بھٹی کو ہوا دینے کے لیے وہ بکرے کی کھال سے بنی دو دھونکنیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ لکڑی جس سے ہوا گزرتی ہے روہیڈا (ٹیکومیلا انڈولیٹا) کے درخت کی ہوتی ہے۔ بھٹی کو کم از کم تین گھنٹے تک مسلسل ہوا دینا پڑتا ہے، کیونکہ لوہے کو بار بار گرم کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ دستی طور پر دھونکنی چلانے سے کندھوں اور کمر میں شدید درد ہوتا ہے۔ ہوا گزرنے کے لیے کافی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور بہت زیادہ پسینہ آتا ہے۔
موہن لال کی بیوی گیگی دیوی اکثر دھونکنی چلانے میں ان کی مدد کرتی تھیں، لیکن عمر بڑھنے کی وجہ سے ان کے لیے اب یہ کام مشکل ہو گیا ہے۔ ’’مورچنگ بنانے کے پورے عمل میں یہ واحد کام ہے جسے خواتین انجام دیتی ہیں۔ باقی سب کچھ روایتی طور پر مرد کرتے ہیں،‘‘ ۶۰ سالہ گیگی دیوی کہتی ہیں۔ چھٹی نسل کے لوہار ان کے بیٹے رنمل اور ہری شنکر بھی مورچنگ بناتے ہیں۔
جیسے ہی دھونکنی چلنا شروع ہوتی ہے، موہن لال سڑسی (لوہار کا چمٹا) کا استعمال کرتے ہوئے سرخ گرم لوہے کو اٹھاتے ہیں اور لوہے کی بنی اونچی سطح (آران) پر رکھ دیتے ہیں۔ پھر تیزی سے دائیں ہاتھ میں ہتھوڑا اٹھاتے ہیں اور بائیں ہاتھ سے لوہے کے ٹکڑے کو احتیاط سے پکڑتے ہیں۔ ایک دوسرا لوہار لوہے کے ٹکڑے پر ضرب لگانے کے لیے پانچ کلو وزنی ہتھوڑا استعمال کرتا ہے۔ موہن لال اس کا ساتھ دیتے ہیں اور باری باری سے ہتھوڑے چلنے لگتے ہیں۔
موہن لال کہتے ہیں کہ دونوں لوہاروں کے ذریعہ یکے بعد دیگرے لگائی جانے والی ضرب ایک آہنگ پیدا کرتی ہے، ’’یہ آہنگ ڈھولکی سے نکلنے والی دھنوں کی طرح سنائی دیتی ہے، جس کی وجہ سے مجھے مورچنگ کی صناعی سے عشق ہو گیا۔‘‘
اس کام سے نکلنے والی ’موسیقی‘ تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں ورم آجاتا ہے۔ انہیں تین گھنٹوں میں ۱۰ ہزار سے بھی زیادہ ضربیں لگانی پڑتی ہیں۔ ایک معمولی سی لغزش سے ان کی انگلیاں زخمی ہوسکتی ہیں۔ ’’ماضی میں اس کی وجہ سے میرے ناخن ٹوٹ چکے ہیں۔ اس کام میں چوٹیں لگنا عام بات ہے،‘‘ موہن لال چوٹ کو خارج کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ زخموں کے علاوہ جلد کا جلنا بھی عام ہے۔ ’’بہت سے لوگوں نے ہتھوڑے کے متبادل کے طور پر مشینوں کا استعمال شروع کر دیا ہے، لیکن ہم آج بھی اپنے ہاتھوں سے ہی یہ کام کرتے ہیں،‘‘ موہن لال کے بڑے بیٹے رنمل بتاتے ہیں۔
ہتھوڑے کی ضرب کے بعد مورچنگ کو حتمی شکل دنیے کا سب سے مشکل مرحلہ آتا ہے، جس میں گرم لوہے کو محتاط طریقے سے شکل دی جاتی ہے۔ اس عمل میں مزید دو گھنٹے لگتے ہیں۔ اس دوران ساز پر پیچیدہ ڈیزائن تراشے جاتے ہیں۔ پھر اس کی سطح کو گھس کر ہموار کرنے سے پہلے ٹھنڈا ہونے کے لیے دو گھنٹے تک چھوڑا جاتا ہے۔ رنمل کہتے ہیں، ’’گھسائی جادو کا اثر پیدا کرتی ہے، کیونکہ اس کے بعد مورچنگ آئینہ کی طرح ہموار بن جاتا ہے۔‘‘
موہن لال کی فیملی کو ہر ماہ کم از کم ۱۰ مورچنگوں کے آرڈر ملتے ہیں۔ ایک مورچنگ ۱۲۰۰ سے ۱۵۰۰روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں جب سیاحوں کا گروہ یہاں آتا ہے، تو یہ تعداد اکثر دوگنی ہو جاتی ہے۔ رنمل کا کہنا ہے کہ ’’بہت سے سیاح ای میل کے ذریعے بھی آرڈر دیتے ہیں۔‘‘ ان کے پاس فرانس، جرمنی، جاپان، امریکہ، آسٹریلیا، اٹلی، اور کئی دوسرے ممالک سے بھی آرڈرز آتے ہیں۔ موہن لال اور ان کے بیٹے راجستھان کی مختلف ثقافتی تقریبات میں بھی شرکت کرتے ہیں، جہاں وہ مورچنگ فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ اسے بجاتے بھی ہیں۔
’آپ کو سارا دن کام کرنا پڑتا ہے، اور اگر کوئی خریدار مل جاتا ہے تو صرف ۳۰۰ سے ۴۰۰ روپے کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ اس سے گزارہ ممکن نہیں ہے،‘ موہن لال کہتے ہیں
جہاں ایک طرف موہن لال اس بات سے خوش ہیں کہ ان کے بیٹوں نے اس فن کو اپنا لیا ہے، وہیں دوسری طرف جیسلمیر میں ہاتھ سے مورچانگ بنانے والے کاریگروں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ ’’لوگ اس [اچھے] معیار کے مورچنگ کے لیے ایک ہزار روپے بھی ادا نہیں کرنا چاہتے،‘‘ موہن لال کہتے ہیں۔ مورچنگ تیار کرنے کے لیے بہت زیادہ صبر اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے، جو سب کے بس کی بات نہیں ہے۔ ’’آپ کو سارا دن کام کرنا پڑتا ہے، اور اگر کوئی خریدار مل جاتا ہے تو آپ کو صرف ۳۰۰ سے ۴۰۰ روپے کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ اس سے گزارہ ممکن نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
بہت سے لوہاروں کی شکایت یہ بھی ہے کہ دھواں نے ان کی بینائی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ’’بھٹی سے بہت زیادہ دھواں نکلتا ہے، جو اکثر آنکھوں اور ناک میں جاتا ہے، جس سے کھانسی ہوتی ہے،‘‘ رنمل کہتے ہیں۔ ’’جھلسا دینے والی گرمی میں بھی ہمیں بھٹی کے قریب بیٹھنا پڑتا ہے، جس سے گھٹن محسوس ہوتی ہے۔‘‘ یہ سن کر موہن لال اپنے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں، ’’تم اگر زخموں پر دھیان دو گے تو کام کیسے سیکھو گے؟‘‘
مورچنگ کے علاوہ موہن لال الغوزہ (منھ سے بجانے والا ساز جس میں دو بانسریاں ہوتی ہیں)، شہنائی، مرلی، سارنگی، ہارمونیم اور بانسری جیسے ساز بنانا بھی جانتے ہیں۔ ’’مجھے موسیقی کے ساز بجانا پسند ہے اور اس لیے میں ان سازوں کو بنانا سیکھتا رہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے ان میں سے بیشتر سازوں کو دھات کے بنے صندوق میں بڑے احتیاط سے رکھا ہوا ہے۔ ’’یہ میرا کھجانا [خزانہ] ہیں،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔
یہ اسٹوری دیہی دستکاروں پر سنکیت جین کی سیریز کا حصہ ہے، اور اسے مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم