یہ اسٹوری پاری کی ماحولیاتی تبدیلی پر مبنی سیریز کا حصہ ہے، جس نے ماحولیات کی رپورٹنگ کے زمرہ میں سال ۲۰۱۹ کا رامناتھ گوئنکا ایوارڈ جیتا ہے

گُن وَنت کے گھر کی چھت ان کے اوپر تو نہیں گری، لیکن اس نے انھیں ان کے کھیت تک ضرور دوڑایا۔ ان کے دماغ میں وہ نظارہ آج بھی تازہ ہے۔ ’’ہمارے کھیت کے کنارے پڑی ٹن کی وہ چھت پھٹ چکی تھی اور اڑتی ہوئی میری طرف آئی،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’میں بھوسی کے ڈھیر کے نیچے چھپ گیا اور کسی طرح زخمی ہونے سے خود کو بچایا۔‘‘

ایسا ہر دن نہیں ہوتا ہے جب کوئی چھت آپ کا پیچھا کرنے لگے۔ امبولا گاؤں میں گُن وَنت ہُل سُلکر جس چھت سے بھاگ رہے تھے، وہ اسی سال اپریل میں ژالہ باری کے ساتھ ہولناک ہواؤں کے سبب ٹوٹ گئی تھی۔

بھوسی کے ڈھیر سے باہر نکلتے ہوئے ۳۶ سالہ گُن وَنت، نیلنگا تعلقہ میں اپنے کھیت کو مشکل سے پہچان سکے۔ ’’یہ ۱۸-۲۰ منٹ سے زیادہ نہیں رہا ہوگا۔ لیکن درخت گر گئے تھے، مرے ہوئے پرندے ادھر ادھر بکھرے تھے، اور ہمارے جانور بری طرح زخمی ہو گئے تھے،‘‘ وہ درختوں پر ژالہ باری کے نشان دکھاتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’ہر ۱۶-۱۸ مہینے میں ژالہ باری یا بے موسم بارش ضرور ہوتی ہے،‘‘ ان کی ۶۰ سالہ ماں، دھونڈا بائی، امبولگا میں اپنے دو کمرے کے پتھر اور کنکریٹ سے بنے گھر کے باہر سیڑھی پر بیٹھی ہوئی کہتی ہیں۔ سال ۲۰۰۱ میں، ان کی فیملی نے ۱۱ ایکڑ کھیت میں دال (اڑد اور مونگ) کی کھیتی چھوڑ آم اور امرود کے باغ لگانے شروع کر دیے۔ ’’ہمیں درختوں کی دیکھ بھال سال بھر کرنی پڑتی ہے، لیکن موسم کے بہت زیادہ خراب ہونے کا کچھ ہی منٹوں کا واقعہ ہماری پوری سرمایہ کاری کو برباد کر دیتا ہے۔‘‘

یہ اس سال رونما ہونے والا کوئی ایک بار کا واقعہ نہیں تھا۔ زبردست بارش اور ژالہ باری سمیت خراب موسم کے ایسے واقعات مہاراشٹر کے لاتور ضلع کے اس حصہ میں گزشتہ ایک دہائی سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ امبولگا میں ہی اُدھو برادار کا ایک ایکڑ میں آم کا باغ بھی، ۲۰۱۴ کی ژالہ باری میں گر گیا تھا۔ ’’میرے پاس ۱۰-۱۵ درخت تھے۔ وہ اس طوفان سے مر گئے۔ میں نے انھیں دوبارہ زندہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

’’ژالہ باری جاری ہے،‘‘ ۳۷ سالہ برادار کہتے ہیں۔ ’’۲۰۱۴ کے طوفان کے بعد درختوں کو دیکھنا دردناک تھا۔ آپ نے انھیں لگایا، ان کی دیکھ بھال کی، اور پھر وہ منٹوں میں ہی اجڑ گئے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں یہ سارے کام دوبارہ کر پاؤں گا۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

گُن وَنت ہُل سُلکر (اوپر بائیں)، ان کی ماں دھونڈابائی (اوپر دائیں) اور والد مدھوکر (نیچے دائیں) ناگزیر ژالہ باری کے سبب باغات کو چھوڑنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں، جب کہ سبھاش شندے (نیچے بائیں) کہتے ہیں کہ وہ اس دفعہ خریف کے موسم سے شاید پوری طرح سے دور رہیں گے

ژالہ باری؟ وہ بھی مراٹھواڑہ خطہ کے لاتور ضلع میں؟ یہ ایک ایسی جگہ ہے، جہاں سال کے چھ مہینے سے زیادہ، پارہ ۳۲ ڈگری سیلسیس یا اس سے اوپر ہوتا ہے۔ اس سال اپریل کے پہلے ہفتہ میں تازہ ژالہ باری ہوئی جب درجہ حرارت ۴۱ سے ۴۳ ڈگری کے درمیان تھا۔

لیکن جیسا کہ یہاں تقریباً ہر کسان آپ کو انتہائی جوش میں بتائے گا، وہ اب درجہ حرارت، موسم اور آب و ہوا کے برتاؤ کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں۔

ہاں، وہ اتنا ضرور سمجھتے ہیں کہ سالانہ بارش کے دنوں کی تعداد کم اور گرم دنوں کی تعداد زیادہ ہوئی ہے۔ ۱۹۶۰ میں، جس سال دھونڈابائی پیدا ہوئی تھیں، لاتور میں سالانہ کم از کم ۱۴۷ دن ایسے ہوتے تھے جب درجہ حرارت ۳۲ ڈگری یا اس سے اوپر پہنچ جاتا تھا، جیسا کہ نیویارک ٹائمز کے ذریعے ایک اَیپ سے موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے بارے میں پوسٹ کیے گئے اعداد و شمار دکھاتے ہیں۔ اس سال، یہ تعداد ۱۸۸ دن ہوگی۔ دھونڈابائی جب ۸۰ سال کی ہوں گی، تو ان سب سے گرم دنوں کی تعداد ۲۱۱ ہو جائے گی۔

’’اعتماد کرنا مشکل ہے کہ ہم جولائی کے خاتمہ کی طرف بڑھ رہے ہیں،‘‘ سبھاش شندے نے تب کہا تھا، جب میں نے پچھلے مہینہ امبولگا میں ان کے ۱۵ ایکڑ کھیت کا دورہ کیا تھا۔ کھیت بنجر نظر آ رہا ہے، مٹی بھوری ہے اور ہریالی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ ۶۳ سالہ شندے اپنے سفید کرتا سے ایک رومال نکالتے ہیں اور اپنی پیشانی سے پسینہ پونچتھے ہیں۔ ’’میں عام طور پر جون کے وسط میں سویابین بوتا ہوں۔ لیکن اس دفعہ، میں خریف کے موسم سے پوری طرح دور رہ سکتا ہوں۔‘‘

تلنگانہ کے حیدرآباد سے جنوبی لاتور کو جوڑنے والے اس ۱۵۰ کلومیٹر کے علاقے میں شندے جیسے کسان عام طور سے سویابین کی کھیتی کرتے ہیں۔ شندے بتاتے ہیں کہ تقریباً ۱۹۹۸ تک، جوار، اُڑد اور مونگ یہاں کی بنیادی خریف فصلیں تھیں۔ ’’انھیں لگاتار بارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں ایک اچھی فصل کے لیے وقت پر مانسون کی ضرورت ہوتی تھی۔‘‘

شندے اور دوسرے زیادہ تر لوگوں نے سال ۲۰۰۰ کے آس پاس یہاں سویابین کی کھیتی شروع کر دی، کیوں کہ وہ کہتے ہیں، ’’یہ ایک لچیلی فصل ہے۔ اگر موسم کا مزاج تھوڑا بھی بدلتا ہے، تو اس پر اثر نہیں پڑتا ہے۔ یہ بین الاقوامی بازار میں بھی دلفریب تھا۔ موسم کے آخر میں ہم پیسے بچانے میں کامیاب رہتے تھے۔ اس کے علاوہ، سویابین کی کٹائی کے بعد، اس کے باقی ماندہ حصے مویشی چارے کے طور پر کام آتے تھے۔ لیکن گزشتہ ۱۰-۱۵ برسوں سے، سویابین بھی غیر یقینی مانسون سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے۔‘‘

تازہ ژالہ باری کے دوران لاتور میں بڑے پیمانے پر تباہی: ٹوٹے ہوئے کسم (اوپر بائیں؛ تصویر: نارائن بَوَلے)؛ ژالہ باری کے بعد ایک کھیت (اوپر دائیں؛ تصویر: نشانت بھدریشور)؛ تباہ ہو چکے تربوز (نیچے بائیں؛ تصویر: نشانت بھدریشور)؛ مرجھا چکے جوار (نیچے دائیں؛ تصویر: منوج آکھڈے)

اور اِس سال، ’’جنہوں نے فصل بوئی ہے، وہ اب پچھتا رہے ہیں، کیوں کہ ابتدائی بارش کے بعد سوکھا پڑنے لگا،‘‘ لاتور ضلع کے کلکٹر، جی شری کانت کہتے ہیں۔ ضلع بھر میں صرف ۶۴ فیصد بوائی (تمام فصلوں کی) ہوئی ہے۔ نیلنگا تعلقہ میں، ۶۶ فیصد۔ ظاہر ہے، ضلع میں کل فصلی رقبہ کا ۵۰ فیصد سے زیادہ حصہ، سویابین کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔

لاتور مراٹھواڑہ کے زرعی علاقے میں ہے اور یہاں پر سالانہ اوسط بارش ۷۰۰ ملی میٹر ہوتی ہے۔ اس سال یہاں ۲۵ جون کو مانسون آیا تھا اور تب سے یہ غیر یقینی بنا ہوا ہے۔ جولائی کے آخر میں، شری کانت نے مجھے بتایا کہ اس مدت کے لیے عام بارش ۴۷ فیصد کم تھی۔

سبھاش شندے بتاتے ہیں کہ ۲۰۰۰ کی دہائی کے آغاز میں، ایک ایکڑ میں ۴۰۰۰ روپے کی لاگت سے کی گئی سویابین کی کھیتی سے تقریباً ۱۰-۱۲ کوئنٹل پیداوار ملتی تھی۔ تقریباً دو دہائی کے بعد، سویابین کی قیمت ۱۵۰۰ روپے سے دوگنی ہو کر ۳۰۰۰ روپے فی کوئنٹل ہو جائے گی، لیکن، وہ کہتے ہیں، کھیتی کی لاگت تین گنا ہو جائے گی اور فی ایکڑ پیداوار نصف رہ جائے گی۔

اسٹیٹ ایگریکلچرل مارکیٹنگ بورڈ کے اعداد و شمار شندے کے اس دعویٰ کی تصدیق کرتے ہیں۔ بورڈ کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۰-۱۱ میں سویابین کا رقبہ ۱ء۹۴ لاکھ ہیکٹیئر تھا اور پیداوار ۴ء۳۱ لاکھ ٹن۔ سال ۲۰۱۶ میں، سویابین کی کھیتی ۳ء۶۷ لاکھ ہیکٹیئر میں کی گئی، لیکن پیداوار صرف ۳ء۰۸ لاکھ ٹن تھی۔ فی ایکڑ ۸۹ فیصد کا اضافہ ہوا، لیکن پیداوار میں ۲۸ء۵ فیصد کی کمی آئی۔

دھونڈابائی کے شوہر، ۶۳ سالہ مدھوکر ہُل سُلکر، موجودہ دہائی کی ایک اور بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’’۲۰۱۲ کے بعد سے، ہمارے ذریعے حشرہ کش دواؤں کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ صرف اس سال، ہمیں ۵-۷ بار چھڑکاؤ کرنا پڑا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

دھونڈابائی بدلتے منظرنامہ پر اس میں اپنی بات جوڑتی ہیں، ’’پہلے ہم چیل، گدھ اور گوریے لگاتار دیکھتے تھے۔ لیکن گزشتہ ۱۰ برسوں سے، وہ نایاب سے نایاب تر ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

مدھوکر ہُل سُلکر اپنے آم کے درخت کے نیچے: ’۲۰۱۲ کے بعد سے، ہمارے ذریعے حشرہ کش دواؤں کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ صرف اس سال، ہمیں ۵-۷ بار چھڑکاؤ کرنا پڑا ہے’

’’ہندوستان میں حشرہ کش دواؤں کا استعمال ابھی بھی فی ہیکٹیئر ایک کلوگرام سے کم ہے،‘‘ لاتور میں مقیم ماہر ماحولیات، اتُل دیئول گاؤنکر کہتے ہیں۔ ’’امریکہ، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ صنعتی ملک ۸ سے ۱۰ گُنا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی حشرہ کش دواؤں کو ریگولیٹ کرتے رہتے ہیں، ہم نہیں کرتے۔ ہمارے میں کینسر والے عناصر ہوتے ہیں، جو کھیت کے ارد گرد کے پرندوں کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ انھیں مار دیتے ہیں۔‘‘

شندے پیداوار میں گراوٹ کے لیے موسمیاتی تبدیلی کو قصوروار مانتے ہیں۔ ’’مانسون کی چار مہینے کی مدت [جون-ستمبر] میں ہمارے پاس برسات کے ۷۰-۷۵ دن ہوتے تھے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’بوندا باندی لگاتار اور دھیرے دھیرے ہوتی رہتی تھی۔ گزشتہ ۱۵ برسوں میں، بارش کے دنوں کی تعداد نصف ہو گئی ہے۔ جب بارش ہوتی ہے، تو حد سے زیادہ ہوتی ہے۔ اور اس کے بعد ۲۰ دنوں تک سوکھا رہتا ہے۔ اس موسم میں کھیتی کرنا ناممکن ہے۔‘‘

ہندوستانی محکمہ موسمیات کے لاتور کے اعداد و شمار ان کے اس دعویٰ کی تصدیق کرتے ہیں۔ سال ۲۰۱۴ میں، مانسون کے چار مہینوں میں بارش ۴۳۰ ملی میٹر تھی۔ اگلے سال یہ ۳۱۷ ملی میٹر تھی۔ ۲۰۱۶ میں اس ضلع میں ان چار مہینوں میں ۱۰۱۰ ملی میٹر بارش ہوئی۔ ۲۰۱۷ میں، یہ ۷۶۰ ملی میٹر تھی۔ پچھلے سال، مانسون کے موسم میں لاتور میں ۵۳۰ ملی میٹر بارش ہوئی تھی، جس میں سے ۲۵۲ ملی میٹر اکیلے جون میں ہوئی۔ یہاں تک کہ ان برسوں میں بھی جب ضلع میں ’عام‘ بارش ہوتی ہے، اس کا پھیلاؤ زیادہ تر غیر سلسلہ وار رہا ہے۔

جیسا کہ زیر زمین پانی کا سروے اور ترقیاتی ایجنسی کے سینئر جیولوجسٹ، چندرکانت بھویار بتاتے ہیں: ’’محدود وقت میں موسلا دھار بارش سے مٹی کا نقصان ہوتا ہے۔ لیکن جب بارش لگاتار ہوتی ہے، تو یہ زیر زمین پانی ذخائر کو بھرنے میں مدد کرتی ہے۔‘‘

شندے اب زیر زمین پانی پر منحصر نہیں رہ سکتے، کیوں کہ ان کے چار بورویل خشک ہو چکے ہیں۔ ’’ہمیں ۵۰ فٹ کی گہرائی پر پانی مل جاتا تھا، لیکن اب ۵۰۰ فٹ گہرے بورویل بھی خشک ہو گئے ہیں۔‘‘

اس سے دوسرے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ’’اگر ہم وافر مقدار میں بوائی نہیں کریں گے، تو مویشیوں کے لیے چارہ نہیں ہوگا،‘‘ شندے کہتے ہیں۔ ’’پانی اور چارے کے بغیر، کسان اپنے مویشیوں کو پاس رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ میرے پاس ۲۰۰۹ تک ۲۰ مویشی تھے۔ آج، صرف نو ہیں۔‘‘

2014 hailstorm damage from the same belt of Latur mentioned in the story
PHOTO • Nishant Bhadreshwar
2014 hailstorm damage from the same belt of Latur mentioned in the story
PHOTO • Nishant Bhadreshwar
2014 hailstorm damage from the same belt of Latur mentioned in the story
PHOTO • Nishant Bhadreshwar

یہ مراٹھواڑہ کے لاتور ضلع میں ہے، جہاں چھ مہینے تک پارہ ۳۲ ڈگری سیلسیس سے اوپر رہتا ہے۔ اس سال اپریل کے پہلے ہفتہ میں تازہ ژالہ باری ہوئی جب درجہ حرارت ۴۱ سے ۴۳ ڈگری کے درمیان تھا

شندے کی ماں، کاویری بائی، جو ۹۵ سال کی عمر میں بھی تیز طرار اور محتاط ہیں، کہتی ہیں، ’’لاتور اسی وقت سے کپاس کا ایک مرکز تھا، جب ۱۹۰۵ میں لوک مانیہ تلک نے اسے یہاں شروع کیا تھا۔‘‘ وہ اپنے پیروں کو موڑے فرش پر بیٹھی ہیں اور انھیں اٹھنے کے لیے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’اس کی کھیتی کرنے کے لیے ہمارے یہاں وافر مقدار میں بارش ہوتی تھی۔ آج، سویابین نے اس کی جگہ لے لی ہے۔‘‘

شندے خوش ہیں کہ ان کی ماں نے تقریباً دو دہائی پہلے سرگرم کھیتی چھوڑ دی تھی – ژالہ باری شروع ہونے سے پہلے۔ ’’وہ کچھ ہی منٹوں کے اندر کھیت کو تباہ کر دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر وہ ہیں جن کے پاس باغ ہیں۔‘‘

اس نسبتاً بہتر جنوبی خطہ میں، باغ لگانے والے خاص طور سے متاثر ہوئے ہیں۔ ’’آخری ژالہ باری اس سال اپریل میں ہوئی تھی،‘‘ مدھوکر ہُل سُلکر کہتے ہیں، وہ مجھے اپنے اس باغ میں لے گئے، جہاں درخت کی ٹہنیوں پر پیلے رنگ کے کئی داغ دکھائی دے رہے تھے۔ ’’میں نے ڈیڑھ لاکھ روپے کے پھل کھو دیے۔ ہم نے سال ۲۰۰۰ میں ۹۰ درختوں سے شروعات کی تھی، لیکن آج ہمارے پاس صرف ۵۰ درخت ہی بچے ہیں۔‘‘ اب وہ باغات کو چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں، کیوں کہ ’’ژالہ باری ناگزیر بنتی جا رہی ہے۔‘‘

لاتور میں، ایک صدی سے بھی زیادہ وقت سے، فصل کے پیٹرن میں کئی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ کسی زمانے میں جوار اور دیگر باجرے کے غلبہ والا علاقہ، جہاں مکئی کی کھیتی دوسرے نمبر پر ہوتی تھی، وہاں ۱۹۰۵ سے بڑے پیمانے پر کپاس کی کھیتی ہونے لگی۔

پھر ۱۹۷۰ سے گنّا آیا، کچھ دنوں کے لیے سورج مکھی، اور پھر ۲۰۰۰ سے بڑے پیمانے پر سویابین کی کھیتی ہونے لگی۔ گنّا اور سویابین کا پھیلاؤ کافی شاندار تھا۔ سال ۲۰۱۸-۱۹ میں، ۶۷ ہزار ہیکٹیئر زمین پر گنّے کی کھیتی کی گئی (وسنت دادا شوگر انسٹی ٹیوٹ، پونہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں)۔ اور نقدی فصلوں کے سبب بے شمار بورویل کی کھدائی ہونے لگی – اور زیر زمین پانی تیزی سے نکالا جانے لگا۔ تاریخی اعتبار سے باجرے کے لیے موافق مٹی میں ۱۰۰ سے زیادہ برسوں سے نقدی فصل کی کھیتی کا پانی، مٹی، نمی اور نباتات پر ناگزیر اثر پڑا ہے۔

ریاستی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق، لاتور میں اب صرف ۰ء۵۴ فیصد علاقے میں ہی جنگلات بچے ہیں۔ یہ پورے مراٹھواڑہ علاقہ کے ۰ء۹ فیصد کے اوسط سے بھی کم ہے۔

Kaveribai
PHOTO • Parth M.N.
Madhukar and his son Gunwant walking through their orchards
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: ۹۵ سالہ کاویری بائی شندے یاد کرتی ہیں، ’لاتور کپاس کا مرکز ہوا کرتا تھا... ہمارے پاس اس کی کھیتی کرنے کے لیے وافر مقدار میں بارش ہوا کرتی تھی۔ دائیں: مدھوکر ہُل سُلکر اور ان کے بیٹے گُن وَنت – آب و ہوا کے سبب کھیتی سے پوری طرح دور جا رہے ہیں؟

’’ان تمام اعمال اور اور موسمیاتی تبدیلی کے درمیان وجہ کا ایک محدود میزان بنانا غلط ہوگا،‘‘ اتُل دیئول گاؤنکر کہتے ہیں۔ ’’اور پختہ ثبوت کے ساتھ تصدیق کرنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ، اس قسم کی تبدیلی بڑے علاقوں میں ہوتی ہے، نہ کہ کسی ضلع کی انسانوں کے ذریعے کھینچی گئی سرحدوں کے اندر۔ مراٹھواڑہ میں، جس کا لاتور ایک چھوٹا سا حصہ ہے، بڑھتے زرعی-نباتاتی عدم توازن کے سبب کافی بڑی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔

’’لیکن اس بڑے علاقے میں کئی سرگرمیوں کے دوران کچھ نہ کچھ باہمی رشتے ضرور موجود ہیں۔ اور یہ ایک پہیلی کی طرح ہے کہ فصل میں بڑے پیمانے پر تبدیلی اور زمین کے استعمال میں بڑی تبدیلی اور ٹکنالوجیز کے سبب سخت موسم اور ژالہ باری دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بھلے ہی انسانی سرگرمی کی مذمت وجہ کے طور پر نہیں کی جا سکتی، لیکن اس کی وجہ سے موسمیاتی عدم توازن یقیناً بڑھ رہا ہے۔‘‘

دریں اثنا، سخت موسم کے بڑھتے دنوں سے لوگ حیران ہیں۔

’’ہر زرعی دائرہ کسانوں کو مزید تناؤ میں ڈالتا ہے،‘‘ گُن وَنت ہُل سُلکر کہتے ہیں۔ ’’کسانوں کی خودکشی کے پیچھے یہ بھی ایک سبب ہے۔ میرے بچوں کے لیے سرکاری دفتر میں کلرک کے طور پر کام کرنا بہتر ہوگا۔‘‘ آب و ہوا کے ساتھ کھیتی کے بارے میں ان کا نظریہ بدل چکا ہے۔

’’زراعت اب تیزی سے وقت، توانائی اور دولت کی بربادی محسوس ہونے لگی ہے،‘‘ سبھاش شندے کہتے ہیں۔ ان کی ماں کے وقت میں یہ الگ تھا۔ ’’کھیتی ہماری فطری پسند تھی،‘‘ کاویری بائی کہتی ہیں۔

نمستے کہتے ہوئے جب میں نے کاویری بائی کو الوداع کہا، تو انھوں نے اس کے بدلے مجھ سے ہاتھ ملایا۔ ’’پچھلے سال، میرے پوتے نے پیسے بچائے اور مجھے ہوائی جہاز کا سفر کرایا،‘‘ وہ فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں۔ ’’جہاز میں کسی نے میرے ساتھ اسی طرح مصافحہ کیا تھا۔ موسم بدل رہا ہے، مجھے لگا کہ ہمیں اپنی عادتوں کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

کور فوٹو (لاتور میں ژالہ باری سے نقصان): نشانت بھدریشور۔

موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ملک گیر رپورٹنگ، عام لوگوں کی آوازوں اور زندگی کے تجربہ کے توسط سے اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے یو این ڈی پی سے امداد شدہ پہل کا ایک حصہ ہے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Reporter : Parth M.N.

ਪਾਰਥ ਐੱਮ.ਐੱਨ. 2017 ਤੋਂ ਪਾਰੀ ਦੇ ਫੈਲੋ ਹਨ ਅਤੇ ਵੱਖੋ-ਵੱਖ ਨਿਊਜ਼ ਵੈੱਬਸਾਈਟਾਂ ਨੂੰ ਰਿਪੋਰਟਿੰਗ ਕਰਨ ਵਾਲੇ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ। ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕ੍ਰਿਕੇਟ ਅਤੇ ਘੁੰਮਣਾ-ਫਿਰਨਾ ਚੰਗਾ ਲੱਗਦਾ ਹੈ।

Other stories by Parth M.N.

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Series Editors : Sharmila Joshi

ਸ਼ਰਮਿਲਾ ਜੋਸ਼ੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਸਾਬਕਾ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਅਤੇ ਕਦੇ ਕਦਾਈਂ ਲੇਖਣੀ ਅਤੇ ਪੜ੍ਹਾਉਣ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique