’’میں نے سویٹر پہنا ہوا تھا اور ایک کمبل بھی لپیٹ رکھا تھا، پھر بھی مجھے ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ میں سردی کی راتوں میں اکثر یوں ہی ٹھٹھرتا ہوں۔‘‘
سردیوں والے دسمبر، جنوری اور فروری مہینوں میں مشکل سے بارہ سال کی عمر کا ایک لڑکا روزانہ کام پر جایا کرتا تھا۔ اس میں اور ہندوستان بھر کے ان ہزاروں بچوں میں کیا فرق تھا، جو آج بھی روزانہ کام پر جاتے ہیں؟
’’گاؤں میں جب میں ۷ویں یا ۸ویں درجے کا طالب علم تھا، تبھی میں نے سردیوں کے مہینوں میں کھیتوں پر جانا شروع کر دیا تھا۔ گیہوں کے پودے کی سینچائی رات میں ہوتی تھی۔ ان مہینوں میں کافی سردی ہوا کرتی تھی۔‘‘
گڑگاؤں شہر کے قریب لینڈ ڈیولپمنٹ سائٹ سے واپس لوٹتے ہوئے، جہاں مہاجر مزدور کام کر رہے ہیں، وزیر چند منجونکا، جو اپنے اسکول کے دنوں میں خود بے زمین مزدور کے طور پر کام کر چکے ہیں، خود اپنی کہانی سناتے ہیں۔
اسکول جانے والے لڑکے کے طور پر، وزیر ہریانہ کے فتح آباد ضلع کے اپنے گاؤں بھٹو میں گیہوں کے کھیت میں کام کرتے تھے۔ یہ کھیت کسی زمیندار کے تھے۔ وہ کھیت میں رات کے ۸ بجے سے صبح کے ۵ بجے تک پانی دیتے تھے۔ رات میں ۹ گھنٹے کام کرنے کے بدلے انھیں ہر رات کے ۳۵ روپے ملتے تھے۔ ان پیسوں سے چھ افراد پر مشتمل ان کے کنبہ کا کسی طرح خرچ چل جاتا تھا۔ وزیر کے والد دن میں زرعی مزدور کے طور پر دوسرے کے کھیتوں پر کام کرتے تھے۔
وزیر کے گاؤں میں کل ۵ زمیندار تھے: ۳ جاٹ اور ۲ سردار۔ ان میں سے کچھ کے پاس ۱۰۰ ایکڑ تک زمینیں تھیں۔ وزیر ۱۲ سال کی عمر سے ہی، کڑاکے کی سردی میں ربیع فصلوں کے موسم میں نائٹ ڈیوٹی کرتا تھا۔
’’میرے جیسے ۵ اور لڑکے تھے، جو راتوں میں کھیتوں میں پانی دیا کرتے تھے۔ وہ بہت بڑا کھیت تھا، اس لیے ہم سب کو کام مل جاتا تھا۔ وہاں کے سارے لڑکے کام کرتے تھے۔ گاؤں میں کچھ لڑکے ایسے تھے، جن کے باپ حجام تھے۔ اس لیے اسکول کے بعد جب بھی ان کے پاس کچھ وقت بچ جاتا، وہ اپنے والد کے دکان پر چلے جاتے اور ان کا ہاتھ بٹاتے۔ ٹھیک اسی طرح، جیسے ہم اپنے والد کی طرح کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے۔‘‘
وزیر نے دسویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے۔ ’’میں نے بورڈ کا امتحان دیا تھا، لیکن پاس نہیں ہو پایا۔ لہٰذا، میں نے سوچا کہ کوئی کام ڈھونڈکر پیسہ کمایا جائے۔ لیکن گاؤں میں اس وقت اتنا کام نہیں تھا۔ یہ ۱۹۹۴ کی بات ہے یا شاید ۱۹۹۵ کی،‘‘ وزیر نے بتایا۔
’’اس لیے میں دہلی چلا گیا، ایک بھائی کے گھر۔ وہ میرے سگے بھائی نہیں تھے، بلکہ دور کی ایک چچی کے بیٹے تھے، چچیرے بھائی۔ وہ ایک آئی اے ایس افسر تھے۔‘‘
شاید چچیرے بھائی، جو کہ ایک آئی اے ایس افسر تھے، نے وزیر کو کہیں کوئی کام دلایا ہو؟
’’نہیں، نہیں۔ میں اپنے بھائی کے گھر میں کام کرتا تھا۔ ہر کام: کھانا پکانے، گھر کی صفائی کرنے، جھاڑو دینے، فرش پر پونچھا لگانے، برتن دھونے، کپڑے دھونے اور بعض دفعہ کار دھونے کا بھی کام کرتا تھا۔ میں نے ہر کام کیا۔‘‘
کیا پیسہ اچھا ملتا تھا؟ وزیر کتنا کما لیتا تھا؟
’’زیادہ نہیں۔ تقریباً اتنا ہی، جتنا میں گاؤں میں کماتا تھا۔ لیکن خوش قسمتی سے، بھائی اچھے انسان تھے۔ مجھے رہنے کے لیے ایک کمرہ اور روز کھانا مل جاتا تھا۔ اس لیے پانچ سو روپے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اس میں سے کچھ پیسے میں اپنے والد کو بھیج سکتا تھا۔‘‘
’’لیکن ایک سال تک یہ کام کرنے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ میرا اس طرح زندگی بسر کرنا صحیح نہیں ہے۔ پھر تو ساری زندگی میری یونہی گزر جائے گی۔ میں تمام عمر اس طرح جی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے میں نے گاڑی چلانا سیکھا، اپنے چچیرے بھائی کی کار سے۔ چونکہ وہ میرے رشتہ دار تھے، اس لیے انھوں نے مجھے گاڑی چلانا سیکھنے کی اجازت دے دی۔‘‘
لہٰذا، ایک سال تک گھریلو نوکر کے طور پر کام کرنے کے بعد وزیر کار ڈرائیور بن گیا۔ گاڑی چلاتے ہوئے اب ان کو تقریباً ۲۰ سال ہو چکے ہیں۔ بارہ سال پہلے انھوں نے اَنجو سے شادی کرلی، جو کہ آٹھویں کلاس تک پڑھی ہوئی ہیں۔ اب اُن کے تین بچے ہیں، جو اسکول جاتے ہیں۔ ہم جب وزیر کے گھر پہنچے، تو ان بچوں نے ہنستے ہوئے ہمارا استقبال کیا۔
گھر کے سارے فرد جو زبان بولتے ہیں، وہ ہریانوی نہیں لگتی۔ وزیر بتاتے ہیں، ’’ہم راجستھانی بولی بولتے ہیں، جس کا نام راجپوتانہ ہے۔ ہم لوگ راجپوت ہیں اور ہماری فیملی بنیادی طور پر ہریانہ کی نہیں ہے۔‘‘
تقسیم کے وقت، وزیر کے دادا اور ان کا کنبہ، جو بیکانیر ضلع میں ہندوستان و پاکستان کی سرحد کے پاس رہتا تھا، ہجرت کرکے ہریانہ چلا آیا اور فتح آباد ضلع کے بھٹّو گاؤں میں بس گیا۔ انجو کی فیملی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کے اجداد بھی راجستھان میں سرحد کے پاس کے گاؤوں میں رہتے تھے۔
وزیر کی بیوی اَنجو مجھے اپنے دو کمروں والے گھر کے اندر لے جاتی ہیں۔ سارے بچے ہنس رہے ہیں۔
سب سے بڑی، انجلی گیارہ سال کی ہے، خاموش طبع اور فرمانبردار، سب سے چھوٹا مَیَنک پانچ سال کا ہے اور شرمیلا ہے۔ تمنّ ہنس مکھ اور چنچل ہے۔ وہ باتونی ہے، ہندی میں کویتائیں پڑھتی ہے اور ان پر اداکاری بھی کرتی ہے۔ منجھلی بچی، تمناّ چھ سال کی ہے۔
اَنجلی ایک اچھے پبلک اسکول میں پڑھ رہی ہے۔ حقِ تعلیم قانون کے باوجود، جو اقتصادی طور پر پس ماندہ طبقہ کو ۲۵ فیصد سیٹ فراہم کرتا ہے، اسکولوں میں داخلہ پانا بہت مشکل ہے۔ ’’بڑی ہونے کے بعد میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں،‘‘ انجلی کہتی ہے۔ تو کیا اسے اپنا نیا اسکول اور وہاں کے دوسرے بچے، یعنی اپنے کلاس میٹس اچھے لگتے ہیں؟ اَنجلی فوراً سمجھ جاتی ہے کہ دوسرے بچوں سے کیا مراد ہے، یعنی امیر اور اونچے طبقہ کے بچے۔ وہ حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے کہتی ہے، ’’ہم ان بچوں سے کبھی نہیں ملتے۔ وہ صبح میں اسکول آتے ہیں۔ ہماری کلاسیں دوپہر بعد ہوتی ہیں، جب وہ سارے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ٹیچرس بھی الگ ہیں۔ وہ نہیں، جو انھیں پرھاتے ہیں۔‘‘ تو دوپہر بعد والی شفٹ میں کل کتنے بچے ہیں؟
’’بہت ہیں۔ ہمارے دو سیکشن ہیں۔ لیکن سارے ایک جیسے ہیں، سبھی غریب گھروں سے آتے ہیں۔‘‘
انجلی کو بچپن میں ہی معاشرے کے مختلف طبقوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور بڑی ہونے کے بعد بھی اسے معاشرے کے دیگر سیاہ پہلوؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ دوسری اسٹوری ہے، پھر کسی دن۔