اُس پر اِس بات کا کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ وہ جس جگہ اپنی بیوی کو پیٹ رہا ہے، اس کے ٹھیک سامنے ایک پولس اسٹیشن بھی ہے۔ ہَوسا بائی پاٹل کے شرابی شوہر نے انھیں بے دردی سے مارنا شروع کر دیا تھا۔ ’’مار کی وجہ سے میری پیٹھ میں درد ہونے لگا،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’یہ سب کچھ بھوانی نگر [سانگلی میں] کے چھوٹے پولس اسٹیشن کے سامنے ہو رہا تھا۔‘‘ لیکن اُس وقت تھانے کے کل چار پولس ملازمین میں سے صرف دو موجود تھے۔ ’’دو دوپہر کا کھانا کھانے باہر گئے ہوئے تھے۔‘‘ اس کے بعد ان کے شرابی شوہر نے ’’ایک بڑا سا پتھر اٹھایا۔ ’اسی پتھر سے میں تمہیں یہیں جان سے مار دوں گا‘، وہ غرایا۔‘‘
یہ سب دیکھ کر تھانے کے اندر موجود دونوں پولس والے باہر نکل آئے۔ ’’انھوں نے ہمارا جھگڑا ختم کرانے کی کوشش کی۔‘‘ تبھی، ہَوسا بائی وہاں موجود اپنے بھائی کے سامنے گڑگڑانے لگیں کہ وہ اپنے جھگڑالو شوہر کے گھر واپس نہیں جانا چاہتیں۔ ’’میں نے کہا کہ میں نہیں جاؤں گی، نہیں جاؤں گی۔ میں یہیں رہوں گی، تم مجھے اپنے گھر کے بغل میں ایک چھوٹی سی جگہ دے دو۔ اپنے شوہر کے ساتھ جا کر مرنے کے بجائے، میں یہیں رہ کر جو کچھ بھی مجھے ملے گا، اسی پر زندگی بسر کرنا چاہتی ہوں... میں ان کی پٹائی اب اور برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘ لیکن، ان کے بھائی نے ان کی ایک نہ سنی۔‘‘
پولس والوں نے میاں بیوی کو دیر تک سمجھایا۔ پھر اخیر میں، ان دونوں کو ان کے گاؤں جانے والی ٹرین میں بیٹھا آئے۔ ’’انھوں نے ہمارے لیے ٹکٹ بھی خریدے اور لاکر میرے ہاتھ میں رکھ دیا۔ انھوں نے میرے شوہر سے کہا – اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری بیوی تمہارے ساتھ رہے، تو اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اس کا خیال رکھو۔ لڑائی جھگڑا مت کرو۔‘‘
اس دوران، ہَوسا بائی کے ساتھیوں نے پولس اسٹیشن کو لوٹ لیا تھا، وہاں رکھی چاروں رائفلیں اٹھا لائے تھے؛ انھوں نے اور ان کے نقلی ’شوہر‘ اور ’بھائی‘ نے پولس کا دھیان بھٹکانے کے لیے یہ سارا ناٹک کیا تھا۔ یہ واقعہ ۱۹۴۳ کا ہے، جب وہ ۱۷ سال کی تھیں، ان کی شادی کے تین سال ہو چکے تھے، اور ان کا ایک چھوٹا بیٹا بھی تھا، سبھاش، جسے وہ برطانوی راج مخالف مشن پر روانہ ہونے سے پہلے ایک چچی کے پاس چھوڑ آئی تھیں۔ اس واقعہ کو تقریباً ۷۴ سال ہو چکے ہیں، لیکن انھیں اب بھی غصہ آ رہا ہے کہ اپنے جھگڑے کو حقیقی دکھانے کے لیے ان کے نقلی شوہر نے انھیں بہت زور سے پیٹا تھا۔ اب وہ ۹۱ سال کی ہیں، اور ہمیں اپنی یہ کہانی مہاراشٹر کے سانگلی ضلع کے ویٹا میں سنا رہی ہیں، ’’میری آنکھیں اور کان [اس عمر میں] میرا ساتھ نہیں دے رہے ہیں، لیکن سارا واقعہ میں خود ہی بیان کروں گی۔‘‘
’میں ڈبے کے اوپر سو نہیں سکتی تھی، کیوں کہ ایسا کرنے سے وہ ڈبہ ڈوب سکتا تھا۔ میں کنویں میں تو تیر سکتی تھی، لیکن اس ندی میں پانی کا تیز بہاؤ تھا۔ مانڈوی کوئی چھوٹی ندی نہیں ہے‘
ہَوسا بائی پاٹل نے اس ملک کی آزادی کے لیے لڑائی لڑی۔ وہ اور اُس ناٹک میں شامل ان کے ساتھ اداکار طوفان سینا کے رکن تھے۔ یہ سینا ستارا کی پرتی سرکار یا زیر زمین حکومت کی مسلح شاخ تھی، جس نے ۱۹۴۳ میں ہی برطانوی حکومت سے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ پرتی سرکار ایک ایسی حکومت تھی، جس کا کنٹرول تقریباً ۶۰۰ (یا اس سے زیادہ) گاؤوں پر تھا، جب کہ اس ہیڈ کوارٹر کُنڈل میں تھا۔ ہَوسا بائی کے عظیم والد، نانا پاٹل، پرتی سرکار کے قائد تھے۔
ہَوسا بائی (جنہیں اکثر ہَوسا تائی کہا جاتا ہے؛ مراٹھی زبان میں بڑی بہن کو عزت بخشنے کے لیے ’تائی‘ کہتے ہیں)، ۱۹۴۳ سے ۱۹۴۶ کے درمیان انقلابیوں کی اس ٹیم کا حصہ تھیں، جنہوں نے برطانوی ٹرینوں پر حملہ کیا، پولس کے ہتھیاروں کو لوٹا، اور ڈاک بنگلوں کو نذرِ آتش کیا۔ (اس زمانے میں، یہ ڈاک گھر، سرکاری مسافروں کے لیے آرام گھر اور یہاں تک کہ کبھی کبھی عارضی عدالتوں کا بھی کام کیا کرتے تھے)۔ ۱۹۴۴ میں، انھوں نے گوا میں زیر زمین کارروائی میں بھی حصہ لیا، جو اس وقت پرتگالی حکومت کے تحت تھا، اور آدھی رات کو لکڑی کے ڈبے کے اوپر بیٹھ کر مانڈوی ندی کو پار کیا، تب ان کے ساتھی کامریڈ ان کے ساتھ ساتھ تیر رہے تھے۔ لیکن، وہ زور دے کر کہتی ہیں، ’’میں نے [اپنے خلیرے بھائی] باپو لاڈ کے ساتھ جنگ آزادی میں بہت چھوٹا کام کیا تھا۔ میں نے کچھ بھی بڑا یا عظیم کارنامہ انجام نہیں دیا۔‘‘
’’میں جب تین سال کی تھی، تب میری والدہ کا انتقال ہو گیا تھا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’اس وقت میرے والد جدو جہد آزادی سے متاثر ہو چکے تھے۔ اس سے پہلے بھی، وہ جیوتبا پھُلے کے اصولوں سے متاثر تھے۔ اور بعد میں، مہاتما گاندھی سے بھی متاثر ہوئے۔ انھوں نے تلاتی [گاؤں کا اکاؤنٹینٹ] کی اپنی ملازمت چھوڑ دی اور [مستقل کارکن کی شکل میں] جنگ آزادی میں شامل ہو گئے... مقصد تھا، ہماری اپنی حکومت بنانا۔ اور برطانوی حکومت کو [بھاری] نقصان پہنچانا، تاکہ ہم اس سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں۔‘‘
نانا پاٹل اور ان کے معاونین کے خلاف وارنٹ جاری ہو گیا۔ ’’انھیں اپنا کام زیر زمین (انڈر گراؤنڈ) ہوکر کرنا پڑا۔‘‘ نانا پاٹل ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جاتے اور اپنی زوردار تقریروں سے لوگوں کو بغاوت پر آمادہ کرتے۔ ’’[اس کے بعد] وہ دوبارہ زیر زمین ہو جاتے۔ ان کے ساتھ تقریباً ۵۰۰ لوگ تھے اور ان سبھی کے نام سے وارنٹ جاری ہو چکا تھا۔‘‘
اس جرأت کے لیے انھیں قیمت بھی چکانی پڑی۔ انگریزوں نے نانا پاٹل کے کھیت اور جائیدادوں کو ضبط کر لیا۔ وہ تو زیر زمین ہو گئے تھے – لیکن ان کے اہل خانہ کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا۔
’’سرکار نے تب ہمارے گھر کو سیل کر دیا۔ ہم کھانا پکا رہے تھے – جب وہ آئے، تو اس وقت آگ پر بھاکری اور بینگن رکھا ہوا تھا۔ ہمارے لیے صرف ایک کمرہ باقی بچا۔ اس میں ہم کئی لوگ رہتے تھے... میری دادی، میں، میری چچی۔‘‘
انگریزوں نے ہَوسا بائی کی فیملی کی ضبط کی ہوئی جائیدادوں کو نیلام کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی خریدار سامنے نہیں آیا۔ جیسا کہ وہ یاد کرتی ہیں: ’’ہر دن صبح و شام ایک دَوَنڈی – گاؤں میں منادی کرنے والا – آتا اور آواز لگاتا: ’نانا پاٹل کے کھیت کی نیلامی ہونی ہے۔‘ [لیکن] لوگ کہتے، ہم نانا کا کھیت کیوں لیں؟ انھوں نے نہ تو کسی کو لوٹا ہے اور نہ ہی کسی کا قتل کیا ہے۔‘‘
لیکن، ’’ہم اُس کھیت کو جوت نہیں سکتے تھے... [اس لیے] ہمیں زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ روزگار تو کرنا ہی تھا۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا کہ روزگار سے میرا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں دوسرے کے یہاں کام کرنا پڑا۔‘‘ لیکن انھیں ڈر تھا کہ انگریز اُن سے بدلہ لیں گے۔ ’’اسی لیے ہمیں گاؤں میں کوئی کام نہیں ملتا تھا۔‘‘ پھر، ایک ماموں نے انھیں ایک جوڑی بیل اور ایک بیل گاڑی دی۔ ’’تاکہ ہم اپنی بیل گاڑی کو کرایے پر دے کر کچھ پیسہ کما سکیں۔‘‘
’’ہم گُڑ، مونگ پھلی، جوار کی ڈھلائی کرتے۔ اگر بیل گاڑی ییڈے مچھندرا [نانا کے گاؤں] سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر دور، ٹکاری گاؤں جاتی تو ہمیں ۳ روپے ملتے۔ اگر کراڈ [۲۰ کلومیٹر سے زیادہ دور] تک جاتی، تو ۵ روپے ملتے۔ بس [ہم نے کرایے سے اتنا ہی کمایا]۔‘‘
’’میری دادی [اُن] کھیتوں سے کچھ اکھاڑتیں۔ میری چچی اور میں، بیلوں کو کھلاتے۔ ہماری بیل گاڑی [اور زندگی] انہیں پر منحصر تھی، اس لیے ہمیں ان مویشیوں کو اچھی طرح کھلانا پڑتا۔ گاؤں کے لوگ ہم سے بات نہیں کرتے تھے۔ دکاندار ہمیں نمک تک نہیں دیتا تھا، [کہتا] ’کہیں اور سے لے لو‘۔ کبھی کبھی، ہم کچھ لوگوں کے لیے اناج پیٹنے جاتے، وہ ہمیں بلاتے نہیں تھے تب بھی – اس امید میں کہ رات میں کھانے کے لیے کچھ مل جائے گا۔ ہمیں گولر ملتا، جسے پکا کر ہم سالن بناتے۔‘‘
زیر زمین ہونے کے بعد ہَوسا بائی کا بنیادی کام خفیہ جانکاری اکٹھا کرنا تھا۔ انھوں نے اور دیگر لوگوں نے وانگی (جو کہ ابھی ستارا ضلع میں ہے) جیسے حملوں کے لیے اہم جانکاری اکٹھا کی، وہاں ایک ڈاک بنگلہ کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔ ’’انھیں یہ پتہ لگانا ہوتا تھا کہ کتنے پولس والے ہیں، وہ کب آتے ہیں اور کب جاتے ہیں،‘‘ ان کے بیٹے، ایڈووکیٹ سبھاش پاٹل بتاتے ہیں۔ ’’بنگلوں کو جلانے کا کام دوسروں نے کیا تھا۔‘‘ اس علاقے میں بہت سے لوگ تھے۔ ’’انھوں نے ان سبھی کو جلا دیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
جو لوگ زیر زمین تھے، کیا ان میں ہوسا بائی جیسی دیگر خواتین بھی تھیں؟ ہاں، وہ کہتی ہیں۔ ’’شالو تائی [ٹیچر کی بیوی]، لیلا تائی پاٹل، لکشمی بائی نائکواڑ، راج متی پاٹل – [یہ] ایسی کچھ خواتین تھیں۔‘‘
ہوسا بائی نے ان میں سے کئی بہادری بھرے کارنامے ’شیلر ماما‘ اور عظیم انقلابی جی ڈی باپو لاڈ کے ساتھ مل کر انجام دیے۔ ’شیلر ماما‘ ان کے کامریڈ (ساتھی) کرشنا سالُنکی کا عرفی نام تھا۔ (اصلی شیلر ماما ۱۷ویں صدی کے مشہور مراٹھی لڑاکو تھے)۔
پرتی سرکار اور طوفان سینا کے سرکردہ لیڈروں میں سے ایک، باپو لاڈ ’’میرے خالہ زاد بھائی تھے، میری خالہ کے بیٹے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’باپو مجھے ہمیشہ پیغام بھیجتے – ’گھر پر مت بیٹھنا!‘ ہم دونوں، بھائی بہن کے طور پر کام کیا کرتے تھے، مگر لوگ شک کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ لیکن میرے شوہر جانتے تھے کہ باپو اور میں حقیقت میں بھائی اور بہن ہیں۔ اور میرے شوہر کے نام سے [بھی] ایک وارنٹ جاری کیا گیا تھا۔ ہم جب گوا گئے، تو صرف باپو اور میں ساتھ تھے۔‘‘
گوا سے ایک کامریڈ کو چھڑانا تھا، جنہیں وہاں سے ستارا کی سینا کے لیے اسلحہ لاتے وقت پرتگالی پولس نے گرفتار کر لیا تھا۔ ’’تو، ایک کارکن تھے بال جوشی، جنہیں اسلحہ لاتے وقت گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انھیں پھانسی ہو سکتی تھی۔ باپو نے کہا، ’ہم جب تک انھیں جیل سے چھڑا نہیں لیتے، تب تک واپس نہیں لوٹ سکتے‘۔‘‘
ہوسا بائی نے جوشی کی ’بہن‘ بن کر جیل میں ان سے ملاقات کی۔ فرار ہونے کے منصوبہ کے ساتھ ’’جو ایک [چھوٹے] کاغذ پر لکھا تھا، جسے میں نے اپنے بال کے جوڑے میں چھپا لیا تھا۔‘‘ حالانکہ، انھیں سینا کے لیے وہ اسلحے بھی اٹھا کر لے جانے تھے، جو پولس کے ہاتھ نہیں لگے تھے۔ اب واپس جانا جوکھم بھرا کام تھا۔
’’سبھی پولس والے مجھے دیکھ چکے تھے اور مجھے پہچان لیتے۔‘‘ اس لیے انھوں نے ریلوے کے سفر کے بجائے سڑک سے جانے کا فیصلہ کیا۔ ’’لیکن مانڈوی ندی میں کوئی کشتی نہیں تھی، مچھلی پکڑنے والی چھوٹی کشتی تک بھی نہیں۔ ایسے میں ہمیں پتہ تھا کہ ہمیں تیر کر جانا پڑے گا۔ ورنہ ہم گرفتار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اُس پار کیسے جائیں؟ [ہمیں ملا] ایک بڑا ڈبہ، جو مچھلی پکڑنے والے جال کے اندر رکھا ہوا تھا۔‘‘ اس ڈبے کے اوپر پیٹ کے بل لیٹ کر، انھوں نے آدھی رات کو ندی پار کی، جب کہ ان کی مدد کے لیے ان کے کامریڈ ساتھ ساتھ تیرتے رہے۔
’’میں ڈبے کے اوپر سو نہیں سکتی تھی، کیوں کہ ایسا کرنے سے وہ ڈبہ ڈوب سکتا تھا۔ میں کنویں میں تو تیر سکتی تھی، لیکن اس ندی میں پانی کا تیز بہاؤ تھا۔ مانڈوی کوئی چھوٹی ندی نہیں ہے۔ [ہمارے گروپ کے] دوسرے لوگ تیر رہے تھے... انھوں نے سوکھے کپڑے اپنے سروں پر باندھ لیے – تاکہ بعد میں اسے پہن سکیں۔‘‘ اور اس طرح انھوں نے ندی پار کی۔
’’[اس کے بعد] ہم جنگل میں چلتے رہے... دو دنوں تک۔ کسی طرح، ہمیں جنگل سے باہر نکلنے کا راستہ ملا۔ گھر واپس آنے میں ہمیں کل ۱۵ دن لگے۔‘‘
باپو اور ہوسا بائی اسلحہ اپنے ساتھ لے کر نہیں آئے، بلکہ انھوں نے اسے لانے کا انتظام کر دیا۔ جوشی کئی دنوں بعد جیل سے فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
پاری (PARI) ٹیم جب ان سے بات چیت کرنے کے بعد اپنا سامان لپیٹ رہی تھی، تب ہوسا بائی چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ہم سے پوچھتی ہیں: ’’تو، کیا آپ لوگ مجھے لے کر جا رہے ےہیں؟‘‘
’’لیکن کہاں، ہوسا بائی؟‘‘
’’آپ سبھی کے ساتھ کام کرنے کے لیے،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)