وہ اپنا انعام –ایک پیسہ کا چمکتا ہوا سکہ – لینے کے لیے اسٹیج پر چڑھے، جو انہیں منشی یعنی سینئر افسر سے ملنے والا تھا جس کے ماتحت کئی اسکول تھے۔ یہ ۱۹۳۹ کا پنجاب تھا، جب وہ صرف ۱۱ سال کے تھے اور بطور طالب علم انہوں نے تیسری کلاس میں ٹاپ کیا تھا۔ منشی نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور شاباشی دیتے ہوئے بولا، کہو ’برطانیہ زندہ آباد، ہٹلر مردہ آباد‘۔نوجوان بھگت سنگھ– ان کے ہم نام عظیم انقلابی بھگت سنگھ نہیں – نے سامعین کی طرف رخ کیا اور تیز آواز میں کہا ’’برطانیہ مردہ آباد، ہندوستان زندہ آباد۔‘‘

ان کی اس نافرمانی کا فوری نتیجہ دیکھنے کو ملا۔منشی بابو نے اسی وقت انہیں پیٹنا شروع کر دیا، اور سمندر کے سرکاری ایلیمنٹری اسکول سے ان کا نام کاٹ دیا۔وہاں موجود دوسرے طلبہ نے حیرانگی بھری خاموشی کے ساتھ انہیں دیکھا، اور اس کے بعد وہاں سے بھاگ کھڑے  ہوئے۔مقامی اسکولوں کی اتھارٹی – جسے آج کی زبان میں ہم  بلاک ایجوکیشن آفیسر کہہ سکتے ہیں – نے پنجاب کے موجودہ ہوشیار پور ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی منظوری سے ایک لیٹر جاری کیا، جس میں انہیں اسکول سے نکالے جانے کی تصدیق کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ 11 سال کی عمر میں یہ لڑکا ’خطرناک‘ اور ’باغی‘ ہے۔

اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ اب بھگت سنگھ جھگیاں کے لیے اسکول کے تمام دروازے بند ہوچکے تھے، حالانکہ اس زمانے میں ارد گرد زیادہ اسکول بھی نہیں تھے۔ان کے والدین کے علاوہ کئی اور لوگوں نے بھی سرکاری حکام سے اپنے اس فیصلہ کو واپس لینے کی گزارش کی۔ ایک بارسوخ زمیندار، غلام مصطفی نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی، لیکن برطانوی حکومت کافی ناراض تھی۔اس چھوٹے سے بچے نے ان کی عزت مٹی میں ملادی تھی۔بھگت سنگھ جھگیاں اس کے بعد زندگی بھر روایتی تعلیم سے محروم رہے۔

لیکن وہ تب بھی اس اسکول کے سب سے ہونہار طالب علم تھے، اور آج ۹۳ سال کی عمر میں بھی ہیں۔

ہوشیار پور ضلع کے رام گڑھ گاؤں میں اپنے گھر پر ہم سے بات کرتے ہوئے، وہ اس واقعہ کو یاد کرکے مسکراتے ہیں۔ یہ پوچھنے پر کہ کیا انہیں اس کاافسوس نہیں ہوا تھا، وہ جواب دیتے ہیں ’’میرا رد عمل بس یہی تھا کہ اب میں انگریزوں کے خلاف لڑائی میں شامل ہونے کے لیے آزاد ہوں۔‘‘

Bhagat Singh Jhuggian and his wife Gurdev Kaur, with two friends in between them, stand in front of the school, since renovated, that threw him out in 1939
PHOTO • Courtesy: Bhagat Singh Jhuggian Family

بھگت سنگھ جھگیاں اور ان کے دوست  اسی اسکول کے سامنے کھڑے ہیں، جہاں سے ۱۹۳۹ میں انہیں نکال دیا گیا تھا

ان کی یہ بات کہ اب وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہیں، بہت دور تک سنی گئی۔حالانکہ شروع میں وہ اپنی فیملی کے کھیتوں پر کام کرنے لگے تھے، لیکن ان کی شہرت چاروں طرف پھیلنے لگی۔پنجاب میں زیر زمین رہ کر کام کرنے والے سخت گیر  گروہوں نے ان سے رابطہ کرنا شروع کردیا۔ وہ ’کیرتی پارٹی‘ میں شامل ہوگئے، جو غدر پارٹی کی ایک شاخ تھی جس نے ریاست میں ۱۹۱۴-۱۵ میں ’غدر‘ بغاوت کی تھی۔

اس گروپ میں ایسے کئی لوگ شامل تھے جو فوجی اور نظریاتی ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے اس وقت انقلابی روس گئے ہوئے تھے۔پنجاب لوٹنے پر جہاں غدر تحریک کو کچل دیاگیا تھا، انہوں نے ’کیرتی‘ کے نام سے ایک پرچہ نکالنا شروع کیا۔اس کے کئی نامور صحافیوں میں سے ایک، لیجنڈری بھگت سنگھ بھی تھے جنہوں نے پرچہ کے ایڈیٹر کی غیر موجودگی میں، ۲۷ مئی ۱۹۲۷ کو اپنی گرفتاری سے قبل، تین مہینے تک اس کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ کیرتی پارٹی، مئی ۱۹۴۲ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں ضم ہو گئی۔

اور جھگیاں کا نام بھگت سنگھ کے نام پر نہیں پڑا تھا، حالانکہ وہ کہتے ہیں، ’’میں لوگوں سے ان کے گانے سنتے ہوئے بڑا ہوا–ایسے بہت سے گانے تھے۔ ‘‘ بلکہ وہ اس زمانے کے سب سے بڑے انقلابی کے نام پر گائے جانے والے گانوں میں سے ایک کے کچھ الفاظ بھی ہمیں سناتے ہیں، جنہیں انگریزوں نے ۱۹۳۱ میں پھانسی دے دی تھی، تب جھگیاں صرف تین سال کے تھے۔

اسکول سے نکالے جانے کے بعد کے برسوں میں، بھگت سنگھ جھگیاں انڈر گراؤنڈ رہ کر کام کرنے والے انقلابیوں کے لیے ڈاکیہ کا کام کرنے لگے۔اپنی فیملی کے پانچ ایکڑ کھیت میں کام کرنے کے دوران ’’وہ مجھ سے جو بھی کرنے کے لیے کہتے تھے میں کرتا تھا۔‘‘ ان میں سے ایک کام، اس کم عمر نوجوان کے لیے یہ تھا کہ انہوں نے ایک چھوٹا، الگ الگ پرزوں میں تقسیم کیا ہوا اور ’’بہت بھاری‘‘ پرنٹنگ پریس دو بورے میں لاد کر اندھیرے میں 20 کلومیٹر چلتے ہوئے انقلابیوں کے ایک خفیہ کیمپ میں پہنچایاتھا۔صحیح معنوں میں، آزادی کے پیدل سپاہی تھے وہ۔

’’ادھر سے انہوں نے کھانے اور دوسرے سامانوں سے بھرا ہوا ایک اور بھاری تھیلاہمارے نیٹ ورک کے دوسرے کامریڈوں تک پہنچانے کے لیے دے دیا جس کا فاصلہ اتنا ہی دور تھا۔‘‘ ان کی فیملی بھی انڈرگراؤنڈ جنگجوؤں کے لیے کھانے اور رہنے کا انتظام کرتی تھی۔

Prof. Jagmohan Singh (left), nephew of the great revolutionary Shaheed Bhagat Singh, with Jhuggian at his home in Ramgarh
PHOTO • P. Sainath

جھگیاں، رام گڑھ میں واقع اپنے گھر پر عظیم انقلابی شہید بھگت سنگھ کے بھتیجے، پروفیسر جگ موہن سنگھ (بائیں) کے ساتھ

جس پرنٹنگ مشین کو وہ انقلابیوں تک لے گئے تھے اسے’ اڈارا پریس ‘ (اڑتا ہواپریس،یعنی پورٹیبل)۔یہ واضح نہیں ہے کہ وہ الگ الگ پرزوں میں کھول کر پیک کیا ہوا پریس تھا،یا اس کے بڑے پرزے تھے، یا کوئی سائیکلو اسٹائیلنگ مشین تھی۔انہیں صرف اتنا یاد ہے ’’اس کے پرزے لوہے کے تھے اور کافی بڑے اور وزنی تھے۔‘‘ان کا یہ خفیہ کام کبھی پکڑا نہیں گیا، اور کام میں چاہے جتنا بڑا خطرہ ہو انہوں نے کبھی اسے کرنے سے منع نہیں کیا۔ انہیں اس بات کا بھی فخر ہے کہ ’’مجھے پولیس کا خوف کم تھا، بلکہ پولیس ہی مجھ سے زیادہ ڈرتی تھی۔‘‘

*****

اور اس کے بعد تقسیم کا واقعہ پیش آیا۔

اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے بھگت سنگھ جھگیاں کافی جذباتی ہوگئے۔اس دوران ہوئے خون خرابے کے بارے میں بتاتے  ہوئے ان کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ’’ہزاروں کی تعداد میں جو قافلہ سرحد کے اس پار جانے کی کوشش کر رہا تھا،  ان پر حملے ہو رہے تھے، لوگوں کا قتل عام ہورہا تھا۔یہاں میرے آس پاس بھی لاشوں کے انبار تھے۔‘‘

اسکول ٹیچر، مصنف اور مقامی تاریخ نویس اجمیر سدھو بتاتے ہیں ’’یہاں سے صرف چار کلو میٹر دور، سمبلی گاؤں میں دو رات اور ایک دن کے دوران تقریبا 250 لوگوں کو قتل کر دیا گیا، سبھی مسلمان تھے۔باوجود اس کےگڑھ شنکر پولیس اسٹیشن کے تھانہ دار نے صرف 101 اموات ہی درج کیں۔‘‘ہم جس وقت بھگت سنگھ جھگیاں سے بات کررہے تھے اس وقت اجمیر سدھو ہمارے ساتھ موجود تھے۔

بھگت سنگھ کہتے ہیں، ’’اگست 1947 میں یہاں پر دو طرح کے لوگ تھے۔ایک گروہ مسلمانوں کا قتل عام کررہا تھا اور دوسرا انہیں حملہ آوروں سے بچانے کی کوشش میں لگا ہواتھا۔

’’میرے کھیت کے پاس ایک نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ہم نے اس کی آخری رسومات ادا کرنے میں اس کے بھائی کی مدد کرنے کی پیشکش کی، لیکن وہ اتنا ڈرا ہوا تھا کہ لاش کوچھوڑکر کاررواں کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ ہم نے اسے خود اپنے کھیت میں دفن کیا۔یہاں پر 15 اگست اچھا نہیں گزرا۔‘‘

Bhagat Singh with his wife Gurdev Kaur and eldest son 
Jasveer Singh in 1965.
PHOTO • Courtesy: Bhagat Singh Jhuggian Family
Bhagat Singh in the late 1970s.
PHOTO • Courtesy: Bhagat Singh Jhuggian Family

بھگت سنگھ اور ان کی بیوی گردیو کور ۱۹۶۵ میں اپنے سب سے بڑے بیٹے جسویر سنگھ کے ساتھ۔ دائیں: ۱۹۷۰ کی دہائی کے آخری دنوں کی ان کی ایک تصویر

سرحد پارکرنے میں کامیاب رہے لوگوں میں سے ایک غلام مصطفی بھی تھے، وہی زمیندار جنہوں نے ایک بار بھگت سنگھ جھگیاں کو اسکول میں دوبارہ داخل کرانے کی کوشش کی تھی۔

بھگت سنگھ کہتے ہیں، ’’حالانکہ مصطفی کے بیٹے، عبدالرحمن کچھ دنوں تک یہیں رکے ہوئے تھے، لیکن ان کی جان کو کافی خطرہ تھا۔ایک رات میری فیملی رحمن کو خفیہ طریقے سے گھر لے آئی۔ان کے ساتھ ایک گھوڑا بھی تھا۔‘‘

لیکن مسلمانوں کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم رہے فسادیوں کو اس کی خبر لگ گئی۔  ’’لہذا، ایک رات ہم نے انہیں اپنے گھر سے باہرنکالا اور دوستوں اور کامریڈوں کے نیٹ ورک کے ذریعہ وہ آسانی سے سرحد پارکرنے میں کامیاب ہوگئے۔‘‘ بعد میں، انہوں نے ان کا گھوڑا بھی سرحد کے اس پار پہنچادیا۔مصطفی نے گاؤں کے دوستوں کو لکھے گئے ایک خط میں جھگیاں کا شکریہ ادا کیا اور ایک دن ہندوستان آنے کا بھی وعدہ کیا۔’’لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئے۔‘‘

تقسیم کی بات کرتے وقت بھگت سنگھ اداس اور بے چین ہوجاتے ہیں۔دوبارہ بات کرنے سے پہلے وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں۔ایک بار ہوشیارپور کے بیرم پور گاؤں میں جنگ آزادی سے متعلق ایک کانفرنس پر جب پولیس نے چھاپہ مارا، تو انہیں 17 دن کی جیل بھی ہوئی تھی۔

۱۹۴۸ میں وہ لال(سرخ) کمیونسٹ پارٹی ہند یونین میں شامل ہوگئے، جو سی پی آئی میں ضم ہونے والی کیرتی پارٹی سے ٹوٹ کر بنی تھی۔

لیکن اس زمانے میں، تلنگانہ اور دوسرے علاقوں میں ۱۹۴۸ سے ۱۹۵۱ کے درمیان ہونے والی بغاوتوں کے بعد تمام کمیونسٹ گروہوں پر پابندی عاید کردی گئی تھی۔جیل سے واپس آنے کے بعد بھگت سنگھ جھگیاں دن میں کھیتوں پر بطور کسان کام کرتے تھے اور رات میں اپنے انقلابی ساتھیوں کے لیے ڈاکیہ کا کام کرتے تھے۔اور مفرور انڈرگراؤنڈ ساتھیوں کی مدد کرتے تھے۔خود اپنی زندگی میں انہوں نے بھی ایک سال تک انڈرگراؤنڈ رہ کر کام کیا۔

بعد میں، ۱۹۵۲ میں، لال پارٹی بھی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں ضم ہوگئی۔اس کے بعد ۱۹۶۴ میں جب سی پی آئی کے دو ٹکڑے ہوئے تو وہ نوتشکیل سی پی آئی (ایم) میں شامل ہوگئے اور آج تک اسی کے ساتھ ہیں۔

Jhuggian (seated, centre) with CPI-M leader (late) Harkishan Singh Surjeet (seated, right) at the height of the militancy in Punjab 1992
PHOTO • Courtesy: Bhagat Singh Jhuggian Family

پنجاب میں ۱۹۹۲ میں جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، جھگیاں (درمیان میں بیٹھے ہوئے) سی پی آئی ایم کے لیڈر (آنجہانی) ہرکشن سنگھ سرجیت (دائیں جانب بیٹھے ہوئے) کے ساتھ

اس پوری مدت کے دوران وہ کسانوں اور زمین سے جڑی ہر لڑائی میں شریک رہے۔ بھگت سنگھ کو ۱۹۵۹ میں خوش حسیتی ٹیکس مورچہ کے دوران گرفتار کرلیا گیا۔الزام لگایا گیا کہ انہوں نے کانڈی علاقہ (اب پنجاب کی شمال مشرقی سرحد پر واقع ہے) کے کسانوں کو متحرک کیا ہے۔پرتاپ سنگھ کیروں کی حکومت کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے بھگت سنگھ کی بھینس اور چارہ کاٹنے والی مشین کو ضبط کرنے کے بعد اسے نیلام کردیا۔ لیکن گاؤں کے ہی ایک آدمی نے 11 روپے میں دونوں چیزوں کو خریدکر اسے بھگت سنگھ کی فیملی کو لوٹا دیا۔

اس تحریک کے دوران بھگت سنگھ نے تین مہینے لدھیانہ جیل میں بھی گزارے۔ اور دوبارہ، اسی سال تین مہینے پٹیالہ جیل میں رہے۔

جس گاؤں میں وہ زندگی بھر رہے، شروع میں جھگیوں کا ایک مجموعہ تھا، جس کی وجہ سے اسے جھگیاں کہا جاتا تھا۔اسی لیے بھگت سنگھ جگھیاں نام پڑا۔ یہ اب گڑھ شنکر تحصیل کے رام گڑھ گاؤں کا حصہ ہے۔

۱۹۷۵ میں، ایمرجنسی کے خلاف لڑتے ہوئے انہیں دوبارہ ایک سال کے لیے انڈرگراؤنڈ ہونا پڑا تھا۔اس بار بھی ان کا کام لوگوں کو متحرک کرنا، ضرورت پڑنے پر ڈاکیہ کی خدمت انجام دینا اور ایمرجنسی مخالف تحریری مواد تقسیم کرنا تھا۔

ان تمام سالوں کے دوران، وہ اپنے گاؤں اور علاقے سے پوری طرح جڑے رہے۔جو شخص تیسری کلاس کے بعد کبھی آگے پڑھائی نہیں کرسکا، اس نے تعلیم اور روزگار حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہے بہت سے نوجوانوں کی بھرپور کافی مددکی۔ان میں سے کچھ لوگوں نے بعد میں اعلی مقام حاصل کیے، یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کو سرکاری نوکری بھی ملی۔

*****

۱۹۹۰: بھگت سنگھ کی فیملی کو معلوم تھا کہ ان کے، ٹیوب ویل ،اور دہشت کے درمیان صرف چند منٹ کا فاصلہ رہ گیا ہے۔بھاری اسلحوں سے لیس خالصتانی ٹکڑی  نے ان کے کھیتوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا کیوں کہ ان کے گھر سے محض 400 میٹر کی دوری پر واقع ٹیوب ویل پر ان کا نام لکھا ہوا تھا۔وہاں پر انہوں نے چھپ کر نشانہ لگانے کی کوشش کی – لیکن لوگوں نے انہیں دیکھ لیا۔

۱۹۸۴ سے ۱۹۹۳ کے درمیان، پنجاب دہشت گردی سے بری طرح متاثرتھا۔ سینکڑوں لوگوں کو گولی ماردی گئی ، ہلاک کر دیا گیا، یا کسی اور طریقے سے ان کا قتل کردیا گیا۔ان میں سے زیادہ تر لوگ سی پی آئی، سی پی آئی (ایم) اور سی پی آئی (ایم ایل)کے کارکن تھے،کیوں کہ ان پارٹیوں نے خالصتانیوں کو کڑی ٹکر دی تھی۔اس زمانے میں بھگت سنگھ ہمیشہ ان کی ہٹ لسٹ میں رہے۔

Bhagat Singh Jhuggian at the tubewell where the Khalistanis laid an ambush for him 31 years ago
PHOTO • Vishav Bharti

بھگت سنگھ جھگیاں اُس ٹیوب ویل پر، جہاں ۳۱ سال قبل خالصتانیوں نے انہیں مارنے کے ارادے سے چھپ کر نشانہ لگایا تھا

۱۹۹۰ میں جاکر انہیں پتہ چلا کہ اس لسٹ میں ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ان کے تین چھوٹے بیٹےچھت پر موجود تھے،جن کے ہاتھوں میں پولیس نے بندوق پکڑا رکھی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکومت نے ان لوگوں کو اپنے دفاع کے لیے بندوق رکھنے کی اجازت دے دی تھی جنہیں  اپنی جان کا خطرہ تھا۔

اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے بھگت سنگھ کہتے ہیں، ’’انہوں نے ہمیں بندوق تو دی تھی، لیکن وہ اچھی نہیں تھی۔ اس لیے میں نے 12 بور کی ایک چھوٹی بندوق کسی سے لی اور خود اپنے لیے ایک سیکنڈ ہینڈ بندوق خریدی۔‘‘

ان کے بیٹے، ۵۰ سالہ پرم جیت کہتے ہیں، ’’ایک بار میں نے دہشت گردوں کی طرف سے میرے والد کو لکھا گیا دھمکی بھرا خط کھول کر پڑھ لیا جس میں انہوں نے وارننگ دی تھی کہ ’اپنی سرگرمیاں بند کردو ورنہ تمہاری پوری فیملی کو جان سے مار دیں گے۔‘ میں نے اسے واپس لفافے میں رکھ کر بند کردیا گویا کہ کسی نے اسے دیکھا نہیں ہے۔ اس خط پر اپنے والد کے ردعمل کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔انہوں نے بڑے اطمینان سے اس لیٹر کو پڑھا، اسے موڑا اور اپنی جیب میں رکھ لیا۔کچھ دیر بعد، وہ ہم تینوں کو چھت کے اوپر لے گئے اور ہم سے الرٹ رہنے کو کہا، لیکن لیٹر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔‘‘

۱۹۹۰ کی یہ محاذ آرائی کافی مشکل تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ ہمت ور فیملی ان سے آخری دم تک لڑتی۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں تھا کہ اے کے ۴۷ اور دیگر مہلک ہتھیاروں سے لیس اُن تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ہاتھوں یہ مغلوب ہو جاتے۔

تبھی اُن میں سے ایک انتہا پسند نے ٹیوب ویل پر لکھے نام کو پہچان لیا۔ ’’وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کی جانب مڑا اور بولا، ’اگر ہمارا ٹارگیٹ بھگت سنگھ جھگیاں ہیں، تو میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں رہگا‘،‘‘بزرگ مجاہد آزادی بتاتے ہیں۔ لہٰذا، حملہ کرنے آئی دہشت گردوں کی اس ٹکڑی نے اپنا ارادہ ترک کر دیا اور وہاں سے کہیں اور روپوش ہو گئے۔

بعد میں پتہ چلا کہ اُس جنگجو کا چھوٹا بھائی گاؤں کے ان نوجوانوں میں سے ایک تھا، جس کی مدد بھگت سنگھ نے کی تھی، جو دراصل پٹواری (گاؤں کا ریکارڈ رکھنے والا) کی سرکاری نوکری حاصل کرنے گیا ہوا تھا۔بھگت سنگھ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ان کے وہاں سے واپس چلے جانے کے بعد دو سال تک، اس کا بڑا بھائی مجھے پہلے ہی خبردار اور متنبہ کردیتا کہ کب اور کہاں نہیں جانا ہے...‘‘ جس سے انہیں اپنے اوپر ہونے والے کئی جان لیوا حملوں سے بچنے میں مدد ملی۔

Bhagat Singh with his wife Gurdev Kaur at their home in Ramgarh. Right: He has sold off his 12-bore gun as, he says, now even ‘a child could snatch it from my hands’
PHOTO • Vishav Bharti
Bhagat Singh with his wife Gurdev Kaur at their home in Ramgarh. Right: He has sold off his 12-bore gun as, he says, now even ‘a child could snatch it from my hands’
PHOTO • P. Sainath

بھگت سنگھ رام گڑھ میں اپنے گھر پر بیوی گردیو کور کے ساتھ۔ دائیں: انہوں نے اپنی ۱۲ بور کی بندوق فروخت کر دی ہے، کیوں کہ بقول ان کے، اب تو ’ایک بچہ بھی اسے ان کے ہاتھوں سے چھین سکتا ہے‘

اس واقعہ کے بارے میں فیملی نے جس طرح بتایا، وہ پریشان کر دینے والی بات تھی۔ لیکن بھگت سنگھ کا تجزیہ جذبات اور اثرات سے بالکل عاری تھا۔ البتہ تقسیم ہند کے بارے میں جب وہ بات کرتے ہیں تو کافی جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ان کی بیوی پر اس کا کیا رد عمل ہوا، کیا انہیں اس وقت ڈر نہیں لگا؟ اس کے جواب میں ۷۸ سالہ گردیو کور بڑے اطمینان سے کہتی ہیں، ’’مجھے پورا یقین تھا کہ ہم اس حملے کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘‘ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسو سی ایشن کی سابق کارکن، کور کہتی ہیں: ’’میرے بیٹے کافی طاقتور تھے، مجھے کوئی ڈر نہیں لگا – اور گاؤں والوں نے بھی ہمارا پورا ساتھ دیا۔‘‘

بھگت سنگھ کے ساتھ گردیو کور کی شادی ۱۹۶۱ میں ہوئی تھی اور وہ ان کی دوسری بیوی ہیں۔ ان کی پہلی بیوی کا انتقال کچھ سال پہلے ہو گیا تھا، جن کے ساتھ انہوں نے ۱۹۴۴ میں شادی کی تھی۔  ان سے دو بیٹیاں ہوئیں، جو ملک سے باہر بس چکی  ہیں۔ گردیو کور سے ان کے تین بیٹے ہوئے، لیکن سب سے بڑے بیٹے جسویر سنگھ کا ۲۰۱۱ میں ۴۷ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ باقی دو بیٹوں میں سے ایک، ۵۵ سالہ کلدیپ سنگھ اب برطانیہ میں ہیں، اور پرم جیت ان کے ساتھ ہی پنجاب میں رہتے ہیں۔

کیا ان کے پاس اب بھی ۱۲ بور کی بندوق ہے؟ ’’نہیں، میں نے اس سے چھٹکارہ پا لیا۔ اب وہ کس کام کا ہے – کوئی بچہ بھی میرے ہاتھ سے اسے چھین سکتا ہے،‘‘ ۹۳ سالہ بزرگ مجاہد آزادی ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔

۱۹۹۲ میں ریاستی اسمبلی کا الیکشن ایک بار پھر ان کے دروازے پر خطرہ لیکر آیا۔ مرکزی حکومت نے پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ دوسری طرف، خالصتانیوں نے بھی الیکشن کو ناکام کرنے کا من بنا لیا، اور امیدواروں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ ہندوستانی انتخابی قانون کے تحت پرچار کے دوران اگر کسی منظور شدہ سیاسی پارٹی کے امیدوار کی موت ہو جاتی ہے، تو اس کی وجہ سے اس حلقہ انتخاب میں الیکشن ’ملتوی‘ یا ردّ کر دیا جاتا ہے۔لہٰذا، اس وقت ہر امیدوار سخت خطرے میں پڑ گیا تھا۔

دراصل، بڑے پیمانے پر ہونے والے تشدد کی وجہ سے جون ۱۹۹۱ میں ہونے والے انتخابات ملتوی کر دیے گئے تھے۔ ’ایشین سروے‘ نامی جریدہ میں شائع گر ہرپال سنگھ کے ایک مضمون کے مطابق، اس سال مارچ سے جون کے درمیان ’’۲۴ ریاستی اور پارلیمانی امیدوار قتل کر دیے گئے؛ دو ٹرینوں میں ۷۶ مسافروں کو ہلاک کر دیا گیا؛ اور پولنگ سے ایک ہفتہ پہلے، پنجاب کو شورش زدہ علاقہ قرار دے دیا گیا۔‘‘

Bhagat Singh, accompanied by a contingent of security men, campaigning in the Punjab Assembly poll campaign of 1992, which he contested from Garhshankar constituency
PHOTO • Courtesy: Bhagat Singh Jhuggian Family

بھگت سنگھ ۱۹۹۲ میں پنجاب اسمبلی انتخابات میں ایک پرچار کے دوران سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ، جب انہوں نے گڑھ شنکر حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑا تھا

لہٰذا، انتہا پسندوں کا مقصد واضح تھا۔ زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو مارو۔ حکومت نے تمام امیدواروں کو کافی سیکورٹی فراہم کرنی شروع کی۔ ان ہی میں سے ایک بھگت سنگھ جھگیاں بھی تھے، جنہوں نے گڑھ شنکر حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑا۔ اکالی دل کی تمام جماعتوں نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ ’’ ہرامیدوار کی حفاظت کے لیے ۳۲ سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے، اور زیادہ مشہور لیڈروں کے لیے سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد ۵۰ یا اس سے زیادہ تھی۔‘‘ ظاہر ہے، یہ سب صرف پولنگ کی مدت تک کے لیے ہی تھا۔

بھگت سنگھ کے ۳۲ سیکورٹی اہلکاروں کا کیا حال تھا؟ وہ بتاتے ہیں، ’’یہاں میرے پارٹی کے دفتر میں ۱۸ سیکورٹی گارڈ تعینات تھے۔ اس کے علاوہ  میں جہاں کہیں بھی پرچار کے لیے جاتا تھا، ۱۲ سیکورٹی گارڈ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتے تھے۔ اور دو ہمیشہ میری فیملی کے پاس گھر پر تعینات رہتے تھے۔‘‘ الیکشن سے پہلے کئی سالوں تک دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں رہنے کی وجہ سے ان کی جان کو سب سے زیادہ خطرہ تھا۔لیکن انہیں کچھ بھی نہیں ہوا۔ آرمی، پیرا ملٹری اور پولیس اہلکاروں  کے ذریعے بھی  انتہا پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر سیکورٹی آپریشن شروع کیے گئے – انتخابات ہوئے، جن میں زیادہ ہلاکتیں بھی نہیں ہوئیں۔

پرم جیت بتاتے ہیں، ’’انہوں نے یہ سوچتے ہوئے ۱۹۹۲ کا الیکشن لڑا کہ خود کو بڑا ٹارگیٹ بناکر وہ اپنے چھوٹے کامریڈوں کی جان بچا پائیں گے اور خالصتانیوں کی پوری توجہ اپنی جانب مبذول کر لیں گے۔‘‘

بھگت سنگھ کانگریس کے امیدوار سے الیکشن ہا رگئے۔ لیکن دوسرے انتخابات میں ان کی جیت بھی ہوئی تھی۔ سال ۱۹۵۷ میں، وہ دو گاؤوں، رام گڑھ اور چک گجراں کے سرپنچ منتخب ہوئے۔ وہ چار بار سرپنچ رہے، آخری بار ان کی جیت ۱۹۹۸ میں ہوئی تھی۔

۱۹۷۸ میں وہ نواں شہر (اب شہید بھگت سنگھ نگر) کی کوآپریٹو چینی مل کے ڈائرکٹر منتخب ہوئے۔ اس الیکشن میں انہوں نے اکالی دل کے حلیف اور ایک طاقتور زمیندار، سنسار سنگھ کو ہرایا تھا۔ ۱۹۹۸ میں وہ اس عہدہ کے لیے ایک بار پھر بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔

****

After being expelled from school in Class 3, Bhagat Singh Jhuggian never returned to formal education, but went to be a star pupil in the school of hard knocks (Illustration: Antara Raman)

تیسری کلاس میں اسکول سے باہر نکالے جانے کے بعد، بھگت سنگھ جھگیاں دوبارہ کبھی روایتی تعلیم کی جانب نہیں لوٹے، لیکن اس اسکول کے ہمیشہ سے ہی سب سے ہونہار طالب علم رہے (خاکہ نگاری: انترا رمن)

اسکول سے باہر نکالے جانے کے بعد کی ان آٹھ دہائیوں میں، بھگت سنگھ جھگیاں ہمیشہ سیاسی طور پر فعال، محتاط اور سرگرم رہے اور آج بھی ہیں۔ کسانوں کی موجودہ تحریک میں جو کچھ چل رہا ہے، وہ اس کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ وہ پارٹی کے ریاستی کنٹرول کمیشن میں بیٹھتے ہیں۔ اور جالندھر میں دیش بھگت یادگار ہال (ڈی بی وائی ایچ) کو چلانے والے ادارہ کے ٹرسٹی بھی ہیں۔اس ادارہ نے پنجاب کی انقلابی تحریکوں کو جس پیمانے پر ریکارڈ کیا ہے، اس کی دستاویزیں تیار کی ہیں اور انہیں بطور یادگار محفوظ رکھا ہے، اتنا کسی اور ادارے نے نہیں کیا۔ اس ٹرسٹ کی بنیاد غدر تحریک کے انقلابیوں نے ڈالی تھی۔

ان کے دوست، درشن سنگھ مٹو بتاتے ہیں، ’’آج بھی، اس علاقے سے جب کوئی جتھہ (احتجاجیوں کا منظم قافلہ) شاید دہلی کی سرحدوں پر چل رہے احتجاجی کیمپوں میں شامل ہونے کے لیے روانہ ہوتا ہے، تو یہ لوگ دعائیں لینے کے لیے سب سے پہلے کامریڈ بھگت سنگھ کے گھر پر جاتے ہیں۔‘‘ سی پی آئی (ایم) کی پنجاب ریاستی کمیٹی کے رکن، مٹو کہتے ہیں، ’’پہلے کے مقابلے اب وہ جسمانی طور پر اتنے متحرک نہیں ہیں۔ لیکن ان کا حوصلہ اور جذبہ آج بھی اتنا ہی مضبوط ہے۔ آج بھی وہ شاہجہاں پور میں کیمپ لگاکر احتجاج کر رہے کسانوں کے لیے رام گڑھ اور گڑھ شنکر میں چاول، تیل، دال، دیگر سامان، اور پیسے جمع کرنے میں اپنا تعاون دیتے ہیں اور خود بھی ان چیزوں سے مدد کرتے ہیں۔‘‘

ہم نے جب واپسی کے وقت ان سے اجازت مانگی، تو وہ اپنے واکر کے ساتھ تیزی سے آگے قدم بڑھاتے ہوئے ہمیں الوداع کہنے کی ضد کرنے لگے۔ بھگت سنگھ جھگیاں ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ جس ملک کی آزادی کے لیے انہوں نے لڑائی لڑی، اس کی موجودہ حالت سے وہ خوش نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک چلانے والوں میں سے کسی کے بھی پاس ’’جدوجہد آزادی کی کوئی وراثت نہیں ہے۔ وہ جن سیاسی طاقتوں کی نمائندگی کرتے ہیں – وہ کبھی بھی جنگ آزادی میں شامل نہیں رہے۔ ان میں سے ایک بھی نہیں۔ اگر انہیں چیک نہیں کیا گیا، تو یہ ملک کو برباد کر دیں گے،‘‘ وہ فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

اور پھر کہتے ہیں، ’’لیکن میرا یقین کیجئے، اس راج (حکومت) کا بھی سورج ایک دن غروب ہوگا۔‘‘

مضمون نگار کا نوٹ: بیش قیمتی مشوروں اور تعاون کے لیے دی ٹربیون ، چنڈی گڑھ کے وشو بھارتی اور عظیم انقلابی شہید بھگت سنگھ کے بھتیجے، پروفیسر جگ موہن سنگھ کا تہ دل سے شکریہ۔ ساتھ ہی اجمیر سدھو کا بھی شکریہ، جنہوں نے مدد اور ان پٹ فراہم کیے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique