درک واڑی گاؤں کی ۴۲ سالہ کاشتکار سنندا سوپے کے لیے جون اور اس کے بعد آنے والے مانسون کے مہینے کافی خوفناک ہوتے ہیں۔ سال کے انہی مہینوں میں بڑے سائز کے افریقی گھونگے (جنہیں مقامی طور پر ’موٹھے گوگل گائے‘ کہا جاتا ہے)، ان کے ایک ایکڑ کھیت کو تباہ کر دیتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’’ہم اپنے کھیت میں دھان، سویابین، مونگ پھلی، کالا گھیوڑا [سیاہ پھلیاں]، راجما – چاہے جو بھی بوئیں، وہ ان سبھی کو کھا جاتے ہیں۔‘‘ یہاں تک کہ وہ آم، چیکو، پپیتا اور امرود جیسے پھلوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ ’’گھونگے ہمیں ہزاروں ہزار کی تعداد میں دکھائی دینے لگتے ہیں۔‘‘
سنندا کا تعلق مہادیو کولی برادری سے ہے، جو مہاراشٹر کا ایک درج فہرست قبیلہ ہے۔ وہ اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ چاس کمان ڈیم کے قریب رہتی ہیں۔ ڈیم کے ایک طرف ان کا گھر ہے اور دوسری طرف کھیت۔ لہٰذا، گھر سے کھیت اور پھر کھیت سے گھر آنے کے لیے انہیں کشتی کا سہارا لینا پڑتا ہے، اور ایک طرف کا راستہ طے کرنے میں انہیں آدھا گھنٹہ لگتا ہے۔
گلوبل انویسو اسپیسیز ڈیٹابیس کے مطابق، بڑے سائز کے افریقی گھونگے (اکیٹینا فولیکا) ہندوستان کی ایک حملہ آور جنس ہیں، جو مختلف قسم کی فصلیں کھا کر زندہ رہتے ہیں۔ مانسون کے دوران، یہ گھونگے جون سے ستمبر تک تیوئی پہاڑی کے دامن میں موجود کھیتوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ ان کھیتوں پر کئی مہینے رہتے ہیں۔ سال ۲۰۲۲ کے آخر میں اس رپورٹر سے بات کرتے ہوئے سنندا بتاتی ہیں کہ وہ گزشتہ تین سالوں سے اس مسئلہ کا سامنا کر رہی ہیں۔
کرشی وگیان کیندر، نارائن گاؤں کے نوڈل آفیسر ڈاکٹر راہل گھڑگے کہتے ہیں، ’’میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ وہ پہلی بار کیسے آئے تھے۔ البتہ، گھونگے ایک دن میں ایک کلومیٹر کا سفر طے کر سکتے ہیں اور بڑی تیزی سے انڈے دیتے ہیں، جس سے ان کی تعداد لگاتار بڑھتی رہتی ہے۔‘‘ انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ جنوری کے مہینہ میں یہ گھونگے خوابیدگی کی حالت میں چلے جاتے ہیں اور جب موسم گرم ہو جاتا ہے تب اپنے خول سے باہر نکلتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’تب ان کے زندہ رہنے کے لیے درجہ حرارت معقول ہو جاتا ہے۔‘‘
سنندا بتاتی ہیں، ’’میں نے اپنے کھیت پر سیاہ پھلیاں اور راجما لگائے تھے۔ گھونگے نے ان سب کو تباہ کر دیا۔ اس بار ۵۰ کلوگرام فصل کی امید تھی، لیکن صرف ایک کلو ہی مل پایا۔‘‘ راجما کی قیمت ۱۰۰ روپے کلو ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ سنندا کے کھیت میں نہ تو سیاہ پھلیاں بچی ہیں اور نہ ہی مونگ پھلی۔ وہ اندازہ لگاتی ہیں کہ صرف مونگ پھلی کی فصل برباد ہونے سے انہیں تقریباً ۱۰ ہزار روپے کا نقصان ہوا ہے۔
وہ بتاتی ہیں، ’’کھیتوں میں بوائی کا دو سیزن ہوتا ہے۔ پہلا مانسون میں [خریف] اور دوسرا دیوالی کے بعد [ربیع]۔‘‘ پچھلے سال، گھونگے کی وجہ سے انہوں نے مانسون کے بعد دو مہینے کے لیے اپنے کھیت کو خالی چھوڑ دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’دسمبر میں جا کر ہم لوگ ہربرا [ہرا چنا]، گندم، مونگ پھلی اور پیاز کی بوائی کر پائے۔‘‘
ڈاکٹر گھڑگے کا اندازہ ہے کہ گھونگے کی وجہ سے مہاراشٹر کے پانچ سے ۱۰ فیصد کھیت تباہ ہوئے ہیں۔ ’’اپنی نشوونما کے ابتدائی دنوں میں وہ [گھونگے] پودوں کے ملائم تنے کو کافی پسند کرتے ہیں، جس سے بہت زیادہ بربادی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے کسانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘
درک واڑی کے ہی ایک دوسرے کسان، ۳۵ سالہ نتن لگڑ کو بھی ہر سال اسی قسم کے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے وہ بھی گھونگے کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں: ’’اس سال ۷۰ سے ۸۰ بورے [تقریباً ۶۰۰۰ کلو] سویابین ملنے کی امید تھی، لیکن ہم صرف ۴۰ بورے [۲۰۰۰ کلو] ہی حاصل کر پائے۔‘‘
ان کے پاس ساڑھے پانچ ایکڑ کھیت ہے، جس میں وہ عموماً تین بار بوائی کرتے ہیں۔ اس سال گھونگے کے ذریعے مچائی گئی تباہی کی وجہ سے وہ دوسری بار کی بوائی نہیں کر سکے۔ وہ کہتے ہیں، ’’چار مہینے کے لیے ہم نے کھیت کو خالی چھوڑ دیا تھا۔ اب ہم نے پیاز کی بوائی کی ہے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ بھی ایک جوا ہے۔‘‘
مولسکی سائیڈز (مولسک یا گھونگے کو مارنے والی دوا) جیسے ایگرو کیمکلز استعمال کرنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ نتن بتاتے ہیں، ’’ہم یہ دوا مٹی کے اوپر ڈالتے ہیں، لیکن گھونگے مٹی کے اندر رہتے ہیں، اس لیے ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر آپ ان کو پکڑ لیں، پھر ان کے اوپر یہ دوا ڈالیں، تب بھی کوئی اثر نہیں ہوگا کیوں کہ دوا ان کے خول میں چلی جاتی ہے۔ یہ دوا کسی بھی کام کی نہیں ہے۔‘‘
درک واڑی کے کاشتکاروں کے پاس جب کوئی متبادل نہیں بچا، تو انہوں نے گھونگے کو ہاتھوں سے چُننا شروع کر دیا۔ وہ اپنے ہاتھوں میں بطور دستانہ پلاسٹک کے تھیلے پہن کر انہیں چُنتے ہیں اور نمک کے پانی سے بھرے ایک بڑے ڈبے میں ڈال دیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ پہلے بد حواس ہوتے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں۔
سنندا کہتی ہیں، ’’وہ باہر [ڈرم سے] نکلنے کی لگاتار کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں انہیں بار بار اندر ڈالنا پڑتا ہے۔ ہمیں ان کو پانچ بار اندر دھکیلنا پڑتا ہے۔ تب جا کر وہ [آخرکار] مرتے ہیں۔‘‘
نتن نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے ساڑھے پانچ ایکڑ کے کھیت سے ایک بار میں تقریباً ۵۰۰-۴۰۰ گھونگے جمع کیے ہیں۔ پیاز کی بوائی کرنے سے پہلے، انہوں نے اپنے کھیت کی مٹی کو گھونگے سے پاک کرنے کی پوری کوشش کی، پھر بھی وہ پوری طرح ختم نہیں ہوئے اور اب بھی کہیں نہ کہیں نظر آ رہے ہیں۔ نتن کا کہنا ہے کہ گھونگے نے ان کے تقریباً ۵۰ فیصد کھیت کو تباہ کر دیا ہے۔
سنندا کہتی ہیں، ’’ایک دن میں ہم سینکڑوں گھونگے پکڑتے ہیں اور کھیت کے بڑے حصے کو صاف کر دیتے ہیں، لیکن اگلے دن یہ اتنی ہی تعداد میں دوبارہ نظر آنے لگتے ہیں۔‘‘
وہ کافی ڈری ہوئی ہیں اور کہتی ہیں، ’’جون میں، گھونگے [دوبارہ] آنا شروع ہو جائیں گے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز