جے شری مہاترے جب گھارا پوری میں واقع اپنے گھر کے قریب جنگل میں لکڑیاں جمع کرنے گئی تھیں، تو انہیں کسی کیڑے نے کاٹ لیا تھا۔ دو لڑکیوں کی ۴۳ سالہ ماں جے شری نے اسے یہ سوچ کر نظر انداز کر دیا کہ شاید کوئی کانٹا چبھ گیا ہوگا۔ جنوری ۲۰۲۰ کی ہلکی سردیوں کی اس دوپہر کو وہ لکڑیاں لے کر جلد ہی گھر کی جانب روانہ ہو گئی تھیں۔

تھوڑی دیر بعد اپنے دروازے پر کھڑی ہو کر ایک رشتہ دار سے بات چیت کرنے لگیں۔ بات چیت کے دوران ہی وہ گر کر بیہوش ہو گئیں۔ شروعات میں وہاں موجود لوگوں پر گمان گزرا کہ کمزوری کی وجہ سے بیہوش ہو گئی ہیں، کیونکہ انہوں نے برت (روزہ) رکھا ہوا تھا۔

جے شری کی ۲۰ سالہ بیٹی بھاویکا اس سانحہ کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ بیہوش ہو گئی تھیں۔‘‘ نہ تو بھاویکا اس سانحہ کے وقت وہاں موجود تھیں اور نہ ہی ان کی چھوٹی بہن ۱۴ سالہ گوری، کیونکہ اس دن دونوں کسی رشتہ دار کے گھر پر تھیں۔ انہوں نے اس کے بارے میں پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے سنا، جو اس وقت وہاں موجود تھے۔  انہیں بتایا گیا کہ جب جے شری کو تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ بھاویکا مزید کہتی ہیں، ’’کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے۔‘‘

کوئی شخص بھاگ کر جے شری کے شوہر ۵۳ سالہ مدھوکر مہاترے کو اطلاع دینے گیا، جو گھارا پوری جزیرے پر کھانے کی دکان چلاتے تھے۔ بحیرہ عرب میں واقع اس جزیرہ کی پہچان ایلیفینٹا کی مشہور غاروں کی وجہ سے ہے۔ ممبئی شہر کے قریب واقع یہ جگہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ یہاں کی چٹانی فن تعمیرات چھٹی سے آٹھویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہیں اور ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ جزیرے کے لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ سیاحت ہے۔ یہ لوگ یہاں ٹوپیاں، دھوپ کے چشمے، تحائف اور کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتے ہیں؛ ان میں سے چند غاروں کے لیے رہنما (گائیڈ) کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔

اگرچہ سیاحتی نقشے پر اس مقام کو نمایاں طور پر واضح کیا جاتا ہے، لیکن جزیرے پر واقع گھارا پوری گاؤں پبلک ہیلتھ سنٹر جیسی بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہے۔ ایک سنٹر تقریباً دو سال قبل قائم کیا گیا تھا، لیکن اسے چلانے والا کوئی نہیں ہے۔ گاؤں کے ۱۱۰۰ افراد تین بستیوں، راج بندر، شیت بندر اور مورا بندر، میں رہتے ہیں۔ صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کشتیوں پر سوار ہوکر دوسرے مقامات پر جانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یہ سفر نہ صرف زیادہ مہنگے ہوتے ہیں، بلکہ طبی امداد میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں یا بعض صورتوں میں مہلک بھی ثابت ہوتے ہیں۔

PHOTO • Aakanksha
PHOTO • Aakanksha

بائیں: ۱۴ سالہ گوری مہاترے اپنی آنجہانی ماں جے شری کے اسٹال پر ایلیفینٹا غاروں میں آنے والے سیاحوں کو زیورات اور دیگر نایاب چیزیں فروخت کر رہی ہیں۔ دائیں: گھارا پوری گاؤں کا ہیلتھ سنٹر، جس کی تعمیر دو سال قبل ہوئی تھی، فی الحال خالی ہے اور اسے کوئی دیکھنے والا نہیں ہے

اس دین اُرن شہر جانے کے لیے مدھوکر جے شری کو لے کر کشتی پر سوار ہونے جیٹی کی طرف بھاگے۔ لیکن وہاں سے روانہ ہونے سے قبل ہی جے شری کی موت واقع گئی۔ ان کی زندگی کے آخری لمحات میں منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ یہ اشارہ تھا کہ انہیں سانپ نے کاٹا تھا۔ آس پاس موجود لوگوں نے ان کے دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی پر لگے نشانات کو پہچان لیا تھا۔ یہ سانپ کے دانتوں کے نشانات تھے۔

بھاویکا کہتی ہیں کہ اس علاقے میں سانپ کا کاٹنا، بچھو کا ڈنک مارنا یا دوسرے کیڑوں کا کاٹنا عام بات ہے۔ مہاراشٹر کے رائے گڑھ ضلع کے اُرن تعلقہ میں واقع اس گاؤں کے لوگوں نے ایسے معاملوں میں ہوئیں دیگر اموات کا بھی ذکر کیا، جنہیں ابتدائی طبی امداد نہیں ملی تھی۔

جزیرے پر پچھلی دہائی میں طبی سہولیات کی عدم موجودگی کے نتیجے میں ایسی موتیں ہوئیں، جنہیں بروقت طبی امداد پہنچا کر روکا جا سکتا تھا۔ درحقیقت، جزیرے کے گاؤں میں کوئی میڈیکل اسٹور نہیں ہے۔ لوگ اپنے مین لینڈ (باہر) کے دوروں سے جو کچھ خرید کر لاتے ہیں انہیں اسی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ گھارا پوری سے سفر کرنے کا واحد ذریعہ اُرن تعلقہ کے جنوب میں مورا بندرگاہ کی طرف جانے والی یا نوی ممبئی کے نہاوا گاؤں کے مشرق میں جانے والی کشتیاں ہیں۔ اس سفر میں تقریباً آدھا گھنٹہ کا وقت لگتا ہے۔ جزیرے کے مغرب میں واقع جنوبی ممبئی کے کولابا تک کشتی سے پہنچنے میں ایک گھنٹہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

ایلیفینٹا غاروں کے ۳۳ سالہ ٹور گائیڈ دیوٹ پاٹل کہتے ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں ڈاکٹر یا نرس سے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم گھریلو علاج یا کسی ایسی دوا کا استعمال کرتے ہیں جو ہمارے پاس [گھر میں] موجود ہو تی ہے۔‘‘ ان کی ماں وتسلا پاٹل اس تاریخی مقام کے قریب ایک عارضی اسٹال سے ٹوپیاں فروخت کرتی تھیں، جس سے انہیں ہر مہینے تقریباً ۶۰۰۰ روپے کی آمدنی ہو جاتی تھی۔ مئی ۲۰۲۱ میں وبائی مرض کی دوسری لہر میں جب وتسلا پر کووِڈ۔۱۹ کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے، تو انہوں نے درد کی دوائیں لیں اور ٹھیک ہونے کی امید کرنے لگیں۔ لیکن جب ایک دو دن میں ان کے بدن کا درد کم نہیں ہوا، تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئیں۔ دیوٹ کہتے ہیں، ’’ہم صرف بدترین حالت میں ہی جزیرے سے باہر جاتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Aakanksha
PHOTO • Aakanksha

بائیں: بھاویکا اور گوری مہاترے ایلیفینٹا غاروں کے قریب اپنی کھانے کی دکان پر۔ ۲۰۲۱ کے اوائل میں اپنے والدین کی موت کے بعد سے وہ اسے چلا رہی ہیں۔ دائیں: ان کے والدین، مدھوکر (بائیں) اور جے شری کی تصویریں

گھر سے نکلنے کے ایک گھنٹہ بعد دیوٹ پاٹل اپنی ماں کو لے کر رائے گڑھ کے پنویل تعلقہ کے گوہان گاؤں کے ہیلتھ سنٹر پہنچے، جہاں خون کی جانچ سے معلوم ہوا کہ ان کا ہیموگلوبن کم ہے۔ وتسلا گھر واپس آگئیں، لیکن اگلے دن ان کی حالت بگڑ گئی اور وہ قے کرنے لگیں۔ اس دفعہ بھی انہیں اسی ہسپتال میں لے جانا پڑا۔ جب وہ وہاں پہنچیں تو جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ ان کی آکسیجن کی سطح گر رہی ہے۔ ان کا کووڈ۔۱۹ ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ انہیں علاج کے لیے پنویل شہر کے سرکاری اسپتال بھیجا گیا، جہاں ۱۰ دن بعد ان کی موت ہوگئی۔ دیوٹ کہتے ہیں، ’’ڈاکٹر نے پھیپھڑوں کی خرابی کو موت کی وجہ بتایا تھا۔‘‘

مقامی طور پر صحت کی سہولت اور ادویات تک آسان رسائی سے وتسلا اور جے شری دونوں معاملوں کے نتائج بدل سکتے تھے۔

جے شری کی موت کے ایک ماہ بعد، بھاویکا اور گوری اس وقت بے سہارا اور یتیم ہو گئیں، جب ان کے والد مدھوکر کی بھی موت واقع ہوگئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی موت کا سبب دل کا دورہ تھا۔ مدھوکر ذیابیطس کی دوا لے رہے تھے۔ ایک صبح  بھاویکا نے انہیں گھر کے باہر خون کی الٹیاں کرتے ہوئے پایا تھا۔ فیملی کو انہیں کشتی میں سوار کر کے نیرُل کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کرانے کے لیے اس صبح دیر تک انتظار کرنا پڑا تھا۔ کشتی کے ذریعے مورا اور پھر سڑک کے ذریعے نیرُل تک کے سفر میں ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگتا ہے۔ ۲۰ دن بعد، ۱۱ فروری ۲۰۲۰ کو ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔

مہاترے فیملی کا تعلق آگری کولی برادری سے ہے۔ مہاراشٹر میں اس برادری کو دیگر پسماندہ طبقے میں شامل کیا گیا ہے۔ بھاویکا اور گوری دونوں بہنیں اب گزر بسر کے اپنے والدین کی اسٹال چلاتی ہیں۔

*****

ایلیفینٹا غاروں کو دیکھنے کے لیے گھارا پوری کی جیٹی پر اترنے والے سیاح یادگار چیزوں اور کھانے کے اسٹالوں سے ہو کر گزرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک اسٹال، جس میں کٹے ہوئے کچے آم، کھیرے اور چاکلیٹ کی پلیٹیں رکھی ہوئی ہیں۔ اس اسٹال کا انتظام ۴۰ سالہ شیلیش مہاترے کرتے ہیں۔ جب بھی ان چار افراد پر مشتمل فیملی میں سے کسی کو طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے، تو انہیں اپنا اسٹال چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایک دن کا کام اور ایک دن کی اجرت کھو دیتے ہیں۔ ایسا حال ہی میں ستمبر ۲۰۲۱ میں ہوا تھا، جب ان کی ماں، ۵۵ سالہ ہیرا بائی مہاترے ایک گیلی چٹان پر پھسل گئی تھیں اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ ان کے پاس درد کی کوئی دوا نہیں تھی، لہٰذا وہ رات بھر تکلیف میں رہیں۔ اگلے دن انہیں کشتی میں بیٹھا کر شیلیش کو اُرن تک لے جانا پڑا تھا۔

PHOTO • Aakanksha
PHOTO • Aakanksha

بائیں: ایلیفینٹا غار دیکھنے آنے والے سیاحوں کی اترنے کی جیٹی کے قریب پھلوں کی اسٹال، جہاں شیلیش مہاترے کام کرتے ہیں۔ دائیں: شیلیش کی ماں، ہیرا بائی مہاترے، گیلی چٹان سے پھسلنے کے بعد تکلیف میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ انہیں علاج اور دوا  کے لیے اگلے دن تک کشتی کا انتظار کرنا پڑا تھا

ہیرا بائی کہتی ہیں، ’’[اُران کے] ہسپتال نے میری ٹانگ کا آپریشن کرنے کے لیے ۷۰ ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اس لیے وہاں سے [ایک گھنٹہ دور] پنویل گئے۔ وہاں بھی ہم سے اتنی ہی رقم مانگی گئی۔ آخر کار ہم [ممبئی کے] جے جے ہسپتال پہنچے، جہاں میرا علاج مفت میں کیا گیا۔ وہیں میرا پلاسٹر چڑھایا گیا۔‘‘ آخر کار مفت علاج، اور صرف دواؤں کی قیمت کی ادائیگی کے باوجود، فیملی نے علاج، ادویات اور سفر پر ۱۰ ہزار روپے خرچ کر دیے۔

جزیرے پر کوئی بینک نہیں ہے، نہ ہی کوئی اے ٹی ایم ہے، اس لیے شیلیش کو رشتہ داروں اور دوستوں سے پیسے قرض لینے پڑے۔ وہ فیملی کے واحد کمانے والے فرد ہیں۔ پھلوں کے اسٹال پر مددگار کی  نوکری سے انہیں زیادہ پیسے بھی نہیں ملتے ہیں۔ یہ فیملی پہلے ہی (کووڈ۔۱۹ کے علاج کے سلسلے میں) ۳۰ ہزار روپے کے طبی قرضے میں ڈوبی ہوئی ہے۔

ٹانگ پر چھڑے پلاسٹر کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر ہیرا بائی فکرمند تھیں۔ ’’میں اس پلاسٹر کو دیکھتی رہتی اور سوچتی رہتی کہ اسے چیک کرنے اور اتارنے کے لیے واپس ممبئی تک کیسے سفر کروں گی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’جنگل سمجھ کر چھوڑ دیا ہے۔‘‘

ان کے جذبات گاؤں کے کئی لوگوں کے جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان میں سرپنچ بلی رام ٹھاکر بھی شامل ہیں۔  بلی رام نے یہاں ایک طبی سہولت قائم کرنے کے لیے ۲۰۱۷ میں اُرن ضلع پریشد میں درخواست دی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’آخر کار ۲۰۲۰ میں شیت بندر میں ایک سہولت قائم کی گئی، لیکن ہمیں ابھی تک اس ڈاکٹر کا انتظار ہے جو یہاں آکر رک سکے۔‘‘ مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کا تناسب بہت کم ہے۔ ریاست کے طبی ماہرین کا محض ۶ء۸ فیصد گاؤں میں کام کرتا ہے۔ یہ اعداد وشمار ہندوستان کی صحت سے متعلق افرادی قوت پر ۲۰۱۸ میں شائع ایک رپورٹ کے ہیں۔ اس رپورٹ کو عالمی ادارہ صحت اور پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔

بلی رام کسی ہیلتھ ورکر کو یہاں تعینات کرنے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں، ’’یہاں کوئی رکنے کو تیار نہیں ہے۔ اس گاؤں میں صرف ہم لوگوں کو ہی نہیں بلکہ سیاحوں کو بھی طبی سہولیات کی ضرورت ہے۔ ایک سیاح تھا جو ٹریکنگ کے دوران گر گیا تھا۔ اسے ممبئی لے جانا پڑا تھا۔

PHOTO • Aakanksha
PHOTO • Aakanksha

بائیں: گھارا پوری کے سرپنچ، بلی رام ٹھاکر، جنہوں نے گاؤں میں ایک ہیلتھ سب سنٹر قائم کرنے کے لیے اُرن ضلع پریشد میں درخواست دی تھی۔ ’لیکن ہمیں ابھی تک یہاں قیام کرنے والا ڈاکٹر نہیں ملا ہے۔‘ دائیں: جزیرے کے باشندوں کے لیے کہیں بھی سفر کرنے کا واحد ذریعہ کشتی ہے

گھارا پوری کے باشندوں کی صحت کی ذمہ داری ڈاکٹر راجا رام بھوسلے کے ہاتھوں میں ہے، جو ۲۰۱۵ سے کوپرولی گاؤں کے پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) میں تعینات ہیں۔ ان کی نگہداشت میں ۵۵ گاؤں ہیں، اور گھارا پوری سے ان کے پی ایچ تک کے سفر میں (سڑک اور کشتی کے ذریعہ) ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ ’’ہمارے پاس نرسیں ہیں جو مہینے میں دو بار وہاں جاتی ہیں، اور اگر وہاں کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو مجھے اس کی اطلاع دی جاتی ہے،‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں یہاں اپنے قیام کے دوران کسی بھی ہنگامی طبی صورتحال سے وہ لاعلم ہیں۔

کوپرولی پی ایچ سی کی نرسیں گھارا پوری میں آنگن واڑی یا گرام پنچایت دفتر میں مریضوں کو دیکھتی ہیں۔ ساریکا تھالے ایک نرس اور آروگیہ سیویکا ہیں۔ یہ ۲۰۱۶ سے اس گاؤں (اور ۱۵ دوسرے گاؤوں) کی انچارج ہیں۔ یہ پولیو کی خوراک پلانے اور نوجوان ماؤں سے ملنے کے لیے مہینے میں دو بار ان گاؤوں کا دورہ کرتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں، ’’مانسون کے دوران یہاں پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ سمندر میں اٹھنے والی اونچی لہروں کی وجہ سے کشتیاں نہیں چل پاتی ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ گھارا پوری میں رہنا ان کے لیے ناقابل عمل ہے۔ ’’میرے [چھوٹے چھوٹے] بچے ہیں۔ وہ کہاں پڑھیں گے؟ اور میں اپنے کام کے سلسلے میں یہاں سے دوسرے گاؤں تک کیسے جاؤں گی؟‘‘

گھارا پوری میں، پانی اور بجلی جیسی دیگر سہولیات حال ہی میں دستیاب ہوئی ہیں۔ ۲۰۱۸ تک جزیرے کو صرف مہاراشٹر ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (ایم ٹی ڈی سی) کے فراہم کردہ جنریٹرز کی بجلی  شام ۷ بجے سے رات ۱۰ بجے تک حاصل ہوتی تھی۔ پانی کی لائنیں ۲۰۱۹ میں آئیں۔ جزیرے کا واحد اسکول بند ہو گیا ہے۔

PHOTO • Aakanksha
PHOTO • Aakanksha

بائیں: سَندھیا بھوئیر کو جزیرے سے ممبئی کے ایک ہسپتال جاتے ہوئے تیزی سے ہچکولے کھاتی کشتی میں اپنے پہلے بچے کی پیدائش یاد ہے۔ دائیں: گھارا پوری میں واقع ضلع پریشد اسکول، جو اپریل ۲۰۲۲ میں بند ہو گیا تھا

سہولیات کی کمی کو دیکھتے ہوئے، یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ حاملہ عورتیں اپنی مقررہ تاریخ سے چند ماہ قبل گاؤں چھوڑ دیتی ہیں، کیونکہ وہ کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتیں۔ بہت سی عورتیں اپنے حمل کے آخری چند مہینوں میں جزیرہ چھوڑ کر کسی رشتہ دار کے یہاں چلی جاتی ہیں یا جزیرے سے باہر کمرہ کرایے پر لے کر رہنے لگتی ہیں۔ دونوں متبادل اضافی اخراجات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جو یہاں رک جاتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ طبی سپلائی، تازہ سبزیوں اور دالوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ ان چیزوں کی حاملہ عورتوں کو ضرورت ہوتی ہے۔

سال ۲۰۲۰ کے لاک ڈاؤن کے دوران حاملہ مائیں ہسپتالوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں، کیونکہ کشتیاں نہیں چل رہی تھیں۔ جب اسی سال مارچ میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا تو ۲۶ سالہ کرانتی گھرات تین ماہ کی حاملہ تھیں۔ تمام نقل و حمل پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ وہ باقاعدگی سے چیک اپ نہیں کروا سکتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بعض اوقات حمل سے متعلق تکلیف ناقابل برداشت ہو جاتی تھی۔ انہوں نے یہاں کی صورتحال پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے اپنی حالت کی وضاحت کے لیے فون پر اپنے ڈاکٹر سے بات کرنی پڑتی تھی۔‘‘

سَندھیا بھوئیر کو ممبئی کے ہسپتال جاتے ہوئے کشتی پر ہی اپنے پہلے بچے کی پیدائش یاد ہے۔ یہ ۳۰ سال پہلے کی بات ہے۔ مقامی دائی کو بچے کی پیدائش کرانے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ وہ تیزی سے ہچکولے کھاتی کشتی پر بچے کی پیدائش کو یاد کرکے ہنستی ہوئی کہتی ہیں، ’’میں نے سب کچھ بھگوان پر چھوڑ دیا تھا۔‘‘ ایک دہائی قبل گاؤں میں دو دائیاں تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، ادارہ جاتی پیدائش اور ریاست کی طرف سے دی جانے والی مالی مراعات کی وجہ سے ان کی خدمات کی مانگ میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔

PHOTO • Aakanksha
PHOTO • Aakanksha

بائیں: کرانتی گھرات اپنے بچے ہیانش کے ہمراہ اپنی چھوٹی سی دکان میں اپنے شوہر کے ساتھ۔ دائیں: جیٹی کا ایک منظر جہاں سے گاؤں والے مین لینڈ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوتے ہیں

گاؤں میں میڈیکل اسٹور نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو پہلے سے چیزوں کی پلاننگ کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں ایک مہینے کی دوا جمع کر لیتی ہوں، خواہ وہ صرف چند دنوں کے لیے ہی تجویز کیوں نہ کی گئی ہوں، کیونکہ ہمیں کبھی نہیں معلوم ہوتا کہ ہم کب واپس ہسپتال جاکر دوائیاں اسٹاک کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔‘‘ کرانتی اور ان کے شوہر سورج کا تعلق آگری کولی برادری سے ہے اور وہ گھارا پوری میں کیرانے کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن سے قبل انہیں اپنی دکان سے تقریباً ۱۲ ہزار روپے کی آمدنی ہو جاتی تھی۔

اپنے حمل کے چھٹے مہینے میں کرانتی اُرن تعلقہ کے نوین شیوا گاؤں میں اپنے بھائی کے گھر چلی گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں پہلے نہیں گئی کیونکہ میں ’’بیماری‘‘ [کووڈ۔۱۹] کو لے کر پریشان تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ گھارا پوری میں زیادہ محفوظ ہوں، اور میں بھائی  پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی۔‘‘

جب انہوں نے سفر کیا تو انہیں کشتی کے کرایے کے طور پر ۳۰۰ روپے خرچ کرنے پڑے، جو معمول کے دنوں کے ۳۰ روپے سے ۱۰ گنا زیادہ تھے۔ کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے سرکاری ہسپتال میں لاحق خطرہ کی وجہ سے، ان کی فیملی نے ایک پرائیویٹ ہسپتال کا انتخاب کیا اور سیزیرین سرجری اور ادویات پر تقریباً ۸۰ ہزار روپے خرچ کیے۔ کرانتی کہتی ہیں، ’’یہ پیسے ڈاکٹر کی فیس، جانچ اور دوائیوں پر خرچ ہوئے تھے۔‘‘ اس وقت انہوں نے اور سورج نے اپنی تمام بچت کا استعمال کر لیا تھا۔

کرانتی پردھان منتری ماتری وندنا یوجنا (پی ایم ایم وی وائی) کا فائدہ حاصل کرنے کی اہل ہیں۔ یہ حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے دی جانے والی میٹرنٹی کے فائدے کی ایک اسکیم ہے۔ انہیں ۵۰۰۰ روپے ملنے چاہئیں، لیکن ۲۰۲۰ میں اس کے لیے درخواست دینے کے باوجود کرانتی کو ابھی تک کوئی رقم موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گھارا پوری کے لوگوں کے تئیں سرکاری بے حسی صرف صحت کی نگہداشت کے کسی ایک پہلو تک ہی محدود نہیں ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Aakanksha

ਆਕਾਂਕਸ਼ਾ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਰਿਪੋਰਟਰ ਅਤੇ ਫੋਟੋਗ੍ਰਾਫਰ ਹਨ। ਉਹ ਐਜੂਕੇਸ਼ਨ ਟੀਮ ਦੇ ਨਾਲ਼ ਇੱਕ ਸਮੱਗਰੀ ਸੰਪਾਦਕ ਵਜੋਂ ਅਤੇ ਪੇਂਡੂ ਖੇਤਰਾਂ ਵਿੱਚ ਵਿਦਿਆਰਥੀਆਂ ਨੂੰ ਉਹਨਾਂ ਦੇ ਆਲ਼ੇ-ਦੁਆਲ਼ੇ ਦੀਆਂ ਚੀਜ਼ਾਂ ਨੂੰ ਦਸਤਾਵੇਜ਼ੀਕਰਨ ਲਈ ਸਿਖਲਾਈ ਦਿੰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Aakanksha
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam