چرواہے گور سنگھ ٹھاکر بتاتے ہیں، ’’سال بھر میں ہمارے بہت سے مویشی تیندوؤں کے حملوں کے شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ رات کے اندھیرے میں آتے ہیں اور انہیں گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔‘‘ یہاں تک کہ ان کا مقامی بھوٹیا کُتّا، شیرو بھی انہیں بھگانے میں ناکام ثابت ہوتا ہے۔ گور سنگھ خاص طور سے اس بات کا حوالہ دیتے ہیں۔
ہماری ان سے یہ گفتگو ہمالیہ کے گنگوتری کوہستانی سلسلے کی ایک اونچی چوٹی پر ہو رہی ہے۔ وہ بھیڑوں اور بکریوں کے جس ریوڑ کو چراتے ہیں ان میں اترکاشی ضلع کے سورا گاؤں اور اس کے آس پاس کے علاقے کے سات کنبوں کے مویشی شامل ہیں۔ گور سنگھ خود بھی اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں، جو ہم جہاں ہیں وہاں سے ۲۰۰۰ میٹر نیچے بسا ہوا ہے۔ انہیں سال کے نو مہینوں کے لیے ان بھیڑ بکریوں کو چرانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ بارش ہو یا برف گرے، انہیں ہر حالت میں ان بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے لے کر نکلنا پڑتا ہے۔ ان کی گنتی سے لے کر رکھ رکھاؤ کی پوری ذمہ داری ان کی ہی ہے۔
پہاڑوں پر یہاں وہاں چرتے جانوروں کو سرسری نگاہ سے دیکھتے ہوئے ۴۸ سال کے ایک اور چرواہے، ہردیو سنگھ ٹھاکر بتاتے ہیں، ’’یہاں تقریباً ۴۰۰ بھیڑیں اور ۱۰۰ بکریاں ہیں۔ ان کی تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘ صحیح صحیح تعداد کے بارے میں انہیں شک ہے۔ ہردیو یہ کام گزشتہ ۱۵ سالوں سے کر رہے ہیں۔ وہ تفصیل سے بتاتے ہیں، ’’کچھ چرواہے اور ان کے معاون یہاں صرف دو ہفتوں کے لیے آتے ہیں، اور پھر لوٹ جاتے ہیں۔ کچھ میری طرح بھی ہیں، جو پورا موسم یہیں گزارتے ہیں۔‘‘
یہ اکتوبر کا مہینہ ہے اور اتراکھنڈ کے گڑھوال علاقے کے گنگوتری کوہستانی سلسلے کے ’چُلی ٹاپ‘ پر واقع سرسبز گھاس کے وسیع میدان کو چومتی اور ہڈیوں تک کو جما دینے والی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ دھکّا مُکّی کرتے مویشیوں کے درمیان میں گھوم رہے ان چرواہوں نے اپنے جسم پر موٹے کمبل لپیٹ رکھے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ بہت پھیلا ہوا اور سرسبز گھاس کا میدان ہے۔ پہاڑوں کی چوٹی سے نکلنے والے پانی کے چشمے جانوروں کی پیاس بجھانے کا ایک صحت مند ذریعہ ہے۔ یہ چشمے ۲۰۰۰ میٹر لمبے ٹیڑھے میڑھے راستوں سے اتر کر بھلنگنا ندی میں مل جاتے ہیں، جو خود بھی بھاگیرتھی کی ایک معاون ندی ہے۔
ان اونچے پہاڑوں میں سینکڑوں جانوروں کی دیکھ بھال کرنا اور ان پر نظر رکھنا ایک مشکل اور خطرناک کام ہے۔ گھنے پیڑوں کی قطاروں کے پیچھے کے اونچے نیچے پتھریلے ٹیلے، حملہ آوروں کے چھپنے کے لیے مناسب جگہ مہیا کراتے ہیں، جو آدمی یا جانور دونوں میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، خطرناک ٹھنڈ یا کسی دوسری بیماری سے بھی بھیڑ بکریوں کے مرنے کا اندیشہ بنا رہتا ہے۔ ہردیو کہتے ہیں، ’’ہم خیموں میں رہتے ہیں اور ہمارے مویشی آس پاس ہی گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ہمارے دو کتے بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی تیندوے چھوٹی بھیڑ اور بکریوں کو اپنا نشانہ بنا ہی لیتے ہیں۔‘‘ ان کے ریوڑ میں تقریباً ۵۰ بھیڑیں ہیں، جب کہ گور سنگھ کے ریوڑ میں تقریباً ۴۰ بھیڑیں ہیں۔
دونوں چرواہے اور ان کے دو معاون، علی الصبح ۵ بجے ہی جگ جاتے ہیں۔ اسی وقت وہ بھوک سے ممیاتے مویشیوں کو اپنے ساتھ لے کر پہاڑوں کی اونچائیوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ اس کام میں شیرو ان کی بہت مدد کرتا ہے۔ وہ مویشیوں کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں توڑنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے، تاکہ سبھی بھیڑ بکریوں کو مناسب چارہ مل سکے۔
سرسبز چراگاہوں کی تلاش میں ایک ریوڑ ایک دن میں ۲۰ کلومیٹر یا کئی بار اس سے بھی زیادہ دوری طے کر سکتا ہے۔ زیادہ اونچائیوں پر گھاس عام طور پر برف کی مستقل پرتوں کے نیچے پائی جاتی ہے، لیکن ایسے چراگاہوں میں پانی کے چشمے تلاش کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ گھاس کی تلاش میں چرواہے شمال کی طرف ۱۰۰ کلومیٹر سے بھی آگے نکل جاتے ہیں اور ہند-چین سرحد کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔
چرواہے عموماً چھوٹے خیموں میں اپنا گزارہ کرتے ہیں یا پتھر جمع کرکے ان سے مویشیوں کے رکھ رکھاؤ والے باڑے جیسی دیواریں کھڑی کرکے اُن دیواروں پر پلاسٹک کی چادر تان دیتے ہیں اور اسی کے نیچے رہتے ہیں۔ اسے ’چَنّی‘ بھی کہتے ہیں۔ گھاس کے میدانوں کی تلاش میں جیسے جیسے وہ بلندیوں پر بڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے انہیں پتلی ٹہنیوں والے درخت ملتے جاتے ہیں۔ ان پتلی خشک ٹہنیوں کا استعمال وہ کھانا پکانے میں کرتے ہیں۔
ہردیو کہتے ہیں، ’’ہم سال کے تقریباً نو مہینے اپنے گھروں سے دور رہتے ہیں۔ یہاں ’چُلی ٹاپ‘ تک پہنچنے سے پہلے ہم گنگوتری کے پاس ہرشل میں تقریباً چھ مہینوں کے لیے رکے تھے۔ یہاں پہنچے ہوئے ہمیں دو مہینے ہو چکے ہیں۔ ٹھنڈ تیزی سے بڑھنے لگی ہے۔ اس لیے، اب ہماری گھر واپسی کا وقت بھی ہو چکا ہے۔‘‘ وہ اترکاشی ضلع کے بھٹواڑی میں واقع سورا کے قریب کی چھوٹی بستی، جملو کے رہنے والے ہیں۔ ان کے پاس سورا میں کھیتی لائق ایک بیگھہ سے کچھ کم زمین ہے۔ ایک بیگھہ ایک ایکڑ کے پانچویں حصے کے برابر ہوتا ہے۔ اُس زمین کی دیکھ بھال ان کی بیوی اور بچوں کے ذمے ہے، جس پر وہ اپنے کھانے کے لیے چاول اور راجما اُگاتے ہیں۔
جاڑے کے تین مہینوں میں جب برف جمع ہونے کی وجہ سے کوئی کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے، تب جانوروں کے مالک اپنی اپنی بھیڑ بکریوں کی حالت دیکھنے اور ان کی گنتی کرنے آتے ہیں۔ ایک بھی مویشی کم ہونے پر چرواہے کی آمدنی سے کاٹ کر اس کی بھرپائی کی جاتی ہے، جو بمشکل ہر مہینے ۸ سے ۱۰ ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ یہ جانوروں کی دیکھ بھال کے ٹھیکہ سے ہونے والی آمدنی ہے، جو جانوروں کا مالک کسی چرواہے کو دیتا ہے۔ معاونین کو عموماً نقد محنتانہ نہیں ملتا ہے اور ان کی مزدوری کے طور پر انہیں تقریباً ۱۰-۵ بکریاں یا بھیڑیں ملتی ہیں۔
چھوٹے شہروں میں، یہاں تک کہ اترکاشی کے ضلع ہیڈکوارٹر میں بھی ایک بھیڑ یا بکری تقریباً ۱۰ ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ گور سنگھ کہتے ہیں، ’’سرکار کو اس معاملے میں ہماری مدد کرنی چاہیے۔ وہ چاہے تو ہمارے لیے ایک ایسی مستقل جگہ بنا سکتی ہے جہاں ہم اپنی بھیڑ بکریاں فروخت کر سکیں۔ اس سے ہمیں بہتر قیمت ملنے میں مدد ملے گی۔‘‘ وہ فی الحال کھانسی زکام میں مبتلا ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کسی بھی بیماری کی علامت نظر آنے پر ایک معمولی گولی (ٹیبلیٹ) کے لیے بھی انہیں ادھر سے گزرنے والے مسافروں کے بھروسے رہنا پڑتا ہے، کیوں کہ اس علاقے میں طبی سہولیات آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔
معاون گرو لال (۴۰ سال) بتاتے ہیں، ’’میں ہماچل پردیش سے ۲۰۰۰ کلومیٹر پیدل چل کر اس کام کے لیے آیا ہوں۔‘‘ وہ شملہ ضلع کی ڈوڈرا کوار تحصیل کے رہنے والے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میرے گاؤں میں ہمارے لیے کوئی روزگار دستیاب نہیں ہے۔‘‘ دلت برادری سے تعلق رکھنے والے لال بتاتے ہیں کہ نو مہینے کے اس کام کے عوض انہیں مزدوری کے طور پر ۱۰ بکریاں ملیں گی۔ ان کے پاس دو متبادل ہیں – یا تو وہ ان بکریوں کو بازار میں بیچ دیں یا جب وہ اپنی بیوی اور ۱۰ سال کے بیٹے کے پاس دوبارہ اپنے گھر لوٹیں، تو بکری پالنے کا کام شروع کر دیں۔
ہردیو سنگھ کے چرواہا بننے کے پیچھے بھی بیکاری اور روزگار کی کمی ہی سب سے بڑی وجہ رہی۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے گاؤں کے لوگ ممبئی جا کر ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں۔ یہاں پہاڑوں میں صرف ٹھنڈ رہتی ہے یا نمی کا موسم بنا رہتا ہے۔ کوئی یہ کام نہیں کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ یہ دہاڑی مزدوری کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ لیکن دہاڑی کا کام بھی کہاں ملتا ہے؟‘‘
اس اسٹوری کی رپورٹنگ کرنے میں انجلی براؤن اور سندھیا رام لنگم سے ملے تعاون کے لیے، رپورٹر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز