’’گٹر (نالا) تقریباً ۲۰ فٹ گہرا تھا۔ سب سے پہلے پریش اس کے اندر گیا۔ اس نے دو تین بالٹی کچرا نکالا؛ پھر وہ باہر آیا، تھوڑی دیر بیٹھا اور دوبارہ اس کے اندر گیا۔ اس بار، وہ جیسے ہی اندر گھسا اس کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں…
’’ہمیں پتہ ہی نہیں چل پا رہا تھا کہ کیا ہوا ہے، اس لیے گلسنگ بھائی اندر گئے۔ لیکن، ان کے جانے کے بعد کوئی آواز نہیں آئی۔ لہٰذا، ان کے پیچھے انیپ بھائی اندر گئے۔ باوجود اس کے، تینوں میں سے کسی کی بھی آواز باہر نہیں آ رہی تھی۔ آخرکار، ان لوگوں نے میرے جسم کے چاروں طرف ایک رسی لپیٹی اور مجھے اندر اتارا۔ بعد میں مجھے کسی کا ہاتھ پکڑا گیا؛ لیکن پتہ نہیں وہ ہاتھ کس کا تھا۔ لیکن جیسے ہی میں نے اس ہاتھ کو پکڑا، انہوں نے مجھے اوپر کھینچنے کی کوشش کی اور تبھی میں بیہوش ہو گیا،‘‘ بھاویش ایک ہی سانس میں ساری باتیں بتاتے چلے جاتے ہیں۔
بھاویش نے اپنے بھائی اور ان کے دو ساتھیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے ایک ہفتہ کے اندر ہی ہم بھاویش سے ملنے گئے۔ انہیں کافی صدمہ پہنچا تھا۔ وہ انتہائی تکلیف اور اداسی کے ساتھ اس اندوہناک حادثہ کو یاد کر رہے تھے۔
گجرات کے داہود ضلع کے کھرسانا گاؤں سے تعلق رکھنے والے ۲۰ سالہ بھاویش کٹارا ’خوش قسمت‘ تھے کہ وہ اس حادثہ میں بچ گئے۔ وہ ان دو لوگوں میں سے ایک ہیں جو بھروچ ضلع کی دہیج گرام پنچایت میں زہریلی گیس سے بھرے نالے کی صفائی کے دوران زندہ بچ گئے تھے، جب کہ اس دن تین لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ داہود کے بلنڈیا پیٹھاپور کے ۱۸ سالہ جگنیش پرمار کی بھی جان بچ گئی تھی۔
اُس حادثہ میں جن تین لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی وہ جگنیش کے ہی گاؤں کے ۲۰ سالہ انیپ پرمار؛ داہود کے دانت گڑھ چاکلیا کے ۲۵ سالہ گلسنگ مُنیا؛ اور بھاویش کے ہی گاؤں میں رہنے والے ان کے بھائی ۲۴ سالہ پریش کٹارا تھے۔ ان تینوں کی موت سیور (پرنالے) میں آکسیجن کی کمی سے ہوئی تھی۔ [یہاں پر ان کی عمر ان کے آدھار کارڈ سے لی گئی ہے جس کی درستگی کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ کم تر درجے کے اہلکاروں کے ذریعے یہ عمر اکثر غلط لکھ دی جاتی ہے]۔
لیکن دہیج میں اُس دن سیور کی صفائی کرنے والے پانچوں آدیواسی، اپنے گاؤوں سے تقریباً ۳۲۵ سے ۳۳۰ کلومیٹر دور وہاں کیا کام کرتے تھے؟ ان میں سے دو تو ماہانہ اجرت پر دوسری گرام پنچایت میں کام کرتے تھے، جب کہ بقیہ تین لوگوں کے بارے میں ان کے گھر والوں کو زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ اپنی گزر بسر کے لیے کس قسم کے چھوٹے موٹے کام کرتے تھے۔ ان سبھی کا تعلق بھیل آدیواسی گروپ کے انتہائی پسماندہ طبقے سے تھا۔
یہ اندوہناک حادثہ ۴ اپریل، ۲۰۲۳ کو ہوا تھا۔ ’’ایک آدمی سیور کے اندر تھا،‘‘ جگنیش یاد کرتے ہیں، جو اُس دن نالے کے بغل والے حصہ میں کام کر رہے تھے۔ ’’سانسوں کے ذریعے زہریلی گیس اس کے جسم میں چلی گئی تھی اور وہ بے بس ہو گیا تھا۔ اسے بچانے کے لیے جب دوسرا آدمی [گلسنگ] اندر گیا، تو گیس نے اسے بھی اپنی چپیٹ میں لے لیا۔ وہ اندر ہی بیہوش ہو گیا۔ ان دونوں کو بچانے کے لیے انیپ اندر گھُسا، لیکن گیس چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے وہ بھی بیہوش ہو کر وہیں گر پڑا۔
’’ہم اسے بچانے کے لیے لگاتار آوازیں لگا رہے تھے،‘‘ جگنیش بتاتے ہیں۔ ’’ہماری آواز سن کر گاؤں والے وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے پولیس اور فائر بریگیڈ والوں کو فون کیا۔ جب بھاویش اندر گھُسا، تو گیس کی وجہ سے وہ بھی بیہوش ہو گیا۔ انہیں باہر نکالنے کے بعد، وہ سب سے پہلے بھاویش کو پولیس اسٹیشن لے گئے۔ ہوش آنے کے بعد، پولیس والے اسے ہسپتال لے گئے۔‘‘
ہسپتال لے جانے کے لیے وہ ان کے ہوش میں آنے کا انتظار کیوں کر رہے تھے؟ اس کا جواب ان میں سے کسی کے پاس نہیں تھا۔ حالانکہ، بھاویش کی جان بچ گئی تھی۔
*****
انیپ اپنی شادی سے پہلے ہی دہیج میں کام کر رہے تھے۔ ان کی بیوی رمیلا بین نے بھی سال ۲۰۱۹ میں شادی کے فوراً بعد وہاں پہنچ کر ان کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں [کام پر] جلدی، یعنی صبح آٹھ بجے ہی نکل جاتی تھی۔ وہ صبح کو ۱۱ بجے، دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد کام پر اکیلے جاتے تھے، اور تلاتی صاحب یا سرپنچ انہیں جو بھی کام دیتے وہ اسے کرتے تھے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ انیپ کی موت کے وقت رمیلا بین ان کے ساتھ نہیں تھیں۔
رمیلا بین بتاتی ہیں، ’’پہلے نالے کی صفائی کا کام ہم ایک ساتھ کیا کرتے تھے۔ شادی کے بعد ہم نے گٹر کا کام چار مہینے تک کیا۔ پھر انہوں نے ہم سے ’ٹریکٹر کا کام‘ کرنے کو کہا۔ ہم ٹریکٹر سے گاؤں میں گھوم کر اس کی ٹرالی میں لوگوں کے کچرے اکٹھا کرتے تھے۔ میں کچرے کو الگ کرنے کا کام کرتی تھی۔ دہیج میں، ہم نے بڑے نالوں کی بھی صفائی کی ہے۔ آپ اُن پرائیویٹ نالوں کے بارے میں جانتے ہیں، جن میں بڑے چیمبر ہوتے ہیں؟ میں بالٹی میں ایک رسی باندھ دیتی تھی اور پھر اس کی مدد سے کچرے کو باہر نکالتی تھی۔‘‘
رمیلا بین مزید کہتی ہیں، ’’وہ ایک دن کام کرنے کے عوض ۴۰۰ روپے دیتے تھے۔ مجھے ان دنوں کے بھی ۴۰۰ روپے ملتے تھے، جب میں وہاں جاتی تھی۔ تقریباً چار مہینے بعد، انہوں نے ہمیں روزانہ کی بجائے ماہانہ پیسے دینے شروع کیے۔ پہلے نو ہزار، پھر بارہ ہزار، اور آخر میں پندرہ ہزار روپے۔‘‘ انیپ اور گلسنگ نے دہیج گرام پنچایت کے لیے کچھ سالوں تک ماہانہ اجرت کی بنیاد پر کام کیا۔ پنچایت نے انہیں رہنے کے لیے ایک کمرہ بھی دیا تھا۔
کام پر رکھے جانے سے پہلے کیا انہوں نے کسی معاہدہ پر دستخط کیا تھا؟
ان کے رشتہ داروں کو اس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ آیا ہلاک ہونے والے کارکنوں کو پرائیویٹ ٹھیکہ داروں نے شہری انتظامیہ (سوک باڈیز) کے کہنے پر کام پر رکھا تھا۔ نہ ہی انہیں یہ معلوم ہے کہ آیا وہ پنچایت کی طرف سے ٹھیکہ پر کام کر رہے تھے – اور ان کے روزگار کی نوعیت عارضی تھی یا مستقل۔
بھاویش نے اس حادثہ سے دس دن پہلے ہی وہاں کام کرنا شروع کیا تھا۔ اُس دن کام کے لیے جگنیش اور پریش کو بلایا گیا تھا۔ کام کا یہ ان کا پہلا دن تھا۔ اور ان کے گھر والوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کون سا کام کرنے جا رہے ہیں۔
پریش کی ماں، ۵۱ سالہ سپنا بین روتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پریش یہ کہتے ہوئے گھر سے نکلا کہ پنچایت میں کوئی کام ہے، اور وہ اسے وہاں [دہیج میں] بلا رہے ہیں۔ اس کا بھائی [بھاویش] وہاں دس دن پہلے سے ہی کام کر رہا تھا۔ اسے گلسنگ بھائی نے فون کیا تھا۔ بھاویش اور پریش کو یہی بتایا گیا تھا کہ ایک دن کے انہیں ۵۰۰ روپے ملیں گے۔ ان میں سے کسی نے بھی ہمیں یہ نہیں بتایا کہ انہیں نالے کی صفائی کرنی ہے۔ ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ وہ کتنے دنوں کے لیے جا رہے ہیں؟ ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ وہ کیا کام کرنے جا رہے ہیں؟‘‘
گلسنگ مُنیا کے گھر میں، ۲۶ سالہ کنیتا بین کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کے شوہر کیا کام کرتے تھے۔ ’’میں گھر سے باہر نہیں نکلتی ہوں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’وہ کہتے تھے، ’میں پنچایت میں کام کرنے جا رہا ہوں‘ اور نکل جاتے تھے۔ انہوں نے مجھے کبھی یہ نہیں بتایا کہ وہ کیا کام کرتے ہیں۔ وہ یہ کام شاید سات سالوں سے کر رہے تھے۔ لیکن انہوں نے مجھے اس کے بارے میں کبھی نہیں بتایا، گھر لوٹنے کے بعد بھی نہیں بتاتے تھے۔‘‘
پانچوں فیملی کے کسی بھی فرد کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے بیٹے، شوہر، بھائی، یا بھتیجے کیا کام کرتے ہیں، علاوہ اس کے کہ وہ پنچایت میں نوکری کرتے ہیں۔ جھالو بھائی کو انیپ کی موت کے بعد ہی یہ پتہ چل پایا کہ ان کا بیٹا کیا کام کرتا تھا۔ انہیں لگتا ہے کہ پیسے کی اشد ضرورت نے انہیں یہ کام کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ’’ پنسایت نوں کوم ایٹلے بھونڈ اٹھاوا نوں کیہہ تو بھونڈ اٹھاواوو پڑے۔ (پنچایت کے کام کا مطلب ہے کہ اگر وہ ہم سے کسی مرے ہوئے خنزیر کی لاش اٹھانے کے لیے کہیں، تو ہمیں وہ بھی کرنا پڑے گا)،‘‘ جھالو بھائی کہتے ہیں۔ ’’اگر وہ ہم سے گٹر صاف کرنے کے لیے کہیں، تو ہمیں صاف کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ، وہ ہمیں نوکری سے نکال دیں گے۔ وہ کہیں گے کہ گھر چلے جاؤ…‘‘
جو لوگ مرے، یا جو لوگ پہلی بار اس کام کو کرنے گئے، کیا انہیں معلوم تھا کہ اس میں کیا کرنا ہوتا ہے؟ بھاویش اور جگنیش بتاتے ہیں کہ انہیں معلوم تھا۔ بھاویش کہتے ہیں، ’’گلسنگ بھائی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ تمہیں ایک دن کے ۵۰۰ روپے دیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ تھوڑی گٹر کی صفائی کرنی ہوگی۔‘‘ جگنیش اس کی تصدیق کرتے ہیں، اور کہتے ہیں، ’’مجھے انیپ نے فون کیا تھا۔ میں وہاں پہنچا، اور پھر صبح کو وہ لوگ مجھے سیدھے کام پر لے گئے۔‘‘
جگنیش کے علاوہ، ان میں سے کسی بھی مزدور نے مڈل اسکول سے آگے پڑھائی نہیں کی تھی۔ جگنیش گجراتی پروگرام میں بی اے سال اول کے طالب علم ہیں – بیرونی اسٹوڈنٹ کے طور پر۔ لیکن زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے ان سبھی کو یہ لگا کہ غریبی سے باہر نکلنے کا واحد راستہ گٹر میں اترنا ہی ہے۔ اس کے علاوہ گھر والوں کا بھی پیٹ پالنا تھا اور بچوں کو پڑھانا تھا۔
*****
قومی کمیشن برائے صفائی کرمچاری (این سی ایس کے) کی سال ۲۳-۲۰۲۲ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ۱۹۹۳ سے ۲۰۲۲ کے درمیان گجرات میں سیور کی صفائی کے دوران ۱۵۳ لوگوں کی جان گئی ہے۔ تمل ناڈو کے بعد یہ دوسری سب سے بڑی تعداد ہے، جہاں اسی مدت کے دوران ۲۲۰ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
تاہم، مرنے والوں کی صحیح تعداد، یا سیپٹک ٹینک اور سیور کی صفائی میں لگے لوگوں کی تعداد کے بارے میں مستند ڈیٹا ابھی بھی دستیاب نہیں ہے۔ بہرحال، گجرات کے وزیر برائے سماجی انصاف اور تفویض اختیار نے ریاستی مقننہ کو بتایا کہ ۲۰۲۱ سے ۲۰۲۳ کے درمیان کل ۱۱ صفائی کرمچاریوں کی موت ہوئی ہے – ان میں سے سات کی موت جنوری ۲۰۲۱ سے جنوری ۲۰۲۲ کے درمیان ہوئی تھی۔ اور مزید چار کی موت جنوری ۲۰۲۲ سے جنوری ۲۰۲۳ کے درمیان ہوئی ہے۔
اگر ہم گزشتہ دو مہینوں کے دوران ریاست میں مزید آٹھ صفائی کرمچاریوں کی موت کو جوڑ دیں، تو مہلوکین کی مجموعی تعداد بڑھ جائے گی۔ ان میں سے دو کی موت راج کوٹ میں مارچ کے مہینہ میں ہوئی تھی، جب کہ تین کی موت دہیج میں اپریل میں ہوئی ہے (جس کا ذکر اس اسٹوری میں کیا جا رہا ہے)۔ اس کے علاوہ اپریل میں ہی مزید دو لوگوں کی موت ڈھولکا میں اور ایک کی تھراڈ میں ہوئی ہے۔
کیا ان کے پاس حفاظتی پوشاک تھے؟
اس کا جواب ہمیں انیپ کی ۲۱ سالہ بیوی رمیلا بین کے ذریعے بھروچ پولیس اسٹیشن میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں ملتا ہے: ’’سرپنچ جے دیپ سنگھ رانا اور ڈپٹی سرپنچ کے شوہر مہیش بھائی گوہل کو یہ معلوم تھا کہ اگر میرے شوہر اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے لوگ…بغیر کسی حفاظتی پوشاک (سیفٹی گیئر) کے ۲۰ فٹ گہرے بدبودار سیور میں اتریں گے، تو ان کی موت ہو سکتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی انہیں کوئی سیفٹی گیئر فراہم نہیں کیا گیا۔‘‘ [ڈپٹی سرپنچ ایک خاتون ہیں۔ اور جیسا کہ قدامت پرست معاشرے میں اکثر ہوتا ہے، ان کے اختیارات کا استعمال ان کے شوہر کر رہے تھے]۔
انسانوں سے سیور اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کروانے پر تبھی سے پابندی لگ چکی ہے، جب سے میلا ڈھونے والے کے طور پر روزگار ممنوع اور ان کی بازآبادکاری کا قانون، ۲۰۱۳ کے ذریعے میلا ڈھونے والے کے طور پر روزگار اور خشک لیٹرین کی تعمیر کی روک تھام کا قانون،۱۹۹۳ کو پھر سے نافذ کر دیا گیا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام چیزیں صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔ اسی قانون میں ’’خطرناک صفائی‘‘ کرنے والے لوگوں، اور حفاظتی پوشاک سے متعلق ان کے حق کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اگر کوئی آجر، صفائی کرمچاری کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایسی پوشاک اور صفائی کے دیگر آلات فراہم کرنے کی لازمیت کو پورا نہیں کرتا ہے، تو قانون کی رو سے اسے غیر ضمانتی جرم کا مرتکب مانا جائے گا۔
رمیلا بین کی ایف آئی آر پر کارروائی کرتے ہوئے، پولیس نے دہیج گرام پنچایت کے سرپنچ اور ڈپٹی سرپنچ کے شوہر کو گرفتار کر لیا، لیکن دونوں نے ضمانت کی درخواست فوراً ہی جمع کرا دی تھی۔ مہلوکین کے اہل خانہ کو نہیں معلوم ہے کہ ان کی درخواستوں پر کیا کارروائی ہوئی ہے۔
*****
گلسنگ کی بیوی، کنیتا بین سسکتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ آگڑ پاچھڑ کوئی نتھ۔ آ پانچ سوکرا سے۔ کوئی نتھ پال پوس کرنارا مارے۔ (آگے پیچھے اب کوئی نہیں بچا۔ پانچ لڑکیاں ہیں۔ وہ ہمارے کھانے، اور بچوں کی تعلیم کا سارا خرچ اٹھاتے تھے۔ اب ہماری پرواہ کرنے والا کوئی نہیں ہے)۔‘‘ شوہر کی موت کے بعد، وہ اپنی پانچ بیٹیوں کے ساتھ سسرال میں ہی رہ رہی ہیں؛ سب سے بڑی بیٹی ۹ سال کی ہے اور سب سے چھوٹی ابھی ایک سال کی بھی نہیں ہوئی ہے۔ گلسنگ کی ماں، ۵۴ سالہ بدوڑی بین کہتی ہیں، ’’میرے چار بیٹے تھے۔ دو سورت میں ہیں۔ وہ ہم سے ملنے کبھی نہیں آتے۔ بڑا والا الگ رہتا ہے۔ وہ ہمیں کیوں کھلائے گا؟ ہم سب سے چھوٹے بیٹے، گلسنگ کے ساتھ رہتے تھے۔ اب وہ بھی چلا گیا۔ اب ہماری دیکھ بھال کون کرے گا؟‘‘
رمیلا بین بھی پوری طرح ٹوٹ چکی ہیں، جو ۲۱ سال کی عمر میں ہی بیوہ ہو گئیں اور حمل سے ہیں۔ ’’اب میں کیسے زندگی گزاروں گی؟ ہمارے کھانے کا انتظام کون کرے گا؟ فیملی میں اور بھی لوگ ہیں، ہم ان پر کتنے دنوں تک منحصر رہ سکتے ہیں؟‘‘ وہ اپنے شوہر انیپ کے پانچ بھائیوں، ایک بہن اور ماں باپ کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔
’’اب اس بچے کا کیا کروں؟ ہماری دیکھ بھال کون کرے گا؟ میں اکیلی عورت، گجرات میں کہاں جاؤں؟‘‘ وہ راجستھان سے ہیں، لیکن وہاں واپس نہیں جا سکتیں۔ ’’میرے والد اب کافی بوڑھے ہو چکے ہیں اور کام کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ وہ کھیتی بھی نہیں کر سکتے۔ ان کے پاس کوئی زمین نہیں ہے، اور فیملی بہت بڑی ہے۔ میرے چار بھائی اور چھ بہنیں ہیں۔ میں کس منہ سے اپنے ماں باپ کے پاس جاؤں؟‘‘ بات کرتے وقت ان کی نگاہیں اپنے پیٹ پر ٹکی ہوئی ہیں۔ وہ چھ مہینے کی حاملہ ہیں۔
انیپ کی بہن، دس سالہ جاگروتی کہتی ہے، ’’انیپ میرے لیے کتابیں لاتے تھے۔‘‘ یہ کہنے کے بعد وہ بھی رونے لگتی ہے۔
بھاویش اور پریش کے سر سے ان کے والد کا سایہ بچپن میں ہی اٹھ گیا تھا۔ اب ان کی فیملی میں تین بھائی، دو بھابھیاں، ایک ماں اور ایک چھوٹی بہن ہی بچے ہیں۔ ’’پریش مجھ سے بہت لاڈ پیار کرتے تھے،‘‘ ان کی بہن، بھاونا (۱۶ سالہ) کہتی ہیں۔ ’’میرے بھائی مجھ سے کہتے تھے کہ ۱۲ویں کلاس پاس کر لو، اس کے بعد آگے کی پڑھائی کے لیے جہاں چاہو جا سکتی ہو۔ انہوں نے مجھے ایک فون بھی خرید کر دینے کے لیے کہا تھا۔‘‘ بھاونا نے اس سال ۱۲ویں کلاس کا اپنا بورڈ کا امتحان دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ گلسنگ، پریش اور انیپ کے گھر والوں کو ریاستی حکومت کی طرف سے ۱۰ لاکھ روپے کا معاوضہ ملا ہے۔ لیکن ان کے کنبے بہت بڑے ہیں، جن میں کافی لوگ ہیں – اور انہوں نے کمائی کرنے والے اپنے ایک اہم رکن کو کھو دیا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ سرکار کی طرف سے چیک بھلے ہی بیواؤں کے نام پر آئے ہیں – لیکن ان عورتوں کو پیسے آنے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ صرف مردوں کو اس کی جانکاری تھی۔
آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ، جو فطرت کے ساتھ زندگی بسر کرتے چلے آ رہے ہیں، انہوں نے یہ کام کیسے شروع کر دیا؟ کیا ان کے پاس کوئی زمین نہیں ہے؟ معاش کے دوسرے مواقع نہیں ہیں؟
’’ہمارے پاس زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں،‘‘ انیپ کے موٹا باپا (بڑے چچا) بتاتے ہیں۔ ’’ہو سکتا ہے کہ ہماری فیملی کے پاس دس ایکڑ زمین ہو، لیکن گھر میں کھانے والے بھی ۳۰۰ لوگ ہوتے ہیں۔ ایسے میں سب کا پیٹ کیسے بھر سکتا ہے؟ آپ کو مزدوری کرنے کے لیے جانا ہی پڑے گا۔ زمین سے بھلے ہی ہمیں اتنا مل جاتا ہو کہ ہم اپنا پیٹ بھر لیں، لیکن بیچنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچتا۔‘‘
اس قسم کا کام کرنے سے ان کی بدنامی نہیں ہوتی؟
’’کوئی بدنامی نہیں تھی،‘‘ پریش کے موٹا باپا بچو بھائی کٹارا کہتے ہیں۔ ’’لیکن اس واقعہ کے بعد، ہمیں لگتا ہے کہ ایسا گندا کام ہمیں نہیں کرنا چاہیے۔
’’لیکن زندہ رہنے کے لیے کیا کیا جائے…؟‘‘
یہ اسٹوری سب سے پہلے گجراتی میں لکھی گئی تھی۔
مترجم: محمد قمر تبریز