’’ہمارے گروپ نے دو ٹکڑی بنا کر ٹرین پر حملہ کیا؛ پہلے گروپ کی قیادت جی ڈی باپو لاڈ کر رہے تھے، جب کہ دوسرے کی خود میں کر رہا تھا۔ ٹھیک اسی جگہ، جہاں ابھی آپ کھڑے ہیں – اسی پٹری پر ہم نے پتھروں کا انبار لگا کر ٹرین کو روکا؛ ٹرین واپس نہ لوٹ جائے، اس لیے پیچھے کی طرف بھی چٹّان رکھ دیے۔ ہنسیا، لاٹھی اور دو تین ’دیسی بم‘ کے علاوہ، کوئی بھی بندوق یا ہتھیار ہمارے پاس نہیں تھے۔ ٹرین کے مین گارڈ کے پاس بندوق تھی، لیکن وہ ہمیں دیکھ کر بری طرح ڈر گیا اور آسانی سے ہمارے قابو میں آ گیا۔ ہم نے پے رول اُٹھایا اور بولٹ لگا دیا۔‘‘

یہ واقعہ ۷۳ سال پہلے پیش آیا تھا! لیکن ’کیپٹن بھاؤ‘ لاڈ کی زبان سے سن کر ایسا لگا، گویا یہ کل ہی کی بات ہو۔ اب ۹۴ سال کے ہو چکے رام چندر شری پتی لاڈ جنہیں ’بھاؤ‘ (مراٹھی میں اس کا مطلب ہے بھائی یا بڑا بھائی) پکارا جاتا ہے، بڑی صاف گوئی سے بتا رہے تھے کہ کیسے انہوں نے برطانوی راج کے عہدیداروں کی تنخواہ لے جا رہی پونہ – میراج ٹرین پر حملے کی قیادت کی تھی۔ بزرگ مجاہدِ آزادی کے ایک پیروکار، بالا صاحب گن پتی شندے بھی ہمارے ساتھ تھے؛ انہوں نے ہمیں دھیرے سے بتایا، ’’بہت دنوں بعد بھاؤ اتنی وضاحت سے بات کر رہے ہیں‘‘۔ بھاؤ کی تمام یادیں اُس ریل کی پٹری تک پہنچتے ہی زندہ ہو گئیں۔ یہیں پر انہوں نے اور باپو لاڈ نے ۷ جون، ۱۹۴۳ کے دن دلیر طوفان سینا کو ساتھ لے کر حملہ بول دیا تھا۔

اُس لڑائی کے بعد، ستارا ضلع کے شینولی گاؤں میں واقع اِس جگہ پر بھاؤ پہلی بار واپس آئے تھے۔ چند لمحوں کے لیے وہ اپنے خیالوں میں گم ہو گئے اور پھر انہیں سب یاد آتا گیا۔ چھاپے میں شامل دیگر ساتھی کامریڈ کے نام بھی انہیں یاد ہیں۔ اور بھاؤ نے ہمیں بتایا کہ ’’وہ پیسہ کسی ایک انسان کی جیب میں نہیں، بلکہ پرتی سرکار [ستارا کی عبوری حکومت] کو گیا۔ ہم نے وہ پیسے ضرورت مندوں اور غریبوں میں بانٹ دیے۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: ۹۴ سال کے کیپٹن بھاؤ، ہندوستانی جدوجہد آزادی کے دوران اپنی لڑائی کے دنوں کو یاد کر رہے ہیں

کیپٹن بھاؤ سخت لہجے میں کہتے ہیں، ’’ہم نے ٹرین ’لوٹ لی‘ یہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ وہ تو چُرایا ہوا پیسہ تھا [برطانوی حکمرانوں نے ہندوستانیوں سے چُرایا]، جسے ہم واپس چھین کر لائے۔‘‘ میرے کانوں میں جی ڈی باپو لاڈ کے وہ الفاظ گونجنے لگے، جو انہوں نے سال ۲۰۱۰ میں، اپنی وفات کے ایک سال پہلے مجھ سے کہے تھے۔

طوفان سینا، پرتی سرکار کی مسلح شاخ تھی – ہندوستانی جنگِ آزادی کا انوکھا باب۔ ۱۹۴۲ کی بھارت چھوڑو تحریک کے ایک مسلح حصے کے طور پر ابھر آئے اس گروپ کے انقلابیوں نے ستارا میں متوازی حکومت کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت ستارا بہت بڑا ضلع ہوا کرتا تھا، جس میں آج کا سانگلی بھی شامل تھا۔ کیپٹن بھاؤ زور دے کر بتاتے ہیں کہ علاقہ کے لوگوں نے پرتی سرکار کو ہی اپنی حکومت مانا تھا اور کم از کم ۱۵۰ گاؤوں کے ۶۰۰ سے زیادہ لوگوں نے مل کر برطانوی حکومت کو اکھاڑ پھینکا تھا۔ ’’انڈر گراؤنڈ سرکار سے آپ کا کیا مطلب ہے؟‘‘ میرے اس لفظ کے استعمال سے ناراض کیپٹن بھاؤ مجھ پر چیخنے لگے۔ ’’ہم ہی سرکار تھے۔ ہم نے یہاں برطانوی راج کو داخل نہیں ہونے دیا۔ طوفان سینا سے تو پولیس بھی ڈرتی تھی۔‘‘

PHOTO • P. Sainath

کیپٹن بھاؤ ۱۹۴۲ کی ایک تصویر میں، اور اب (دائیں) ۷۴ سال بعد

کیپٹن کا دعویٰ صحیح ہے۔ عظیم انقلابی کرانتی سنگھ نانا پاٹل کی قیادت میں پرتی سرکار نے اپنے زیر قابو گاؤوں میں اچھی حکومت کی تھی۔ اس نے غذائی اجناس کی سپلائی اور تقسیم کے نظام کو درست کیا تھا، بہتر طریقے سے چلنے والے بازار کا ڈھانچہ کھڑا کیا تھا اور نظم و نسق بھی قائم کیا تھا۔ پرتی سرکار نے برطانوی راج کے معاون ساہوکاروں، دلالوں اور زمینداروں پر جرمانہ لگایا تھا۔ کیپٹن بھاؤ کہتے ہیں، ’’قانون اور نظم و نسق ہمارے قابو میں تھا۔ لوگ ہمارے ساتھ تھے۔‘‘ طوفان سینا نے برطانوی حکومت کے اسلحہ خانوں، ٹرینوں، خزانوں اور ڈاکخانوں پر بڑے حملے کیے تھے۔ اور وہاں سے لوٹے گئے مال کو غریب و لاچار کسانوں اور مزدوروں میں تقسیم کیا تھا۔

کیپٹن بھاؤ کئی بار جیل بھی گئے۔ لیکن ان کے بڑھتے ہوئے قد نے جیلروں کو بھی ان کا احترام کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ بھاؤ ہنس کر، فخر سے کہتے ہیں، ’’جب تیسری بار اوندھ کی جیل میں گیا تھا، تب لگا کہ کسی بادشاہ کا مہمان بن کر کسی محل میں رہ رہا ہوں۔‘‘ ۱۹۴۳ سے ۱۹۴۶ کے درمیان ستارا میں پرتی سرکار اور طوفان سینا کا ہی بول بولا تھا۔ لیکن، جب ہندوستان کی آزادی یقینی ہوگئی، تو طوفان سینا کو ختم کر دیا گیا۔

ایک بار پھر کیپٹن بھاؤ مجھ سے ناراض ہو گئے۔ انہوں نے ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’میں طوفان سینا میں کب شامل ہوا، اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے ہی اس کی بنیاد ڈالی تھی۔‘‘ سرکار کی قیادت نانا پاٹل کر رہے تھے۔ جی ڈی باپو لاڈ ان کا دایاں ہاتھ اور سینا کے ’فیلڈ مارشل‘ تھے۔ کیپٹن بھاؤ سینا کے آپریشنل ہیڈ تھے۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ مل کر برطانوی راج کو ذلت آمیز زخم پہنچایا تھا۔ یہ حملہ تب ہوا تھا، جب پہلے ہی بنگال، بہار، اتر پردیش اور اوڈیشہ میں بھڑکی بغاوت نے بھی برطانوی راج کے لیے مشکلیں کھڑی کر دی تھیں۔

PHOTO • P. Sainath

۱۹۴۲ یا ۱۹۴۳ کے آس پاس کُنڈل علاقہ میں لی گئی طوفان سینا کی ایک تصویر

کیپٹن بھاؤ کے گھر کا ڈرائنگ روم یادوں اور یادگاری نشانات سے بھرا ہوا ہے۔ ان کا ذاتی کمرہ عام سا ہے۔ ان کی بیوی کلپنا، جو ان سے عمر میں دس سال چھوٹی ہیں، کیپٹن بھاؤ کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں بتاتی ہیں، ’’آج بھی اس آدمی سے پوچھو کہ گھر کے کھیت کدھر ہیں، تو وہ بتا نہیں پائیں گے۔ میں نے عورت ہوتے ہوئے بھی اکیلے بچے، گھر، کھیت، سب کچھ سنبھالا ہے۔ ۵ بچے، ۱۳ پوتے پوتیاں اور ۱۱ پڑپوتے و پڑپوتیوں کو سنبھالتے ہوئے یہ گھر اتنے سال میں نے اکیلے چلایا ہے۔ وہ کچھ وقت کے لیے تاس گاؤں، اوندھ اور یروڈا کی جیل میں تھے۔ جب جیل سے آزاد ہوتے، تو کئی مہینوں تک گاؤوں میں غائب ہو جاتے تھے اور کئی مہینوں کے بعد گھر آتے تھے۔ سب کچھ میں نے سنبھالا، آج بھی سنبھال رہی ہوں۔‘‘

PHOTO • P. Sainath

کُنڈل کے ایک ستون پر ستارا اور سانگلی کے مختلف مجاہدینِ آزادی کے نام کندہ ہیں۔ کیپٹن بھاؤ کا نام بائیں لائن میں چھٹے نمبر پر ہے۔ (دائیں طرف) گھر پر ان کی بیوی کلپنا لاڈ

پرتی سرکار اور طوفان سینا نے ہندوستانی جنگِ آزادی کو کئی اہم لیڈر عطا کیے۔ نانا پاٹل، ناگ ناتھ نائک واڑی، جی ڈی باپو لاڈ، کیپٹن بھاؤ جیسے کئی لیڈر۔ ان میں سے زیادہ تر کو آزادی کے بعد وہ مقام اور اہمیت نہیں ملی، جس کے وہ حقدار تھے۔ سرکار اور سینا کے اندر مختلف سیاسی سوچ نے کام کیا۔ ان میں سے کئی پہلے سے ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رکن تھے یا بعد میں بن گئے۔ ان میں سے ہی ایک، نانا پاٹل جو آل انڈیا کسان سبھا کے صدر بنے، ۱۹۵۷ میں سی پی آئی کے ٹکٹ پر ستارا سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ باقیوں میں سے، کیپٹن بھاؤ اور باپو لاڈ کسان اور مزدور پارٹی میں شامل ہوئے۔ حالانکہ، مادھو راؤ مانے جیسے کچھ لوگ کانگریس میں چلے گئے تھے۔ تقریباً سبھی باحیات مجاہدینِ آزادی، چاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے رہا ہو، سوویت یونین کے ہٹلر کے خلاف کیے گئے احتجاج کو اپنی بغاوت کی وجہ بتاتے ہیں۔

۹۴ سالہ کیپٹن بھاؤ اب تھک گئے ہیں، پھر بھی پرانی یادوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ ’’ہم نے آزادی کو عام آدمی تک پہنچانے کا خوبصورت خواب دیکھا تھا۔ ہم نے آزادی حاصل بھی کی۔ اور اس بات پر مجھے فخر ہے۔ لیکن، وہ خواب اب بھی خواب ہی لگتا ہے… آج جس کے پاس پیسہ ہے اسی کا راج چلتا ہے۔ یہی ہماری آزادی کی حالت ہو گئی ہے۔‘‘

کیپٹن بھاؤ کے لیے، کم از کم ان کی روح میں، طوفان سینا آج بھی زندہ ہے۔ ’’لوگوں کے حق کے لیے طوفان سینا اب بھی یہاں موجود ہے۔ جب اس کی ضرورت ہوگی، تب طوفان سینا پھر سے کھڑی ہوگی اور انقلاب برپا کرے گی۔‘‘

PHOTO • P. Sainath

مترجم: محمد قمر تبریز

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique