جب ایسا لگنے لگا تھا کہ اپریل کے وسط تک مہاراشٹر میں دوبارہ لاک ڈاؤن جیسی پابندیاں عائد کی جائیں گی، تو گوپال گپتا نے ایک سال میں دوسری بار ممبئی چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔
لیکن اس کی بجائے، مارچ کے آخر میں ان کی فیملی کو مٹی کے ایک چھوٹے سے لال برتن میں ان کی استھیاں ان کے گاؤں، اتر پردیش کے کسورہ تعلقہ کے سہتور لے جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہونا پڑا تھا۔
گوپال کی ۲۱ سالہ بیٹی جیوتی کہتی ہیں، ’’مجھے نہیں لگتا کہ میں اپنے والد کی موت کے لیے صرف کورونا کو موردِ الزام ٹھہرا سکتی ہوں… اگر وہ زندہ بھی ہوتے تو اپنی ایک ٹانگ کھو چکے ہوتے۔‘‘
کلیان کے ۵۶ سالہ سبزی فروش گوپال کو مارچ کے پہلے ہفتے میں کھانسی اور زکام کی شکایت ہوئی تھی۔ انہوں نے پلوانی علاقے میں بستی کی کلینک سے کچھ دوائیں لیں، جس کے بعد وہ بہتر محسوس کر نے لگے تھے۔ یہ فیملی پلوانی میں دو کمروں کے ایک چھوٹے سے گھر میں میں کرایہ پر رہتی ہے۔
انہیں یوپی کے بلیا ضلع کے بانس ڈیہ تعلقہ میں واقع اپنے گاؤں سے جنوری میں واپس آئے بمشکل دو مہینے ہی گزرے تھے۔ جیسے ہی کام میں تیزی آنی شروع ہوئی، کووڈ کی دوسری لہر میں اضافہ ہونے لگا۔ جیوتی کہتی ہیں، ’’میرے والد پچھلے سال کی طرح دوبارہ انتظار کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے۔‘‘ چنانچہ فیملی نے دوبارہ اپنے گاؤں واپس لوٹنے کی تیاری شروع کر دی۔
لیکن ۱۰ مارچ کی صبح تقریباً ۵ بجے گوپال کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہونے لگی۔ انہیں ایک مقامی کلینک میں لے جایا گیا، جہاں ان کا کووڈ ٹیسٹ پازیٹو آیا۔ گھر والے انہیں کے ڈی ایم سی (کلیان ڈومبی ولی میونسپل کارپوریشن) گراؤنڈ میں لے گئے۔ اس میدان کو ایک ’مخصوص کووڈ ہیلتھ سینٹر‘ میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ (کلیان اور ڈومبی ولی ممبئی میٹروپولیٹن خطے کے شہر ہیں۔) لیکن ان کی حالت بگڑ گئی اور سینٹر کے عملے نے اہل خانہ سے کہا کہ وہ انہیں بہتر سہولیات سے آراستہ کسی دوسرے سینٹر میں منتقل کر دیں۔ اسی دوپہر گوپال کو کلیان کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں لے جایا گیا۔
جیوتی کہتی ہیں، ’’ہمیں واقعی یہ نہیں معلوم تھا کہ ہمیں کہاں جانا چاہیے۔ سوچنے کے لیے ہمارے پاس وقت بہت کم تھا۔ ہم والد کی بگڑتی صحت اور بھائی کی حالت سے خوفزدہ تھے۔‘‘ ان کے بھائی، ۲۶ سالہ وویک کا ٹیسٹ بھی پازیٹو آیا تھا اور انہیں بھیونڈی کے ایک قریبی سینٹر میں ۱۲ دن کے لیے کوارنٹائن میں رہنے کے لیے کہا گیا تھا۔
جب وہ پرائیویٹ ہسپتال پہنچے، تو اہل خانہ سے ۵۰ ہزار روپے نقد جمع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ گوپال کو آئی سی یو میں لے جایا گیا اور گھر والے تجویز کردہ مہنگی دوائیں لینے ہسپتال کے اسٹور کی جانب بھاگے۔ گوپال کی بیوی ششی کلا کہتی ہیں، ’’ہم نے جو تھوڑی سی بچت کی تھی اسے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ حالات ہمارے لیے بدتر ہوتے چلے گئے، کیونکہ ہر روز ہمیں ادائیگی کے لیے ایک نیا بل دیا جاتا تھا۔‘‘ ششی کلا ایک گھریلو خاتون ہیں، جو منڈیوں سے سبزیاں لا کر فیملی کے کاروبار میں بھی ہاتھ بٹاتی تھیں۔
گزشتہ سال لاک ڈاؤن سے قبل گوپال اور ان کے بیٹے وویک دونوں سبزیاں فروخت کر کے ۳۰۰ سے ۷۰۰ روپے روزانہ کما لیتے تھے۔ اس کمائی پر ان کی چھ رکنی فیملی کا گزارہ ہوتا تھا۔ ان کا تعلق تیلی برادری (او بی سی کی ایک ذات) سے ہے۔ ۲۰۱۳-۱۴ میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد وویک نے نوی ممبئی کے ایک چھوٹے سے مال میں ۱۲ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کیشیئر کی نوکری حاصل کر لی تھی۔ لیکن جب مال بند ہو گیا، تو وہ بھی اپنے والد کے ساتھ سبزی بیچنے لگے تھے۔
گوپال اور ششی کلا کے سب سے چھوٹے بیٹے، ۱۹ سالہ دیپک کو ۱۲ویں کلاس کی پڑھائی شروع کرنی تھی، لیکن ۲۰۲۰ کے لاک ڈاؤن کے دوران انہیں اپنی تعلیم بند کرنی پڑی۔ جیوتی اپنے تیسرے سال کے بی کام کورس کی فیس ادا کرنے میں کامیاب رہیں اور ایک این جی او اور دوستوں کی مدد سے آن لائن کلاسز میں شریک ہوتی رہیں۔
ان کی بہن، ۲۲ سالہ خوشبو کو فیملی کے گزشتہ مالی بحران کی وجہ سے ۹ویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑنا پڑا تھا۔ جیوتی کہتی ہیں، ’’میرے والد کبھی ایسا نہیں چاہتے تھے، لیکن ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا…‘‘ ان کی دو دیگر بہنیں شادی شدہ ہیں اور اتر پردیش میں رہتی ہیں۔
پچھلے سال جون میں وہ اپنے گاؤں چلے گئے اور اپنے دادا جی کے چھوٹے سے گھر میں قیام کیا۔ نومبر میں جیوتی اپنے پانچویں سیمسٹر کا امتحان دینے کے لیے وویک کے ساتھ ممبئی واپس آ گئیں۔ وویک نے دوبارہ سبزیاں بیچنا شروع کیں اور ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے یومیہ کمانے لگے۔ جیوتی کو کلیان کے ایک سرکاری اسپتال میں ایک عارضی ملازمت مل گئی۔ انہیں گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو کی دوا پلانے اور کووڈ۔۱۹ کے ممکنہ مریضوں کے بخار اور آکسیجن کی سطح چیک کرنے کی ذمہ داری ملی تھی۔ انہوں نے یہ کام تین مہینے تک جاری رکھا اور اس کے لیے انہیں کل ۲۵۰۰ روپے ملے۔
جنوری ۲۰۲۱ میں گوپال اور فیملی کے دوسرے افراد ممبئی واپس آ گئے، کیونکہ گاؤں میں کوئی کام نہیں تھا اور ان کی بچت ختم ہو رہی تھی۔ گزشتہ برس اس خاندان کو ایک این جی او کی جانب سے بطور راحت راشن ملا تھا۔ لیکن گھر کا کرایہ ۳۰۰۰ روپے اور بجلی بل اور دوسرے مدوں میں بھی وہ اپنی بچت کا استعمال کر رہے تھے۔
پھر مارچ میں گوپال کے پرائیویٹ ہسپتال میں ۱۰ دن کے قیام کے دوران بلوں کے انبار میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہسپتال کا بل دو لاکھ ۲۱ ہزار ۸۵۰ روپے تھا جبکہ ادویات کے لیے انہیں ایک لاکھ ۱۵۸ روپے خرچ کرنے پڑے تھے۔ (اس رپورٹر نے تمام بل دیکھے ہیں۔) سی ٹی اسکین، پلازما انفیوژن، لیب ٹیسٹ، اور ایمبولینس پر جو تقریباً ۹۰ ہزار روپے خرچ ہوئے وہ الگ تھے۔
سبزی بیچ کر گزر بسر کرنے والی اس فیملی نے، جو پچھلے سال کے لاک ڈاؤن کے بعد مالی تنگی سے جوجھ رہی تھی، گوپال کے علاج پر تقریباً ۵ لاکھ روپے خرچ کر دیے۔
انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ مئی ۲۰۲۰ میں مہاراشٹر کے وزیر صحت راجیش ٹوپے نے مہاتما جیوتی راؤ پھُلے جن آروگیہ یوجنا (ایم جے پی - جے اے وائی) کے تحت ریاست میں تمام کووڈ۔۱۹ کے مریضوں کے مفت علاج کا اعلان کیا تھا۔ کلیان کے دائرہ اختیار میں اس اسکیم کے تحت چار پرائیوٹ ہسپتال (اور ایک سرکاری اسپتال) ہیں۔ جیوتی کہتی ہیں، ’’اگر ہمیں معلوم ہوتا تو ہم کسی اور ہسپتال میں کیوں جاتے؟ ہم میں سے کسی کو بھی اس کی جانکاری نہیں تھی۔‘‘
مئی ۲۰۲۰ میں مہاراشٹر حکومت نے تمام پرائیویٹ اسپتالوں میں کووڈ۔۱۹ کے علاج کی فیس بھی محدود کردی تھی، جس کے تحت آئی سی یو بیڈ کے لیے ۷۵۰۰ روپے یومیہ، اور وینٹی لیٹر کے لیے ۹۰۰۰ روپے یومیہ مقرر کیا گیا تھا۔
ایم جے پی - جے اے وائی اسکیم اور سبسڈی والے نرخوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، کلیان-ڈومبی ولی میونسپل کارپوریشن کے کمشنر وجے سوریہ ونشی نے مجھے بتایا: ’’اس اسکیم کے تحت رجسٹریشن کے لیے کچھ شرائط پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے، اور پچھلے سال ہم نے [کے ڈی ایم سی کے دائرہ اختیار والے] تمام پرائیوٹ ہسپتالوں سے رجسٹریشن کرنے کی اپیل کی تھی۔ لیکن ان میں سے کچھ نے اس اسکیم کے لیے ضروری شرائط پوری نہیں کی ہوں گی۔ مزید یہ کہ رعایتی شرح پر علاج [پرائیوٹ ہسپتالوں میں] اب بھی کم آمدنی والے گروپوں کے لیے زیادہ مددگار نہیں ہے۔‘‘
ایسی اسکیموں سے متعلق بات کرتے ہوئے، انڈیا ایکسکلوژن رپورٹ ۲۰۱۹-۲۰۲۰ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے: ’’پی ایم - جے اے وائی [پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا] جیسی اسکیموں کی موجودگی کے باوجود، صحت کی دیکھ بھال پر غریبوں کے اخراجات میں کوئی واضح کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔‘‘ نئی دہلی میں واقع سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز کی رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے : ’’…عوامی صحت کی سہولت فراہم کرنے والے مراکز کے ایک بڑے نیٹ ورک کی عدم موجودگی اور مہنگے پرائیوٹ ہسپتالوں کی موجودگی… اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کسی غریب کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہ ہو۔‘‘
سوریہ ونشی مزید کہتے ہیں کہ کے ڈی ایم سی صحت عامہ کی سہولیات میں اضافہ کر رہا ہے۔ اب ہم پچھلے سال کے مقابلے صرف دو سرکاری ہسپتالوں سے بڑھ کر چھ مراکز تک پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم مزید آئی سی یو بیڈ، وینٹی لیٹر اور آکسیجن بیڈ حاصل کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آڈیٹرز کی ایک ٹیم کے ڈی ایم سی کے دائرہ اختیار میں آنے والے ہسپتالوں کی طرف سے زیادہ فیس کے مطالبے پر نظر رکھتی ہے۔ لیکن، وہ یہ بھی کہتے ہیں، ’’ابھی بھی ایک خامی موجود ہے جس کا چند پرائیوٹ ہسپتال دھڑلے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سرکاری نرخوں کی فہرست میں ہر ٹیسٹ اور ادویات [یا سٹی اسکین جیسی جانچ] شامل نہیں ہیں۔ کچھ ہسپتالوں نے ان بلوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ہم نے ایک ٹاسک فورس مقرر کی ہے تاکہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں جا کر ایسے معاملات کا جائزہ لے، جہاں بل بہت زیادہ آئے ہیں اور وہ یہ بھی جانچ کرے کہ آیا تجویز کردہ اشیاء ضروری تھیں یا نہیں۔ ایسے معاملات غیرواضح ہیں اور انہیں چیلنج کرنا مشکل ہے، لیکن کم از کم ہم ان کی جانچ تو کر ہی سکتے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ایسے معاملوں میں فیملی کو رقم واپس مل سکتی ہے۔
مارچ میں جب گوپال کے میڈیکل بلوں کی ادائیگی مشکل ہو گئی، تو ششی کلا نے اپنی سونے کی بالیاں کلیان کی ایک دکان میں ۹۰۰۰ روپے میں فروخت کر دیں۔ پڑوسیوں، دوستوں اور رشتہ داروں میں سے جہاں سے بھی قرض مل سکتا تھا، فیملی نے وہاں سے حاصل کیا۔ فون پر بات چیت کے دوران روتے ہوئے ششی کلا کہتی ہیں، ’’ہم روزانہ اِس بل یا اُس بل کی ادائیگی کر رہے تھے۔ ہم نے اپنے جاننے والے ہر ایک فرد سے رابطہ کیا۔ یہاں تک کہ ۱۰۰-۲۰۰ روپے تک کی مدد مانگی۔ یہ صرف اس لیے تھا کہ ہم انہیں [گوپال کو] جلد اپنے ساتھ دیکھنا چاہتے تھے۔ میں ہر وقت خوف میں رہتی تھی۔ وویک ابھی بھی [کوارنٹائن] سینٹر میں تھا اور میں امید کر رہی تھی کہ وہ بھی اس مرحلے تک نہ پہنچے۔ مجھے بلوں کی پرواہ نہیں تھی۔ ایک بار جب سب ٹھیک ہو جاتے، تو ہم سب کچھ دوبارہ بنانے کے لیے زیادہ محنت کرتے۔ لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ بکھر رہا تھا۔‘‘
۱۸ مارچ کو کلیان کے پرائیویٹ اسپتال میں داخل ہونے کے آٹھ دن بعد رات کو گھر والوں کو فون آیا کہ گوپال شدید درد میں مبتلا ہیں۔ جانچ میں انفیکشن کا پتہ چلا تھا۔ جیوتی کہتی ہیں، ’’ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اس کی وجہ کیا تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوری علاج کی ضرورت ہے اور اس پر ۲ لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم نے کہا کہ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پھر ہم سے سرکاری ہسپتال کا رخ کرنے کو کہا گیا۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں اپنے تمام بل ادا کرنے تھے۔‘‘
(جب میں نے ہسپتال کے نمائندوں سے رابطہ کیا، تو وہ صرف فیملی کے ایک فرد کی موجودگی میں آمنے سامنے بیٹھ کر اس معاملے پر تبصرہ کرنے پر راضی ہوئے، لیکن گپتا فیملی ابھی تک یوپی میں ہے)۔
ہسپتال نے حتمی بل پر معمولی رعایت دی، اور اہل خانہ کو ۱۹ مئی کا پورا دن پیسہ جمع کرنے میں صرف کرنا پڑا۔ ان لوگوں سے بھی پیسہ مانگا گیا جنہیں وہ شاید ہی جانتے ہوں گے۔ جیوتی اور ان کی ماں نے مقامی شہری انتظامیہ سے التجا کی، لیکن وہاں سے کوئی مدد نہیں ملی۔ پھر بھی خاندان کسی نہ کسی طرح بل ادا کرنے میں کامیاب رہا۔ جیوتی کہتی ہیں، ’’صرف ہم ہی جانتے ہیں کہ ہم کس مرحلے سے گزرے ہیں۔ اپنے والد کو بچانے کے لیے کئی دنوں تک ہم نے کھانا نہیں کھایا۔‘‘
۲۰ مارچ کو بل کی مکمل ادائیگی کے بعد گوپال کو وسطی ممبئی کے سرکاری ہسپتال، کے ای ایم، تک لے جانے کے لیے آکسیجن کی سہولیات سے لیس ایک پرائیوٹ ایمبولینس نے ان سے ۹۰۰۰ روپے وصول کیے۔ وہاں جانچ کے نتیجوں سے ظاہر ہوا کہ گوپال اب بھی کووڈ پازیٹو تھے۔ انہیں آئی سی یو میں بھیج دیا گیا۔ کے ای ایم کے ایک ڈاکٹر (جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں) نے مجھے بتایا: ’’جب مریض کو یہاں لایا گیا تھا، تو انہیں تھرومبوسس [چار مختلف جگہوں پر شریانوں میں رکاوٹ] تھی، جس کی وجہ سے خون کی فراہمی میں کمی واقع ہو رہی تھی۔ نتجتاً انہیں گینگرین [اس میں جسم کے خلیوں کا بڑا حصہ مر جاتا ہے] ہوگیا۔ جب انفیکشن پھیلنے لگا، تو ان کی بائیں ٹانگ کاٹ دی گئی۔‘‘
جیوتی کہتی ہیں، ’’یہ پہلا موقع تھا جب مجھے معلوم ہوا کہ میرے والد کو گینگرین جیسی بیماری ہے۔ انہیں کبھی بھی کوئی سنگین بیماری نہیں ہوئی تھی۔ وہ ۱۰ مارچ کو پیدل چل کر مقامی کلینک تک گئے تھے۔ لیکن چند دنوں کے اندر ہی وہ اپنی ایک ٹانگ کھونے والے تھے۔ یہ سن کر ہم سب واقعی دہشت میں تھے۔‘‘
اس دوران ششی کلا کو اکثر بیہوشی اور گھبراہٹ کے دورے پڑتے رہے۔ کے ای ایم ہسپتال نے فیملی کے صرف ایک فرد کو وہاں رکنے کی اجازت دی تھی۔ وویک ابھی تک کوارنٹائن سینٹر سے واپس نہیں آئے تھے۔ چنانچہ اگلے ایک ہفتے تک جیوتی ہسپتال میں رہیں، جب کہ ان کے دیگر دو بھائی بہن کلیان میں اپنی ماں کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔
انہوں نے آئی سی یو کے قریب ہسپتال کی سیڑھیوں پر وقت گزارا۔ دن کے وقت وہ قریب آرہے فائنل امتحانات کی تیاری کے لیے آن لائن کلاسز میں ’شامل‘ ہوتیں، اور جب بھی ڈاکٹر دوائیں تجویز کرتے تو انہیں باہر سے خرید کر لے آتیں۔ جیوتی کہتی ہیں، ’’یہاں انہوں نے ہم سے کوئی فیس نہیں لی۔ مجھے صرف کبھی کبھی دوائیں خریدنی پڑتی تھیں‘‘ جس پر ہر دوسرے تیسرے دن ۸۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے خرچ ہوتے تھے۔ رات کو وہ ہسپتال کے باہر فٹ پاتھ پر ہی سو جاتی تھیں۔ وہ کے ای ایم کینٹین میں رعایتی قیمت پر ملنے والا کھانا کھاتی تھیں اور ہسپتال کا ٹوائیلٹ استعمال کرتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں، ’’میں گھر نہیں گئی کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ اگر انہیں میری ضرورت ہوئی اور میں آس پاس نہ ہوئی تو کیا ہو گا؟ کے ای ایم سے گھر پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ کا وقت لگتا ہے۔ میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔‘‘
’’میں اپنے والد سے ملاقات یا بات نہیں کر سکتی تھی۔ وہ مجھ سے یا ہمارے گھر والوں سے فون پر بات کرتے تھے۔ میرے پاس ان کی آخری گفتگو کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ انہیں پیاس لگی تھی اور صبح مجھے پانی کے لیے بلایا تھا۔ میں فوراً نیچے بھاگ کر گئی اور دکان سے ایک بوتل پانی لے آئی۔ لیکن ہسپتال کے عملے نے کہا کہ انہیں [وارڈ] کے اندر ہی پانی دیا جائے گا۔‘‘
باپ اور بیٹی کے درمیان یہ آخری بات چیت ۲۸ مارچ کو صبح ۷ بجے ہوئی تھی۔ دوپہر تک ایک ڈاکٹر باہر آیا اور جیوتی کو بتایا کہ گوپال کے بچنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں اور یہ کہ انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’دو گھنٹے کے بعد انہوں نے مجھے اس کے [گوپال کی موت کے] بارے میں بتایا ... میں یہ نہیں سننا چاہتی تھی اور اپنے کان بند کرلینا چاہتی تھی یا بھاگ جانا چاہتی تھی۔ یہ بتانے کے لیے میں نے اپنے گھر والوں کو فون کیا۔‘‘
گوپال کو دادر کے شمشان میں سپرد آتش کیا گیا۔ ان کی اخری رسومات کے سلسلے میں یوپی جانے کے لیے جیوتی کے رشتہ داروں نے پوری فیملی کے لیے ٹرین کے ٹکٹ خریدے۔ وہ ۳۰ مارچ کو روانہ ہوئے اور یکم اپریل کو ان کی راکھ لے کر اپنے گاؤں پہنچے۔ ابھی تک یہ فیملی ممبئی واپس نہیں آئی ہے۔
جیوتی ابھی تک اپنے امتحانات کی تیاری کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے خود کو مطالعہ میں مصروف کر رکھا ہے۔ میرے والد اپنے والد کے انتقال کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھ سکے تھے۔ انہوں نے ۹ یا ۱۰ سال کی عمر میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم تعلیم حاصل کریں۔ انہیں اس بات کا دکھ تھا کہ وہ اپنے تمام بچوں کو پڑھا نہیں سکے۔ وہ ہمیشہ میری چھوٹی سے چھوٹی کامیابی پر بھی فخر کیا کرتے تھے۔ اگر میں نے کھیلوں میں میڈل یا ۱۲ویں میں ۸۵ فیصد نمبر حاصل کئے تو وہ گاؤں جا کر میرا میڈل اور مارک شیٹ دکھاتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اتنا پڑھو کہ تمہیں کسی کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہ پڑے۔‘‘
جیوتی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننا چاہتی تھیں، لیکن کوچنگ کلاسز پر آنے والے خرچے کی انہیں جانکاری تھی، اس لیے اس راہ پر جانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے کوئی بھی نوکری تلاش کرنی ہے اور اب پیسے کمانا ہے۔ ہمیں اپنے تمام قرضے چکانے ہیں۔ بھائی [وویک] ممبئی واپس آکر کام شروع کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں [گاؤں میں] کام تلاش کرنا مشکل ہے۔ ہمیں ابھی ان تمام لوگوں کی فہرست تیار کرنی ہے جن کے قرض واپس کرنے ہیں۔ یہ فہرست لمبی ہے۔‘‘
فی الحال، جیوتی کی بڑی بہن کے شوہر اس فیملی کی مدد کر رہے ہیں۔ ان کے ممبئی کے مکان کا کرایہ مہینوں سے باقی ہے۔
ان کی ماں ششی کلا ابھی تک صدمے میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’جو بھی چھوٹی سے چھوٹی چیز ہم نے بنائی تھی، ہم سے سب کچھ چھین لیا گیا ہے۔ میں سوچتی رہتی ہوں کہ ہم کیا کر سکتے تھے، تاکہ آج وہ ہمارے ساتھ ہوتے۔ ہم سادہ زندگی گزارتے ہیں اور ہمارے چھوٹے چھوٹے خواب ہیں، لیکن کیا ہم ان کے مستحق ہیں بھی؟
رپورٹر کا نوٹ: میں جیوتی گپتا کو ۲۰۲۰ کے اوائل سے جانتی ہوں۔ ہم دونوں نے ایک ورکشاپ میں شرکت کی تھی۔ اس اسٹوری کے لیے ان کے اور ان کی والدہ کے انٹرویوز فون پر کیے گئے۔ کے ای ایم کے ڈاکٹر سے ہسپتال میں بات چیت ہوئی تھی۔
مترجم: شفیق عالم