ابھی حال ہی میں اترانچل کے ایک تجارتی دورے سے واپس لوٹے مایلاپِلّی پٹّیّا کہتے ہیں، ’’کسی بھی مخصوص وقت میں گاؤں کے آدھے مرد عموماً گاؤں سے باہر ہوتے ہیں۔ کچھ حیدرآباد کے عنبرپیٹ بازار میں ہوتے ہیں، تو کچھ وجئے واڑہ کے بیسنٹ روڈ پر، کچھ واشی مارکیٹ میں یا ممبئی کے گیٹ وے آف انڈیا کے قریب ہوتے ہیں، تو کچھ دہلی کے پہاڑ گنج کے علاقے میں۔ یہ تمام لوگ ٹوکریاں اور جھولن کھٹولے فروخت کرتے ہیں۔‘‘

پٹّیّا کی عمر ۴۲ سال ہے۔ انہوں نے اپنے گاؤں کے دیگر افراد کی طرح تقریباً ۲۰ سال قبل نائیلان کی رسیوں سے ٹوکریاں، تھیلے، جھولے اور جھولن کھٹولے بنانا شروع کیا تھا۔ اُس وقت تک کوواڈا (مردم شماری میں جیروکوواڈا کے طور پر درج) کے لوگوں کا بنیادی پیشہ ماہی گیری تھا۔ یہ سریکاکولم ضلع کے رنستھلم منڈل میں خلیج بنگال سے متصل تقریباً ۲۵۰ افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا ساحلی گاؤں ہے۔

پھر آبی آلودگی نے علاقے کے آبی وسائل کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔ ۱۹۹۰ کی دہائی میں یہاں سے بمشکل ۱۰ کلومیٹر دور پایڈی بھیماورم گاؤں میں دواسازی کی صنعتیں لگنی شروع ہوئیں۔ تحقیقی مطالعات ظاہر کرتے ہیں کہ ان صنعتوں نے زیر زمین پانی کے ساتھ ساتھ سمندری پانی کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔

دواسازی کی صنعت سے خارج ہونے والے فضلہ سے جڑے خطرات کے پیش نظر ہندوستان کی وزارت ماحولیات نے اس کی درجہ بندی ’سرخ زمرے‘ کی سرگرمی کے طور پر کی ہے۔ ہندوستان میں برادریوں اور ماحولیات پر دواسازی کی آلودگی کے اثرات کے عنوان سے شائع ایک رپورٹ کے مطابق، ۱۹۹۰ کی دہائی کے اوائل سے دواسازی کی صنعت کی عالم کاری کے بعد یہ صنعت ’’ہندوستانی معیشت کی سب سے تیزی سے فروغ حاصل کرنے والی صنعتوں میں شامل ہو گئی ہے۔‘‘ اس صنعت کے اہم مراکز میں ریاست آندھرا پردیش اور تلنگانہ بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں ’’تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں دوا سازی کی صنعت کی بے لگام توسیع کے نتیجے میں پیدا شدہ مسلسل منفی اثرات‘‘ کو اجاگر کیا گیا ہے۔

People are seating
PHOTO • Rahul Maganti
portrait of a person
PHOTO • Rahul Maganti

مایلاپلّی پٹّیّا (دائیں) اور دوسرے ماہی گیر گاؤں کے مرکز میں بنی پھوس کی چھتوں کے سائے میں بیٹھے ہیں، جہاں وہ ٹوکریاں اور جھولن کھٹلے بناتے ہیں

پایڈی بھیماورم – رنستھلم خطہ اب آندھرا پردیش کی دوا سازی کا ایک بڑا مرکز بن گیا ہے۔ اس خطے میں کولکاتا - چنئی قومی شاہراہ کے دونوں جانب فارما صنعتیں قائم کی گئیں ہیں۔ یہاں اس صنعت کو مزید فروغ اس وقت ملا جب اس صنعتی پٹی کو ۲۰۰۸-۲۰۰۹ میں ایک خصوصی اقتصادی ژون (ایس ای زیڈ)  بنا دیا گیا۔ پھر نئی کمپنیوں نے یہاں بھی اپنی یونٹ قائم کرنی شروع کر دیں۔ ۲۰۰۵ کا ایس ای زیڈ ایکٹ صنعتوں کو متعدد ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے اور لیبر قوانین میں نرمی کے ساتھ ساتھ انہیں سبسڈی بھی فراہم کرتا ہے۔ آندھرا پردیش میں ۱۹ ایس ای زیڈ ہیں، جن میں سے چار دوا سازی کے لیے مخصوص ہیں۔ پایڈی بھیماورم بھی انہیں میں سے ایک ہے۔

گنگلّا راموڈو کہتے ہیں، ’’ان کی [اخراج کی] پائپ لائنیں سمندر کے اندر ۱۵ کلومیٹر تک گئی ہیں، لیکن جب بھی ہم مچھلی پکڑنے جاتے ہیں تو فارما انڈسٹریز کا تیل اور اخراج شدہ مادہ ساحل سے ۱۰۰ کلومیٹر دور تک نظر آتا ہے۔‘‘ راموڈو کوواڈا گاؤں میں چند باقی ماندہ ٹیپّا (ہاتھ کے چپو سے چلنے والی کشتی) میں سے ایک کے مالک ہیں (کور تصویر میں)۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’۲۰ سال پہلے ہر گھر میں کم از کم ایک ٹیپّا ضرور ہوتا تھا۔ اب صرف ۱۰ رہ گئے ہیں۔ ہم نے ۲۰۱۰ میں رنستھلم میں ایم آر او [منڈل ریونیو آفیسر] کے دفتر کے سامنے مسلسل تین ماہ تک احتجاج کیا، لیکن کسی نے اس کی پرواہ نہ کی۔ اس لیے ہم نے اپنا احتجاج واپس لے لیا اور اپنے کاموں پر لوٹ آئے۔‘‘

بڈومورو گاؤں میں رہنے والے نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹس سے وابستہ ایک ماحولیاتی کارکن کُنم رامو کہتے ہیں، ’’علاقے کے آبی وسائل دواؤں کی صنعتوں کے ذریعہ پھیلائی  گئی آلودگی کی وجہ سے تباہ ہو گئے ہیں۔ سمندری ساحل پر اکثر مردہ کچھوے اور مچھلیاں پڑی نظر آ جاتی ہیں۔ ان میں اولیو رڈلی کچھوے بھی شامل ہوتے ہیں۔ سمندر کی سطح کے نباتات زہر آلود ہو گئے ہیں، اور یہ آبی زندگی کو بھی زہر آلود بنا رہے  ہیں۔‘‘

Man working on fish net
PHOTO • Rahul Maganti
turtle near the sea
PHOTO • Rahul Maganti

گنگلا راموڈو کا کہنا ہے کہ فارما انڈسٹری کے فضلے ساحل سے ۱۰۰ کلومیٹر دور تک دیکھے جا سکتے ہیں؛ ان کی وجہ سے ساحل کی طرف آنے والی مچھلیاں اور کچھوے مر جاتے ہیں

اس صورتحال نے کوواڈا اور اس کے نزدیکی دیہاتوں میں ماہی گیری کی سرگرمی کو تقریباً ختم کردیا ہے۔ ۴۰ سالہ مایلاپلی اپّنّا کہتے ہیں، ’’ہم نے ماہی گیری چھوڑ دی ہے کیونکہ کافی وقت اور محنت صرف کرنے کے بعد بھی ہم کوئی مچھلی نہیں پکڑ سکتے۔ ہم صبح ۴ بجے سمندر میں جاتے ہیں اور ۲۰ کلومیٹر تک چپو چلانے کے بعد صبح ۸ سے ۹ بجے کے درمیان جال ڈالتے ہیں اور ۲ یا ۳ بجے ساحل پر واپس آنے سے پہلے چند گھنٹے تک انتظار کرتے ہیں۔ ایک ٹیپّا پر ہم  چار پانچ افراد چلتے ہیں۔ اور دن کے اختتام پر ہماری آمدنی ۱۰۰ روپے فی کس تک بھی نہیں پہنچتی ہے۔‘‘

پٹّیا مزید کہتے ہیں، ’’ہم جتنی مچھلیاں پکڑتے ہیں وہ ہمارے اپنے گھروں میں سالن کے لیے بھی ناکافی ہوتی ہیں، انہیں فروخت کرکے  پیسہ کمانا تو دور کی بات ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں پکانے کے لیے وشاکھاپٹنم، سریکاکولم یا رنستھلم سے مچھلیاں لانی پڑتی ہیں۔‘‘

چنانچہ کوواڈا کے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اپّنّا اور پٹّیّا بھی ٹوکریاں، تھیلے، جھولے اور جھولن کھٹولے بنانے کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان مصنوعات کو وہ ملک کے مختلف حصوں میں فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف متبادل کی تلاش کی، جن میں یہ ایک منافع بخش کام نکلا، اور نائیلان کی رسیاں سریکاکولم میں آسانی سے دستیاب تھیں۔ اپّنّا کہتے ہیں، ’’پچھلے ۲۰ سالوں کے دوران میں نے ۲۴ ریاستوں کا سفر کیا ہے، جن میں سے بیشتر کا  سفر ایک سے زیادہ مرتبہ کیا ہے۔‘‘ ان کی بیوی لکشمی ان کی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں ٹوکریاں بناتی ہوں جب کہ میرے شوہر انہیں بیچنے کے لیے دوسری جگہوں پر لے جاتے ہیں۔‘‘

ایک کلو نائیلان کی رسی کی قیمت، بشمول ٹیمپو یا ٹرک کے ذریعے گاؤں تک نقل و حمل کے اخراجات کے، ۳۵۰  سے ۴۰۰ روپے تک ہوتی ہے۔ اپّنّا مزید کہتے ہیں، ’’ہم ایک کلو سے ۵۰ ٹوکریاں بناتے ہیں اور ہر ایک کو ۱۰ سے ۲۰ روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ ہم ہر کلوگرام پر ۲۰۰ سے ۴۰۰ روپے کا منافع حاصل کرتے ہیں۔‘‘ جھولن کھٹولے یا جھولے کپڑے اور نائیلان سے بنتے ہیں اور ہر ایک کی قیمت ۱۵۰ سے ۲۰۰ روپے تک ہوتی ہے۔

Man working on fish net
PHOTO • Rahul Maganti
Man working on fish net
PHOTO • Rahul Maganti
Man working on fish net
PHOTO • Rahul Maganti

کیا جوان اور کیا بوڑھے، اب سبھی لوگ نائیلان کی رسی سے ہی مصنوعات بناتے ہیں۔ اس تصویر میں مایلاپلی اپّنّا اور چِٹّی بابو (بائیں)، شردا راموڈو (درمیان) اور پینٹیّا (دائیں) نظر آ رہے ہیں

گاؤں کے مرد گروپ تشکیل دیتے ہیں اور اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے دور دراز مقامات پر جاتے ہیں۔ اپنّا کے ایک دوست گنگلا راموڈو، جو اپریل میں ان کے ساتھ کیرالہ کے سفر پر گئے تھے، سفر کے دوران کھانے، سفر اور رہائش کے مد میں ہوئے اپنے روزانہ کے اخراجات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جب میں ۱۵ مئی [ایک ماہ بعد] کو واپس آیا تو میں نے صرف ۶۰۰۰ روپے بچائے تھے۔‘‘

پٹّیّا لگاتار سفر کرنے کی وجہ سے کنڑ، ملیالم، تمل اور ہندی زبانیں روانی سے بول لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں کی زبان سیکھ لیتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے صارفین کے ساتھ بات چیت کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ تہواروں اور تقریبات ک موقعوں پر گاؤں کے زیادہ تر لوگ گاؤں میں موجود ہوتے ہیں، کیونکہ جو مرد ٹوکریاں اور جھولن کھٹولے بیچنے نکلتے ہیں وہ اہم تہواروں کے لیے واپس آ جاتے ہیں، اور تہواروں کے بعد پھر دوبارہ جاتے ہیں۔‘‘

لکشمی کی طرح، گاؤں کی بہت سی عورتیں، ٹوکریاں، جھولن کھٹولے اور جھولے بنانے کے علاوہ، منریگا پروجیکٹس پر بھی کام کرتی ہیں، جس سے انہیں وقفے وقفے سے کچھ آمدنی ہو جاتی ہے۔ قریبی دیہاتوں میں خشک مچھلی فروخت کرنے والی ۵۶  سالہ مایلاپلی کنّمبا کہتی ہیں، ’’میں نے چار ہفتے کام کیا ہے، لیکن ابھی تک ۱۰۰ روپے یومیہ کے حساب سے صرف دو ہفتوں کی ہی مزدوری ملی ہے۔‘‘ آندھرا پردیش میں مالی سال ۲۰۱۸-۱۹ کے لیے کم از کم لازمی منریگا اجرت ۲۰۵ روپے ہے۔ کنمبا کہتی ہیں، ’’ہم وشاکھاپٹنم سے مچھلی لاتے ہیں، انہیں بیچنے سے پہلے دو دن تک خشک کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں ہمیں یہ مچھلیاں مفت ملتی تھیں۔ اب، ہمیں ۲۰۰۰ روپے کا منافع حاصل کرنے کے لیے ۱۰ ہزار روپے لگانے پڑتے ہیں۔‘‘

اور کبھی کبھی وہ چھوٹا منافع بھی ممکن نہیں ہوتا۔ کوواڈا سمیت تین دیہاتوں اور دو بستیوں کی ۲۰۷۳ ایکڑ زمین پر مجوزہ جوہری پاور پلانٹ  گاؤں والوں کو مکمل طور پر بے گھر کر سکتی ہے، ٹوکریوں اور جھولن کھٹولوں سے ہونے والی ان کی معمولی تجارت میں خلل پڑ سکتا ہے، اور ماہی گیری کی سرگرمی کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

ਸ਼ਰਮਿਲਾ ਜੋਸ਼ੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਸਾਬਕਾ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਅਤੇ ਕਦੇ ਕਦਾਈਂ ਲੇਖਣੀ ਅਤੇ ਪੜ੍ਹਾਉਣ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam