جب للّن پاسوان نے سب سے پہلے ہاتھ سے کھینچا جانے والا رکشہ چلانا سیکھنے کی کوشش کی، تو دوسرے رکشہ والے ان کی مشق میں مدد کرنے کے لیے مسافروں کی طرح پیچھے بیٹھ گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب میں نے پہلی بار رکشہ [کا ہینڈل] اٹھایا اور اسے کھینچنے کی کوشش کی، تو میں اسے کھینچ نہیں سکا۔ اس کے لیے مجھے دو تین دن لگ گئے تھے۔‘‘
گلے میں لپٹے ہوئے گمچھے سے اپنے چہرے کا پسینہ پونچھتے ہوئے، وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے رکشے کو متوازن کرنا سیکھا، کس طرح اس بات کو یقینی بنایا کہ رکشہ الٹے نہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’اگر آپ ہینڈل کو پیچھے بیٹھی سواری سے [سامنے سے] دور پکڑیں گے، تو رکشہ نہیں الٹے گا۔‘‘ رکشہ کے الٹنے کے خوف سے نجات پانے میں انہیں کچھ وقت لگ گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’اب میں بے خوف ہو گیا ہوں۔ میں آسانی سے دو مسافروں کو بٹھا کر رکشہ کھینچ سکتا ہوں، اگر تیسرا بچہ ہو تو تین بھی۔‘‘
ان ابتدائی کوششوں کو اب تقریباً ۱۵ سال گزر چکے ہیں۔ جب للن نے اپنا پہلا سبق لیا تھا، تو وہ ابھی ابھی بہار کے مشرقی چمپارن ضلع کے رگھو ناتھ پور گاؤں سے شہر آئے تھے۔ انہوں نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی، اور کچھ عرصے تک اپنی ایک بیگہہ (ایک ایکڑ سے کم) خاندانی زمین پر کھیتی کا کام کیا تھا اور گندم اور دھان اگائے تھے۔ لیکن کھیتی سے خاطر خواہ آمدنی نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے پاسوان کو کام کی تلاش میں کولکاتا آنا پڑا۔
کچھ مہینوں تک انہوں نے کسی دفتر میں نوکری تلاش کرنے کی کوشش کی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جب مجھے کوئی کام نہیں ملا تو میرے گاؤں کے کچھ رکشہ والوں نے مجھے اس کام سے متعارف کرایا۔‘‘
تقریباً ۴۰ سال کے پاسوان اب جنوبی کولکاتا میں کارن فیلڈ روڈ اور ایکڈالیا روڈ کے چوراہے کے ایک رکشہ اسٹینڈ سے اپنا رکشہ چلاتے ہیں۔ یہاں عموماً ۳۰ کے قریب رکشہ والے سواریوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ مارچ مہینے میں کووڈ۔۱۹ کی ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران ان میں سے کئی اپنے گاؤں واپس لوٹ گئے تھے۔ پاسوان کہتے ہیں، ’’کورونا کی وجہ سے کام ٹھیک نہیں چل رہا تھا۔ وہ یہاں کیا کریں گے؟ اس لیے گھر چلے گئے۔‘‘
للّن کو کولکاتا میں ہی رکنا پڑا، کیونکہ پکا گھر بنوانے کے لیے انہوں نے گاؤں کے ایک مہاجن سے ایک لاکھ روپے قرض لیے تھے۔ اگر وہ گاؤں واپس گئے تو مہاجن ان سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا، جسے وہ فی الحال ادا نہیں کر سکتے ہیں۔
وبائی مرض سے قبل للن صبح ۶ بجے کام پر نکل جاتے تھے اور رات ۱۰ بجے تک واپس آتے تھے۔ اس دوران وہ روزانہ ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے کما لیتے تھے۔ ان کی سواریاں عام طور پر رکشہ اسٹینڈ کے ۵ کلومیٹر کے دائرے میں پڑنے والے قریبی علاقوں، جیسے گول پارک، گریاہاٹ اور بیلی گنج سے ہوتی تھیں۔
تقریباً ۱۵۰ کلوگرام وزن (رکشے اور سواریوں کا مجموعی وزن) لے کر پاسوان ایک کلومیٹر کا فاصلہ تقریباً ۱۵ منٹ میں طے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر اپنے معمول کے روٹ سے آگے کسی مسافر کو لے جانا پڑا، تو سفر کے اختتام تک میری ٹانگوں اور کندھوں میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ میں بہت تھک جاتا ہوں۔‘‘
لاک ڈاؤن سے قبل وہ فاصلے اور مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے ایک پھیرے کا ۳۰ سے ۵۰ روپے وصول کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری کمائی کسی مہینے میں ۸۰۰۰ روپے اور کسی مہینے ۱۰ ہزار روپے تک ہوجاتی تھی۔‘‘ اس کمائی سے وہ رکشہ مالک کو ۲۰۰ روپیہ ہفتہ وار بطور کرایہ ادا کرتے تھے۔ کھانے پینے اور دیگر اخراجات کے لیے ۲۰۰۰ روپے الگ رکھتے اور باقی رقم اپنے گھر والوں کو بھیج دیتے تھے۔
لاک ڈاؤن کے دوران ان کا گزارہ اپنی بچت یا کبھی کبھی مل جانے والی سواری کے کرایہ اور مقامی کونسلر اور غیرمنافع بخش تنظیموں سے ملنے والے کچھ راشن پر ہوتا تھا۔ آن لاک کے مراحل شروع ہونے کے بعد راشن کی تقسیم بند ہو گئی ہے۔
لاک ڈاؤن سے پہلے پاسوان محض پلاسٹک کی ایک شیٹ اوڑھ کر بارش میں بھی اپنا رکشہ نکال لیتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل یہ خطرناک ہو گیا ہے. ’’جب بارش ہوتی ہے تو میں اپنے رکشہ کے اندر ہی بیٹھا رہتا ہوں۔ اس دوران کوئی سواری نہیں اٹھاتا۔ اگر بھیگنے کی وجہ سے مجھے بخار ہو جائے تو لوگ کہیں گے کہ مجھے کورونا ہو گیا ہے۔ پہلے مجھے اکثر بخار رہتا تھا۔ لیکن اس وقت صورتحال مختلف تھی۔ اگر میں ابھی بخار کا علاج کرانے گیا تو مجھے کورونا ٹیسٹ کروانے کے لیے کہا جائے گا۔ لہذا، ہم [رکشہ والے] بھیگنے سے ڈر رہے ہیں۔‘‘
پاسوان کو ۲۰ مئی کا وہ دن یاد ہے جب امفن طوفان کولکاتا سے ٹکرایا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’وہ طوفان بہت بڑا تھا۔‘‘ اس دن وہ معمول سے پہلے دوپہر ۳ بجے اپنے کمرے میں واپس آنے کے لیے رکشہ اسٹینڈ سے نکل گئے تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’میں [کمرے کے] اندر سے درختوں کے گرنے کی آوازیں سن سکتا تھا۔‘‘ وہ کاکولیا (رکشہ اسٹینڈ سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر دور) میں ایک کچی آبادی میں مشرقی چمپارن کے آٹھ دیگر رکشہ والوں کے ساتھ کرایے کے ایک کمرے میں رہتے ہیں۔
طوفان کے گزر جانے کے بعد وہ اگلے دن دوپہر کو کام پر واپس لوٹے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے اس وقت کچھ سواریاں مل جاتی تھیں۔ کچھ کو دور دراز مقامات، جیسے ٹولی گنج اور سیالدہ، تک جانا ہوتا تھا۔ ایسی سواریوں سے میں نے ۵۰۰ روپے تک وصول کیے۔‘‘
’’اب جب کہ لاک ڈاؤن ختم ہو گیا ہے مجھے ایسی [لمبی دوری کی] سواری نہیں ملتی ہے۔ اب نزدیکی مقامات کے لیے بھی مجھے [بہت] زیادہ مسافر نہیں ملتے ہیں۔ آج میں نے اب تک صرف دو سواریاں اٹھائی ہیں۔ ایک ۳۰ روپے کی اور دوسری ۴۰ روپے کی۔ لوگ اب رکشے کا استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ انہیں ڈر ہے کہ انہیں کورونا ہو جائے گا۔ وہ اپنے گھروں سے نکلنے سے ڈرتے ہیں،‘‘ یہ باتیں انہوں نے مجھے کچھ ہفتے پہلے بتائی تھیں۔
للن کی کئی سواریاں بچے تھے جو قریبی اسکولوں کو جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اب تمام اسکول بند ہیں۔ جب لاک ڈاؤن شروع ہوا تو مالک [رکشہ مالک] نے ہفتہ وار کرایہ ۵۰ روپے کم کر دیا۔ لیکن اس کے باوجود میں اب بھی زیادہ پیسے نہیں کما پا رہا ہوں۔‘‘ بعض اوقات حالات اس قدر مایوس کن ہو جاتے ہیں کہ اگر کوئی مسافر کم کرایہ پر سودا کرتا ہے تو بھی پاسوان آسانی سے راضی ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں کرہی کیا سکتا ہوں؟‘‘
پاسوان کہتے ہیں کہ جب اسکول کھلے تھے اور سڑکوں پر بہت زیادہ ٹریفک تھا تو ’’پولیس نے ہماری نقل و حرکت پر پابندی لگا دی تھی۔ بعض اوقات، وہ ’نو انٹری‘ کے بورڈ لگا دیتے تھے۔ ایسے میں مجھے [پیجھے کی] خالی سڑک سے ہو کر جانا پڑتا تھا۔‘‘ ان رکاوٹوں کے باوجود، پاسوان سائیکل رکشہ پر ہاتھ سے کھینچے جانے والے رکشے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’پولیس انہیں بھی پکڑتی ہے، لیکن ہم کم ہی پکڑے جاتے ہیں۔‘‘
کولکاتا کے بے شمارقصے کہانیوں اور یاد داشتوں میں بطور علامت پیش کیے جانے والے ان ہاتھ رکشوں پر گزشتہ کچھ برسوں کے دوران مغربی بنگال حکومت کی جانب سے پابندی عائد کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ۲۰۰۶ میں ریاست نے کلکتہ ہیکنی کیریج (ترمیمی) بل کی تجویز پیش کی تھی، جسے عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق کولکاتا ہائی کورٹ نے اس بل پر روک لگانے کا حکم جاری کیا تھا۔ نئی رپورٹوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ کولکاتا کے حکام نے ۲۰۰۵ کے بعد سے کوئی نیا لائسنس جاری نہیں کیا ہے۔
پرانے ہوچلے ہاتھ رکشے اب بھی چلتے ہیں۔ ان رکشوں کی تعداد کے الگ الگ اندازے لگائے جاتے ہیں۔ آل بنگال رکشہ یونین کے جنرل سکریٹری مختار علی نے ۲۰۰۵ کے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے (اس رپورٹر کو) بتایا کہ کولکاتا میں ۵۹۳۵ ہاتھ سے چلنے والے رکشے ہیں۔ سال ۲۰۱۵ میں شائع خبروں میں محکمہ ٹرانسپورٹ کے پرنسپل سکریٹری کے حوالے سے یہ تعداد تقریباً ۲۰۰۰ بتائی گئی تھی۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ سبھی رکشے لائسنس یافتہ نہیں ہیں۔
اور اب مغربی بنگال میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے تقریباً چھ ماہ بعد، للن روزانہ ۱۰۰ سے ۱۵۰ روپے کے درمیان کما رہے ہیں۔ صبح کے وقت وہ اکثر بالی گنج اسٹیشن پر انتظار کرتے ہیں، جہاں اب انہیں کافی آسانی سے سواریاں مل جاتی ہیں۔ اب وہ کچھ رقم بچا کر (جو وہ بہار کے ایک پان والے کے پاس رکھتے ہیں) اپنی فیملی کو بھیجنے لگے ہیں۔
پاسوان ہر تین سے پانچ ماہ بعد اپنے گاؤں جاتے تھے، اور اپنے والد، ماں اور بیوی کے ساتھ اپنے کھیت میں کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری فیملی عام طور پر اپنی خاندانی زمین پر اگائے جانے والے چاول اور گندم پر گزارہ کرتی ہے۔ اگر اضافی پیداوار ہو گئی تو ہم تقریباً پانچ کوئنٹل بیچ دیتے ہیں، کبھی کبھی ۱۰ کوئنٹل بھی۔ لیکن اس سال [جولائی ۲۰۲۰ میں] سیلاب سے فصلیں تباہ ہو گئیں۔ ہمارے پاس اپنا پیٹ پالنے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے، بیچنے کی کون کہے۔‘‘
وہ اس سال فروری کے بعد اپنے گاؤں رگھو ناتھ پور واپس نہیں گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹیاں، سات سالہ کاجل اور چار سالہ کرشمہ، ۱۰ ماہ بعد انہیں دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔ ’’میرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں گھر کب آؤں گا۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ میں دیوالی کے دوران [نومبر میں] آؤں گا۔‘‘ مہاجن کے قرض کے تقاضے کی وجہ سے وہ گاؤں نہیں جا سکے۔
اس لیے وہ اسٹینڈ پر دوسرے رکشہ والوں کے ساتھ انتظار کرتے ہیں، بعض اوقات تاش کھیل کر یا جھپکی لے کر۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ کام میرے مستقبل کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، لیکن میں اپنے بچوں کے لیے جب تک کر سکتا ہوں یہ کرتا رہوں گا۔‘‘
مترجم: شفیق عالم