لداخ کی تسو موریری جھیل کے راستے میں، چراگاہیں اون سے بنے ہوئے خیموں سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ اُن چانگپاؤں کے گھر ہیں، جو چانگ تھانگی (پشمینہ) بکریوں کی گلہ بانی کرتے ہیں اور اعلیٰ معیار کے مستند کشمیرہ اون کے چند سپلائروں میں شامل ہیں۔
چانگپا خانہ بدوش گلہ بان ہیں۔ درسی کتابوں میں درج ہے کہ یہ آٹھویں صدی عیسوی میں تبت سے ہجرت کرکے ہندوستان کے چانگ تھانگ علاقے میں آئے، جو کہ ہمالیہ کے اُس پار تبتی پٹھار یا سطح مرتفع کی مغربی توسیع ہے۔ یہ علاقہ، جو کہ ہند۔ چین سرحد کے قریب واقع ہے، غیر ملکی شہریوں کے لیے بند ہے اور یہاں جانے کے لیے خود ہندوستانیوں کو بھی لیہہ سے اسپیشل پرمٹ لینا پڑتا ہے۔
اس تصویری مضمون میں مشرقی لداخ کی ہنلے وادی کے چانگپاؤں کو پیش کیا گیا ہے۔ خود ان کے اندازہ کے مطابق، یہاں پر تقریباً ۴۰ سے ۵۰ چانگپا خاندان آباد ہیں۔
ہَنلے وادی ایک بڑا اور سنگلاخ علاقہ ہے۔ یہاں پر سردی کا موسم کافی طویل ہوتا ہے، جب کہ گرمی بہت کم پڑتی ہے۔ اس علاقے کی مٹی سخت ہونے کی وجہ سے سبزہ زار بہت کم ہیں، اسی لیے گرمیوں کے موسم میں خانہ بدوش چانگپا سبز چراگاہوں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں، ان متعینہ چراگاہوں سے باہر جو وادی میں ان کی کمیونٹیز کے سرداروں کے ذریعے انھیں الاٹ کیے جاتے ہیں۔
میں نے فروری ۲۰۱۵ میں، سردیوں کے موسم میں ہنلے وادی کا دورہ کیا۔ گاؤوں والوں کی مدد سے کافی تلاش کے بعد، میرا تعارف چانگپا کرما رِنچن سے کرایا گیا۔ سردیوں میں، چانگپا نسبتاً کاہلی والی زندگی بسر کرتے ہیں، اس لیے میں دوبارہ ۲۰۱۶ کی گرمی میں وہاں گیا۔ اُس اگست میں، دو دنوں کے انتظار کے بعد، آخرکار کرما رِنچن نظر آ ہی گئے۔ اگلے دن، وہ مجھے اپنی کمیونٹی کی گرمی والی چراگاہ کے مقام پر لے گئے، جو کہ ہنلے گاؤں سے تین گھنٹے کی دوری پر واقع ہے۔
کرما کا گرمیوں والا گھر واقعی میں اونچا تھا، ۴۹۱۱ میٹر کی اونچائی پر۔ بعض دفعہ یہاں گرمیوں کے موسم میں بھی برفباری ہوتی ہے۔ میں نے اگلے سات دن ان کے اور ان کی فیملی کے ساتھ گزارے۔ کرما، جن کی عمر تقریباً ۵۰ سال ہے، ایک گوبا یا کمیونٹی کے بزرگ ہیں، جنہیں چانگپا خاندانوں کی چار اکائیاں رپورٹ کرتی ہیں۔ گوبا ذہین، روحانی اور تجربہ کار ہونا چاہیے۔ کرما کے اندر یہ تمام خصوصیات موجود ہیں۔ ’’ہمیں خانہ بدوش زندگی پسند ہے، کیوں کہ یہ آزادی سے متعلق ہے،‘‘ انھوں نے ملی جلی تبتی اور لداخی زبان میں کہا۔
چانگپا بودھ مذہب کے پیروکار ہیں اور دلائی لامہ کے معتقد۔ بکریوں کے علاوہ یہ بھیڑ اور یاک بھی پالتے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ اب بھی پرانے بارٹر سسٹم (سامان کے بدلے سامان) کو مانتے ہیں۔ یہاں کی کئی اور برادریاں بھی لوکل نیٹ ورک میں جو چیز وہ پیدا کرتے ہیں، اس کے بدلے سامان کا لین دین کرتی ہیں۔
لیکن زمانہ بدل رہا ہے۔ راستے میں، میں نے زیر تعمیر سڑک دیکھی، جو ہندوستانی فوج اور انڈو ۔ تبتن بارڈر پولیس کی بآسانی آمد و رفت کے لیے بنائی جا رہی ہے، لیکن اس سڑک سے یہاں کا پورا منظر بدل جائے گا۔ اور، کرما نے کہا، ۲۰۱۶ کسی بھی طرح اچھا نہیں رہا، ’’۔۔۔ کیوں کہ لیہہ کی کوآپریٹو سوسائٹی ابھی تک اون جمع کرنے کے لیے یہاں نہیں آئی ہے۔ یہ شاید اس لیے کہ بازار میں چین سے کم تر کوالٹی اور گھٹیا قسم کے کشمیرہ اون آنے لگے ہیں۔‘‘