’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ قوانین واپس لے لیے جائیں،‘‘ ہریانہ- دہلی سرحد پر واقع سنگھو میں احتجاج کر رہی وشوجوت گریوال کہتی ہیں۔ ’’ہم اپنی زمینوں سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں اور ہم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی ہم سے ہماری زمینیں چھین لے،‘‘ کاشتکاروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والی ۲۳ سالہ گریوال کہتی ہیں، جنہوں نے لدھیانہ ضلع کے اپنے گاؤں، پامل میں پچھلے سال ستمبر میں پارلیمنٹ سے پاس کیے گئے تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرہ منعقد کرنے میں مدد کی ہے۔
دیہی ہندوستان کی کم از ۶۵ فیصد خواتین کی طرح (جیسا کہ مردم شماری ۲۰۱۱ میں درج ہے)، ان کی فیملی کی خواتین بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کاشتکاری کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس زمین نہیں ہے، لیکن وہ زراعت میں مرکزی رول ادا کرتی ہیں اور زیادہ تر کاموں کو انجام دیتی ہیں – جیسے بوائی، روپائی، کٹائی، چھنٹائی، فصلوں کو کھیت سے گھر تک لانا، فوڈ پروسیسنگ، ڈیئری وغیرہ۔
باوجود اس کے، ۱۱ جنوری کو جب ہندوستانی سپریم کورٹ نے ایک حکم نامہ جاری کرکے تینوں زرعی قوانین پر اسٹے لگایا، تو چیف جسٹس نے مبینہ طور پر یہ بھی کہا کہ عورتوں اور بزرگوں کو احتجاج کے مقامات سے واپس جانے کے لیے ’راضی‘ کیا جانا چاہیے۔ لیکن ان قوانین کا نتیجہ عورتوں (اور بزرگوں) کو بھی فکرمند اور متاثر کرتا ہے۔
کسان جن قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔
ان قوانین کو سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔ کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ یہ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔
’’نئے زرعی قوانین سے سب سے زیادہ متاثر خواتین ہونے والی ہیں۔ کاشتکاری سے متعلق کاموں میں اتنا زیادہ شامل ہونے کے بعد بھی ان کے پاس فیصلہ سازی کے اختیارات نہیں ہیں۔ [مثال کے طور پر] ضروری اشیاء کے قانون میں تبدیلی سے غذا کی کمی پیدا ہوگی اور خواتین کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا،‘‘ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی جنرل سکریٹری مریم دھولے کہتی ہیں۔
اور ان میں سے کئی خواتین – نوجوان اور بزرگ – دہلی اور اس کے ارد گرد کے احتجاجی مقامات پر پورے عزم کے ساتھ موجود ہیں، جب کہ کئی دیگر خواتین جو کسان نہیں ہیں، وہ اپنی حمایت درج کرانے کے لیے وہاں آ رہی ہیں۔ اور کئی خواتین ایسی بھی ہیں جو وہاں پر کچھ سامان فروخت کرکے یومیہ آمدنی حاصل کرتی ہیں، یا لنگروں میں پیش کیے جانے والے کھانے پیٹ بھر کر کھاتی ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز