پنجاب کے سنگرور ضلع سے آندولن میں شامل ہونے آئے سکھدیو سنگھ نے کہا، ’’اس سال، تینوں کسان مخالف قوانین کی کاپیاں آگ میں جلا کر ہم نے لوہڑی منائی ہے۔‘‘ سکھدیو سنگھ کی عمر ۶۰ سال سے زیادہ ہے، اور ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ کسان کے طور پر ہی گزرا ہے۔ اس وقت، وہ ان لاکھوں مظاہرین میں شامل ہیں، جو ہریانہ-دہلی بارڈر پر واقع سنگھو میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’اس بار کی لوہڑی بیشک الگ ہے۔ عام طور پر ہم اسے اپنے گھروں میں رشتہ داروں کے ساتھ مناتے تھے، اور گھر پر دوستوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا – اور خوشیوں بھرا وقت گزرتا تھا۔ اس بار ہم اپنے گھر اور کھیتوں سے دور ہیں، لیکن پھر بھی ساتھ ہیں۔ ہم تب تک یہاں سے نہیں جائیں گے، جب تک تینوں قانون ردّ نہیں کر دیے جاتے۔ اگر ضرورت پڑی تو موجودہ حکومت کی مدت کار ختم ہونے تک ہم یہیں رہیں گے۔‘‘
لوہڑی کا تہوار بنیادی طور پر پنجاب اور شمالی ہندوستان کی تمام ریاستوں میں منایا جاتا ہے۔ لوہڑی عام طور پر مکر سنکرانتی (سردیوں کے موسم کے عروج پر پہنچنے کا وقت ختم ہونے کے ساتھ چاند پر مبنی کیلنڈر کے مہینہ کے آخری دن) سے ایک رات پہلے منائی جاتی ہے، اور اس دن سے ہی بسنت کے موسم اور لمبے دنوں کی شروعات ہوتی ہے۔ لوہڑی پر لوگ آگ جلا کر اس میں گڑ، مونگ پھلی، تل، اور دیگر روایتی غذائی سامان سورج کو چڑھاتے ہیں، اور خوشحالی، تندرستی، اور اچھی پیداوار کی دعا کرتے ہیں۔
اس سال سنگھو بارڈر پر کسانوں نے ۱۳ جنوری کو احتجاج کے راستوں پر کئی جگہ زرعی قوانین کی کاپیاں جلا کر لوہڑی منائی۔ کسانوں نے یکجہتی کے نعرے لگائے، ساتھ میں ناچتے گاتے رہے، اور ان کے ٹریکٹروں کے پاس جلتی آگ میں زرعی قوانین کی کاپیاں جل کر خاک ہو گئیں۔
کسان جن قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ہیں: زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز