’’لڑکیاں سبزیاں اُگاتی ہیں جسے ہم کھاتے ہیں، لیکن لڑکے کیا کرتے ہیں – ہم سبزیوں کو بازار لے جا کر بیچتے ہیں،‘‘ لکشمی کانت ریڈی کا کہنا ہے۔
وہ خوش گفتار ہیں، اعتماد سے پُر اور ان کے اندر صنعت کارانہ صلاحیتیں بھی نظر آ رہی ہیں۔ یہ ساری خاصیتیں ان کے اندر پہلے وزیر اعظم، پھر اپوزیشن کے سربراہ اور، اب وزیر صحت کے عہدے پر رہتے ہوئے آئی ہیں۔
یہ کوئی حیرانی والی بات نہیں ہے کہ لکشمی کانت کوئی گھریلو نام نہیں ہے۔ وہ 17 سال کے ہیں۔
یہ اور ان کے ساتھی وزراء ان سامعین کو خطاب کر رہے ہیں، جو اُن کی پارلیمنٹ کی کامیابی کو دیکھنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی اس مثالی بناوٹ کے بالکل برعکس جس کا انعقاد بہت سے امیر اسکول کرتے ہیں، اس پارلیمنٹ کے ممبران کو سال میں صرف ایک بار نہیں، بلکہ کئی بار جمع ہونا پڑتا ہے۔ یہاں، وہ روایتی لباس میں خارجہ پالیسی پر بحث نہیں کرتے، نہ ہی دنیا کے بھاری بھرکم مسائل کا کوئی شاندار حل بتاتے ہیں۔ بلکہ، تعلیم اور صحت جیسی متعدد وزارتوں کے سربراہ کے طور پر، وہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جن سے ان کی روزمرہ کی زندگی چل رہی ہے۔ اور یہ سب ایک نہایت ہی اہم ضابطہ کے تحت ہوتا ہے – کہ بالغ حضرات کا دخل اس میں کم سے کم ہوگا۔
یہ وزراء نئی دہلی کے کسی عالیشان علاقے میں نہیں رہتے۔ بلکہ وہ نچیکُپّم گاؤں میں رہتے ہیں، جو کہ تمل ناڈو کے کرشنا گیری ضلع کے ویپّانا پلّی تعلق میں پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے۔ اور اپنے سرکاری ہم منصبوں کی طرح، کبھی اخباروں کی سرخیاں نہیں بنتے۔
ملک کے اس حصہ میں بچوں کی پارلیمنٹ ہر جگہ موجود ہے۔ اور ایک رپورٹر کے طور پر یہ جان کر حیرانی ہوتی ہے کہ ان بچوں کے بارے میں جو اسٹوری لکھی جاتی ہے، اس کا خاتمہ انہی الفاظ پر ہوتا ہے کہ یہ بچے بڑے ذہین ہیں۔ حالانکہ، جو چیز انھیں انوکھی بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس پارلیمنٹ کے سبھی ممبر ایچ آئی وی-پازیٹو ہیں۔ نو عمر بچوں کے ذریعے چلائی جانے والی یہ پارلیمنٹ اسنیہا گرام میں ہے، جو ایک پیشہ ورانہ ٹریننگ اور باز آبادکاری سنٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ان بچوں کا گھر بھی ہے۔
سال 2007 کی یو این ایڈز رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں 2016 میں ایچ آئی وی سے متاثر 80 ہزار لوگوں کا علاج کیا گیا، سال 2005 میں یہ تعداد 1.5 لاکھ تھی۔ مریضوں کی تعداد میں آنے والی اس کمی کا کریڈٹ قومی ایڈز مخالف مہم کو دیا جاتا ہے، جس کی شروعات 2004 میں ہوئی، جس کے تحت ایسے مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔
’’ایچ آئی وی سے متاثر نئے مریضوں کی تعداد میں یہ کمی گزشتہ دہائی میں ہوئی ہے،‘‘ ڈاکٹر جی ڈی روندرن بتاتے ہیں، جو بنگلورو کے سینٹ جونس میڈیکل کالج میں میڈیسن کے پروفیسر ہیں۔ اس کمی کا سبب ہے ’’اینٹی ریٹرو وائرل تھیراپی (اے آر ٹی) کا تعارف اور ملک بھر میں چلائے جانے والے بیداری پروگرام۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ اے آر ٹی اس بیماری کو ماں سے بچے میں منتقل ہونے سے روکتی ہے، جس کی وجہ سے تعداد میں یہ کمی دیکھنے کو مل رہی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ڈاکٹر روندرن 1989 سے ہی ایچ آئی وی مریضوں کے رابطے میں رہے ہیں اور ایڈز سوسائٹی آف انڈیا کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔
ایک تربیت یافتہ کونسلر اور اسنیہا گرام کے ڈائرکٹر، فادر میتھیو پیرومپل کے مطابق، اس علاج کا ایچ آئی وی پازیٹو بچوں پر بہت زیادہ اثر ہوا ہے۔ یہ ایک ’’ایسا گروپ تھا جس کے بارے میں ہمیں کبھی یہ امید نہیں تھی کہ وہ نوجوانی کی عمر کو پہنچیں گے، بہت کم بلوغت تک پہنچ پائیں گے۔ اب، اے آر ٹی کے آنے کا مطلب ہے مریض زندہ رہ سکتے ہیں – اور خوشحال بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘
لیکن، آپ سماج میں اس بدنما داغ کے ساتھ کیسے خوشحال رہیں گے؟
اسنیہا گرام کو سال 2002 میں اس لیے قائم کیا گیا تھا، تاکہ ایچ آئی وی سے متاثر بچوں کو ان کی بے وقت موت سے پہلے ایک اچھی زندگی فراہم کی جا سکے۔ تاہم، اے آر ٹی کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، اسنیہا گرام کے بانیوں نے یہاں کے بچوں کو ہنرمند بنانا شروع کر دیا، تاکہ وہ کوئی کریئر تلاش کر سکیں۔ دوا کی کامیابی نے انھیں اس جگہ کو پیشہ ورانہ ادارہ بنانے پر بھی آمادہ کر دیا۔
یہاں کے نوجوان لڑکے و لڑکیاں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ کے تحت اپنی ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم مکمل کر رہی ہیں۔ بارہویں کلاس مکمل ہونے پر یہاں سے پاس ہونے والا ان کا یہ پہلا بَیچ ہوگا۔ ادارہ کو امید ہے کہ اس کے بعد یہ نوکریاں حاصل کرنے لائق ہو جائیں گے۔
دریں اثنا، کلاس روم سے باہر، انھیں آرگینک اور ڈیئری فارمنگ، ہائڈروپونکس اور کوکنگ کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ لیکن پڑھائی بچوں کے لیے سیکھنے کا بس ایک طریقہ ہے۔ یہاں پر انھوں نے ایک ایسا نظام بنا رکھا ہے جہاں وہ اپنے فیصلے خود لیتے ہیں اور اپنے حقوق کے بارے میں جانتے ہیں۔ اسنیہا گرام کی اس چھوٹی سی پارلیمنٹ کا کام یہی ہے – خود انحصاری کا جذبہ پیدا کرنا۔
یہاں کے یتیم بچوں کا تعلق تمل ناڈو، کرناٹک اور آندھرا پردیش کے دیہی علاقوں کے غریب گھروں سے ہے۔ انگریزی زبان میں یہ روانی ان کے اسی پارلیمانی نظام سے آئی ہے۔
’’ہماری وزیر تعلیم نے ایک بار ہمیں مشورہ دیا کہ ہم صرف اپنی مقامی زبان میں بات نہ کرکے انگریزی میں بھی بات کریں،‘‘ 17 سالہ مینا ناگراج بتاتی ہیں۔ ’’اچھی نوکری حاصل کرنے کے لیے انگریزی جاننا ضروری ہے، ہے کہ نہیں؟‘‘ وہ لڑکیوں کی وزیر برائے کھیل ہیں۔
صبح سویرے سب کو جگانے کی ذمہ داری مینا کی ہے، تاکہ پورا دن اسکول میں گزارنے سے پہلے سب ایک جگہ ورزش کے لیے جمع ہو سکیں۔ ورزش کی شروعات دوڑ سے ہوتی ہے، اس کے بعد یہ اپنی اپنی پسند کے کھیل کھیلتی ہیں۔ ان کو صحت مند بنائے رکھنے کے لیے ورزش کا ایک ایسا نظام ضروری ہے، جس سے ان کی قوتِ مدافعت برقرار رہے۔
انتہائی اہم بات کریں تو – وائرس کو دبانے کے لیے روزانہ رات میں اینٹی ریٹرو وائرل دوا کی ایک خوراک لینا ضروری ہے۔ آج آپ کو بس اسی کی ضرورت ہے – ایک واحد ٹیبلیٹ جو دنیا کے اس سب سے خطرناک وائرس کو کنٹرول کرتا ہے۔ سبھی 65 طلبہ و طالبات نے رات کو اپنی دوا کھا لی ہے، اس کو یقینی بنانے کی بنیادی ذمہ داری وزرائے صحت، 16 سالہ امبیکا رمیش اور لکشمی کانت کی ہے۔ ’’اس چھوٹے سے کیپسول کو بھول جانا خطرناک ہے، لیکن یہ بھولتے نہیں ہیں،‘‘ میتھیو کا کہنا ہے۔
یہ ایک ٹھوس نظام ہے۔ ’’ہمارے پاس اپوزیشن کا ایک مضبوط سربراہ ہے جو ہمارے اوپر نظر رکھتا ہے۔ پارلیمنٹ ہر پندرہویں دن بلائی جاتی ہے، جہاں ایجنڈے پر بحث ہوتی ہے۔ اپوزیشن کا کام ہے اس بات کو یقینی بنانا کہ ہم نے جو حلف لیا وہی کریں۔ بعض دفعہ، ہماری تعریف ہوتی ہے،‘‘ 17 سالہ کالیشور بتاتے ہیں، جو وزیر قانون اور امورِ داخلہ ہیں۔
اپنی پارلیمنٹ کے بارے میں انھیں سب سے زیادہ فخر کس بات پر ہے؟ نو دیگر اسکول ان سے اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ انھوں نے اپنے یہاں بھی اس نظام کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کی ساخت ہوبہو ہندوستان کی پارلیمنٹ جیسی ہے۔ اور وہ اس پر سنجیدگی سے عمل کرتے ہیں۔ وزیر ماحولیات اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ 17 ایکڑ میں پھیلے اس کیمپس میں جتنی بھی چیزیں اُگائی جائیں وہ سبھی آرگینک ہوں۔ اور لڑکے اسے شہروں تک بھی لے جاتے ہیں۔ وہ تقریباً 400 صارفین پر مشتمل ایک گروپ کو سبزیاں سپلائی کرتے ہیں اور اس طرح انھیں بیچ کر پیسے بچاتے ہیں۔
ان کی یہ سبزیاں اس کھانے میں بھی شامل ہوتی ہیں، جسے ہفتہ میں کم از کم ایک بار پکانے کے لیے بچوں کو آمادہ کیا جاتا ہے۔ ایک ہفتہ لڑکے اور دوسرے ہفتہ لڑکیاں، لیکن دونوں ہی خیمہ یہ دعویٰ کرنے میں دیری نہیں کرتا کہ ان کے ذریعے پکایا گیا کھانا دوسرے سے بہتر ہوتا ہے۔
’’آپ اندر آکر کھانا کیوں نہیں ٹیسٹ کرتیں؟‘‘ 17 سالہ ونیتا پوچھتی ہیں، جو یہاں کی نائب وزیر اعظم ہیں۔ ’’اس اتوار کو، پکانے کی ذمہ داری ہماری ہے۔‘‘
’’تب میں یہی کہوں گا کہ آپ کا یہ اتوار بیکار جائے گا،‘‘ لکشمی کانت مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔
ایک بڑے معاشرہ میں اس قسم کا ہنسی مذاق راحت کی چیز ہے، جہاں ایچ آئی وی جوک اور وائرس کی اندیکھی ایک عام بات ہے۔
’’بچوں سے ملنے کے لیے آنے والے بہت سے لوگ یہاں کھانا نہیں کھاتے۔ ’آج ہمارا برت (روزہ) ہے‘ – پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی باتیں کرتے ہیں،‘‘ میتھیو کا کہنا ہے۔
تو کیا یہ بچے، جو اس ماحول میں اب اس قدر رچ بس گئے ہیں، بدنامی سے واقف ہیں؟
’’بالکل۔ انھیں سب پتہ ہے۔ ان کے کچھ ہی قریبیوں کو ان کے مرض کے بارے میں معلوم ہوگا، جو دوسروں کو اس کے بارے میں نہیں بتاتے ہیں۔‘‘ اگر پتہ چل گیا، تو ’’گھر پر انھیں کھانے کے لیے الگ سے کوئی پلیٹ دی جاتی ہے،‘‘ میتھیو بتاتے ہیں۔ ’’یہی لوگوں کی ذہنیت ہے۔ یہ بھید بھاؤ کہیں زیادہ ہے اور کہیں کم، جیسا کہ ذات کو لے کر ہوتا ہے۔‘‘
میں نے پورے دن وزیر اعظم، مانک پربھو کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ میرے خیال سے اسی مزاج نے اس اعلیٰ عہدہ کے لیے ووٹ حاصل کرنے میں ان کی مدد کی ہوگی۔
وہ ایک ایتھلیٹ بھی ہیں، یہ صلاحیت انھیں دور دراز تک لے جا چکی ہے۔ مشہور بوسٹن میراتھن سے لے کر نیدرلینڈز تک اور گھر کے قریب، کولمبو، سری لنکا تک۔
’’ایچ آئی وی فل اسٹاپ نہیں ہے اور میں اس کے دوسرے مریضوں کے لیے امید کی ایک کرن بننا چاہتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
آج جو میں نے سیکھا: ایچ آئی وی نے مانک اور ان کے دوستوں کے جسموں کو ضرور متاثر کیا ہے – لیکن ذہنوں کو نہیں۔