اس کام میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
امن کی آنکھوں میں یکسوئی نظر آ رہی ہے، اور وہ اپنے ہاتھوں سے بڑے احتیاط کے ساتھ ایک باریک سوئی گاہک کے کان میں ڈالتے ہیں۔ سوئی کے نکیلے سرے پر روئی لپیٹی ہوئی ہے۔ دھیرے دھیرے کام کرتے ہوئے وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جلد پر خراش نہ آئے یا کان کے پردے کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ وہ آپ کو یاد دلاتے ہیں، ’’صرف کان کا میل نکالنا ہے۔‘‘
وہ سایہ دار پیپل کے ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھ کر پاری سے بات کر رہے ہیں۔ ان کے بغل میں اوزاروں کا ایک کالا تھیلا ہے، جس میں ایک سلائی (سوئی جیسا اوزار)، چمٹی اور روئی رکھی ہوئی ہے۔ تھیلے میں جڑی بوٹیوں سے بنے ایک ادویاتی تیل کی شیشی بھی رکھی ہے، جسے وہ کان کی صفائی کے لیے بنایا گیا اپنے خاندان کا ایک خفیہ نسخہ بتاتے ہیں۔
’’سلائی سے میل باہر نکالتے ہیں اور چمٹی سے کھینچ لیتے ہیں۔‘‘ ادویاتی تیل تب کام آتا ہے، جب کان میں کوئی گانٹھ بن گئی ہو۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم انفیکشن کا علاج نہیں کرتے، ہم کان سے صرف میل نکالتے ہیں یا کان میں کھجلی ہو تو اسے دیکھتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق، خارش انفیکشن میں بدل سکتی ہے، اگر لوگ اسے غلط طریقے سے صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کان کو نقصان پہنچا لیتے ہیں۔
تقریباً ۱۶ سال کی عمر میں امن نے اپنے والد وجے سنگھ سے کان کی صفائی کرنا سیکھا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہریانہ کے ریواڑی ضلع کے رام پورہ میں ان کا یہ خاندانی کام ہے۔ امن نے اپنے رشتہ داروں کے کان صاف کر کے اس کام کی مشق شروع کی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’پہلے چھ مہینے ہم فیملی کے لوگوں کے کان سلائی اور چمٹی سے صاف کرنے کی مشق کرتے ہیں۔ جب یہ بغیر کوئی زخم دیے یا درد پیدا کیے بغیر صحیح طریقے سے ہونے لگتا ہے، تو ہم کام کے لیے گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں۔‘‘
امن اپنے خاندان میں کان صاف کرنے والوں کی تیسری نسل سے ہیں۔ اسکولی تعلیم کے بارے میں پوچھنے پر وہ بتاتے ہیں کہ وہ کبھی اسکول نہیں گئے اور خود کو انگوٹھا چھاپ (ناخواندہ) بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پیسہ بڑی چیز نہیں ہے۔ کسی کا کان خراب نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
دہلی آنے سے پہلے، ان کی فیملی سے باہر کے ابتدائی گاہک گڑگاؤں، ہریانہ کے تھے۔ امن بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں وہ کسی ایک کا کان صاف کرنے کے عوض ۵۰ روپے لیتے تھے، اور اس طرح ایک دن میں ۵۰۰ سے ۷۰۰ روپے کما لیتے تھے۔ ’’اب میں ایک دن میں مشکل سے ۲۰۰ روپے کما پاتا ہوں۔‘‘
وہ دہلی کے مکھرجی نگر میں اپنے گھر سے نکلتے ہیں، اور گرینڈ ٹرنک روڈ پر واقع امبا سنیما پہنچنے کے لیے بھاری ٹریفک کے درمیان چار کلومیٹر پیدل چلتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر امن بھیڑ میں اپنے امکانی گاہک کو تلاش کرتے ہیں، خاص کر ان میں سے جو مارننگ شو دیکھنے آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی لال ٹوپی کان صاف کرنے والے آدمی کی پہچان ہے۔ ’’اگر ہم اسے نہ پہنیں، تو لوگ کیسے جانیں گے کہ کان صاف کرنے والا بغل سے گزر رہا ہے۔‘‘
امبا سنیما پر تقریباً ایک گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد، امن ۱۰ منٹ کی دوری پر واقع کملا نگر کی گلیوں میں چلے جاتے ہیں، جو دہلی یونیورسٹی کے نارتھ کیمپس کے پاس ہے۔ یہ بازار طلباء، مصروف خوانچہ فروشوں، اور مزدوری کا کام پانے کا انتظار کرتے دہاڑی مزدوروں سے بھرا ہوا ہے۔ امن کے لیے ہر آدمی ایک ممکنہ گاہک ہے، اس لیے وہ پوچھتے رہتے ہیں، ’’بھیا، کان صاف کرائیں گے؟ بس دیکھ لینے دیجئے۔‘‘
وہ سب انہیں منع کر دیتے ہیں۔
اب جب کہ دوپہر کے ۱۲ بج کر ۴۵ منٹ ہو چکے ہیں اور امبا سنیما کے دوسرے شو کے شروع ہونے کا وقت ہو گیا ہے، وہ واپس وہیں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور، آخرکار انہیں ایک گاہک مل ہی جاتا ہے۔
*****
وبائی مرض کے دوران جب کام کی تنگی تھی، تب امن نے لہسن بیچنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں سویرے ساڑھے سات بجے نزدیک کی منڈی پہنچ جاتا تھا اور ۱۰۰۰ روپے کا لہسن خرید لیتا تھا۔ تقریباً ۴۰-۳۵ روپے کلو کے حساب سے خرید کر اسے ۵۰ روپے فی کلو بیچتا تھا۔ میں ۳۰۰-۲۵۰ روپے ایک دن میں بچا پا رہا تھا۔‘‘
حالانکہ، اب امن کو واپس لہسن بیچنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بہت محنت کا کام ہے۔ ’’مجھے روزانہ صبح منڈی جانا ہوتا تھا، اور لہسن خریدنا، اسے گھر واپس لانا، پھر صاف کرنا پڑتا تھا۔ میں رات کے ۸ بجے گھر لوٹ پاتا تھا۔‘‘ کان صاف کرنے کے کام میں وہ شام کے ۶ بجے گھر لوٹ جاتے ہیں۔
امن جب ۵ سال پہلے دہلی آئے تھے، تو انہوں نے ڈاکٹر مکھرجی نگر میں بندہ بہادر مارگ کے قریب ۳۵۰۰ روپے میں ایک کرایہ کا گھر لیا تھا۔ وہ اپنی بیوی حنا سنگھ (۳۱)، تین بیٹوں – نیگی، دکش اور سہان – کے ساتھ، جو ۱۰ سال سے کم عمر کے ہیں، اب بھی یہیں رہتے ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا ایک سرکاری اسکول میں پڑھتا ہے، اور انہیں امید ہے کہ گریجویشن کرنے کے بعد اسے سیلز مین کی نوکری مل جائے گی، اور اس طرح ان کے بیٹوں کو کان صاف کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیوں کہ ’’اس کام میں کوئی ویلیو [عزت] نہیں ہے۔ نہ آدمی کی، نہ کام کی۔‘‘
امن کہتے ہیں، ’’کملا نگر مارکیٹ [دہلی] کی گلیوں میں ہر طبقہ کے لوگ ملتے ہیں۔ جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا انہیں کان صاف کرانا ہے، تو جواب میں وہ کہتے ہیں کہ انہیں کووڈ ہو جائے گا۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اگر انہیں ضرورت ہوئی، تو وہ ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں گے۔
’’پھر میں انہیں کیا کہہ سکتا ہوں؟ میں کہتا ہوں، ’ٹھیک ہے۔ آپ اپنا کان مت صاف کروائیے‘۔‘‘
*****
دسمبر ۲۰۲۲ میں امن ایک حادثہ کا شکار ہو گئے تھے، جب دہلی کے آزاد پور میں انہیں ایک بائک نے ٹکر مار دی تھی۔ اس سے ان کے چہرے اور ہاتھوں میں چوٹ آئی تھی۔ ان کا دایاں انگوٹھا بری طرح زخمی ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں اب کان صاف کرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔
غنیمت ہے کہ دواؤں نے زخموں پر اثر دکھایا ہے۔ وہ اب کبھی کبھار ہی کان صاف کرتے ہیں، اور انہوں نے مستقل آمدنی کے لیے پروگراموں میں ۵۰۰ روپے فی تقریب کے حساب سے ڈھول بجانا شروع کر دیا ہے۔ تقریباً ایک مہینہ پہلے امن اور حنا کو ایک بیٹی ہوئی ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ گھر چلانے کے لیے انہیں اور کام تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔
مترجم: محمد قمر تبریز