شام کے چھ بج رہے ہیں۔ یہ گایوں کے گھر آنے کا وقت ہے۔ لیکن مھسئی واڈی میں، گائیں چھ مہینے تک واپس نہیں آئیں گی۔ اس دوران نہ تو گائے کی کوئی گھنٹی بجے گی، نہ موج مستی ہوگی، نہ دودھ جمع کرنے والی گاڑی کی کوئی ہلچل ہوگی اور نہ ہی گائے کے تازہ گوبر کی بدبو۔ مہاراشٹر کے ستارا ضلع کے مان بلاک میں تقریباً ۳۱۵ گھروں کا یہ گاؤں خاموش ہے۔ یہاں کے آدھے لوگ اور تقریباً سبھی مویشی پانچ کلومیٹر دور، مھسوڈ شہر کے پاس، ایک چارہ کیمپ میں گئے ہیں، جو ستارا سے ۱۰۰ کلومیٹر دور واقع ہے۔

سنگیتا ویرکر (۴۰) بھی جنوری سے وہیں رہ رہی ہیں۔ وہ اپنے دو بھینسوں اور دو جرسی گایوں کے ساتھ ساتھ، اپنے بزرگ اور کمزور والد کی ایک گائے اور ایک بچھڑا بھی لے کر آئی ہیں۔ ان کے والد، ۴۴ سالہ نندو، اپنی ۱۵ سالہ بیٹی کومل جو ۱۰ویں کلاس کا امتحان دے رہی ہے اور بیٹا وشال جو ۷ویں کلاس میں ہے، کے ساتھ گاؤں میں ہی مقیم ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔ فیملی کی تین بکریاں، ایک بلی اور ایک کتا بھی گھر پر ہیں۔

’’بچے گھر پر اور مویشی کیمپ میں۔ مجھے دونوں کی [ایک ہی طرح] دیکھ بھال کرنی ہے،‘‘ سنگیتا کہتی ہیں، جو دھنگر برادری سے ہیں، جو ایک خانہ بدوش ذات ہے۔ ’’اس سال ایک مرتبہ بھی بارش نہیں ہوئی۔ ہمارے پاس ۱۲ ایکڑ زمین ہے جس پر میرے شوہر اور ان کے دو بھائی مشترکہ طور پر کھیتی کرتے ہیں۔ عام طور پر ہمیں ۲۰-۲۵ کوئنٹل جوار باجرا [خریف کے موسم میں] ملتا ہے۔ لیکن اس سال ہمیں کچھ نہیں ملا۔ پوری فصل برباد ہو گئی۔ بارش نہ ہونے کا مطلب ہے کوئی اناج نہیں۔ ربیع کی بوائی تقریباً صفر ہے۔ ہم اپنے مویشیوں کو کیسے کھلائیں؟‘‘ وہ پیار سے ایک گائے کو تھپتھپاتے ہوئے سوال کرتی ہیں۔

PHOTO • Binaifer Bharucha

مھسوڈ شہر کے پاس بنے مویشی کیمپ میں ماندیش علاقہ کے ۷۰ گاؤوں کے تقریباً ۸۰۰۰ مویشیوں کو پناہ دی گئی ہے

ان کی ہر ایک جرسی گائے چار سال پہلے ۶۰ ہزار روپے میں خریدی گئی تھی۔ ان میں سے ہر ایک جانور کو روزانہ ۲۰ کلو چارہ اور ۵۰-۶۰ لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن نومبر ۲۰۱۸ سے، مھسئی واڈی ہفتہ میں صرف ایک پانی کے ٹینکر پر گزارہ کر رہا ہے -  جو ہر ایک شخص کو ۴۰ لیٹر فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ مھسوڈ میونسپل کارپوریشن کے ذریعہ سال بھر گاؤں میں ہر چوتھے دن دیا جانے والا پانی تقریباً رک گیا ہے؛ گاؤں کا کنواں خشک ہو چکا ہے۔ مویشیوں کے لیے بھی پانی نہیں بچا ہے۔ مارچ سے جیسے جیسے پارہ چڑھے گا، پانی کی ضرورت بھی بڑھتی جائے گی۔

’’گاؤں میں چارہ اور پانی بالکل بھی نہیں تھا،‘‘ نندو کہتے ہیں۔ ’’اس لیے ہم نے اپنے ایک واحد بیل کو بیچ دیا۔ ۱۰۰ ڈانٹھ کے بنڈل کو خریدنے میں ۲۵۰۰ [روپے] کا خرچ آتا ہے، جو ایک مہینہ تک چلتا ہے۔ [جانوروںی کے لیے] پانی کھوجنا ایک اور جدوجہد ہے۔ ابھی ہمیں کچھ گنّا مل رہا ہے، لیکن مارچ کے بعد ہمیں کوئی ہرا چارہ نہیں ملے گا۔ ہم نے ۲۰۰۶ میں ۳۰ ہزار روپے میں بیل خریدا تھا۔ ہم نے اس کی پرورش کی، اس کی اچھی دیکھ بھال کی... اور ۱۲ سال بعد اسے ۲۵ ہزار روپے میں بیچ دیا۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی ایک اور خریدوں گا...‘‘ نندو اپنے آنسو کو روکنے کی کوشش کر تے ہیں۔

ستارا ضلع کے مان اور کھٹاؤ ضلع کو ماندیش کہا جاتا ہے، جیسے کہ سانگلی میں جت، آٹپاڈی اور کوٹھے مہانکال تعلقہ اور شعلہ پور میں سانگول اور مالشیرس ہیں۔ یہ کم بارش والا علاقہ ہے، جہاں پانی کی شدید کمی اور لگاتار خشک سالی پڑتی ہے۔ اس سے کسانوں اور زرعی مزدوروں کا مویشیوں پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔ اور جب پوری فصل سوکھے کی چپیٹ میں آ جاتی ہے اور پانی اور چارہ نایاب ہوجاتا ہے، تو پورا گاؤں ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

Quadriptych
PHOTO • Binaifer Bharucha

کیمپ میں، ایک مویشی باڑہ کے بغل میں بنے اپنے کمزور خیمہ میں بیٹھی سنگیتا ویرکر کہتی ہیں، [کاموں کی فہرست] بے شمار ہے‘

مویشی کیمپوں میں زندگی بسر کرنا

مہاراشٹر کے ۲۶ ضلعوں کے ۱۵۱ بلاکوں میں ۳۱ اکتوبر، ۲۰۱۸ کو خشک سالی کا اعلان کیا گیا تھا، ان میں سے ۱۱۲ بلاکوں کو شدید سوکھے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ستارا کا مان-دہیوڈی اس فہرست میں شامل ہے۔ ماندیش کے سبھی بلاک اس فہرست میں ہیں۔ محکمہ پانی اور صفائی کی ایک رپورٹ، پانی کی ممکنہ کمی ۲۰۱۸-۱۹، کہتی ہے کہ اکتوبر ۲۰۱۸ کے آخر تک مان میں ۱۹۳ ملی میٹر بارش ہوئی تھی – جو کہ اس علاقہ میں ہونے والی اوسط بارش کا صرف ۴۸ فیصد ہے۔ لیکن یہ اوسط ہیں – کچھ گاؤوں میں تو ۳ ملی میٹر سے بھی کم بارش ہوئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی ذکر ہے کہ بلاک کے ۸۱ گاؤوں میں زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر سے زیادہ اور ۴۸ گاؤوں میں ۳ میٹر سے زیادہ نیچے چلی گئی ہے۔

مھسوڈ کے مویشی کیمپ میں ماندیش کے ۷۰ گاؤوں کے تقریباً ۱۶۰۰ لوگ، ۷۷۶۹ مویشیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ یہ کیمپ یکم جنوری ۲۰۱۹ کو ماندیش فاؤنڈیشن کے ذریعہ شروع کیا گیا تھا، جو کہ مھسوڈ میں واقع ہے اور مالیات سے پرے جانے والے ایشوز پر کام کرکے ماندیش خواتین کوآپریٹو بین کی حمایت کرتا ہے۔ موجودہ خشک سالی کا سامنا کر رہے گاؤوں کے لیے یہ اس پیمانے کا سب سے پہلا مویشی کیمپ ہے۔

ہم صبح ساڑھے چھ بجے کے آس پاس جب وہاں پہنچتے ہیں، تو ہمیں شیڈ (باڑوں) اور مویشیوں کا ایک جم غفیر دکھائی دیتا ہے۔ خواتین باڑے کو صاف کر رہی ہیں، گایوں کا دودھ نکال رہی ہیں، چائے بنا رہی ہیں۔ کچھ کنبے اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ یہاں آئے ہیں، جو ابھی بھی سو رہے ےہیں۔ مردوں کے گروپ کیمپ فائر (الاؤ) کے آس پاس بیٹھے ہیں۔ لاؤڈاسپیکر پر مذہبی گانے بج رہے ہیں۔

PHOTO • Binaifer Bharucha
PHOTO • Binaifer Bharucha

بائیں: سنگیتا کے شوہر نندو، اپنی بیٹی کومل اور بیٹے وشال کے ساتھ گاؤں میں ہی ٹھہرے ہوئے ہیں۔ دائیں: ناگوانّا بھی اپنے شوہر کی دیکھ بھال کے لیے مھسئی واڈی میں گھر پر ہیں؛ ان کی بیوی وِلاسی کیمپ میں ہیں۔ ’یہ تقریباً ویسا ہی ہے... جیسے کہ ہم طلاق شدہ ہوں...‘ ان حالات کے بارے میں وہ کہتے ہیں

’’یہاں، ہمارا دن طلوع آفتاب سے پہلے شروع ہوتا ہے،‘‘ سنگیتا کہتی ہیں، جن کی ایک آنکھ خسرہ کی بیماری سے تب چلی گئی تھی، جب وہ دوسری کلاس میں تھیں اور انھیں اسکول چھوڑنا پڑا تھا۔ ’’ہم اندھیرا رہتے اٹھتے ہیں، چولہے پر تھوڑا پانی گرم کرتے ہیں اور [لکڑی کے ستون سے بندھی ہوئی ساڑی کے پیچھے] غسل کرتے ہیں۔ پھر ہم گائے کا گوبر جمع کرتے ہیں اور باڑے کی صفائی کرتے ہیں، جانوروں کو پانی دیتے ہیں، انھیں کھانے کو کھلی دیتے ہیں اور دودھ نکالنا شروع کرتے ہیں۔ تب تک صبح ہو جاتی ہے۔ ایک ٹریکٹر گوبر [کھاد کے لیے] لے جاتا ہے اور پھر ہم صبح کا ناشتہ بناتے ہیں۔ پھر ہم ہرا چارہ لینے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، [کیمپ کے] ڈپو میں جاتے ہیں، چارہ وزن کرتے ہیں [بڑے جانوروں میں سے ہر ایک کے لیے ۱۵ کلو، بچھڑوں کے لیے ۷ کلو] اور یہاں لاتے ہیں۔ مجھے ایک بار میں [کم از کم] ۷۰ کلو گنّا لانا پڑتا ہے۔ پھر ہمیں اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنا ہوتا ہے۔ ان جانوروں کو کم از کم تین بار پانی پینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ فہرست بے شمار ہے،‘‘ بات کرتے وقت برتن کو رگڑتے ہوئے، وہ کہتی ہیں۔

کیمپ آرگنائزر مویشیوں کو چارہ، پانی اور طبی خدمات اور لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کیمپ کے ہر ایک ’وارڈ‘ میں پانی کے بیرل رکھے جاتے ہیں (ایک ٹینکر ہر دوسرے یا تیسرے دن پانی لاتا ہے)، اور وہاں پینے کے پانی کی ایک ٹنکی ہے۔ لوگ فاؤنڈیشن سے حاصل لکڑی کے ستونوں اور چھت کے لیے ہرے رنگ کی جال سے مویشیوں کے باڑے بناتے ہیں۔ عورتیں باڑے کے بغل میں، ترپال یا ساڑیوں سے بنی جھونپڑیوں میں رہتی ہیں۔

ولاسی ویرکر کے مویشیوں کا باڑہ سنگیتا کے ٹھیک بغل میں ہے؛ وہ بھی دھنگر برادری سے ہیں۔ ولاسی کے ساتھ ان کی فیملی کی دو بھینسیں، ایک جرسی گائے، ایک کھلار گائے اور دو بچھڑے ہیں۔ ولاسی کی پیدائش ۱۹۷۲ میں ہوئی تھی، جو مہاراشٹر کے سب سے خشک برسوں میں سے ایک تھا۔ ’’خشک سالی میں پیدا ہوئی، اس لیے زندگی میں خشک سالی جھیل رہی ہوں،‘‘ وہ مایوسی سے کہتی ہیں۔ ان کے شوہر ناگو اور بزرگ سسر مھسئی واڈی میں ہی رک گئے۔ گھر پر دیکھ بھال کرنے کے لیے بکریاں ہیں۔ ولاسی کی بیٹی اور بڑے بیٹے کے پاس کالج کی ڈگری ہے اور وہ ممبئی میں کام کرتے ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا بھی بی کام کی پڑھائی کر رہا ہے۔ اس لیے ولاسی کو مویشیوں کے ساتھ کیمپ آنا پڑا۔

A woman carries fodder for the cattle
PHOTO • Binaifer Bharucha
A woman milks a cow
PHOTO • Binaifer Bharucha

بائیں: مھسئی واڈی کی رنجنا بائی ویرکر اپنے مویشیوں کے لیے مشین سے گنّا کاٹ رہی ہیں۔ دائیں: لیلا بائی ویرکر کو امید ہے کہ سوکھے میں ان کے جانور زندہ بچ جائیں گے

وہ اور کیمپ کی دیگر عورتیں گھر سے چولہا (کچھ نے صرف تین پتھر، اور جلانے کے لیے لکڑی یا گنے کے پتّے) یا گیس چولہا اور کچھ برتن لے کر آئی ہیں۔ اناج اور دیگر غذائی اشیاء ہر بدھ کو مھسوڈ کے ہفتہ وار بازار سے ان کی فیملی کے ممبران کے ذریعہ کیمپ میں لائی جاتی ہیں۔ ولاسی خود کے لیے اور گھر کے لیے کھانا بناتی ہیں – عام طور پر بجری بھاکری کے ساتھ بینگن، آلو اور دالیں – اور پیک کرکے گاؤں واپس جانے والے کسی آدمی کے ہاتھوں گھر بھیجتی ہیں۔ ’’گھر پر کھانا بنانے والا کوئی نہیں ہے۔ اس لیے وہ ٹفن باکس سے کھانا کھاتے ہیں۔ اگلے ۶-۸ مہینوں تک ایسا ہی چلتا رہے گا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

ولاسی، سنگیتا اور دیگر کئی عورتیں پیر سے جمعہ تک کیمپ میں رہتی ہیں اور ہفتہ کے آخر میں اپنے گھر چلی جاتی ہیں۔ جب وہ اپنے گاؤوں جاتی ہیں، تو ان کے شوہر، بڑے بچے یا رشتہ دار کیمپ میں ٹھہرتے ہیں۔ ایک ہی بستی یا گاؤں کے لوگ ایک ساتھ یہاں آئے ہوئے ہیں، اس لیے بار بار کیمپ اور گاؤں کے درمیان آنے جانے کے دوران ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

عورتیں ہفتہ کے آخری دن گھر پر گزارتی ہیں اور اس دوران گھر صاف کرنے، جھاڑو لگانے، کپڑے دھونے، اناج پیسنے، فرش پر گوبر لیپنے اور اسی قسم کے دیگر کئی کام کرتی ہیں۔ پھر وہ کیمپ لوٹ جاتی ہیں۔ ’’گھر پر، ہمیں کھیتوں میں یا مزدوروں کے لیے جانا ہوتا ہے۔ یہاں ہمیں ویسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس یہی ایک راحت ہے،‘‘ ولاسی کہتی ہیں

مھسئی واڈی میں موج مستی ختم ہو گئی ہے

’’یہ دو چھتوں کے نیچے رہنے جیسا ہے، جیسے کہ ہم طلاق شدہ ہوں...‘‘ ان کے شوہر، ۵۲ سالہ ناگوانّا کہتے ہیں، جب ہم ان کے مھسئی واڈی میں ملے۔ ولاسی چونکہ کیمپ میں ہیں، اس لیے انھیں گھر کا کچھ کام کرنا پڑتا ہے، ٹینکر آنے پر پانی لانی ہوتا ہے، کیرانے کا سامان خریدنے کے لیے مھسوڈ جانا ہوتا ہے اور اپنے والد کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔ ’’ایک مرتبہ بھی اچھی بارش نہیں ہوئی۔ عام طور پر پھاگن [قمری کیلنڈر کا آخری مہینہ، عام طور پر مارچ] تک ہمارے پاس وافر پانی ہوتا ہے۔ لیکن اس دفعہ دیوالی سے ہی پانی دستیاب نہیں تھا۔ صرف ایک بار ہلکی بارش ہوئی تھی...‘‘

Two women sitting under a makeshift tent
PHOTO • Binaifer Bharucha

سنگیتا ویرکر اور وِلاسی ویرکر کے کنبوں کے پاس ۱۰-۱۲ ایکڑ زمین ہے۔ لیکن، وہ کہتے ہیں، ’ہمیں کوئی فصل نہیں ملی، اس لیے کوئی اناج نہیں ہے‘

’’ہمیں کوئی فصل نہیں ملی، اس لیے اناج نہیں ہے،‘‘ ولاسی کہتی ہیں۔ فیملی کے پاس ۱۰-۱۲ ایکڑ زمین ہے، جس پر دونوں بھائی مشترکہ طور پر کھیتی کرتے ہیں۔ ’’کھیتوں میں یومیہ مزدوری کا کوئی کام نہیں ہے [عورتوں کو ۱۵۰ روپے ملتے ہیں، اور مردوں کو ۲۵۰ روپے]۔ سرکار کوئی کام شروع نہیں کر رہی ہے۔ ہمیں بتائیے، ہم زندہ کیسے رہیں؟‘‘

سنگیتا کے گھر پر، ان کے شوہر نندو کہتے ہیں، ’’میں ایک اینٹ بھٹے میں ۲۵۰ روپے یومیہ مزدوری پر کام کر رہا ہوں – لیکن یہ کام ایک ہفتہ سے زیادہ کا نہیں ہے۔ اس کے بعد، مجھے نہیں معلوم کہ کام کہاں ملے گا۔ کھیتوں میں کام بالکل بھی نہیں ہے۔ ہم نے اپنی فصل کھو دی ہے۔ بینک کا کئی چکر لگانے کے بعد بھی، مجھے کوئی فصل بیمہ نہیں ملا ہے۔ ہمیں ۲۰ روپے فی لیٹر دودھ بیچ کر کچھ پیسے مل جاتے ہیں۔ مویشیوں کو اچھی طرح چارہ دینے پر، ہمیں روزانہ ۴-۵ لیٹر دودھ ملتا ہے۔ لیکن ابھی ہمارے پاس کوئی دودھ دینے والی گائے گائے نہیں ہے۔ میرے سسر نے اپنی گائے بھیجی ہے، اس لیے ہمیں ابھی ۲-۳ لیٹر دودھ مل رہے ہیں۔‘‘

وہ بتاتے ہیں کہ فیملی نے دو سال پہلے کچھ اناج جمع کیا تھا۔ ’’یہ اب ختم ہو چکا ہے۔ جب کوئی کسان جوار بیچنا چاہتا ہے، تو اسے ۱۲۰۰ [روپے] فی کوئنٹل ملتے ہیں اور جب ہمیں اسے بازار سے خریدنا ہوتا ہے تو ہمیں اس کی قیمت ۲۵۰۰ روپے فی کوئنٹل چکانی پڑتی ہے۔ مجھے بتائیے، ہم اس کا انتظام کیسے کریں؟ ہمارے پاس نارنگی رنگ کا [پی ایل یا ’خط افلاس سے اوپر‘] راشن کارڈ ہے، اس لیے تین لیٹر کیروسین کے علاوہ، ہمیں کچھ نہیں ملتا ہے، کوئی اناج نہیں، کوئی چینی نہیں۔‘‘

مھسئی واڈی اور دیگر گاؤوں میں، منریگا کی سائٹیں ابھی شروع نہیں ہوئی ہیں، یہی حال ریاستی امداد والے این جی او یا دیگر گروہوں اور افراد کے ذریعہ چلائے جا رہے کیمپوں کا ہے۔ ۹ جنوری، ۲۰۱۹ کی ایک سرکاری تجویز (جی آر) نے اورنگ آباد، بیڈ، جالنہ، عثمان آباد اور پربھنی (قحط زدہ مراٹھواڑہ علاقہ) میں پانچ گئو شالاؤں کو مویشی کیمپ شروع کرنے کے لیے فنڈ مہیا کرنے کی منظوری دے دی ہے؛ ان میں سے ہر ایک میں ۵۰۰ سے ۳۰۰۰ تک مویشی رکھے جا سکتے ہیں۔

Two week cook at the camp
PHOTO • Binaifer Bharucha
Men transport milk and fodder
PHOTO • Binaifer Bharucha

بائیں: سنگیتا کیمپ اور گھر پر کئی کام سنبھالتی ہیں (ان کے ساتھ ہیں لیلابائی ویرکر)۔ دائیں: ٹرک اور ٹیمپو کیمپ سے گوبر اور دودھ باہر لے جاتے ہیں

سانگلی، ستارا اور شعلہ پور ضلع اس جی آر میں نہیں ہیں۔ لیکن ۲۵ جنوری کے ایک دوسرے جی آر میں ذکر ہے کہ چارہ کیمپوں کا انعقاد سبھی ۱۵۱ قحط زدہ بلاکوں اور خشک سالی جیسی حالت کا سامنا کرنے والے ۲۶۸ ریونیو حلقوں میں کیا جا سکتا ہے۔ ایک بالغ جانور کے لیے ۷۰ روپے اور بچھڑے کے لیے ۳۵ روپے کی سبسڈی دی جائے گی اور ہر تیسرے دن ۱۵ کلو ہرا چارہ یا ۶ کلو سوکھا چارہ مہیا کرایا جائے گا۔ لیکن کیمپ میں فی کنبہ صرف پانچ جانوروں کا ہی اندراج کیا جا سکتا ہے۔ دیگر جانوروں کے ساتھ کیا کیا جانا ہے، اس پر کوئی گائڈ لائن نہیں ہے۔ اور ابھی تک ایک بھی کیمپ شروع نہیں کیا گیا ہے، صرف تجویزوں پر غور کیا جا رہا ہے، ڈاکٹر امبیڈکر شیتی وکاس و سنشودھن سنستھا، سانگولا کے للت بابر کہتے ہیں۔

’’مجھے نہیں معلوم کہ سرکار چارہ کیمپ کب شروع کرے گی،‘‘ ماندیشی فاؤنڈیشن کے سچن مین کُدلے کہتے ہیں۔ فاؤنڈیشن کا کیمپ اگلے ۶-۸ مہینوں کے لیے منعقد ہوگا، اس کے بنیادی کوآرڈی نیٹروں میں سے ایک روندر ویرکر کہتے ہیں۔

ان مہینوں کے دوران، مھسئی واڈی کی ایک بیوہ، ۶۰ سالہ لیلا بائی ویرکر اپنے مویشیوں کو زندہ رکھنے کی امید کر رہی ہیں۔ ’’جیسے ہی سوکھا پڑنا شروع ہوتا ہے، مویشی تاجر چکر لگانے لگتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ ہم اپنے جانور انھیں بیچ دیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’جن کی قیمت ۶۰-۷۰ ہزار ہوتی ہے، وہ معمولی ۵-۶ ہزار میں بیچنے جانے لگتے ہیں۔ ہم اپنے مویشیوں کو قصائی کو کبھی نہیں بیچتے۔ لیکن اگر سرکار چارہ کیمپ نہیں کھولتی ہے، تو آدھے مویشی مذبح خانہ پہنچ جائیں گے۔‘‘

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Medha Kale

ਮੇਧਾ ਕਾਲੇ ਪੂਨਾ ਅਧਾਰਤ ਹਨ ਅਤੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੇ ਔਰਤਾਂ ਅਤੇ ਸਿਹਤ ਸਬੰਧੀ ਖੇਤਰਾਂ ਵਿੱਚ ਕੰਮ ਕੀਤਾ ਹੈ। ਉਹ ਪਾਰੀ (PARI) ਲਈ ਇੱਕ ਤਰਜ਼ਮਾਕਾਰ ਵੀ ਹਨ।

Other stories by Medha Kale
Photographs : Binaifer Bharucha

ਬਿਨਾਈਫਰ ਭਾਰੂਚਾ ਮੁੰਬਈ ਅਧਾਰਤ ਫ੍ਰੀਲਾਂਸ ਫ਼ੋਟੋਗ੍ਰਾਫ਼ਰ ਹਨ ਅਤੇ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਫ਼ੋਟੋ ਐਡੀਟਰ ਹਨ।

Other stories by Binaifer Bharucha
Editor : Sharmila Joshi

ਸ਼ਰਮਿਲਾ ਜੋਸ਼ੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਸਾਬਕਾ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਅਤੇ ਕਦੇ ਕਦਾਈਂ ਲੇਖਣੀ ਅਤੇ ਪੜ੍ਹਾਉਣ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique