’’میں اپنے بچوں کو دن میں سُلانے کی کوشش کرتی ہوں اور یہ یقینی بناتی ہوں کہ وہ گھر کے اندر ہی رہیں۔ اس طرح، میں انہیں دیگر بچوں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھنے سے روک سکتی ہوں،‘‘ دیوی کنک راج (بدلا ہوا نام) نے مجھے بتایا، جب ہم نے ۱۴ اپریل کو ان سے بات کی تھی۔ اس دن، ان کے پاس دو چار دنوں کا ہی راشن بچا تھا۔ ’’میں اب انہیں کھانا بھی نہیں کھلا سکتی۔ مدد مانگنے کے لیے بھی کوئی نہیں ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔
تمل ناڈو کے ورودھو نگر ضلع میں، درج فہرست ذات میں شامل غریب برادری، ارونتھتھیار کی بستی، ایڈایا پوٹّل پٹّی کی دیگر عورتوں کی طرح ہی ۲۸ سالہ کنک راج دیوی، تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور، شیو کاشی شہر کی ایک پٹاخہ فیکٹری میں کام کرتی ہیں اور ہفتہ وار مزدوری پاتی ہیں۔ ۲۴ مارچ کو، کووڈ-۱۹ لاک ڈاؤن نافذ ہونے سے پہلے، وہ راکٹ ٹیوب اور کاغذ کے گولے میں بارود بھرنے کا بیحد خطرناک کام کرکے ۲۵۰ روپے یومیہ مزدوری کما رہی تھیں۔
اپریل کے شروع میں، دیوی کو ریاستی حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن راحت کے طور پر ۱۵ کلو چاول اور ایک کلو دال ملی تھی – لیکن وہ راشن تیزی سے ختم ہونے لگا۔ سرکار سے ہمیں [ان کی فیملی کو] ۱۰۰۰ روپے بھی ملے تھے۔ ہم نے اس سے سبزیاں اور غذائی اشیاء خریدیں۔ راشن کی دکان سے ہمیں تیل نہیں ملا تھا۔ میں کم کھانا پکاتی ہوں، دن میں صرف دو بار،‘‘ انہوں نے مجھے بتایا تھا۔
مئی کے شروع میں، دیوی کی فیملی کو ۳۰ کلو چاول، ایک کلو دال، ایک لیٹر تیل اور ۲ کلو چینی ملی تھی۔ دو ہفتے کے بعد، صرف تھوڑا سا چاول بچا تھا۔ ’’سبزیاں اور غذائی سامان خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’ہم اب صرف چاول اور اچار کھا رہے ہیں۔‘‘
۱۸ مئی کو ورودھو نگر میں لاک ڈاؤن میں رعایت دی گئی کیوں کہ ضلع میں کووڈ-۱۹ کے کچھ ہی معاملے سامنے آئے تھے۔ دیوی پیسے کمانے کی امید میں اس دن کام پر گئیں، تاکہ ۱۲ سال، ۱۰ سال اور ۸ سال کی اپنی بیٹیوں کو کھانا کھلا سکیں۔ ان کے ۳۰ سالہ شوہر، آر کنک راج (بدلا ہوا نام)، جو معاش کے لیے ٹرک چلاتے ہیں، اپنی آمدنی کا بڑا حصہ شراب پر خرچ کر دیتے ہیں۔
دیوی چار سال سے اس پٹاخہ فیکٹری میں کام کر رہی ہیں۔ یہ ورودھو نگر ضلع میں شیو کاشی میونسپلٹی کے آس پاس واقع تقریباً ۹۰۰ بڑی اور چھوٹی اکائیوں میں سے ایک ہے۔ شری وِلّی پتھور تعلقہ کی پڈیکّسو ویتھن پٹّی پنچایت میں واقع ایڈایا پوٹّل پٹّی میں رہنے والے ۵۵۴ لوگوں میں سے آدھے سے زیادہ لوگ ان فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں، جہاں پر انہیں سال بھر میں تقریباً چھ مہینے تک کام مل جاتا ہے۔
’’ہر سنیچر کو، میں ۷۰۰-۸۰۰ روپے گھر لے جایا کرتی تھی،‘‘ دیوی کہتی ہیں۔ یہ ان کے پروویڈنٹ فنڈ اور ملازم کے ریاستی بیمہ کی رقم، اور ٹھیکہ دار کے ذریعے دی گئی پیشگی اجرت کو کاٹنے کے بعد موصول ہونے والی مزدوری ہوتی تھی۔ ’’لاک ڈاؤن نے میری آمدنی کا ذریعہ چھین لیا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ وِرودھو نگر میں ۲۵ مارچ سے ۱۸ مئی تک لاک ڈاؤن کے دوران دیوی کو اپنی فیکٹری سے کوئی آمدنی یا کوئی مالی مدد نہیں ملی۔
لاک ڈاؤن میں رعایت ملنے کے بعد، شیوکاشی کی چھوٹی پٹاخہ فیکٹریوں نے پوری طاقت سے کام کرنا شروع کر دیا تھا، جب کہ دیوی جہاں کام کرتی ہیں اس جیسی ۵۰ سے زیادہ مزدوروں والی فیکٹریوں نے اپنے ۵۰ فیصد ملازمین کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ دیوی کی فیکٹری میں، ہر ایک مزدور کو ہفتہ میں صرف دو دن کام کرنے کی اجازت ہے۔ اس لیے، دیوی نے ۱۸ مئی سے چار دنوں تک کام کیا۔ انہوں نے جب دوبارہ کام کرنا شروع کیا، تو انہیں دو دنوں کی پیشگی مزدوری کے طور پر ۵۰۰ روپے ملے، اور پھر ۳۰ مئی کو ۵۰۰ روپے مزید ملے۔
پٹاخہ فیکٹری میں کام کرنے سے پہلے، دیوی کپڑے کی ایک مل میں کام کرتی تھیں، جہاں انہیں روزانہ ۱۸۰ روپے ملتے تھے۔ ورودھو نگر ضلع میں پٹاخہ صنعت روزگار پیدا کرنے والی سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ اس ضلع کے کچھ ہی حصوں میں کھیتی ہوتی ہے۔ کچھ کپڑا ملیں روزگار کا دیگر اہم ذریعہ ہیں۔
شیو کاشی کی فیکٹری میں تقریباً ۳ لاکھ لوگ پٹاخہ بنانے کے کام میں لگے ہوئے ہیں، جب کہ متعلقہ صنعتوں میں کم از کم ۴-۵ لاکھ لوگ کام کرتے ہیں، متھوکرشنن بتاتے ہیں، جو تمل ناڈو فائرورکس انڈسٹریز ورکرس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ہیں۔ شیو کاشی میں ان کی بھی ایک پٹاخہ فیکٹری ہے، جس میں ۵۰ لوگ کام کرتے ہیں۔
ارونتھتھیار برادری کے آدھے سے زیادہ لوگ ان فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عورتیں ہیں۔ ’’اس برادری کے لوگ پٹاخہ فیکٹریوں میں سب سے خطرناک کام کرتے ہیں،‘‘ ایڈایا پوٹّل پٹّی میں رہنے والے تمل ناڈو لیبر رائٹس فیڈریشن (ٹی این ایل آر ایف) کے ریاستی کوآرڈی نیٹر، پونوچامی کہتے ہیں۔ ’’وہ ٹیوب میں کیمیکل [بارود] بھرتے ہیں، جس میں حادثہ کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔‘‘
لاک ڈاؤن سے پہلے، دیوی فیکٹری میں ہر ہفتے ۳-۵ دن کام کرتی تھیں، صبح ۸ بجے سے شام کے ۵ بجے تک۔ ’’وہ گاؤں سے ہمیں لے جانے کے لیے صبح ۷ بجے گاڑی بھیجتے ہیں اور شام کو ۶ بجے گھر چھوڑ دیتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ بارش کے موسم میں [جون سے اگست تک]، یا اگر پاس کے کارخانہ میں کوئی حادثہ ہو جائے، تو فیکٹری کو بند کر دیا جاتا ہے۔ ’’جب میرے پاس یہ کام نہیں ہوتا ہے، تو میں کپاس کے کھیتوں میں جاتی ہوں اور روزانہ ۱۵۰ روپے کماتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے کے علاوہ، جہاں دیوی جنوری سے مارچ تک ہفتہ میں ۲-۳ دن کام کرتی ہیں، وہ منریگا کا بھی کام کرتی ہیں۔
پٹاخہ فیکٹریوں میں، دیوی اور دیگر مزدوروں کو صرف اتنے دنوں کی ہی مزدوری ملتی ہے، جتنے دن وہ کام کرتے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے پہلے انہیں ہر مہینے کے شروع میں پیشگی مزدوری ملتی تھی – دیوی کو ۱۰ ہزار روپے ملتے تھے۔ بقیہ رقم کا ایک حصہ ہر ہفتے ملتا تھا، جتنے دن وہ کام کرتی تھیں۔ حالانکہ لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے فیکٹری سے کوئی پیسہ قرض نہیں لیا تھا، لیکن جن لوگوں نے لیا تھا، انہیں اب وہ رقم واپس ادا کرنی ہوگی۔
’’ہم صرف انہی دنوں کا پیسہ دیتے ہیں، جتنے دن وہ کام کرتے ہیں،‘‘ متھوکرشنن کہتے ہیں۔ ’’میری فیکٹری اب [۱۸ مئی سے] پوری طاقت سے چل رہی ہے۔ میں نے ہفتہ واری مزدوری دینا شروع کر دیا ہے۔ عورتوں کو ۳۵۰ روپے دیا جاتا ہے، جب کہ مرد ۴۵۰-۵۰۰ روپے پاتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
لیکن متھوکرشنن کو یقین نہیں ہے کہ وہ اپنی فیکٹری کو لمبے وقت تک چلا پائیں گے۔ ’’ہمارے سبھی پروڈکٹ کو تیار ہوتے ہی باہر بھیجنا ہوگا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمیں ہفتہ میں کم از کم ایک بار پٹاخوں کو باہر بھیجنا ہوگا۔ چونکہ ریاست اور ملک کے دیگر حصوں میں لاک ڈاؤن کے سبب گاڑیاں پوری طرح سے چل نہیں رہی ہیں، اس لیے پٹاخوں کا انبار لگتا جا رہا ہے۔ ہم صرف مزید دو ہفتے تک اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ اگر پروڈکٹ کو باہر بھیجنے کا انتظام نہیں ہوا، تو پٹاخہ فیکٹریوں کو بند کرنا پڑے گا،‘‘ انہوں نے مجھے ۲۵ مئی کو بتایا۔
ان فیکٹریوں کو ۲۰۱۹ میں کسی اور وجہ سے چار مہینے کے لیے بند کرنا پڑا تھا، جب سپریم کورٹ کے اکتوبر ۲۰۱۸ کے فیصلہ میں صرف کم آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں کو ہی پٹاخہ بنانے کی اجازت دی گئی تھی۔
دیوی کو اس سال اچھے دنوں کی امید تھی، لیکن اپریل کے وسط میں غذائی سامان خریدنے کے لیے ان کا مقامی دکانوں سے لیا گیا قرض کافی زیادہ ہو گیا تھا۔
لاک ڈاؤن کے دوران، سرکار کے ذریعے چلائے جانے والے ایسے اجتماعی باورچی خانے نہیں تھے، جہاں سے دیوی اور ان کی فیملی کو کھانا مل پاتا۔ ٹی این ایل آر ایف جیسی تنظیمیں کچھ مزدوروں کو کھانا بانٹنے میں کامیاب رہیں۔ ’’ہم نے ۴۴ کنبوں کی شناخت کی [جو ضرورت مند تھے]، اور انہیں غذائی سامان تقسیم کیے،‘‘ پونوچامی کہتے ہیں۔
پنچایتوں کو بھی اس بحران سے نمٹنے کے لیے خصوصی رقم نہیں ملی تھی۔ پڈیکّسو ویتھن پٹّی میں، پنچایت کے مکھیا، اے موروگیسن نے ریاستی حکومت کے ذریعے ہر تین مہینے میں پانی اور صفائی، اور گاؤں کے بنیادی ڈھانچے کے رکھ رکھاؤ کے لیے جاری کیے گئے فنڈ کا استعمال صفائی ملازمین کی تنخواہ دینے اور انہیں کھانا مہیا کرانے میں کیا۔ موروگیسن کا کہنا ہے کہ انہوں نے راشن بانٹنے پر اپنی جیب سے ۳۰ ہزار روپے خرچ کیے ہیں۔
ورودھو نگر کے کئی گاؤوں ایک اور مسئلہ کا سامنا کر رہے ہیں – عورتوں کے خلاف تشدد میں تیزی آئی ہے۔
جب لاک ڈاؤن میں رعایت دی گئی، تو تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم اے سی) کے ذریعے چلائی جانے والی شراب کی سرکاری دکانیں بھی کھل گئیں۔ ’’چونکہ ٹی اے ایس ایم اے سی کی دکانیں کھل گئی تھیں، اس لیے تمل ناڈو لیبر رائٹس فیڈریشن کو ضلع بھر کی عورتوں سے گھریلو تشدد کی کم از کم ۱۰ شکایتیں [روزانہ] ملنے لگیں۔ ہم نے ٹی اے ایس ایم اے سی کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ۲۵ مئی کو ایک دستخطی مہم شروع کی، پونوچامی کہتے ہیں۔ مہم کے پہلے چار دنوں کے اندر ہی ضلع کی ۲۰۰ سے زیادہ عورتوں نے اس پر دستخط کیے۔
دیوی بتاتی ہیں کہ ان کا شوہر، جو بہت زیادہ شراب پیتا ہے، شراب کی دکانیں کھلنے کے بعد سے ہر رات کو لڑائی کرتا ہے۔ ’’جب اسے پینے کے لیے کسی کا ساتھ ملتا ہے، تو وہ اپنی ساری کمائی شراب پر خرچ کر دیتا ہے۔ گھر آنے کے بعد وہ مجھے مارتا ہے۔ میں جسمانی اذیت تو برداشت کر سکتی ہوں، لیکن اس کے الفاظ اتنے سخت ہوتے ہیں کہ طبیعت چاہتی ہے کہ خودکشی کر لوں،‘‘ وہ تنگ آکر کہتی ہیں۔
دیوی کی شادی ۱۶ سال کی عمر میں ہو گئی تھی۔ کچھ سال بعد ہی ان کے ساتھ بدسلوکی ہونے لگی، جب ان کے شوہر نے شراب پینا شروع کر دیا۔ ’’میں اپنے بچوں کے لیے یہ تشدد برداشت کرتی رہی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں اپنی بیٹیوں کو اچھی تعلیم دینا چاہتی ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ بچے جب بڑے ہو جائیں گے، تو یہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ان کی بہنوں کے شوہر بھی شرابی ہیں۔ ’’وہ بھی جینے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔‘‘
اپنے شرابی شوہروں کے سبب مالی تنگی کا بوجھ اور گھریلو تشدد ورودھو نگر میں کئی لوگوں کے لیے سنگین ذہنی بحران کی وجہ بنا ہوا ہے۔ ’’میرے شوہر کو [لاک ڈاؤن کے دوران] کام نہیں ملا اور ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ ہم جب بھی بات کرتے، انہیں غصہ آ جاتا تھا،‘‘ رانی ایم (بدلا ہوا نام) کہتی ہیں، جو ایڈایا پوٹّل پٹّی کے سرکاری اسکول میں ٹھیکہ پر صفائی کا کام کرتی ہیں۔
رانی کے شوہر، جو مرمت کرنے والے ایک ورکشاپ میں کام کرتے ہیں، اور جب بھی کام ملتا ہے تقریباً ۵۰۰ روپے یومیہ کماتے ہیں، اپنا زیادہ تر پیسہ شراب پر خرچ کر دیتے ہیں۔ ’’وہ پیسے مانگتے رہتے ہیں، اور میں جو کچھ بھی کرتی ہوں اس میں ہمیشہ نقص نکالتے ہیں۔ وہ مجھے لگاتار پیٹتے ہیں۔ میں اپنے تین بچوں کی خاطر ان کا ظلم برداشت کر رہی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
رانی کو لاک ڈاؤن کے دوران سرکار کے ذریعے تقسیم کی جانے والی نقدی اور راشن نہیں ملا، کیوں کہ ان کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے۔ جب تک اسکول دوبارہ نہیں کھل جاتا، ان کے پاس نہ تو کوئی کام ہے اورنہ ہی آمدنی۔
ان کے پڑوس میں رہنے والی جی کاماچی بھی ہر رات اپنے شوہر سے خوفزدہ رہتی ہیں۔ وہ ان کو مارتا اور گالی دیتا ہے، اور شراب پینے کے لیے پیسے مانگتا ہے۔ ایک بار جب انہوں نے منع کر دیا تھا، تو شراب پینے کے لیے اس نے ان کی سائیکل فروخت کر دی۔
اعلیٰ شرحِ سود والے قرض کی ادائیگی کے لیے ساہوکاروں کے بار بار گھر آنے کی وجہ سے عورتوں کا مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ دیوی کا قرض ۲ لاکھ روپے سے زیادہ ہے – اس کا زیادہ تر حصہ گھر کی مرمت کے لیے لیا گیا تھا۔ ۳۰ مئی کو انہیں مزدوری کے طور پر جو ۵۰۰ روپے ملے تھے، وہ کھانے پر خرچ نہیں ہوگا، وہ کہتی ہیں۔ ’’اس سے میں اپنا قرض چکاؤں گی۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز