سریش میہندلے اپنے پسندیدہ بس اسٹینڈ کے بارے میں فکرمند ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں احاطہ کی شاید صفائی نہیں ہوئی ہوگی۔ اور کتے کے جن بچوں کو وہ ہر دن بسکٹ کھلایا کرتے تھے، وہ بھی بھوکے ہوں گے۔ پونہ ضلع کے مُلشی تعلقہ کے پوڈ بس اسٹینڈ پر واقع ان کا انکوائری بوتھ ایک مہینے سے بھی زیادہ وقت سے بند پڑا ہے۔ یہیں پر بیٹھ کر وہ پوڈ سے گزرنے والی ریاستی ٹرانسپورٹ (ایس ٹی) کی بسوں کے آنے جانے کے وقت پر نظر رکھتے ہیں۔
۵۴ سالہ میہندلے سے جب میری ملاقات ۲۶ نومبر کو، پوڈ بس اسٹینڈ سے تقریباً ۳۵ کلومیٹر دور، پونہ شہر کے سوار گیٹ بس ڈپو میں ہوئی، تو انہوں نے مجھ سے کہا، ’’گزشتہ ۲۸ دنوں سے میں پوڈ نہیں گیا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ [وہاں] سب کچھ ٹھیک ہوگا۔‘‘ وہ اُس بس ڈپو کے داخلی دروازہ پر لگائے گئے ایک ٹینٹ میں، مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ایم ایس آر ٹی سی) کے اپنے ساتھی کارکنوں کے ساتھ ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ پوری ریاست کے ایم ایس آر ٹی سی ملازمین اس سال ۲۷ اکتوبر سے غیر معینہ ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
پونہ میں، ریاستی ٹرانسپورٹ (ایس ٹی) کی بسوں کے تقریباً ۲۵۰ کنڈکٹر اور ۲۰۰ ڈرائیور ہڑتال پر ہیں۔ میہندلے نے بتایا، ’’یہ سب کچھ ریاستی ٹرانسپورٹ کے ملازمین کی [خودکشی سے] موت کی مخالفت کے ساتھ شروع ہوا۔ پچھلے سال کم از کم ۳۱ ملازمین نے خودکشی کر لی تھی۔‘‘ مجھے میہندلے سے ملاقات کیے ابھی تین دن ہی ہوئے تھے کہ دو اور ملازمین نے خودکشی کر لی۔ تنخواہ ملنے میں تاخیر کے سبب، ایس ٹی ملازمین کو تمام مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کووڈ۔۱۹ وبائی مرض پھیلنے کے سبب حالات مزید خراب ہوگئے اور اشیاء کی ڈھُلائی کے علاوہ کارپوریشن کی کہیں سے کوئی آمدنی نہیں ہو رہی تھی۔
اپنے ساتھیوں کی موت پر سب کی توجہ مبذول کرانے کے لیے، ۲۷ اکتوبر کو ممبئی میں ایم ایس آر ٹی سی کے ملازمین نے بھوک ہڑتال کی تھی۔ اس کے بعد، اگلے دن پوری ریاست میں احتجاجی مظاہرہ شروع ہو گئے۔ انہوں نے تنخواہ میں اضافہ اور بقایا رقم کی ادائیگی جیسے طویل عرصے سے کیے جا رہے مطالبات پر زور دیا۔ ایم ایس آر ٹی سی کو ریاستی حکومت کے ماتحت لانے کے مطالبہ کا ذکر کرتے ہوئے میہندلے کہتے ہیں، ’’ہم اس انضمام کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔‘‘ یہ ملازمین، ریاستی حکومت کے ملازمین کے برابر درجہ چاہتے ہیں اور ان کے مساوی تنخواہ اور دیگر فوائد کی مانگ کر رہے ہیں۔
حکومت مہاراشٹر کے ذریعے روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن قانون، ۱۹۵۰ کے التزامات کے تحت بنایا گیا ایم ایس آر ٹی سی ایک خود مختار اکائی ہے۔ کارپوریشن کے تحت ۲۵۰ ڈپو اور ۵۸۸ بس اسٹینڈ چلائے جاتے ہیں، اور تقریباً ۱۰۴۰۰۰ ملازمین کام کرتے ہیں۔ وہ ’گاؤ تیتھے رستہ؛ رستہ تیتھے ایس ٹی‘ (ہر گاؤں کے لیے ایک سڑک، ہر سڑک کے لیے ایک ایس ٹی بس) کے اپنے اصول کے تحت پوری ریاست میں مسافروں کو نقل و حمل کی خدمات مہیا کرتا ہے۔
ورنداونی دولارے، مینا مورے اور میرا راجپوت، جن کی عمر ۳۰ اور ۴۰ سال کے درمیان ہے، ملازمین کے مطالبات کی پرزور حمایت کرتی ہیں۔ وہ سوارگیٹ ڈپو میں کام کرنے والی اُن ۴۵ خواتین کنڈکٹروں میں شامل ہیں، جن کا ماننا ہے کہ ایم ایس آر ٹی سی کا ریاستی حکومت میں انضمام ہی ان کے مسائل کا واحد حل ہے۔ مینا کہتی ہیں، ’’ویسے تو ہم روزانہ ۱۳-۱۴ گھنٹے کام کرتے ہیں، لیکن پیسے ہمیں صرف ۸ گھنٹوں کے ہی ملتے ہیں۔ ہماری شکایتوں کے لیے، ہمارے پاس شکایت کے نمٹارہ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’۲۸ اکتوبر کے بعد سے ایک بھی ایس ٹی بس، ڈپو سے نہیں نکلی ہے۔ ہم تب تک پیچھے نہیں ہٹیں گے، جب تک کہ ریاستی حکومت انضمام کے ہمارے مطالبہ کو قبول نہیں کر لیتی۔‘‘
گزشتہ ۱۲ سالوں سے سوارگیٹ بس ڈپو پر کام کر رہی ۳۴ سالہ کنڈکٹر انیتا اشوک مانکر کہتی ہیں، ’’سبھی ۲۵۰ ڈپو بند ہیں؛ ساتھ ہی، ڈرائیور، کنڈکٹر اور ورکشاپ کے ملازمین سمیت، تقریباً ایک لاکھ ملازمین ہڑتال پر ہیں۔ صرف کانٹریکٹ (ٹھیکہ) پر کام کرنے والے کچھ ملازمین ہی واپس لوٹے ہیں۔ بنیادی طور پر امراوتی ضلع کی انیتا، مُلشی میں بھوگاؤں کے پاس واقع متل واڑی پھاٹا میں رہتی ہیں۔ اکثر ان کی تعیناتی پونہ-کول ون بس روٹ پر رہتی ہے۔
حالانکہ، طاقتور مزدور لیڈر پنّا لال سُرانا نے مہاراشٹر ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ دونوں کا انضمام کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ لیکن، تقریباً ۱۷ سالوں تک مہاراشٹر کے ایس ٹی ملازمین کی تنظیم کے صدر رہ چکے پنّا لال، تنخواہ میں اضافہ کی مانگ کو جائز قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری محکموں کی اجازت کا انتظار کیے بغیر فوراً اور آزادانہ فیصلہ لینے کے لیے ہی اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا تھا۔
احتجاج کر رہے کچھ ملازمین ایم ایس آر ٹی سی سے یکساں تنخواہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ۲۴ سالہ پائل چوہان کہتی ہیں، ’’ہمیں ساتھ کام کرنے والے مرد ملازمین کے مقابلے کم پیسے ادا کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ ہماری ادائیگی میں بھی تاخیر ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان مسائل کو دور کیا جائے۔‘‘ انہیں اور ان کی رفقائے کار روپالی کامبلے اور نیلما دھومل کو تین سال پہلے، سوارگیٹ ڈپو کے ورکشاپ سیکشن میں میکینکل اور الیکٹریکل مینٹیننس کے کام میں مدد کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ ایم ایس آر ٹی سی کے پونہ ڈویژن کو ہڑتال کی وجہ سے روزانہ ڈیڑھ کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ پرائیویٹ طور سے چلنے والی ایئرکنڈیشن بسوں کو چھوڑ کر، ۸۵۰۰ بسیں فی الحال چل نہیں رہی ہیں۔ اس کے سبب، ان میں روزانہ سفر کرنے والے اوسطاً ۶۵ ہزار مسافروں کو آنے جانے میں دقت ہو رہی ہے۔
پوڈ میں ہڑتال کا اثر صاف دکھائی دے رہا ہے۔ شیواجی بورکر ان دنوں پوڈ سے مشترکہ آٹو میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ تقریباً ہر ہفتے ۴۰ کلومیٹر کا سفر کرکے، پونہ شہر سے ملشی تعلقہ کے گاؤں ریہے میں واقع اپنے کھیت جاتے ہیں۔ اس کے لیے، وہ واحد پبلک ٹرانسپورٹ، بس کا استعمال کرتے ہیں، جو پونہ کے مارکیٹ یارڈ سے پوڈ کے لیے چلتی ہے، جسے پونہ مہانگر پری وہن مہامنڈل لمیٹڈ کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔
۲۷ نومبر کو جب میں ان سے ملی، اس وقت بورکر اور پانچ دیگر لوگ آگے جانے کے لیے ایک چھوٹی سی دکان پر آٹو کے انتظار میں کھڑے تھے۔ دو گھنٹے گزر چکے تھے، لیکن چھ سیٹ والے اس آٹو کو جب تک ۱۴ سواری نہیں مل جاتی، آٹو آگے نہیں بڑھنی تھی – آٹو کے بیچ والے حصے میں ۸ مسافر، پیچھے ۴، اور ڈرائیور کے دونوں طرف ایک ایک مسافر بیٹھائے جاتے ہیں۔ بورکر کہتے ہیں، ’’انتظار کے علاوہ ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ ایس ٹی بس، دیہی لوگوں کے لیے لائف لائن کی طرح ہے۔ تقریباً ایک مہینہ ہو گیا ہے، لیکن کوئی بس چل نہیں رہی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آٹو والے ان سے بس ٹکٹ سے دوگنا کرایہ وصول کرتے ہیں، جب کہ ایس ٹی بسوں میں بزرگ شہریوں سے آدھا کرایہ لیا جاتا ہے۔
پوڈ کا وہ بس اسٹینڈ، جہاں سے کول وَن (ملشی تعلقہ میں) اور جاوان اور تلے گاؤں (ماول تعلقہ میں) کے لیے روزانہ پانچ بسیں چلتی ہیں، آج کل سنسان رہتا ہے۔ اپنے دوستوں کا انتظار کر رہی تین لڑکیوں نے مجھ سے بات کی۔ لیکن انہوں نے اپنا نام بتانے یا تصویر کھنچوانے سے منع کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’لاک ڈاؤن کے بعد، میرے والدین نے کالج بھیجنے سے منع کر دیا۔ کالج آنا جانا مہنگا پڑتا تھا۔ جب تک میں ۱۲ویں کلاس میں تھی، میرے پاس مفت بس پاس تھا۔‘‘ ۱۲ویں کلاس کے بعد ان سبھی کی پڑھائی چھوٹ گئی۔ سفر میں لگنے والے خرچ کو بھی اکثر کنبوں کے ذریعے لڑکیوں کی پڑھائی بند کروانے کی ایک وجہ بتایا جاتا ہے۔
اسی دن، میں نے پوڈ اور کول ون کے درمیان پیدل ہی ۱۲ کلومیٹر کی دوری طے کر رہے اسکولی طالب علموں کے تقریباً آٹھ گروہوں کو دیکھا۔ اپنے گاؤں ستیسائی سے تیزی سے چل کر پوڈ واقع اپنے اسکول جا رہی ایک طالبہ نے مجھے بتایا، ’’ہم اسکول جانے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے [اسکولوں کو کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد کھولا گیا]۔ لیکن بسیں نہ ہونے کے سبب ہمیں پیدل جانا پڑتا ہے۔‘‘ اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بسوں میں، پانچویں سے ۱۲ویں کلاس تک کی طالبات کو آنے جانے کے لیے مفت مسافر پاس دیا جاتا ہے، لیکن یہ پاس تبھی کام آ سکتا ہے، جب بسیں چل رہی ہوں۔
میہندلے کہتے ہیں، ’’ہم معاشرہ کے غریب ترین لوگوں کوخدمات مہیا کرتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ وہ لاچار ہیں، لیکن ہم اس ہڑتال سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے لوگ ہماری مسائل کو سمجھیں گے۔‘‘ میہندلے گزشتہ ۲۷ سالوں سے ایم ایس آر ٹی سی میں کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے سال ۲۰۲۰ میں ٹریفک کنٹرولر کا امتحان پاس کیا تھا، اور وہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس عہدہ پر ان کی تقرری ہو جائے گی۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ ایسا تبھی ہو سکتا ہے، جب ایس ٹی بسیں پھر سے رفتار پکڑ لیں گی۔ فی الحال تو وہ جس بس اسٹینڈ کی دیکھ بھال کرتے ہیں، وہ ان کی واپسی کا انتظار کر رہا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز