’’ہم نے ان ۵۸ اونٹوں کو ضبط نہیں کیا ہے،‘‘ امراوتی ضلع کے تلیگاؤں دشاسر پولیس اسٹیشن کے انچارج، انسپکٹر اجے اکارے نے بتایا۔ ’’ہمارے پاس ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے کیوں کہ مہاراشٹر میں ان جانوروں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے کوئی مخصوص قانون نہیں ہے۔‘‘
اکارے کہتے ہیں کہ ’’یہ اونٹ حراست میں لیے گئے ہیں۔‘‘
اسی لیے ان کے نگہبانوں کو بھی حراست میں لینا ضروری تھا۔ لیکن امراوتی کے مقامی جوڈیشل مجسٹریٹ کی نظر میں ایسا کرنا ضروری نہیں تھا۔ گجرات کے کچھّ کے یہ پانچوں لوگ نیم خانہ بدوش زندگی بسر کرنے والے چرواہے ہیں، جن میں سے چار کا تعلق رباڑی برادری سے اور ایک کا فقیرانی جاٹ سے ہے۔ دونوں برادریاں کئی صدیوں اور نسلوں سے روایتی طور پر اونٹ چرانے کا کام کرتی آئی ہیں۔ ایک خود ساختہ ’جانوروں کے حقوق کے محافظ‘ کی شکایت پر، پولیس کی گرفتاری کے فوراً بعد ہی مجسٹریٹ نے ان پانچوں کو غیر مشروط ضمانت دے دی تھی۔
انسپکٹر اکارے کہتے ہیں، ’’ملزمین کے پاس نہ تو ان اونٹوں کو خریدنے اور اپنے پاس رکھنے کا کوئی کاغذ تھا اور نہ ہی خود اپنی مستقل رہائش کا کوئی قانونی دستاویز۔‘‘ چنانچہ، روایتی چرواہوں کے ذریعے اونٹوں کے شناختی کارڈ اور ان کی ملکیت کے کاغذات تیار کروا کر انہیں عدالت میں پیش کرنے کا عجیب و غریب تماشہ شروع ہوا۔ کاغذات کا انتظام کرنے والوں میں ان کے رشتہ دار اور مذکورہ بالا دونوں نیم خانہ بدوش برادریوں کے دیگر ارکان شامل ہیں۔
ان اونٹوں کو چرواہوں سے الگ کرنے کے بعد، گئو رکشا کیندر بھیج دیا گیا ہے، جہاں بنیادی طور پر گائیں رکھی جاتی ہیں اور ان کی تحویل کی ذمہ داری ان لوگوں کو سونپی گئی ہے، جنہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ان جانوروں کی دیکھ بھال کیسے کی جائے یا انہیں کھانے کو کیا دیا جائے۔
ویسے تو اونٹ اور گائے دونوں ہی جُگالی کرنے والے جانور ہیں، لیکن یہ الگ الگ چارہ کھاتے ہیں۔ اور اگر ان اونٹوں کو زیادہ دنوں تک گئو شالہ میں رکھا گیا، تو ان کی حالت تیزی سے بگڑ سکتی ہے۔
*****
اونٹ راجستھان کا
ریاستی جانور ہے، جو دوسری ریاستوں کی آب و ہوا کے مطابق خود کو نہیں ڈھال سکتا۔
جسراج شری شریمال،
بھارتیہ پرانی متر سنگھ، حیدر آباد
اس پوری کہانی کی شروعات شک کی بنیاد پر ہوئی۔
جانوروں کی فلاح سے منسلک حیدر آباد کے ایک ۷۱ سالہ کارکن، جسراج شری شریمال نے ۷ جنوری، ۲۰۲۲ کو تلیگاؤں دشاسر پولیس اسٹیشن میں یہ شکایت درج کرائی کہ پانچ چرواہے حیدر آباد کے ذبیحہ خانوں میں مبینہ طور پر اونٹوں کی اسمگلنگ کرنے جا رہے ہیں، جس کے بعد پولیس نے اُن آدمیوں اور ان کے اونٹوں کو فوراً حراست میں لے لیا۔ حالانکہ، شری شریمال نے ان چرواہوں کو حیدر آباد میں نہیں، بلکہ مہاراشٹر کے وِدربھ علاقے میں دیکھا تھا۔
شری شریمال کے ذریعے درج کرائی گئی شکایت میں لکھا ہے، ’’میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ امراوتی جا رہا تھا۔ نِمگہوان گاؤں [چاندور ریلوے تحصیل] پہنچنے پر میں نے چار یا پانچ لوگوں کو اونٹ کے ساتھ ایک کھیت میں ٹھہرے ہوئے دیکھا۔ گنتی کرنے پر پتہ چلا کہ وہاں پر کُل ۵۸ اونٹ ہیں – جن کی گردن اور پیر بندھے ہوئے تھے، اس کی وجہ سے وہ ٹھیک سے چل نہیں پا رہے تھے، جو کہ اُن کے ساتھ ظالمانہ سلوک ہے۔ کچھ اونٹوں کے جسم پر زخم تھے، لیکن چرواہوں نے اس پر کوئی دوا نہیں لگائی تھی۔ اونٹ راجستھان کا ریاستی جانور ہے، جو دوسری ریاستوں کی آب و ہوا کے مطابق خود کو نہیں ڈھال سکتا۔ ان آدمیوں کے پاس نہ تو کوئی کاغذ تھا اور نہ ہی وہ یہ صفائی دے سکے کہ اونٹوں کو وہ کہاں لے جا رہے ہیں۔‘‘
دراصل، ہندوستان میں اونٹ راجستھان، گجرات اور ہریانہ میں پائے جاتے ہیں، لیکن دوسری جگہوں پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ البتہ، ان کی افزائش راجستھان اور گجرات تک ہی محدود ہے۔ ہندوستان میں ۲۰۱۹ میں کی گئی مویشیوں کی ۲۰ویں گنتی کے مطابق، ملک میں اونٹوں کی کل تعداد صرف ۲ لاکھ ۵۰ ہزار ہے، جو کہ ۲۰۱۲ میں کی گئی مویشیوں کی گنتی کے مقابلے ۳۷ فیصد کم ہے۔
حراست میں لیے گئے پانچوں تجربہ کار چرواہے ہیں اور جانوروں کو بڑی تعداد میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ پانچوں کا تعلق گجرات کے کچھّ علاقے سے ہے۔ وہ حیدر آباد کبھی نہیں گئے۔
شری شریمال نے حیدر آباد سے پاری (پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا) کو فون پر بتایا، ’’ان لوگوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا، جس کی وجہ سے مجھے شک ہونے لگا۔ اونٹوں کو غیر قانونی طریقے سے ذبح کرنے کے معاملے بڑھ رہے ہیں۔‘‘ شری شریمال نے یہ بھی بتایا کہ ’بھارتیہ پرانی متر سنگھ‘ نام کی اُن کی تنظیم نے گزشتہ پانچ سالوں میں پورے ہندوستان سے ۶۰۰ سے زیادہ اونٹوں کو بچایا ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ گلبرگہ، بنگلورو، اکولہ اور حیدر آباد وغیرہ میں انہیں بچانے کی مہم متاثر ہوئی ہے، اسی لیے ان کی تنظیم نے ’بچائے گئے‘ جانوروں کو راجستھان بھیج دیا تھا۔ شری شریمال کہتے ہیں کہ ملک کے کئی مراکز کے علاوہ حیدر آباد میں اونٹ کے گوشت کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ لیکن محققین اور تاجروں کا کہنا ہے کہ ذبیجہ کے لیے صرف بوڑھے نر اونٹ ہی فروخت کیے جاتے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن پارلیمنٹ (ایم پی) اور سابق مرکزی وزیر مینکا گاندھی کے ساتھ شری شریمال کے گہرے تعلقات ہیں۔ مینکا گاندھی، ’پیپل فار اینیملز‘ نام کی ایک تنظیم چلاتی ہیں۔ انہوں نے انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا کو دیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ’’ایک بڑا ریکیٹ ہے، اور یہ پورا دھندہ اتر پردیش کے باغپت سے چل رہا ہے۔ ان اونٹوں کو بنگلہ دیش بھی بھیجا جاتا ہے۔ ایک ساتھ اتنے اونٹ رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘
پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد، ۸ جنوری کو پہلی اطلاعاتی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی تھی۔ مہاراشٹر میں چونکہ اونٹوں کے تحفظ سے متعلق کوئی مخصوص قانون موجود نہیں ہے، اس لیے پولیس نے جانوروں پر ظلم و ستم کی روک تھام کے قانون، ۱۹۶۰ کی دفعہ ۱۱ (۱)(ڈی) کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔
اور اس طرح، پربھو رانا، جگا ہیرا، موسیٰ بھائی حمید جاٹ (سبھی کی عمر ۵۰-۴۰ سال کے درمیان ہے)؛ ویسا بھائی سراوو (جن کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ ہے)؛ اور ورسی بھائی رانا رباڑی (جن کی عمر ۷۰ سال سے زیادہ ہے) کے خلاف فرد جرم عائد کیے گئے۔
لیکن، بقول انسپکٹر اکارے، ۵۸ اونٹوں کو سنبھالنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ پولیس نے پہلے تو انہیں دو راتوں تک قریب کے ایک چھوٹے گئو رکشا کیندر (گائے کو رکھنے کی جگہ) میں رکھا، اس کے بعد امراوتی کے ایک بڑے گئو رکشا کیندر سے رابطہ کیا، جو ضلع کے دستور نگر علاقے میں واقع ہے اور مقامی رضاکاروں کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ اس کیندر میں چونکہ ان اونٹوں کو رکھنے کے لیے بڑی جگہ موجود ہے، اس لیے بعد میں ان سب کو وہاں بھیج دیا گیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ان اونٹوں کو تلیگاؤں دشاسر سے امراوتی شہر پہنچانے کی ذمہ داری ملزمین کے ہی رشتہ داروں اور جان پہچان کے لوگوں کو سونپی گئی تھی، جنہیں ۵۵ کلومیٹر کا یہ فاصلہ دو دنوں تک پیدل چل کر پورا کرنا پڑا۔
اب اِن چرواہوں کے لیے چاروں طرف سے مدد آنے لگی ہے۔ کچھّ کی کم از کم تین گرام پنچایتوں نے امراوتی پولیس اور ضلعی حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ اِن اونٹوں کو کھلے میدان میں چرنے کے لیے چھوڑ دیں، ورنہ وہ بھوکے مر جائیں گے۔ ناگپور ضلع کے مکردھوکڑا گاؤں میں رباڑیوں کا ایک بڑا ڈیرہ (بستی) ہے، لہٰذا وہاں کی گرام پنچایت نے بھی اپنی برادری کے اس موقف کی حمایت کی ہے کہ یہ روایتی چرواہے ہیں اور یہ لوگ ان اونٹوں کو حیدر آباد کے ذبیحہ خانوں میں نہیں لے جا رہے تھے۔ اب فیصلہ نچلی عدالت کو کرنا ہے کہ آیا ملزمین کو یہ اونٹ لوٹا دیے جائیں، یا انہیں کچھّ واپس بھیج دیا جائے؟
حتمی فیصلہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ عدالت ان لوگوں کو اونٹوں کا روایتی نگہبان مانتی ہے یا نہیں۔
*****
ہماری لاعلمی کی وجہ
سے ان روایتی چرواہوں پر شک ہوتا ہے کیوں کہ وہ نہ تو ہماری طرح بولتے ہیں اور نہ
ہی ان کی شکل و صورت ہمارے جیسی ہے۔
سجل کلکرنی، چرواہا برادریوں کا مطالعہ
کرنے والے ایک محقق، ناگپور
پانچوں چرواہوں میں سب سے بزرگ، ورسی بھائی رانا رباڑی اپنے اونٹوں اور بھیڑوں کے ریوڑ کے ساتھ تمام عمر ملک کے زیادہ تر علاقوں میں پیدل ہی گھومتے رہے ہیں، لیکن ان کے اوپر جانوروں پر ظلم کرنے کا الزام کبھی نہیں لگا۔
پولیس اسٹیشن میں ایک درخت کے نیچے اپنی ٹانگوں کو سکوڑ کر بیٹھے، فکرمندی اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ وہ کچھّی زبان میں کہتے ہیں، ’’ایسا پہلی بار ہو رہا ہے۔‘‘ بڑھاپے کی وجہ سے ان کے چہرے پر جھریاں پڑ گئی ہیں۔
پانچ ملزمین میں سے ایک، پربھو رانا رباڑی نے ۱۳ جنوری کو تلیگاؤں دشاسر پولیس اسٹیشن میں ہمیں بتایا، ’’ہم ان اونٹوں کو کچھّ سے لے کر آئے تھے اور مہاراشٹر اور چھتیس گڑھ میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں کو دینے جا رہے تھے۔‘‘ یہ ۱۴ جنوری کو ان کی باضابطہ گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہا کیے جانے سے ایک دن پہلے کی بات ہے۔
کچھّ کے بھُج سے امراوتی تک کے اس پورے سفر میں کسی نے بھی انہیں راستے میں نہیں روکا۔ کسی کو ان پر شک نہیں ہوا کہ وہ کوئی غلط کام کر رہے ہیں۔ لیکن، اس واقعہ کی وجہ سے ان کا یہ طویل سفر اچانک رُک گیا ہے، جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
ان اونٹوں کو وردھا، ناگپور، بھنڈارا (مہاراشٹر میں)، اور چھتیس گڑھ کی رباڑی بستیوں میں پہنچایا جانا تھا۔
نیم خانہ بدوش چرواہا برادری سے تعلق رکھنے والے رباڑی، دو یا تین دیگر برادریوں کے ساتھ کچھّ اور راجستھان میں رہتے ہیں، گزر بسر کے لیے بھیڑ بکریاں پالتے ہیں اور کاشتکاری اور نقل و حمل میں استعمال کے لیے اونٹوں کی افزائش کرتے ہیں۔ اور یہ کام وہ کچھّ میں اونٹوں کی افزائش کرنے والوں کی تنظیم کے ذریعے متعینہ ’ برادری کے حیاتیاتی و ثقافتی اصول ‘ کے مطابق ہی کرتے ہیں۔
ڈھیبریا رباڑی کے نام سے مشہور اسی برادری کا ایک طبقہ، پورے سال لمبی دوری طے کرکے پانی اور چارے کی بہتات والے علاقوں کی طرف ہجرت کرتا رہتا ہے؛ اب ان میں سے کئی لوگ سال کا زیادہ تر وقت وسطی ہندوستان میں پھیلی اپنی بستیوں، یا ڈیرے میں گزارتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ لوگ موسم کے حساب سے، دیوالی کے بعد ہجرت کرنا شروع کرتے ہیں، اور کچھّ سے پیدل چلتے ہوئے تلنگانہ، آندھرا پردیش، اوڈیشہ، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کے ودربھ جیسے دور افتادہ علاقوں میں جاتے ہیں۔
چرواہوں اور روایتی طور سے مویشی پالنے والوں پر تحقیق کرنے والے ناگپور کے سجل کُلکرنی کا کہنا ہے کہ وسطی ہندوستان میں ڈھیبریا رباڑیوں کی کم از کم ۳۰۰۰ بستیاں ہیں۔ کلکرنی ’ری وائٹلائزنگ رینفیڈ ایگریکلچر نیٹ ورک (آر آر اے این)‘ کے فیلو بھی ہیں، جو بتاتے ہیں کہ ایک ڈیرہ میں ۱۰-۵ کنبوں کے گھر کے علاوہ اونٹوں، اور بھیڑ بکریوں کے بڑے ریوڑ کے باڑے بھی ہو سکتے ہیں، جنہیں رباڑی لوگ گوشت کے لیے پالتے ہیں۔
کلکرنی ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے رباڑیوں اور ان کے مویشیوں سمیت مختلف چرواہا برادریوں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اُن کی گرفتاری اور اونٹوں کی ’حراست‘ کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’یہ واقعہ چرواہوں کے بارے میں ہماری سمجھ کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہماری لاعلمی کی وجہ سے اِن روایتی چرواہوں پر شک ہوتا ہے کیوں کہ وہ نہ تو ہماری طرح بولتے ہیں اور نہ ہی ان کی شکل و صورت ہمارے جیسی ہے۔‘‘
حالانکہ، بقول کلکرنی، رباڑیوں کے کچھ گروپ بڑی تیزی سے آباد ہو رہے ہیں۔ گجرات میں یہ لوگ اپنے روایتی کام کو چھوڑ کر تعلیم حاصل کرنے لگے ہیں اور نوکریاں کر رہے ہیں۔ کچھ کنبوں نے تو مہاراشٹر میں زمین بھی خرید لی ہے اور یہاں کے مقامی کسانوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
کلکرنی کہتے ہیں، ’’کسانوں کے ساتھ اُن کے علامتی رشتے ہیں۔‘‘ مثال کے طور پر، جانوروں کو کسی ایک جگہ روک کر رکھنا – عام طور پر جب کھیتوں میں کوئی فصل نہیں ہوتی، تو اُس دوران رباڑی اپنی بھیڑ بکریوں کو ان کھیتوں میں چراتے رہتے ہیں۔ بدلے میں، ان جانوروں کی لید (یا گوبر) سے مٹی کو آرگینک کھاد ملتی ہے، جس سے اس کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کلکرنی کہتے ہیں، ’’اُن سے اس قسم کا رشتہ قائم رکھنے والے کسان اس کی اہمیت کو بخوبی جانتے ہیں۔‘‘
جن رباڑیوں تک یہ ۵۸ اونٹ پہنچائے جانے تھے، وہ مہاراشٹر یا چھتیس گڑھ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریباً پوری زندگی انہی ریاستوں کی بستیوں میں گزاری ہے، لیکن کچھّ میں رہنے والے اپنی برادری کے ان لوگوں کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات آج بھی قائم ہیں۔ دوسری طرف، فقیرانی جاٹ لمبی دوری تک ہجرت تو نہیں کرتے لیکن اونٹ کی افزائش کرنے میں وہ ماہر ہیں، اور رباڑیوں کے ساتھ ان کے گہرے ثقافتی رشتے ہیں۔
بھُج میں چرواہوں کا سنٹر چلانے والے ’سہجیون‘ این جی او کے مطابق، کچھّ کی تمام چرواہا برادریوں میں اونٹ کی افزائش کرنے والے افراد کی تعداد تقریباً ۵۰۰ ہے۔ ان برادریوں میں رباڑی، سما اور جاٹ بھی شامل ہیں۔
سہجیون کے پروگرام ڈائرکٹر، رمیش بھٹی نے بھُج سے بذریعہ فون پاری کو بتایا، ’’ہم نے تصدیق کر لی ہے، اور یہ سچ ہے کہ ان سبھی ۵۸ نوجوان اونٹوں کو ’کچھّ اونٹ اوچیرک مالدھاری سنگٹھن‘ [کچھّ میں اونٹ کی افزائش کرنے والوں کی تنظیم] کے ۱۱ ممبران سے خریدا گیا تھا – اور انہیں یہ لوگ وسطی ہندوستان میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں کے پاس لے جا رہے تھے۔‘‘
بھٹّی ہمیں بتاتے ہیں کہ پانچوں آدمی اونٹ کی تربیت کرنے میں بھی ماہر ہیں، اسی لیے انہیں اس لمبے، مشکل سفر میں ان جانوروں کے ساتھ جانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ کچھّ میں سرگرم ان جانوروں کی تربیت اور نقل و حمل میں مہارت رکھنے والے سب سے بزرگوں میں سے ایک شاید ورسی بھائی بھی ہیں۔
*****
ہم خانہ بدوش برادری
ہیں؛ کئی بارے ہمارے پاس کاغذات نہیں ہوتے…
وردھا سے تعلق رکھنے والے کمیونٹی لیڈر،
مشرو بھائی رباڑی
انہیں کچھّ سے اپنے سفر کا آغاز کرنے کی صحیح تاریخ یاد نہیں ہے۔
حیران و پریشان پربھو رانا رباڑی کہتے ہیں، ’’ہم نے نویں مہینے [ستمبر ۲۰۲۱] میں مختلف جگہوں سے ان جانوروں کی افزائش کرنے والوں سے انہیں حاصل کرنا شروع کیا اور دیوالی [ابتدائی نومبر] کے فوراً بعد بھچاؤ [کچھّ کی ایک تحصیل] سے اپنا پیدل سفر شروع کیا تھا۔ اس سال فروری کے وسط یا آخر میں ہم چھتیس گڑھ کے بلاس پور میں واقع اپنی منزل پر پہنچنے والے تھے۔‘‘
پانچوں آدمیوں کو جس دن گرفتار کیا گیا تھا، اُس دن تک وہ اپنے آبائی مقام، کچھّ سے تقریباً ۱۲۰۰ کلومیٹر آگے تک کی دوری طے کر چکے تھے۔ بھچاؤ سے وہ پہلے احمد آباد گئے، اور پھر وہاں سے نندُربار، بھوساوَل، اکولہ، کارنجا ہوتے ہوئے تلیگاؤں دشاسر پہنچے (یہ سبھی مقام مہاراشٹر میں ہیں)۔ وہاں سے یہ لوگ آگے کی طرف مہاراشٹر میں واقع وردھا، ناگپور، بھنڈارا جاتے، اس کے بعد بلاس پور پہنچنے کے لیے دُرگ اور رائے پور کا رخ کرتے (یہ تینوں مقامات چھتیس گڑھ میں ہیں)۔ واشم ضلع کے کارنجا شہر میں داخل ہونے کے بعد یہ لوگ نو تعمیر سمردھی شاہراہ پر بھی چلتے۔
پانچوں آدمیوں میں شاید سب سے کم عمر کے موسیٰ بھائی حمید جاٹ بتاتے ہیں، ’’ہم ایک دن میں ۱۲ سے ۱۵ کلومیٹر ہی چل رہے تھے، حالانکہ نوجوان اونٹ آسانی سے ۲۰ کلومیٹر طے کر سکتا ہے۔ رات میں ہم رُک جاتے اور اگلی صبح جلدی اٹھ کر اپنا سفر دوبارہ شروع کر دیتے تھے۔‘‘ وہ اپنا کھانا خود بناتے، دوپہر بعد قیلولہ کرتے، اونٹوں کو آرام کرنے دیتے، اس کے بعد دوبارہ چلنا شروع کرتے تھے۔
اونٹوں کو لے کر چلنے کی وجہ سے گرفتار کر لیے جانے سے وہ کافی خوفزدہ ہیں۔
وردھا ضلع میں رہنے والے تجربہ کار کمیونٹی لیڈر، مشرو بھائی رباڑی نے ہمیں بتایا، ’’ہم اپنی اونٹنیوں کو کبھی نہیں بیچتے، اور نر اونٹوں کا استعمال نقل و حمل میں کرتے ہیں۔ اونٹ ہمارے پیر ہیں۔‘‘ اس وقت ’حراست‘ میں رکھے گئے سبھی ۵۸ اونٹ نر ہیں۔
پولیس نے جس دن ان پانچ چرواہوں کو گرفتار کیا، ’مشرو ماما‘ (پیار سے لوگ انہیں اسی نام سے پکارتے ہیں) اسی دن سے وہاں ان کے ساتھ ہیں۔ وہ ان کے اہل خانہ کے ساتھ رابطہ بنائے ہوئے ہیں، امراوتی میں وکیلوں کا انتظام کر رہے ہیں، ان کے بیانات کا ترجمہ کرنے اور ان کو ریکارڈ کرانے میں پولیس کی مدد کر رہے ہیں۔ انہیں مراٹھی اور کچھّی دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ اس کے علاوہ، وہ یہاں کے الگ الگ مقامات پر پھیلی ہوئی تمام رباڑی بستیوں کے درمیان رابطہ کی ایک اہم کڑی بھی ہیں۔
مشرو بھائی بتاتے ہیں، ’’یہ اونٹ ودربھ، تلنگانہ اور چھتیس گڑھ کے مختلف ڈیروں (بستیوں) میں رہنے والے ہمارے ۱۶-۱۵ لوگوں تک پہنچائے جانے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کو ۴-۳ اونٹ ملنے والا تھا۔‘‘ سفر کرنے کے دوران، یہ رباڑی اپنے سارے سامان، چھوٹے بچوں اور کبھی کبھی بھیڑ کے بچوں (ظاہری طور پر ان کی پوری دنیا یہی ہے) کو بھی ان جانوروں پر لاد دیتے ہیں۔ مہاراشٹر کی دھنگر چرواہا برادری کی طرح یہ لوگ بیل گاڑی کا استعمال کبھی نہیں کرتے۔
مشرو بھائی کہتے ہیں، ’’ہم ان اونٹوں کو اپنے علاقے میں ان کی افزائش کرنے والوں سے ہی خریدتے ہیں۔ یہاں کے ۱۵-۱۰ لوگوں کو جب کبھی اپنے بوڑھے جانوروں کے بدلے نوجوان نر اونٹوں کی ضرورت پڑتی ہے، تو ہم کچھّ کے اپنے رشتہ داروں کو اس کا آرڈر دے دیتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی افزائش کرنے والے تربیت یافتہ لوگوں کے ساتھ انہیں بڑی تعداد میں بھیجتے ہیں، جس کے بدلے خریدار انہیں مزدوری دیتے ہیں – اگر سفر لمبا ہوا، تو انہیں ایک مہینہ کے ۶۰۰۰ سے ۷۰۰۰ روپے دیے جاتے ہیں۔‘‘ مشرو بھائی ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک نوجوان اونٹ کی قیمت ۱۰ ہزار سے ۲۰ ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ اونٹ ۳ سال کی عمر سے ہی کام کرنے لگتا ہے اور ۲۲-۲۰ سال تک زندہ رہتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’نر اونٹ کے کام کرنے کی عمر ۱۵ سال تک ہوتی ہے۔‘‘
مشرو بھائی تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’یہ بات صحیح ہے کہ ان لوگوں کے پاس کوئی کاغذ نہیں تھا۔ پہلے کبھی بھی ہمیں اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ لیکن اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مستقبل میں ہمیں محتاط رہنا ہوگا۔ حالات بدل رہے ہیں۔‘‘
وہ ناراضگی سے کہتے ہیں کہ اس شکایت کی وجہ سے انہیں اور ان کے اونٹوں کو بلا وجہ اتنا پریشان ہونا پڑ رہا ہے۔ وہ مراٹھی میں کہتے ہیں، ’’آمی گھومنتو سماج آہے، آمچیا بنیاچ لوکائے کڈ کدھی کدھی کاگد پتر نستے۔‘‘ یعنی، ہم لوگ خانہ بدوش برادری سے ہیں؛ کبھی کبھی ہمارے پاس کوئی کاغذ نہیں ہوتا [جو اس کیس کا سبب بنا]۔
*****
ہمارے اوپر الزام ہے
کہ ہم نے ان کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ لیکن اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ کھلے
میں چرنے والے ان جانوروں کو قید میں رکھا گیا ہے۔
پربت رباڑی، ناگپور سے تعلق رکھنے والے
رباڑی جنہیں اونٹ کی نگہبانی کرنے میں مہارت حاصل ہے
حراست میں رکھے گئے سبھی اونٹ نر ہیں اور ان کی عمر دو سے پانچ سال کے درمیان ہے۔ وہ کچھّی نسل کے ہیں، جو عام طور سے کچھّ کے ریگستانی علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق، کچھّ میں ایسے اونٹوں کی موجودہ تعداد ۸۰۰۰ ہے۔
اس نسل کے نر اونٹوں کا وزن عموماً ۴۰۰ سے ۶۰۰ کلو ہوتا ہے، جب کہ اونٹنیوں کا وزن ۳۰۰ سے ۵۴۰ کلو ہوتا ہے۔ ورلڈ ایٹلس کے مطابق، تنگ سینے، ایک کوہان، لمبی، خمیدہ گردن، اور کوہان، کندھے، اور گلے میں لمبے بال اِن اونٹوں کی مخصوص پہچان ہے۔ اُن کے جسم کا رنگ بھورا، سیاہ یا سفید بھی ہو سکتا ہے۔
بھورے رنگ کے یہ کچھّی اونٹ کھلے میدان میں چرنا پسند کرتے ہیں اور مختلف قسم کے پودے اور پتیاں کھاتے ہیں۔ وہ جنگلاتی درختوں کی پتیاں کھا سکتے ہیں، یا چراگاہوں اور خالی پڑے کھیتوں میں اُگی گھاس پھوس کھا کر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔
راجستھان اور گجرات میں اونٹ پالنا اب کافی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دونوں ہی ریاستوں میں، گزشتہ ایک یا دو دہائی سے جنگلات اور آبی پودوں والے دلدلی علاقے میں کئی بار پابندی لگائی جاتی رہی ہے۔ ان علاقوں میں جس طرح سے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں، اس نے بھی ان اونٹوں اور ان کی افزائش کرنے والوں سے لیکر ان کے مالکوں تک کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس طرح، ماضی میں ان جانوروں کو جو چارہ بڑی مقدار میں مفت دستیاب ہوتا تھا، اب وہاں تک ان کی رسائی نہیں ہے۔
ضمانت پر رہا کیے گئے پانچوں لوگ امراوتی میں جانوروں کے اُس باڑے میں پہنچ گئے ہیں، جہاں ایک بڑے اور کھلے، لیکن چاروں طرف سے گھرے ہوئے میدان میں اُن کے اونٹوں کو فی الحال رکھا گیا ہے – وہاں اُن کے دیگر رشتہ دار بھی موجود ہیں۔ رباڑی برادری سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ اپنے جانوروں کی صحت کو لے کر کافی فکرمند ہیں کیوں کہ اونٹوں کو کھانے کے لیے وہ چارہ نہیں مل رہا ہے جس کے وہ عادی ہیں۔
رباڑیوں کا کہنا ہے کہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ اونٹ کچھّ (یا راجستھان) سے دور کے کسی علاقے میں زندہ نہیں رہ سکتے یا وہاں کی آب و ہوا کے مطابق خود کو ڈھال نہیں سکتے۔ بھنڈارا ضلع کے پونی بلاک میں واقع آسا گاؤں کے رہائشی اور اونٹوں کی نگہبانی کرنے میں تجربہ کار رباڑی، آسا بھائی جیسا کہتے ہیں، ’’وہ صدیوں سے ملک بھر میں رہتے آئے ہیں یا ہمارے ساتھ گھومتے رہے ہیں۔‘‘
ناگپور کے اُمریڈ شہر کے قریب ایک گاؤں میں آباد ہو چکے ایک اور تجربہ کار مہاجر گلہ بان، پربت رباڑی کہتے ہیں، ’’یہ عجیب ستم ظریفی ہے۔ ہمارے اوپر الزام ہے کہ ہم اُن کے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ کھلے میں چرنے والے ان جانوروں کو قید میں رکھا گیا ہے۔‘‘
ناگپور ضلع کے اُمریڈ تعلقہ میں واقع سرسی گاؤں میں رہنے والے جکارا رباڑی کہتے ہیں، ’’اونٹ وہ چارہ نہیں کھاتے جو دوسرے جانور کھاتے ہیں۔‘‘ جکارا بھائی کو ان میں سے تین اونٹ لینے تھے۔
کچھّی اونٹ نیم، ببول، پیپل وغیرہ جیسے مختلف درختوں اور پودوں کی پتیاں کھاتے ہیں۔ کچھّ میں وہ اس ضلع کے خشک اور پہاڑی علاقوں میں اُگنے والے پیڑ پودوں کو چرتے ہیں، جس سے ان کے دودھ کی غذائیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس نسل کی اونٹنی ایک دن میں عام طور سے ۴-۳ لیٹر دودھ دیتی ہے۔ کچھّی چرواہے اپنے اونٹوں کو ہر دوسرے دن کسی آبی ذخیرہ کے پاس لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام طور پر، یہ جانور پیاس کی حالت میں ایک بار میں ۸۰-۷۰ لیٹر پانی پیتے ہیں – جس میں انہیں ۱۵ سے ۲۰ منٹ لگتا ہے۔ لیکن وہ پانی کے بغیر طویل مدت تک بھی رہ سکتے ہیں۔
گئو رکشا کیندر میں رکھے گئے ان ۵۸ اونٹوں کو کبھی کسی بند جگہ پر کھانے کی عادت نہیں رہی ہے۔ اور، پربت رباڑی بتاتے ہیں کہ یہاں پر ان جانوروں کو کھانے کے لیے مونگ پھلی کی جو باقیات دی جا رہی ہیں، انہیں بڑی عمر کے اونٹ تو کھا رہے ہیں، لیکن چھوٹے اونٹوں نے ایسا چارہ کبھی نہیں کھایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ امراوتی کی اس جگہ تک آنے کے دوران، راستے میں وہ سڑک کنارے یا کھیتوں میں لگے درختوں کی پتیاں کھا رہے تھے۔
پربت بتاتے ہیں کہ نوجوان نر اونٹ ایک دن میں ۳۰ کلو چارہ کھاتا ہے۔
اس گئو رکشا کیندر کے لوگ ان جانوروں کو سویابین، گندم، باجرا، مکئی، چھوٹی اور بڑی جوار جیسی تمام فصلوں کی باقیات اور یہاں تک کہ ہری گھاس بھی کھلا رہے ہیں۔ اب یہی وہ ساری چیزیں ہیں جو حراست میں رکھے گئے ان اونٹوں کو کھانے کے لیے دی جا رہی ہیں۔
مہاراشٹر اور چھتیس گڑھ میں کئی دہائیوں پہلے آباد ہو چکے پربت، جکارا، اور درجن بھر دوسرے رباڑیوں کو جیسے ہی پتہ چلا کہ ان کے آدمیوں اور اونٹوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے، تو وہ فوراً امراوتی پہنچ گئے۔ وہ کافی پریشان ہیں اور ان جانوروں پر لگاتار نظر رکھے ہوئے ہیں۔
گئو رکشا کیندر میں خیمہ زن، اونٹوں کی حراست کے بارے میں عدالت کے فیصلہ کا انتظار کر رہے جکارا رباڑی کہتے ہیں، ’’تمام اونٹ بندھے ہوئے نہیں تھے؛ لیکن ان میں سے کچھ کو باندھ کر رکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ ایک دوسرے کو کاٹ لیں گے یا راہگیروں کو پریشان کریں گے۔ یہ نوجوان نر کافی جارحانہ ہو سکتے ہیں۔‘‘
رباڑیوں کا اصرار ہے کہ ان اونٹوں کو کھلے میں چرنے کے لیے چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ پولیس حراست میں رکھنے کی وجہ سے اونٹوں کی موت کے واقعات پہلے بھی پیش آ چکے ہیں۔
اس سلسلے میں، اُن کے مقامی وکیل، ایڈووکیٹ منوج کلّا کی طرف سے نچلی عدالت میں ایک عرضی لگائی گئی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو یہ اونٹ رباڑیوں کو واپس لوٹا دیے جائیں۔ کچھّ میں رہنے والے ان کے رشتہ دار، برادری کے مقامی ارکان، اور مختلف مقامات سے آنے والے خریدار – سبھی نے مقدمہ لڑنے، وکیلوں کی فیس ادا کرنے، خود اپنے ٹھہرنے، اور ان مویشیوں کے صحیح کھانے کا انتظام کرنے کے لیے اپنے وسائل جمع کر لیے ہیں۔
دریں اثنا، ان اونٹوں کو گئو رکشا کیندر کی تحویل میں رکھا گیا ہے۔
اس کیندر کو چلانے والے اور امراوتی کی گئو رکشن سمیتی کے سکریٹری، دیپک منتری بتاتے ہیں، ’’شروع میں انہیں کھلانے میں کافی پریشانی ہوئی، لیکن اب معلوم ہو گیا ہے کہ انہیں کتنا اور کونسا چارہ دینا ہے – اس کام میں رباڑی بھی ہماری مدد کر رہے ہیں۔ قریب میں ہی، ہمارے ۳۰۰ ایکڑ کھیت ہیں جہاں سے ہم ان اونٹوں کے لیے سبز اور خشک چارہ منگواتے ہیں۔ ان کے لیے چارے کی کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘ ان کے پاس مویشی کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ہے، جنہوں نے یہاں آ کر ان اونٹوں کا علاج کیا جن کے جسم پر کچھ زخم تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہاں ہمیں ان کی دیکھ بھال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
پربت رباڑی کو امید ہے کہ عدالت انہیں حراست سے رہا کرنے کے بعد ان کے مالکوں کو سونپ دے گی۔ وہ کہتے ہیں، ’’اونٹ ٹھیک سے کھا نہیں رہے ہیں۔ یہ ان کے لیے جیل کی طرح ہے۔‘‘
ورسی بھائی اور چار دیگر لوگ ضمانت ملنے کے بعد گھر جانے کے لیے بے قرار ہیں، لیکن اپنے ان جانوروں کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ رباڑیوں کی طرف سے مقدمہ لڑنے والے وکیل، منوج کلّا نے پاری کو بتایا، ’’۲۱ جنوری بروز جمعہ، دھامن گاؤں (نچلی عدالت) کے جیوڈیشل مجسٹریٹ نے پانچوں چرواہوں سے کاغذات پیش کرنے کے لیے کہا ہے جو ثابت کرتے ہوں کہ یہ ۵۸ اونٹ اُنہی کے ہیں۔ یہ اُن لوگوں کی طرف سے دی گئی رسید بھی ہو سکتی ہے، جن سے یہ لوگ ان جانوروں کو خریدنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔‘‘
دریں اثنا، اِن جانوروں کو واپس حاصل کرنے کا انتظار کر رہے رباڑی بھی اپنی برادری کے دیگر لوگوں اور اونٹ کے خریداروں کے ساتھ امراوتی کے اسی گئو رکشا کیندر میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ اب سبھی کی نگاہیں دھامن گاؤں کی عدالت پر ٹکی ہوئی ہیں۔
یہ بات ناقابل فہم ہے کہ سارے اونٹ اب بھی حراست میں ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز