پَنی مارہ کے مجاہدینِ آزادی کو دوسرے محاذ پر بھی لڑائی لڑنی پڑی۔ ان میں سے کچھ کو تو انہیں اپنے گھر کے اندر لڑنی پڑی۔

چھواچھوت کے خلاف گاندھی جی کی آواز پر وہ سرگرم ہو گئے۔

چمارو بتاتے ہیں، ’’ایک دن، ہم لوگ ۴۰۰ دلتوں کے ساتھ اس گاؤں کے جگن ناتھ مندر میں داخل ہو گئے۔ برہمنوں کو یہ پسند نہیں آیا۔ لیکن، ان میں سے کچھ نے ہماری حمایت کی۔ شاید وہ ایسا کرنے کے لیے مجبور تھے۔ اس وقت ماحول ہی کچھ ایسا تھا۔ گونٹیا (گاؤں کا سربراہ) مندر کا منیجنگ ٹرسٹی تھا۔ اسے بہت غصہ آیا اور احتجاجاً وہ گاؤں چھوڑ کر چلا گیا۔ لیکن، خود اس کا بیٹا ہمارے ساتھ شامل ہو گیا؛ اس نے نہ صرف ہماری حمایت کی، بلکہ اپنے باپ کے قدم کی مذمت بھی کی۔

’’انگریزی سامانوں کے خلاف مہم اپنے عروج پر تھی۔ ہم لوگ صرف کھادی پہنتے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے ہی اسے بُنتے تھے۔ آئڈیالوجی (نظریہ فکر) اس کا ایک حصہ تھی۔ ہم لوگ واقعی میں کافی غریب تھے، اس لیے یہ ہمارے لیے اچھا تھا۔‘‘

تمام مجاہدینِ آزادی نے بعد میں اس پر کئی دہائیوں تک عمل کیا، جب تک کہ ان کی انگلیاں کاتنے اور بُننے سے تھک نہیں گئیں۔ چمارو کہتے ہیں، ’’پچھلے سال، ۹۰ سال کی عمر میں، میں نے سوچا کہ اب اسے چھوڑنے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘

اس کی شروعات ۱۹۳۰ کی دہائی میں سمبل پور میں کانگریس سے متاثر ہوکر منعقد کیے گئے ایک ’’ٹریننگ‘‘ کیمپ میں ہوئی۔ ’’اس ٹریننگ کا نام ’سیوا‘ [خدمت] رکھا گیا، لیکن ہمیں جیل کی زندگی کے بارے میں بتایا گیا۔ وہاں ٹوائلٹ صاف کرنے، گھٹیا کھانا کے بارے میں بتایا گیا۔ ہم سبھی جانتے تھے کہ اس ٹریننگ کا مقصد آخر کیا ہے۔ گاؤں سے ہم ۹ لوگ اس کیمپ میں گئے۔

’’ہمیں پورے گاؤں نے پھول مالا، سندور اور پھلوں کے ساتھ الوداع کہا۔ اس وقت لوگوں میں اس قدر جوش و ولولہ تھا۔‘‘

اس کے علاوہ، پس منظر میں مہاتما کا جادو بھی تھا۔ ’’انہوں نے لوگوں کو ستیہ گرہ کرنے کے لیے جو خط لکھا تھا، اس نے ہمارے اندر جوش بھر دیا۔ ہم سے کہا گیا کہ ہم غریب، اَن پڑھ لوگ اگر نافرمانی پر اُتر آئیں، تو ہم اپنی دنیا بدل سکتے ہیں۔ لیکن ہم سے عدم تشدد اور اچھے برتاؤ کا بھی عہد لیا گیا۔‘‘ اس عہد پر پنی مارہ کے تقریباً سبھی مجاہدینِ آزادی نے تمام عمر عمل کیا۔

انہوں نے گاندھی جی کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن، لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی ان کی آواز پر کھڑے ہوگئے۔ ’’ہم لوگ یہاں منموہن چودھری اور دیانند ستپتھی جیسے کانگریسی لیڈروں سے متاثر تھے۔‘‘ پنی مارہ کے مجاہدین نے اگست ۱۹۴۲ سے پہلے ہی جیل کا پہلا سفر طے کر لیا تھا۔ ’’ہم نے ایک قسم کھائی۔ جنگ (دوسری عالمی جنگ) میں پیسے سے یا ذاتی طور پر، کسی بھی قسم کی مدد ملک سے غداری ہوگی۔ ایک گناہ۔ عدم تشدد کے جتنے بھی طریقے ہو سکتے ہیں، ان سے جنگ کی مخالفت کی جانی چاہیے۔ اس گاؤں کے ہر شخص نے اس کی حمایت کی۔

’’ہم لوگ کٹک جیل میں چھ ہفتوں کے لیے گئے۔ انگریز، لوگوں کو جیل میں زیادہ دنوں تک نہیں رکھتے تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہزاروں لوگ ان کی جیلوں میں جانے کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔ جیل جانے کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔‘‘

Jitendra Pradhan, 81, and others singing one of Gandhi's favourite bhajans
PHOTO • P. Sainath

۸۱ سالہ جتیندر پردھان اور دوسرے لوگ گاندھی جی کا پسندیدہ بھجن گا رہے ہیں

چھواچھوت کے خلاف مہم نے پہلا اندرونی دباؤ بنایا۔ لیکن اس پر قابو پا لیا گیا۔ دیا ندھی کہتے ہیں، ’’آج بھی ہم اپنے زیادہ تر رسوم میں برہمنوں کا استعمال نہیں کرتے۔ اس ’مندر میں داخلہ‘ نے ان میں سے کچھ کو ناراض کر دیا تھا۔ لیکن، ظاہر ہے، ان میں سے زیادہ تر کو ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔‘‘

ذات پات نے بھی کئی پریشانیاں کھڑی کیں۔ مدن بھوئی بتاتے ہیں، ’’جب بھی ہم جیل سے باہر آتے، پاس کے گاؤوں کے رشتہ دار ہر بار ہمارا ’شدھی کرن‘ کرنا چاہتے تھے۔ یہ اس لیے کہ ہم نے جیل میں اچھوتوں کے ساتھ وقت گزارا ہے۔ (دیہی اڑیسہ میں جیل میں وقت گزارنے والے اونچی ذات کے لوگوں کا ’شدھی کرن‘ آج بھی کیا جاتا ہے: پی ایس)

بھوئی آگے بتاتے ہیں، ’’ایک بار میں جب جیل سے باہر آیا، تو میری نانی کی ۱۱ویں منائی جا رہی تھی۔ میرے جیل جانے کے دوران ان کی موت ہو گئی تھی۔ ماما نے مجھ سے پوچھا، ’مدن، تمہارا شدھی کرن ہو گیا ہے؟‘ میں نے کہا نہیں، ہم ستیہ گرہیوں کے طور پر اپنی سرگرمیوں سے دوسرے لوگوں کا شدھی کرن کرتے ہیں۔ تب مجھے گھر کے لوگوں سے بالکل الگ ایک کونے میں بیٹھنے کے لیے کہا گیا۔ مجھے الگ کر دیا گیا، کھانا بھی سب سے الگ بیٹھ کر کھاتا تھا۔

’’میرے جیل جانے سے پہلے ہی میری شادی طے کر دی گئی تھی۔ جب میں باہر آیا، تو شادی ٹوٹ گئی۔ لڑکی کا باپ جیل گئے لڑکے کو اپنا داماد نہیں بنانا چاہتا تھا۔ حالانکہ، بعد میں مجھے سارندا پلّی گاؤں سے ایک نئی دلہن مل گئی؛ اس گاؤں میں کانگریس کا بہت اثر و رسوخ تھا۔‘‘

* * *

چمارو، جتیندر اور پورن چندر کو اگست ۱۹۴۲ میں جیل میں قیام کے دوران، کسی قسم کے شدھی کرن کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔

جتیندر بتاتے ہیں، ’’انہوں نے ہمیں مجرموں کی جیل میں بھیج دیا۔ ہم نے زیادہ تر وقت یہیں گزارا۔ اُن دنوں انگریز، سپاہیوں کی بھرتی کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ یہ سپاہی جرمنی کے خلاف ان کی لڑائی میں شریک ہوکر ان کے لیے جان دیں۔ اسی لیے، انہوں نے مجرموں کے طور پر لمبی سزا کاٹنے والے لوگوں سے وعدے کرنے شروع کر دیے۔ جو لوگ جنگ میں لڑنے کے لیے حامی بھر لیتے تھے، انھیں ۱۰۰ روپے دیے جاتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کی فیملی کو اس کے بدلے ۵۰۰ روپے ملتے۔ اور جنگ ختم ہونے کے بعد انہیں آزاد کر دیا جاتا تھا۔

’’ہم نے مجرم قیدیوں کے درمیان مہم چلائی۔ ان سے کہا، کیا ۵۰۰ روپے کے بدلے جان دینا اور ان کی لڑائی میں شریک ہونا اچھی بات ہے؟ پہلے مرنے والوں میں آپ لوگ ہی ہوں گے، ہم نے ان سے کہا۔ آپ ان کے لیے اہم نہیں ہیں۔ آپ لوگ کیوں ان کی توپ کا بارود بننا چاہتے ہیں؟

Showing a visitor the full list of Panimara's fighters
PHOTO • P. Sainath

ایک مہمان کو پنی مارہ کے مجاہدین کی پوری فہرست دکھاتے ہوئے

’’کچھ دنوں بعد، انہیں ہماری باتوں پر بھروسہ ہونے لگا۔ (وہ ہمیں گاندھی کہہ کر پکارتے تھے یا صرف کانگریس کہتے)۔ ان میں سے کئی لوگوں نے انگریزوں کی اس اسکیم سے اپنا نام واپس لے لیا۔ وہ باغی ہو گئے اور جنگ میں جانے سے منع کر دیا۔ جیل کا وارڈن بہت ناراض ہوا۔ اس نے پوچھا، ’تم نے انہیں کیوں بہکایا؟ پہلے تو وہ جانے کو تیار تھے۔‘ ہم نے، پچھلی بات یاد کرتے ہوئے، اس سے کہا کہ مجرموں کے درمیان رکھے جانے سے ہم کافی خوش ہیں۔ ہم اس لائق تو ہوئے کہ انہیں یہ بتا سکیں کہ حقیقت میں کیا ہو رہا ہے۔

’’اگلے دن ہمیں سیاسی قیدیوں والی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ ہماری سزا بدل کر چھ مہینے کر دی گئی، عام قید کے طور پر۔‘‘

* * *

برطانوی راج نے ان کے ساتھ کیا ظلم کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ اتنی طاقتور حکومت سے ٹکرانے کو تیار ہو گئے؟

اس سوال کے جواب میں چمارو پرسکون لہجہ میں کہتے ہیں، ’’مجھ سے یہ پوچھئے کہ برطانوی راج میں انصاف نام کی کوئی چیز تھی بھی۔‘‘ یہ سوال ان سے پوچھنے لائق نہیں تھا۔ ’’تب تو ہر جگہ ناانصافی ہی ناانصافی تھی۔

’’ہم انگریزوں کے غلام تھے۔ انہوں نے ہماری اقتصادیات کو تباہ کر دیا۔ ہمارے لوگوں کے پاس کوئی حقوق نہیں تھے۔ ہماری زراعت کو برباد کر دیا گیا۔ لوگوں کو خطرناک غریبی میں دھکیل دیا گیا۔ جولائی اور ستمبر ۱۹۴۲ کے درمیان، ۴۰۰ کنبوں میں سے صرف پانچ یا سات کے پاس کھانے کا سامان بچا تھا۔ بقیہ کو بھوک اور بے عزتی جھیلنی پڑی۔

’’موجودہ دور کے حکمراں بھی پوری طرح بے شرم ہیں۔ وہ بھی غریبوں کو لوٹتے ہیں۔ معاف کیجیے، میں برطانوی راج سے کسی کا موازنہ نہیں کر رہا ہوں، لیکن آج کے ہمارے حکمراں بھی ویسے ہی ہیں۔‘‘

* * *

پنی مارہ کے مجاہدینِ آزادی آج بھی صبح سویرے سب سے پہلے جگن ناتھ مندر جاتے ہیں۔ وہاں پر وہ ’نِسّن‘ (ڈھول) بجاتے ہیں، جیسا کہ وہ ۱۹۴۲ سے کرتے آئے ہیں۔ صبح سویرے ڈھول کی یہ آواز کئی کلومیٹر تک سنائی دیتی ہے، جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔

لیکن، جمعہ کو یہ مجاہدینِ آزادی شام کو ۵ بج کر ۱۷ منٹ پر وہاں جمع ہونے کی کوشش کرتے ہیں، کیوں کہ ’’وہ جمعہ کا ہی دن تھا، جب مہاتما کو قتل کر دیا گیا تھا۔‘‘ شام کو ۵ بج کر ۱۷ منٹ پر۔ اس روایت کو گاؤں والے گزشتہ ۵۴ برسوں سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

آج بھی جمعہ کا دن ہے، اور ہم ان کے ساتھ مندر جا رہے ہیں۔ سات میں سے چار باحیات مجاہدینِ آزادی ہمارے ساتھ ہیں۔ چمارو، دیانِدھی، مدن اور جتیندر۔ بقیہ تین – چیتنیہ، چندرشیکھر ساہو اور چندرشیکھر پریدا – اس وقت گاؤں سے باہر گئے ہوئے ہیں۔

The last living fighters in Panimara at their daily prayers
PHOTO • P. Sainath

پنی مارہ کے آخری باحیات مجاہدین آزادی پرارتھنا کرتے ہوئے

مندر کا آنگن لوگوں سے بھرا ہوا ہے، یہ لوگ گاندھی جی کا پیارا بھجن گا رہے ہیں۔ چمارو بتاتے ہیں، ’’۱۹۴۸ میں، اس گاؤں کے کئی لوگوں نے اپنے سر کے بال منڈوا لیے تھے، جب انہیں مہاتما کے قتل کی خبر ملی تھی۔ انہیں ایسا لگا تھا، گویا انہوں نے اپنے والد کو کھو دیا۔ اور آج بھی، جمعہ کے روز کئی لوگ اُپواس (روزہ) رکھتے ہیں۔‘‘

ہو سکتا ہے کہ اس مندر میں کچھ بچے بھی موجود ہوں، جو اسے لیکر متجسس ہوں۔ لیکن، اس گاؤں کو اپنی تاریخ کا پورا احساس ہے۔ اپنی بہادری پر فخر ہے۔ یہ وہ گاؤں ہے، جو آزادی کے چراغ کو جلائے رکھنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔

پَنی مارہ چھوٹے کسانوں کا ایک گاؤں ہے۔ دیاندھی بتاتے ہیں، ’’یہاں کُلٹا (کسانوں کی ایک ذات) کے ۱۰۰ خاندان تھے۔ تقریباً ۸۰ اڑیہ (یہ بھی کسان ہیں) کے۔ تقریباً ۵۰ گھر سَورا آدیواسیوں کے، ۱۰ گھر سوناروں کے تھے۔ کچھ گَوڑ (یادو) فیملی تھی، وغیرہ وغیرہ۔‘‘

موٹے طور پر گاؤں کی شکل و صورت یہی ہے۔ زیادہ تر مجاہدین آزادی کسان ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ ’’یہ بات صحیح ہے کہ ہمارے یہاں ایک دوسری ذاتوں کے درمیان شادی کا رواج نہیں تھا۔ لیکن، جدوجہد آزادی کے وقت سے ہی تمام ذاتوں اور برادریوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ اچھے رہے۔ یہ مندر آج بھی سبھی کے لیے کھلا رہتا ہے۔ سبھی کے حقوق کا احترام کیا جاتا ہے۔‘‘

کچھ ایسے بھی ہیں، جنہیں لگتا ہے کہ ان کے حقوق کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ دبتیہ بھوئی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں تب بہت چھوٹا تھا، جب ایک بار انگریزوں نے مجھے بری طرح پیٹا۔‘‘ بھوئی اُس وقت ۱۳ سال کے تھے۔ لیکن چونکہ انہیں جیل نہیں بھیجا گیا تھا، اس لیے مجاہدین آزادی کی آفیشیل فہرست میں ان کا نام نہیں ہے۔ کچھ دوسرے لوگوں کو بھی انگریزوں نے بری طرح پیٹا تھا، لیکن انہیں سرکاری ریکارڈ میں اس لیے نہیں ڈالا گیا، کیوں کہ وہ جیل نہیں گئے تھے۔

مجاہدین آزادی کے نام یادگاری ستون پر چمک رہے ہیں۔ صرف انہی لوگوں کے نام اس میں درج ہیں، جو ۱۹۴۲ میں جیل گئے تھے۔ لیکن کسی کو بھی ان کے ناموں پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ’’مجاہدین آزادی‘‘ کی سرکاری درجہ بندی جس طرح کی گئی، اس میں کچھ ایسے لوگوں کے نام چھوڑ دیے گئے جو اس میں ہونے چاہیے تھے۔

اگست ۲۰۰۲، یعنی ۶۰ سال کے بعد ایک بار پھر پنی مارہ کے مجاہدینِ آزادی کو وہی سب کرنا پڑا۔

اس بار مدن بھوئی، جو ساتوں میں سب سے غریب ہیں اور جن کے پاس صرف آدھا ایکڑ زمین ہے، اپنے دوستوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ دھرنا سوہیلا ٹیلی فون آفس کے باہر ہے۔ بھوئی کہتے ہیں، ’’تصور کیجیے، اتنی دہائیاں گزر گئیں، لیکن ہمارے گاؤں میں ایک ٹیلی فون تک نہیں ہے۔‘‘

لہٰذا، اسی مانگ کو لے کر، ’’ہم لوگ دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ وہ ہنستے ہیں، ’’ایس ڈی او (سب ڈویژنل آفیسر) نے کہا کہ اس نے ہمارے گاؤں کا نام کبھی نہیں سنا۔ اگر آپ بارگڑھ میں رہتے ہیں، تو یہ گناہ ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ اس بار پولیس نے مداخلت کی۔‘‘

پولیس، جسے ان باحیات مجاہدین آزادی کے بارے میں جانکاری تھی، کو ایس ڈی او کی اندیکھی پر حیرانی ہوئی۔ پولیس ۸۰ سال کے بزرگ کی صحت کے بارے میں کافی فکر مند تھی۔ ’’دھرنے پر کئی گھنٹوں تک بیٹھنے کے بعد، پولیس، ایک ڈاکٹر، میڈیکل اسٹاف، اور دیگر اہل کاروں نے مداخلت کی۔ اس کے بعد ٹیلی فون والوں نے ہم سے وعدہ کیا کہ وہ ۱۵ ستمبر تک ہمارے لیے ایک ٹیلی فون کا انتظام کر دیں گے۔ دیکھتے ہیں۔‘‘

پنی مارہ کے مجاہدین ایک بار پھر دوسروں کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اپنے لیے نہیں۔ انہیں اپنی اس لڑائی سے کیا کبھی کوئی ذاتی فائدہ ہوا ہے؟

چمارو اس سوال کا جواب دیتے ہیں، ’’آزادی۔‘‘

آپ کے اور میرے لیے۔

یہ مضمون (دو پارٹ کی اسٹوری کا دوسرا حصہ) سب سے پہلے ۲۷ اکتوبر، ۲۰۰۲ کو ’دی ہندو سنڈے میگزین‘ میں شائع ہوا تھا۔ پہلا حصہ ۲۰ اکتوبر، ۲۰۰۲ کو شائع ہوا تھا۔

تصاویر: پی سائی ناتھ

اس سیریز کی دیگر کہانیاں:

جب ’سالیہان‘ نے برطانوی حکومت سے لوہا لیا

پَنی مارہ کے آزادی کے پیدل سپاہی – ۱

لکشمی پانڈا کی آخری لڑائی

عدم تشدد اور ستیہ گرہ کی شاندار نَو دہائیاں

شیرپور: جن کی قربانیاں فراموش کر دی گئیں

گوداوری: اور پولیس کو اب بھی حملے کا انتظار ہے

سوناکھن: دو بار ہوا ویر نارائن کا قتل

کَلِّیاسِّیری: سومُکن کی تلاش میں

کَلِّیاسِّیری: آزادی کے اتنے سال بعد بھی جاری ہے جدوجہد

مترجم: محمد قمر تبریز

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique