پچھلے سال دسمبر کی سردیوں کے ایک دن، گونڈ فنکار متھلیش کمار شیام نے ایک پرسکون وائلڈ لائف (جنگلی حیات) کیمپ میں نصب خیموں کے نزدیک لکڑی کی ایک بڑی سی میز پر اپنی شوخ رنگوں والی تصویریں پھیلا رکھی تھیں۔ مدھیہ پردیش کے کانہا نیشنل پارک سے ملحقہ بامھنی گاؤں کے اس کیمپ میں وہ صبح صبح وارد ہوئے تھے۔ انہوں نے پاٹن گڑھ سے یہاں تک کا تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر لمبا سفر اپنی فیملی کی ایک پرانی کار سے طے کیا تھا۔
ان کی شوخ رنگوں والی اور تفصیل سے بھرپور تصویروں میں درختوں، پرندوں، شیروں اور دیگر جنگلی جانوروں کے علاوہ ان کی گونڈ برادری سے وابستہ شاندار دیومالائی قصوں اور جدید زمانے کے مظاہر بھی شامل تھے۔ ۲۷ سالہ متھلیش کہتے ہیں، ’’کبھی کبھی میں اپنی لوک کہانیوں سے تصویریں بناتا ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ تصویریں ’بڑا دیو‘ (جو ہمارے سب سے بڑے دیوتا ہیں) کی میری اپنی تشریح ہوں۔ ان کی تصویرکشی ’بانا‘ (تین تاروں والے ساز) کی شکل میں کی جاتی ہے۔ دوسرے موقعوں پر میں اپنی روزمرہ کی زندگی کی چیزوں اور واقعات سے متاثر ہوتا ہوں۔ اپنے تخیل سے، یہاں تک کہ اپنے خوابوں سے بھی، میں تصویریں بناتا ہوں۔‘‘
دوسرے گونڈ فنکاروں کی طرح، تصویروں کے اندروںی حصوں کو مخصوص نمونوں سے پُر کرنے کا متھلیش کا اپنا ایک الگ انداز ہے۔ وہ نقطوں، ٹھہراؤ اور چھوٹے نصف دائروں کے مجموعوں سے تصویروں کی بڑی شکلوں کے اندرونی حصے کو بھرتے ہیں۔ متھلیش مجھے بتاتے ہیں کہ تہواروں کے موقعوں پر گونڈ برادری کے لوگ اپنے مٹی کے مکانوں کے سامنے والے حصے کی دیواروں کو روایتی نقش و نگار سے آراستہ کرتے ہیں، جو ان کے خیال میں خوشحالی کا ضامن ہوتے ہیں۔ دیوتاؤں، دیومالاؤں اور عوامی قصوں کی عکاسی کرنے والے دیوارں کے نقش و نگار کو گونڈ بِتّی چِتر کہا جاتا ہے۔ متھلیش بتاتے ہیں، ’’ہم اس کے لیے جو رنگ استعمال کرتے ہیں وہ عام طور پر قدرتی رنگ ہوتے ہیں- مثلاً، نیم کے پتوں سے سبز رنگ، گیندے کے پھول سے نارنجی، سورج مکھی سے زرد، گلاب سے گہرا گلابی، گوبر [گائے کے گوبر] سے بھورا، چوہی [سفید مٹی] سے سفید، کالی مٹی سے سیاہ، اور اسی طرح دیگر تمام رنگ حاصل کیے جاتے ہیں۔‘‘
گونڈوں کو درج فہرست قبائل کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ یہ برادری وسطی ہندوستان کی مختلف ریاستوں – چھتیس گڑھ، مہاراشٹر، اوڈیشہ، اتر پردیش میں بھی پائی جاتی ہے، لیکن ان کی اکثریت مدھیہ پردیش میں ہے۔ متھلیش کہتے ہیں، ’’ہم گونڈ [مظاہر پرست] اور ہندو دوںوں تہوار مناتے ہیں۔ اچھی فصل کی دعا کے لیے ہم اگست میں ہریالی مناتے ہیں۔ فصل کی کٹائی کا جشن ستمبر میں نَوا کھوَیّے کے ذریعہ منایا جاتا ہے۔ اسی طرح بہار کے موسم میں ہولی اور سال کے آخر میں دیوالی منائی جاتی ہے۔‘‘
متھلیش اور ان کے خاندان کا تعلق گونڈ قبیلے کی ذیلی شاخ ’پردھان‘ سے ہے۔ کسی زمانے میں گونڈ برادری کے مغنی کے طور پر پردھان گونڈوں کی بڑی عزت تھی۔ یہ تین تار والے بانے بجا کر لوک کہانیاں اور رزمیہ مذہبی قصے گا کر سنایا کرتے تھے۔ اِنہوں نے کہانیوں کو زبانی شکل میں محفوظ رکھا اور سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل آگے بڑھایا۔ لیکن اب اس برادری کے بہت سے نوجوانوں کا جھکاؤ مصوری کی طرف ہوگیا ہے۔ متھلیش کہتے ہیں، ’’آج ہم اِیکریلک رنگوں کے استعمال سے کاغذ یا کینوس پر اپنی کہانی سناتے ہیں۔‘‘
متھلیش ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے بصری قصہ گوئی کے فن میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مصوری اس وقت شروع کی جب ان کی عمر محض ۱۴ سال تھی۔ انہوں نے اپنی بڑی بہن رادھا ٹیکم (جو خود ایک مصور ہیں) سے اس فن کی باریکیاں سیکھیں۔ یہ دونوں بہن بھائی اس فن میں اپنے دادا کے نامور بھائی جن گڑھ سنگھ شیام (۱۹۶۲-۲۰۰۱) کی پیروی کرتے ہیں۔ جن گڑھ سنگھ شیام نے ۱۹۸۰ کی دہائی میں گونڈوں کے روایتی ’وال آرٹ‘ کو کاغذ اور کینوس پر اتارا تھا۔ اس فن کو اس کے خالق کے نام پر ’جن گڑھ قلم‘ (’جن گڑھ‘ ان کا نام اور ’قلم‘ جس سے فنکار خاکہ بناتے ہیں) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں چوخانے جیسی تکنیک کو تصویروں کو بھرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آرٹ کی اس قسم کو کاغذ اور کینوس پر بنایا جاتا ہے اور اب اسے ہندوستان اور دنیا بھر میں عام طور پر گونڈ آرٹ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ (اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے اپنے چیلنجز ہیں۔ غیر گونڈ فنکاروں کی تخلیق کردہ تصویروں کو اکثر غیر مشتبہ خریداروں کے ہاتھوں گونڈ آرٹ کے نام پر فروخت کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے حقیقی فن کے بازار کو نقصان پہنچ رہا ہے۔)
متھلیش وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جب میرے دادا کو شہرت حاصل ہوئی، اور ان پر کام کا بوجھ بڑھ گیا، تو مدد کی غرض سے انہوں نے اپنے خاندان کے لوگوں اور گاؤں کے دوستوں کو اس فن کی تربیت دی۔ ان کے تربیت یافتہ شاگردوں نے جلد ہی اپنی تصویروں پر کام کرنا شروع کردیا، اور بدلے میں انہوں نے بھی دوسروں کو اس فن کی باریکیاں سکھائیں۔‘‘ متھلیش کا اندازہ ہے کہ آج ۲۱۳ گھروں والے پاٹن گڑھ کے تقریباً ۸۰ فیصد کنبوں میں کم از کم ایک فنکار موجود ہے، ان میں سے بھی تقریباً نصف تعداد خواتین کی ہے۔ ان کی بیوی روشنی بھی ایک فنکار ہیں۔ ’’وہ شروع میں میری مدد کرتی تھیں، لیکن اب وہ اپنی تصویریں خود بناتی ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
اے۔۴ سائز کے کاغذ اور کینوس پر بنائی گئی متھلیش کی ایک تصویر عام طور پر تقریباً ۲۰۰۰ روپے میں اور اے۔۳ سائز والی تصویر ۴۰۰۰ روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے ہر آرٹ ورک کو مکمل کرنے میں دو سے تین دن کا وقت لگتا ہے۔‘‘ لیکن فروخت میں ناہمواری کے سبب آمدنی مستقل نہیں رہتی ہے۔ ان کی زیادہ تر تصویریں ان سیاحوں کو فروخت کی جاتی ہیں جو کانہا نیشنل پارک کے آس پاس کے ہوٹلوں اور ریزورٹس میں آتے ہیں۔ کچھ اس کیمپ میں بِکتی ہیں جہاں متھلیش اپنی تصویروں کی نمائش کر رہے تھے۔ یہ کیمپ پاٹن گڑھ کے فنکاروں کو اپنے کام کی نمائش اور انہیں فروخت کرنے کے لیے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ بعض اوقات، کچھ باذوق سیاح اور خریدار براہ راست ’’فنکاروں کے گاؤں‘‘ کے طور پر مشہور پاٹن گڑھ پہنچ جاتے ہیں۔
جب متھلیش اور ان کے ساتھی فنکار ریزورٹس اور دیگر مقامات پر جاتے ہیں تو وہ تقریباً ۱۰۰ سے ۱۵۰ تصویریں اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ کئی فنکاروں (مرد اور خواتین دونوں) کے ذریعہ بنائی گئی تصویروں کو ایک ساتھ جمع کیا جاتا ہے اور سیاحوں اور دیگر ممکنہ خریداروں کو دکھایا جاتا ہے۔ کانہا وائلڈ لائف کیمپ سے دن کے اختتام پر تقریباً ۳ بجے متھلیش اپنی پرانی ماروتی ۸۰۰ میں سوار ہو کر پاٹن گڑھ واپس آجاتے ہیں۔ تاہم، جنگلی حیات کی پناہ گاہ ہر سال جون سے ستمبر تک سیاحوں کے لیے بند رہتی ہے، نتجتاً اس کے آس پاس کے ہوٹل بھی ان مہینوں کے دوران بند کر دیے جاتے ہیں۔
متھلیش کے لیے کمیشن شدہ کام آمدنی کا دوسرا ذریعہ ہے۔ وہ بعض اوقات گھروں کی دیواروں پر تصویریں بناتے ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے دو دیگر گونڈ فنکاروں کے ساتھ احمد آباد میں ایک فارم ہاؤس کی دیواروں کو اپنی تصویروں سے مزیّن کیا تھا۔ انہیں اس کام کو مکمل کرنے میں ایک مہینہ لگا تھا، اور کام کی مجموعی مزدوری کے طور ۵ء۲ لاکھ روپے ملے تھے۔ اس طرح کے کاموں سے متھلیش کو ضروری اضافی آمدنی حاصل ہوتی ہے، لیکن ایسے کام بہت کم ملتے ہیں۔
بھوپال میں ٹرائبل کوآپریٹو مارکیٹنگ ڈیولپمنٹ فیڈریشن آف انڈیا اور چنڈی گڑھ میں کلاگرام جیسی دستکاری کو فروغ دینے والی تنظیمیں کئی موقعوں پر ان سے ان کی تصویریں طلب کرتی ہیں۔ نئی دہلی میں سرکاری کرافٹ میوزیم جیسے مقامات پر ہونے والی نمائشیں ان کی تصویروں کی فروخت کا ایک اور موقع فراہم کرتی ہیں۔ متھلیش کا کہنا ہے کہ ایسے مواقع بھی انہیں اکثر نہیں ملتے، اور وہاں ان کی چیزیں فروخت ہو جائیں گی اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ کرافٹس میوزیم میں انہیں ۲۰۱۳ میں صرف ایک بار اپنی تصویریں فروخت کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کئی مواقع ایسے بھی آئے جب میں پورے مہینے نمائش میں بیٹھا رہا اور صرف ایک تصویر بیچ سکا۔‘‘ ۵ جمع ۵ء۴ فٹ کی ان کی سب سے بڑی پینٹنگ ۲۰۱۸ میں ایک نجی سرپرست نے ایک اعلی درجے کے ہوٹل میں لگی نمائش سے خریدی تھی۔ اس کینوس کو مکمل کرنے میں انہیں تقریباً ایک مہینے کا وقت لگا تھا۔
کسی کسی مہینے متھلیش کو اپنی فنکاری کے عوض ۱۵ ہزار سے ۲۰ ہزار روپے تک مل جاتے ہیں۔ ان کے لیے ایک بہتر مہینہ وہ ہوتا ہے جب ان کی آمدنی دوگنی ہو جاتی ہے۔ ان کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ گھریلو اخراجات اور آرٹ سے متعلق ساز و سامان جیسے روٹرنگ پین، سیاہی، ایکریلک اور فیبرک رنگ، برش، کاغذ اور کینوس پر خرچ ہو جاتا ہے۔
بہرحال، متھلیش اور پاٹن گڑھ کے دیگر فنکاروں کے لیے اس آرٹ سے متعلق ساز و سامان حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ ان کا گاؤں (۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق ’پاٹن گڑھ مل‘)، مشرقی مدھیہ پردیش کے ڈنڈوری ضلع کے کرنجیا بلاک میں واقع ہے۔ یہاں کی ناقص مواصلت کا مطلب ہے کہ یہاں سے ۵۰۰ کلومیٹر دور بھوپال کا ایک طویل سفر۔ بھوپال پہنچنے کے لیے پہلے بس کے ذریعے جبل پور تک ۴ سے ۵ گھنٹے کا سفراور پھر وہاں سے بھوپال تک ۷ سے ۸ گھنٹے تک کا آگے کا سفر۔ حالانکہ متھلیش کہتے ہیں کہ چند مہینے پہلے ان کے گاؤں سے تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر دور جبل پور میں آرٹ کا سامان دستیاب ہو گیا ہے۔
خستہ حال سڑکوں اور نقل و حمل کے خراب ذرائع کی وجہ سے پاٹن گڑھ کے فنکاروں کے لیے نمائشوں اور تقریبات کی غرض سے شہروں کا سفر کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگ بھوپال چلے گئے ہیں۔ جو لوگ پاٹن گڑھ میں رہتے ہیں وہ عام طور پر کھیتی باڑی یا زرعی مزدوری کے ساتھ اپنے فن پر کام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے فن سے آمدنی میں اضافے کے لیے چھوٹے کاروبار بھی کرتے ہیں۔ متھلیش ایک کل وقتی فنکار ہیں۔ ان کی فیملی نے چاول، سویابین اور دیگر فصلیں اگانے کے لیے اپنی چار ایکڑ زمین ایک کسان کو لیز پر دے دی ہے اور اس سے یہ لوگ آدھی پیداوار حاصل کرتے ہیں۔
دو تین سال قبل متھلیش ایک پکے مکان میں منتقل ہو گئے۔ یہ مکان ایک سرکاری سکیم کے تحت ان کی ماں کو الاٹ کیا گیا تھا۔ وہ وہاں اپنی بیوی روشنی، چار سالہ بیٹی، اپنی ماں اور دادا کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کا پشتینی مکان، گونڈ بتّی چِتر سے مزیّن مٹی کا ڈھانچہ ہے، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ کم از کم ۶۰ سال پرانا ہے، اور اب بھی صحیح سلامت کھڑا ہے۔ متھلیش کہتے ہیں، ’’میں امید کرتا ہوں کہ مجھے ایک دن اسے میوزیم میں تبدیل کرنے میں ضرور کامیابی ملے گی۔‘‘
مترجم: شفیق عالم