امول برڈے کا ’علیحدگی کا کمرہ‘ (آئیسولیشن روم) سوکھی ہوئی پھوس کی ایک جھونپڑی ہے۔ جھونپڑی کا دروازہ ٹوٹ گیا ہے، شکستہ چھپر کو پھٹی ہوئی کالی پلاسٹک کی شیٹ سے ڈھانپا گیا ہے اور مٹی کی ناہموار فرش پر پتھر بچھائے گئے ہیں۔
وہ یکم مئی کو مہاراشٹر کے شیرور تعلقہ کے دور افتادہ علاقے کی اس خالی جھونپڑی میں اس وقت رہنے آئے تھے، جب ان کا کووڈ ٹیسٹ پازیٹو آیا تھا۔
مئی کی گرمی میں جب جھونپڑی کے اندر آرام کرنا مشکل ہو جاتا ہے، تو وہ چند قدم کے فاصلے پر موجود پیپل کے درخت کے نیچے راحت تلاش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’صبح ۱۱ بجے سے سہ پہر ۴ بجے تک میں اس درخت کے نیچے پلاسٹک کی چٹائی پر سوتا ہوں۔‘‘
۱۹ سالہ امول یکم مئی کو بخار، سر درد اور بدن درد کے ساتھ نیند سے بیدار ہوئے تھے، اور فوری طور پر ایک سواری جیپ میں بیٹھ کر اپنی جھونپڑی سے ۱۲ کلومیٹر دور شیرور دیہی ہسپتال پہنچے تھے۔
ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ سے جب یہ معلوم ہوا کہ وہ کووڈ پازیٹو ہیں، تو انہوں نے ہسپتال کے ڈاکٹر سے پوچھا کہ انہیں آگے کیا کرنا چاہیے۔ امول کہتے ہیں، ’’ڈاکٹر نے کہا کہ میں۱۰ دن کی دوائیں خرید لوں اور ۱۴ سے ۱۵ دنوں تک اپنی فیملی سے دور ایک الگ کمرے میں رہوں۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’وہاں کوئی بستر دستیاب نہیں تھا۔‘‘ شیرور دیہی ہسپتال میں آکسیجن کی سہولیات کے ساتھ ۲۰ بستر ہیں، اور ۱۰ علیحدگی والے بستر ہیں (میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے مجھے جانکاری دی)۔ چنانچہ امول نے ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہسپتال کے ساتھ والے کیمسٹ سے دوائیں خریدیں۔ چونکہ ان کے لیے اپنی چھوٹی سی جھونپڑی میں علیحدہ رہنا ممکن نہیں تھا، اس لیے وہ اپنے پڑوسی کی خالی جھونپڑی میں رہنے چلے گئے۔ امول کہتے ہیں، ’’وہ [پڑوسی] اپریل میں کچھ مہینوں کے لیے کام کے سلسلے میں باہر گئے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں فون کیا کہ جب تک میں اپنا کورس [کووڈ کے علاج کا] مکمل نہ کرلوں، وہ مجھے وہاں رہنے کی اجازت دے دیں۔‘‘
پونہ ضلع کے اس تعلقہ کے ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر ڈی بی مورے کہتے ہیں کہ شیرور کے ۱۱۵ گاؤوں کی ۳۲۱۶۴۴ کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) پر تعلقہ میں ہلکی علامات والے مریضوں کے لیے نو سرکاری کووِڈ کیئر سینٹرز ہیں جن میں کل ۹۰۲ بستر ہیں اور شدید طور پر بیمار مریضوں کے لیے تین مخصوص کووِڈ ہسپتال ہیں۔ ڈاکٹر مورے مزید کہتے ہیں کہ اپریل سے ۱۰ مئی تک دیہی شیرور میں روزانہ ۳۰۰ سے ۴۰۰ پازیٹو معاملے درج کیے جا رہے تھے۔
بستر کی عدم دستیابی کے بعد جب امول نے پڑوسی کی جھونپڑی میں خود کو علیحدہ کیا تھا، تو اس دوران ان کی ماں سنیتا (۳۵ سال)، بہن پوجا (۱۳ سال)، اور بھائی بھیا (۱۵ سال) قریب ہی اپنی چھوٹی سی جھونپڑی میں مقیم تھے۔ یہ جھونپڑی اس دور افتادہ کلسٹر کی تقریباً ۲۵ جھونپڑیوں میں سے ایک ہے۔ بستی سے دوسرا قریبی گاؤں، چوہان واڑی، آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
برڈے خاندان کا تعلق بھیل پاردھی آدیواسی برادری سے ہے، جو خانہ بدوش پاردھی قبیلے کی ایک ذیلی شاخ ہے۔ پاردھیوں کو مختلف دیگر قبائل کے ساتھ نوآبادیاتی برطانوی حکومت نے کرمنل ٹرائب ایکٹ کے تحت ’مجرم‘ قرار دیا تھا۔ ۱۹۵۲ میں حکومت ہند نے اس ایکٹ کو منسوخ اور ان قبائل کو ’ڈی نوٹیفائی‘ کر دیا تھا۔ ان میں سے چند اب درج فہرست ذاتوں کا حصہ ہیں، چند کو درج فہرست قبائل میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ چند دیگر پسماندہ طبقات کے زمرے میں شامل ہیں۔
امول نے تقریباً ۲۵۰۰ روپے خرچ کر کے ۱۰ دنوں کی دوائیں خریدیں، جس میں پیراسیٹامول، کھانسی کی سیرپ اور ملٹی وٹامنز جیسی دوائیں شامل تھیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں ۷۰۰۰ روپے لے کر گیا تھا۔‘‘ خیال رہے کہ انہیں بحیثیت زرعی مزدور۵۰۰۰ روپے بچانے میں تقریباً نو مہینے لگے تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’میں نے اس میں سے آدھی سے زیادہ رقم صرف ایک دن میں ختم کر دی۔‘‘ ان کی ماں نے پڑوسی سے قرض لے کر ساتھ لے جانے کے لیے ۲۰۰۰ روپے الگ سے دیے تھے۔
امول اور ان کی ماں سنیتا قریبی گاؤوں کے کھیتوں میں مہینے کے تقریباً ۲۰ دنوں تک کام کرکے روزانہ ۱۵۰ روپے کما لیتے ہیں۔ سنیتا کے شوہر کیلاش نے آٹھ سال قبل انہیں اور ان کے بچوں کو چھوڑ دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے، ’’اس نے کسی اور سے شادی کر لی تھی۔‘‘ علیحدگی میں امول کی نگہداشت کے لیے ماں نے دہاڑی کا کام چھوڑ رکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اس کی جھونپڑی میں کھانا اور پانی پہنچاتی ہوں۔‘‘
بھیل پاردھیوں کے رواج کے مطابق یہ خاندان ہر ایک یا دو سال بعد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہے۔ شیرور میں ان کی موجودہ بستی کے باشندوں میں سے کسی کے پاس راشن کارڈ، ووٹر آئی ڈی یا آدھار کارڈ نہیں ہے۔ سرکاری اسکیمیں ان کی دسترس سے دور ہیں۔
امول کی واپسی کے بعد باقی بچے تقریباً ۴۵۰۰ روپے میں سے کچھ روپے لے کر سنیتا ۲۰ دن کا راشن خریدنے آٹھ کلومیٹر دور ایک کیرانے کی دکان پر گئیں۔ وہاں سے انہوں نے گیہوں کا آٹا اور چاول کے علاوہ تور (ارہر) کی دال، مونگ کی دال اور مٹکی خریدے۔ سنیتا کہتی ہیں، ’’وہ دن میں تین بار بہت سی دوائیں لے رہا تھا۔ اسے دوا کے ساتھ توانائی کی بھی ضرورت تھی۔ بصورت دیگر، یہ اشیا ہماری پہنچ سے باہر تھیں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، دال اب ختم ہو چکی ہے، کچھ چاول بچا ہے۔ ’’فی الحال ہم اسے نمک اور لال مرچ پاؤڈر کے ساتھ فرائی کر کے کھا رہے ہیں۔‘‘
جب امول نے گھریلو علیحدگی میں رہنا شروع کیا، تب وہ پروٹوکول سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ وہ پوچھتے ہیں، ’’میں صرف ماسک پہننے، جسمانی فاصلہ رکھنے اور دوائیاں لینے سے متعلق جانتا ہوں۔ مجھے اور کیا کرنا چاہیے؟‘‘
ہلکے/غیر علامتی کووڈ۔۱۹ کے معاملوں میں گھریلو علیحدگی کے لیے صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے نظرثانی شدہ رہنما خطوط کی سفارش یہ ہے: ’’مریض کو ہر وقت تین پرت والے میڈیکل ماسک کا استعمال کرنا چاہیے۔ ماسک کو استعمال کے ۸ گھنٹے بعد یا اس سے پہلے، اگر وہ گیلے ہو جائیں یا گندے معلوم ہوں تو انہیں تلف کر دیں۔ نگہداشت دہندہ کے کمرے میں داخل ہونے کی صورت میں، نگہداشت دہندہ اور مریض دونوں این ۹۵ ماسک استعمال کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔‘‘
امول اور سنیتا دونوں پولی پروپیلین کا وہ ماسک استعمال کرتے ہیں، جسے دھو کر دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے یہ ماسک جنوری میں شیرور مارکیٹ سے ۵۰ روپے میں خریدا تھا۔‘‘ انہوں نے تب سے وہی ماسک پہن رکھا ہے۔ ’’یہ تھوڑا سا پھٹا ہوا ہے۔ میں اسے سارا دن استعمال کرتا ہوں، رات کو دھوتا ہوں اور صبح دوبارہ پہن لیتا ہوں۔‘‘
رہنما خطوط ’’پلس آکسی میٹر سے خون میں آکسیجن کی سیرابی کی خود سے نگرانی پر زور دیتے ہیں۔‘‘ امول کہتے ہیں، ’’ہمارے پاس آکسی میٹر نہیں ہے۔ اگر ہوتا بھی تو میرے گھر میں کوئی نہیں پڑھ سکتا تھا۔‘‘ ان کی فیملی اکثر نقل مکانی کرتی رہتی ہے، اس لیے ان کا یا ان کے بہن بھائیوں کا کبھی بھی اسکول میں داخلہ نہیں کروایا گیا۔
یہاں موجود بھیل پاردھی فیملی کی ۲۵ جھونپڑیوں میں سے ہر ایک جھونپڑی میں ایک کنبہ کے تقریباً چار افراد رہتے ہیں۔ پونہ شہر سے ۷۰ کلومیٹر دور اس بستی میں ۲۰ مئی تک تین لوگوں کا ٹیسٹ پازیٹو آیا تھا۔ امول کا نمبر تیسرا تھا۔
سنتوش دھولے اس بستی کے پہلے شخص تھے، جن کا شیرور دیہی ہسپتال میں کرایا گیا ۲۹ اپریل کا ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ پازیٹو آیا تھا۔ ان کے بعد ان کی بیوی سنگیتا بھی ۳۰ اپریل کو پازٹیو پائی گئی تھیں۔ سنگیتا کہتی ہیں، ’’ہم دونوں کو کھانسی، بخار اور بدن درد کی شکایت تھی۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ وہاں [ہسپتال میں] کوئی بستر دستیاب نہیں ہے۔‘‘
گھریلو علیحدگی ان کا واحد متبادل تھا۔ ایسی صورتوں میں وزارت صحت کے رہنما خطوط واضح طور پر ضلعی حکام کے کردار کی وضاحت کرتے ہیں: ’’گھریلو علیحدگی والے مریضوں کی صحت کی حالت کی نگرانی، فیلڈ عملہ/نگرانی ٹیموں کے ذریعے ذاتی دورے کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص کال سینٹر کے ذریعے کی جانی چاہیے، تاکہ روزانہ بنیاد پر مریضوں کی نگہداشت کی جا سکے۔‘‘
لیکن سنتوش کا کہنا ہے کہ قریبی گاؤں چوہان واڑی سے ابھی تک کسی بھی ہیلتھ ورکر نے بستی کا دورہ نہیں کیا ہے۔ ’’کورونا کی علامات سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے اپریل ۲۰۲۰ میں صرف گرام سیوک اور آشا ورکر یہاں آئے تھے۔‘‘
تاہم، ہلتھ آفیسر ڈاکٹر ڈی بی مورے کا کہنا ہے، ’’آشا کارکنوں اور آنگن واڑی کارکنوں کی مدد سے گھریلو علیحدگی میں رہنے والے تمام مریضوں کے ساتھ ہم باقاعدگی سے رابطے میں ہیں۔ اگر گاؤں کے مضافات کی بستیوں میں کچھ مریضوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، تو ہم اس پر بھی کام کریں گے۔‘‘
۲۶ سالہ سنگیتا اور ۲۸ سالہ سنتوش نے مئی کے وسط تک اپنی جھونپڑی میں دو ہفتے کی علیحدگی مکمل کی تھی۔ ان کا ۱۰ سال کا ایک بیٹا ہے اور ۱۳ سال کی ایک بیٹی ہے۔ دونوں تقریباً نو کلومیٹر دور نیمون گاؤں میں واقع ضلع پریشد اسکول میں پڑھنے جایا کرتے تھے۔ جھونپڑیوں کے اس کلسٹر میں سنتوش واحد شخص ہیں جنہوں نے چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ حالانکہ یہ بھیل پاردھی فیملی بھی کچھ برسوں کے وقفے پر نقل مکانی کرتی رہتی ہے، لیکن انہوں نے اپنے بچوں کی اسکول میں حاضری کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔
سنگیتا بتاتی ہیں، ’’لیکن اب ان کی تعلیم مکمل طور پر رک گئی ہے، کیونکہ اب سب کچھ آن لائن ہو گیا ہے۔‘‘ وہ اور سنتوش اپنی جھونپڑی کے قریب کھلی زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر یا تو ہری مرچ یا ڈوڈکا (لوکی) کی کاشت کرتے ہیں۔ سنگیتا کہتی ہیں، ’’ہم ہر مہینے ان میں سے کوئی ایک سبزی ۲۰ سے ۲۵ کلو تک اگا لیتے ہیں۔‘‘ وہ اسے شیرور مارکیٹ میں خوردہ فروشوں کو فروخت کرتے ہیں۔ ان سبزیوں سے پیداوار اور قیمت کے لحاظ سے انہیں ۳۰۰۰ سے ۴۰۰۰ روپے تک کی ماہانہ آمدنی ہو جاتی ہے۔
ان چھوٹی جھونپڑیوں میں رہنے والے چار افراد کے لیے، دھوئیں والے مٹی کے چولہے، نیز کپڑے، برتن، چادریں، کاشت کاری کے اوزار اور دیگر گھریلو اشیاء کے ساتھ، جسمانی فاصلے کے اصولوں کو برقرار رکھنا ناممکن تھا۔
وزارت صحت کے رہنما خطوط کے مطابق: ’’مریض کو اچھے ہوادار کمرے میں رکھنا چاہیے اور تازہ ہوا کمرے کے اندر آنے جانے کے لیے کھڑکیاں کھلی رکھی جانی چاہئیں۔‘‘
سنگیتا کہتی ہیں، ’’ہماری جھونپڑی بہت چھوٹی ہے۔ اس میں کوئی کھڑکی نہیں ہے۔ جب ہم دونوں کا ٹیسٹ پازیٹو آیا تھا تو ہم سب سے پہلے اپنے بچوں کے لیے پریشان ہو گئے تھے۔‘‘ ۲۸ اپریل کو انہوں نے اپنے دونوں بچوں کو اسی بستی میں سنتوش کے بھائی کے گھر بھیج دیا تھا۔
سنتوش کہتے ہیں، ’’ہماری بستی میں بجلی یا پانی کی فراہمی تک نہیں ہے۔ حفظان صحت کو برقرار رکھنا ہماری دسترس سے باہر ہے۔‘‘ رہنما خطوط میں زور دیا گیا ہے کہ ’’کم از کم ۴۰ سیکنڈ تک ہاتھ دھونے کے لیے صابن اور پانی کا استعمال کریں۔ اگر ہاتھ گندے نہ دکھائی دے رہے ہوں، تو الکحل پر مبنی ہینڈ رب استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اس فیملی کو آدھے کلومیٹر دور کنویں سے پانی لانا پڑتا ہے۔ سنگیتا کہتی ہیں، ’’یہاں ہمیشہ پانی کی قلت رہتی ہے اور گرمیوں میں صورت حال مزید خراب ہو جاتی ہے۔‘‘
امول کی طرح، انہیں اور سنتوش کو بھی ان کی کووڈ کی ہلکی علامات دور کرنے کے لیے ۱۰ دن کی دوائیں تجویز کی گئی تھیں، جس کے لیے انہوں نے ۱۰ ہزار روپے خرچ کیے تھے۔ سنتوش کہتے ہیں، ’’میرے پاس ۴۰۰۰ روپے تھے۔ لہٰذا شیرور میں میرے دوست نے مجھے ۱۰ ہزار روپے قرض دیے۔ اس نے کسی ناگہانی صورت حال کے لیے کچھ اضافی رقم بھی دی تھی۔‘‘
ضلع پریشد کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر آیوش پرساد نے مجھے بتایا کہ (مارچ ۲۰۲۰ سے) ۲۲ مئی تک پونہ ضلع میں ۹۹۲۶۷۱ کووڈ پازیٹو معاملے درج کیے گئے۔ ان میں سے ۲۱۰۰۴۶ معاملے دیہی علاقوں سے تھے، جہاں ۲۷۵۵ اموات ہوئی تھیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’اب معاملے کم ہو رہے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ڈی بی مورے نے یہ بھی بتایا کہ دیہی شیرور میں روزانہ کے پازیٹو معاملوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
۲۲ مئی کو امول نے فون پر مجھے بتایا، ’’ہماری بستی میں ایک اور عورت پازیٹو پائی گئی ہے۔‘‘
امول کی دو ہفتے کی علیحدگی کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ ان کی والدہ اور بھائی بہن میں کووڈ کی کوئی علامت نہیں ہے۔ لیکن وہ اب بھی پڑوسی کی خالی جھونپڑی میں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں اب بہتر محسوس کر رہا ہوں، لیکن احتیاطاً اس جھونپڑی میں مزید دو ہفتے رہوں گا۔‘‘
ایڈیٹر کا نوٹ: اس مضمون کو پہلی بار شائع کرنے کے بعد، فیملی کی جانب سے مزید وضاحتیں موصول ہونے پر، ہم نے امول برڈے کی دوائیوں پر ہوئے خرچ اور فیملی کے مالی معاملات کی کچھ تفصیلات میں ترمیم کی ہے۔
مترجم: شفیق عالم