شیوانی کماری کی عمر ابھی صرف ۱۹ سال ہے، لیکن اسے لگتا ہے کہ اس کا وقت تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔
وہ گزشتہ چار سالوں سے اپنی فیملی کو اس بات کے لیے قائل کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ اس کی شادی ابھی نہ کی جائے – لیکن اسے لگتا ہے کہ وہ اب اسے زیادہ دنوں تک نہیں ٹال سکتی۔ ’’مجھے نہیں معلوم کہ میں مزید کتنے دنوں تک انہیں روک سکتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہے۔ ’’ایک نہ ایک دن اسے ختم ہونا ہے۔‘‘
بہار کے سمستی پور ضلع میں واقع اس کے گاؤں، گنگسارا میں لڑکیوں کی شادی عام طور سے ان کے ۱۰ویں کلاس تک اسکولی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے، یا جب وہ تقریباً ۱۷-۱۸ سال کی ہو جاتی ہیں تب کر دی جاتی ہے۔
لیکن شیوانی ( اس اسٹوری میں سبھی نام بدل دیے گئے ہیں ) اسے ٹالنے میں کامیاب رہی، اور بی کام ڈگری کورس کے دوسرے سال میں ہے۔ وہ ہمیشہ سے کالج جانا چاہتی تھی، لیکن کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ اتنی اکیلی ہو جائے گی۔ ’’گاؤں میں میری تمام سہیلیوں کی شادی ہو چکی ہے۔ جن لڑکیوں کے ساتھ میں بڑی ہوئی اور جن کے ساتھ میں اسکول جاتی تھی، وہ سب جا چکی ہیں،‘‘ وہ ایک دن دوپہر میں اپنے پڑوسی کے گھر میں بات کرتے وقت بتاتی ہے کیوں کہ وہ خود اپنے گھر میں کھل کر نہیں بول سکتی تھی۔ یہاں پر بھی، اس نے گھر کے پیچھے، جہاں فیملی کی بکریاں آرام کرتی ہیں، وہاں بات کرنے کی ضد کی۔ ’’کورونا کے دوران، کالج میں میری آخری سہیلی کی بھی شادی ہو گئی،‘‘ وہ کہتی ہے۔
اس کی برادری میں لڑکیوں کو شاید ہی کبھی کالج جانے کا موقع ملتا ہے، وہ بتاتی ہے۔ شیوانی کا تعلق رویداس برادری (چمار ذات کے ذیلی گروپ ) سے ہے، جو مہا دلت کے زمرے میں آتا ہے – یہ اصطلاح ۲۰۰۷ میں بہار حکومت کے ذریعہ درج فہرست ذات کی ۲۱ انتہائی پس ماندہ برادریوں کے مجموعہ کو دی گئی تھی۔
اس تنہائی کے ساتھ ساتھ انہیں غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے سماج کی طرف سے طعنے اور اہل خانہ، پڑوسیوں اور شناساؤں کی طرف سے لگاتار دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’’میرے والد کہتے ہیں کہ میں نے کافی پڑھائی کر لی ہے۔ لیکن میں ایک پولیس افسر بننا چاہتی ہوں۔ ان کے خیال سے مجھے اتنا آرزومند نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں اگر میں پڑھتی رہی، تو کون مجھ سے شادی کرے گا؟‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’یہاں تک کہ میری برادری میں لڑکوں کی بھی شادی جلدی ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ کیا مجھے ہار مان لینی چاہیے، لیکن میں نے اتنا سب کچھ برداشت کیا ہے اور اب اپنے خواب کو پورا کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
سمستی پور کے جس کے ایس آر کالج میں شیوانی تعلیم حاصل کر رہی ہے، وہ اس کے گاؤں سے تقریباً سات کلومیٹر دور ہے۔ وہاں پہنچنے کے لیے وہ پہلے پیدل چلتی ہے، پھر بس پکڑتی ہے، اور آخر میں کچھ دوری مشترکہ آٹو رکشہ سے طے کرتی ہے۔ بعض اوقات، اس کے کالج کے لڑکے اسے اپنی موٹرسائیکلوں سے وہاں تک لے جانے کی پیشکش کرتے ہیں، لیکن وہ ہمیشہ انکار کر دیتی ہے، کیوں کہ اسے کسی لڑکے کے ساتھ دیکھے جانے کے بعد ہونے والی بدنامی کا ڈر ہے۔ ’’گاؤں کے لوگ افواہوں کو لیکر کافی بے رحم ہیں۔ میری سب سے اچھی سہیلی کی شادی اس لیے کر دی گئی تھی کیوں کہ اسے اسکول کے ایک لڑکے کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ میں نے چاہتی کہ یہ میری کالج کی ڈگری اور خاتون پولیس بننے کی راہ میں رکاوٹ بنے،‘‘ وہ کہتی ہے۔
شیوانی کے والدین زرعی مزدور ہیں، جو مشترکہ طور پر ماہانہ ۱۰ ہزار روپے کماتے ہیں۔ اس کی ماں، ۴۲ سالہ مینا دیوی، اپنے پانچ بچوں – ۱۳ اور ۱۷ سال کے دو بیٹے، اور تین بیٹیاں جن کی عمر ۱۰ سال، ۱۵ سال اور ۱۹ سالہ شیوانی کے بارے میں فکرمند ہیں۔ ’’میں دن بھر اپنے بچوں کے بارے میں فکرمند رہتی ہوں۔ مجھے اپنی بیٹیوں کے جہیز کا انتظام کرنا ہے،‘‘ مینا دیوی کہتی ہیں۔ وہ ایک بڑا مکان بھی بنانا چاہتی ہیں – اسبستوس کی چھت والے ان کے اینٹ کے مکان میں سونے کا صرف ایک کمرہ ہے اور یہ فیملی اپنے تین پڑوسی کنبوں کے ساتھ ایک ہی بیت الخلاء کو استعمال کرتی ہے۔ ’’مجھے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جو لڑکیاں [بہوئیں] میرے گھر آئیں انہیں ہر قسم کا آرام ملے اور وہ یہاں بھی خوشی محسوس کریں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان تشویشوں کے درمیان تعلیم کو کم ترجیح دی جا رہی ہوتی اگر شیوانی نے کالج جانے کا تہیہ نہیں کیا ہوتا۔
مینا دیوی، جو خود کبھی اسکول نہیں گئیں، فیملی کی واحد رکن ہیں جو شیوانی کے منصوبوں کی حمایت کر رہی ہیں۔ ’’وہ دیگر خواتین پولیس کو دیکھتی ہے اور ان کے جیسی بننا چاہتی ہے۔ میں اسے کیسے روک سکتی ہوں؟‘‘ وہ سوال کرتی ہیں۔ ’’ماں کے طور پر مجھے کافی فخر ہوگا [اگر وہ پولیس بن جاتی ہے]۔ لیکن ہر کوئی اس کا مذاق اڑاتا ہے، جو مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔‘‘
گاؤں میں کچھ لڑکیوں اور خواتین کے لیے یہ صرف طعنوں تک ہی محدود نہیں ہے۔
سترہ سالہ نیہا کماری کی فیملی میں، شادی کی مخالفت کرنے کا مطلب ہے پٹائی کو دعوت دینا۔ ’’جب بھی شادی کی کوئی نئی تجویز پیش کی جاتی ہے اور میں اس سے منع کر دیتی ہوں، تو میرے والد ناراض ہو جاتے ہیں اور میری ماں کو پیٹتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں اپنی ماں سے بہت زیادہ مانگ رہی ہوں،‘‘ اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ شیئر کیے جانے والے ایک چھوٹے سے کمرے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہے، یہ اس کمرہ سے دور ہے جہاں اس دن دوپہر کو اس کے والد آرام کر رہے تھے۔ کمرے کا ایک کونا نیہا کے مطالعہ کے لیے محفوظ ہے اور کسی کو بھی اس کی نصابی کتابیں چھونے کی اجازت نہیں ہے، وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہے۔
اس کی ماں، نینا دیوی کہتی ہیں کہ مار کھانا معمولی قیمت چکانے جیسا ہے۔ وہ نیہا کی کالج کی پڑھائی کے لیے اپنے زیور تک کو فروخت کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ ’’اگر اسے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور شادی کرنے پر مجبور کیا گیا، تو اس کا کہنا ہے کہ وہ زہر کھاکر مر جائے گی۔ میں ایسا ہوتے ہوئے کیسے دیکھ سکتی ہوں؟‘‘ وہ سوال کرتی ہیں۔ سال ۲۰۱۷ میں ایک حادثہ کے دوران اپنے شوہر کی ٹانگ کٹ جانے اور بطور زرعی مزدور کام چھوڑ دینے کے بعد سے ہی ۳۹ سالہ نینا دیوی اپنی فیملی میں کمانے والی واحد رکن ہیں۔ اس فیملی کا تعلق بھوئیا برادری سے ہے، یہ بھی ایک مہا دلت ذات ہے۔ زرعی مزدوری سے نینا دیوی ہر مہینے تقریباً ۵ ہزار روپے کماتی ہیں، لیکن وہ کہتی ہیں کہ اس سے گھر کا کام نہیں چلتا، اور انہیں اپنے رشتہ داروں سے کچھ مدد مل جاتی ہے جس سے ان کا گزر بسر ہو رہا ہے۔
نینا دیوی کہتی ہیں کہ مار کھانا معمولی قیمت چکانے جیسا ہے۔ وہ نیہا کی کالج کی پڑھائی کے لیے اپنے زیور تک کو فروخت کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ ’اگر اسے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور شادی کرنے پر مجبور کیا گیا، تو اس کا کہنا ہے کہ وہ زہر کھاکر مر جائے گی۔ میں ایسا ہوتے ہوئے کیسے دیکھ سکتی ہوں؟‘ وہ سوال کرتی ہیں
نیہا ۱۲ویں کلاس میں پڑھتی ہے اور اس کا خواب ہے کہ وہ پٹنہ میں کسی دفتر میں کام کرے۔ ’’میری فیملی کے کسی بھی فرد نے دفتر میں کام نہیں کیا ہے – ایسا کرنے والی میں پہلی فرد بننا چاہتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہے۔ اس کی بڑی بہن کی شادی ۱۷ سال کی عمر میں ہو گئی تھی اور ۲۲ سال کی عمر میں اس کے تین بچے ہو گئے۔ اس کے بھائی ۱۹ سال اور ۱۵ سال کے ہیں۔ ’’میں اپنی بہن سے پیار کرتی ہوں، لیکن مجھے اس کے جیسی زندگی نہیں چاہیے،‘‘ نیہا کہتی ہے۔
نیہا، سرائے رنجن تحصیل کے گنگسارا گاؤں – جہاں کی آبادی ۶۸۶۸ ہے (مردم شماری ۲۰۱۱) – کے جس سرکاری اسکول میں پڑھتی ہے، وہ ۱۲ویں کلاس تک ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ اس کی کلاس میں صرف چھ لڑکیاں اور ۱۲ لڑکے زیر تعلیم ہیں۔ ’’۸ویں کلاس کے بعد، اسکول میں لڑکیوں کی تعداد آہستہ آہستہ کم ہونے لگتی ہے،‘‘ انل کمار کہتے ہیں، جو نیہا کے اسکول میں ایک ٹیچر ہیں۔ بعض اوقات اس وجہ سے کہ انہیں کام پر بھیج دیا جاتا ہے، بعض اوقات ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔‘‘
بہار میں، ۴۲ اعشاریہ ۵ فیصد لڑکیوں کی شادی ۱۸ سال سے پہلے کر دی جاتی ہے – یعنی، ملک میں شادی کی قانونی عمر (جیسا کہ بچپن کی شادی کی ممانعت کا قانون ۲۰۰۶ کے تحت لازمی قرار دیا گیا ہے) سے پہلے۔ یہ تعداد، نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ( این ایف ایچ ایس- ۴، ۲۰۱۵-۱۶ ) کے مطابق، ۲۶ اعشاریہ ۸ فیصد کی کل ہند سطح سے کافی زیادہ ہے۔ سمستی پور میں یہ تعداد اور بھی زیادہ ہے، یعنی ۵۲ اعشاریہ ۳ فیصد ۔
نیہا اور شیوانی جیسی لڑکیوں کی تعلیم پر اثر پڑنے کے علاوہ، اس کے اور بھی کئی برے نتائج سامنے آتے ہیں۔ ’’اگرچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بہار میں گزشتہ برسوں میں بار آوری کم ہوئی ہے [ ۲۰۰۵-۰۶ میں ۴ سے گھٹ کر ۲۰۱۵-۱۶ میں ۳ اعشاریہ ۴ اور این ایف ایچ ایس ۲۰۱۹-۲۰ میں ۳]، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جن لڑکیوں کی شادی چھوٹی عمر میں ہو جاتی ہے ان کے زیادہ غریب اور کم غذائیت کا شکار ہونے کا امکان رہتا ہے، اور انہیں صحت کی خدمات سے خارج کر دیا جاتا ہے،‘‘ نئی دہلی کے انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی سینئر ریسرچ فیلو، پورنیما مینن کہتی ہیں، جنہوں نے تعلیم، کم عمر میں شادی اور خواتین اور لڑکیوں کی صحت کے درمیان رشتوں کا مطالعہ کیا ہے۔
منتقلی کو مناسب وقت دینا انتہائی ضروری ہے، مینن مزید کہتی ہیں – اسکول اور شادی کے درمیان وقفہ، دو حمل کے دوران وقفہ۔ ’’ہمیں لڑکیوں کی زندگی میں بڑی تبدیلیوں کے درمیان وقفہ کو بڑھانا ہی پڑے گا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس کی شروعات لڑکیوں کے لڑکی ہونے کے دوران ہی کریں۔‘‘ مینن کا ماننا ہے کہ نقدی کی منتقلی جیسے پروگرام اور خاندانی منصوبہ بندی کے لیے حوصلہ افزا رقم جیسی امداد فراہم کرکے اس قسم کی ضروری دیری پیدا کی جا سکتی ہے اور لڑکیوں کو ان کے مقاصد حاصل کرنے میں مدد کی جا سکتی ہے۔
’’ہمارا ماننا ہے کہ اگر لڑکیوں کی شادی میں دیر کی گئی، تو وہ بہتر طریقے سے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ صحت مند زندگی گزار سکتی ہیں،‘‘ کرن کماری کہتی ہیں، جو سمستی پور کی سرائے رنجن تحصیل میں کام کرنے والے این جی او، جواہر جیوتی بال وکاس کیندر کی پروگرام منیجر ہیں۔ کماری نے کم عمر کی کئی شادیاں رکوائی ہیں اور متعدد فیملی کے ممبران کو یہ سمجھانے میں بھی کامیاب رہی ہیں کہ اگر لڑکی چاہتی ہے تو اس کی شادی میں دیری کریں۔ ’’ہمارا کام کم عمر کی شادی کو روکنے پر ہی ختم نہیں ہوتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ہمارا مقصد لڑکیوں کو اس بات کے لیے پوری طرح آمادہ کرنا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں اور اپنی مرضی کےمطابق زندگی بسر کریں۔‘‘
لیکن مارچ ۲۰۲۰ میں وبائی مرض کے سبب لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے، والدین کو راضی کرنا مشکل ہو گیا ہے، کماری کہتی ہیں۔ ’’والدین ہم سے کہتے ہیں: ’ہم اپنی آمدنی کھو رہے ہیں [اور مستقبل کی آمدنی کو لیکر ہم پر اعتماد نہیں ہیں]، اس لیے ہم لڑکیوں کی شادی کرکے کم از کم اپنی ایک ذمہ داری پوری کر لینا چاہتے ہیں‘۔ ہم انہیں منانے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ لڑکیاں بوجھ نہیں ہیں، وہ آپ کی مدد کریں گی۔‘‘
کچھ دنوں کے لیے، ۱۶ سالہ گوری کماری اپنے لیے وقت کو ٹالنے میں کامیاب رہی۔ ۹ سے ۲۴ سال کی عمر کے اپنے سات بھائی بہنوں میں سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے اس کے والدین – اس فیملی کا تعلق بھی بھوئیا ذات سے ہے – نے کئی بار اس کی شادی کرنے کی کوشش کی۔ ہر بار وہ انہیں اس بات کے لیے راضی کرنے میں کامیاب رہی کہ وہ ابھی کچھ دن اور انتظار کریں۔ لیکن مئی ۲۰۲۰ میں، وہ اتنی خوش قسمت نہیں رہی۔
ایک دن صبح کو سمستی پور میں اپنے گاؤں، مہولی دامودر کے باہر بس اسٹینڈ کے قریب بھیڑ بھاڑ والے بازار میں بات کرتے ہوئے، گوری نے سلسلہ وار ان واقعات کو بیان کیا جس کے بعد اس کی شادی کر دی گئی۔ ’’سب سے پہلے میری والدہ میری شادی بیگوسرائے کے ایک ناخواندہ لڑکے کے ساتھ کروانا چاہتی تھیں، لیکن میں اپنی طرح کسی تعلیم یافتہ شخص سے شادی کرنا چاہتی تھی،‘‘ وہ کہتی ہے۔ ’’میں نے جب انہیں خود کشی کر لینے اور جواہر جیوتی سے سر اور میڈم کو بلانے کی دھمکی دی، تب جا کر انہوں نے اپنا ارادہ ترک کیا۔‘‘
لیکن گوری کا انکار اور پولیس کو بلانے کی دھمکی زیادہ دنوں تک کام نہ آسکی۔ پچھلے سال مئی میں، اس کی فیملی نے کالج میں پڑھنے والے ایک لڑکے کو تلاش کر لیا اور گوری کی شادی صرف چند لوگوں کی موجودگی میں کر دی گئی۔ یہاں تک کہ خود اس کے والد، جو ممبئی کے ہول سیل مارکیٹ میں یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں، لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس شادی میں شریک نہیں ہو سکے۔
’’مجھے افسوس ہے کہ میں اس حالت میں ہوں۔ میں نے واقعی میں یہی سوچا تھا کہ میں تعلیم حاصل کروں گی اور کوئی اہم شخص بنوں گی۔ لیکن اب بھی، میں ہار نہیں ماننا چاہتی۔ میں ایک دن ٹیچر بنوں گی،‘‘ وہ کہتی ہے، ’’تاکہ میں نوجوان لڑکیوں کو یہ سمجھا سکوں کہ ان کا مستقبل خود ان کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز