جموں و کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع کے وزیری تھل گاؤں میں اپنے دوسرے بچے کی پیدائش کا تجربہ بیان کرتے ہوئے ۲۲ سالہ شمینہ بیگم کہتی ہیں، ’’اس شام جب میری پانی کی جھلی پھٹ گئی، تو مجھے کافی درد ہونے لگا تھا۔ گزشتہ تین دنوں سے برف باری ہو رہی تھی۔ جب بھی برف باری ہوتی ہے، تو کئی دنوں تک سورج نہیں نکلتا ہے۔ ایسے میں ہمارے سولر پینل چارج نہیں ہوتے ہیں۔‘‘ بانڈی پورہ کا یہ وہ گاؤں ہے جہاں سورج کئی دنوں تک، یا باقاعدگی سے نہیں نکلتا ہے۔ وہاں کے لوگ توانائی حاصل کرنے کے اپنے واحد ذریعہ، شمسی توانائی پر انحصار کرتے ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے شمینہ کہتی ہیں، ’’مٹی کے تیل (کیروسین) سے جلنے والے لالٹین کی روشنی کے علاوہ ہمارا پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس لیے، اس دن شام کو پڑوس کی عورتیں اپنی اپنی لالٹینیں لے کر آ گئیں۔ پھر زرد رنگ کی پانچ شعاعوں نے کمرے کو منور کر دیا جہاں میری ماں نے کسی طرح راشدہ کی پیدائش میں میری مدد کی۔‘‘ یہ اپریل ۲۰۲۲ کی ایک رات کا واقعہ ہے۔

وزیری تھل، بڈوگام گرام پنچایت کے سب سے خوبصورت گاؤوں میں سے ایک ہے۔ لیکن شمینہ کے گھر تک پہنچنے کے لیے سرینگر سے ۱۰ گھنٹے کی ڈرائیو کرنی پڑتی ہے، جس میں رازدان درّہ سے گریز وادی تک ساڑھے چار گھنٹے تک کچی سڑک کا سفر، نصف درجن چیک پوسٹ، اور آخری ۱۰ منٹ کے پیدل سفر سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں پہنچنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔

لائن آف کنٹرول سے چند میل کے فاصلے پر واقع وادی گریز کے اس گاؤں میں دیودار کی لکڑی سے بنے گھر ہیں، جن میں ۲۴ کنبے آباد ہیں۔ حری حجز (تھرمل انسولیشن) کے لیے گھروں میں اندر سے مٹی کی لیپ لگائی گئی ہے۔ سبز رنگ میں رنگے یاک کے پرانے سینگ (کبھی اصلی اور کبھی لکڑی کی نقل) مرکزی دروازوں کی زینت بنتے ہیں۔ تقریباً سبھی کھڑکیاں سرحد کی دوسری جانب دیکھتے ہوئے کھلتی ہیں۔

شمینہ اپنے گھر کے باہر لکڑی کے ڈھیر پر اپنے دو بچوں، دو سالہ فرحاز اور چار ماہ کی راشدہ (نام بدل دیے گئے ہیں)، کے ساتھ بیٹھی شام کے سورج کی آخری کرنوں میں نہا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میری ماں مجھ جیسی نئی ماؤں سے کہتی ہیں کہ وہ روزانہ صبح اور شام کو اپنے نومولود بچوں کے ساتھ دھوپ میں بیٹھیں۔‘‘ ابھی اگست ہے۔ برف نے ابھی تک وادی پر اپنا تسلط قائم نہیں کیا ہے۔ لیکن اب بھی بعض اوقات مطلع ابر آلود رہتا ہے، کبھی کبھار بارش آجاتی ہے، اور ہم کئی روز تک سورج اور بجلی کے بغیر رہتے ہیں۔

Shameena with her two children outside her house. Every single day without sunlight is scary because that means a night without solar-run lights. And nights like that remind her of the one when her second baby was born, says Shameena
PHOTO • Jigyasa Mishra

شمینہ اپنے دو بچوں کے ساتھ اپنے گھر کے باہر بیٹھی ہوئی ہیں۔ سورج کی روشنی کے بغیر ہر ایک دن خوفناک ہوتا ہے، کیونکہ اس کا مطلب ہے شمسی توانائی سے جلنے والی روشنیوں کے بغیر رات گزارنا۔ اورشمینہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی راتیں انہیں اس رات کی یاد دلاتی ہیں جب ان کے دوسرے بچہ کی ولادت ہوئی تھی

وزیری تھل میں ہی رہنے والے ۲۹ سالہ محمد امین کہتے ہیں، ’’ہم نے صرف دو سال قبل، ۲۰۲۰ میں بلاک آفس کے ذریعے سولر پینل حاصل کیے تھے۔ اس وقت تک ہمارے پاس صرف بیٹری سے جلنے والی لائٹیں اور لالٹینیں تھیں۔ لیکن یہ [سولر پینلز] اب بھی ہمارے مسائل حل نہیں کرتے۔‘‘

امین آگے کہتے ہیں، ’’بڈوگام بلاک کے دیگر گاؤوں کو جنریٹروں کے ذریعے سات گھنٹے تک بجلی فراہم کی جاتی ہے، اور یہاں ہمارے پاس ۱۲ وولٹ کی بیٹری ہے جو سولر پینلوں سے چلتی ہے۔ اس کے استعمال سے ہر گھر میں دو دن تک  دو بلب جل سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ دو فون چارج کیے جا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر دو دن سے زیادہ مسلسل بارش یا برف باری ہوئی، تو سورج کی روشنی نہیں ملتی ہے، نتیجتاً ہمارے یہاں [بجلی کی] روشنی نہیں ہوتی ہے۔‘‘

یہاں اکتوبر اور اپریل کے درمیان چھ مہینوں کی طویل سردیوں کے دوران ہونے والی شدید برف باری لوگوں کو ۱۲۳ کلومیٹر دور واقع گاندر بل اور تقریباً ۱۰۸ کلومیٹر دور سرینگر اضلاع میں منتقل ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔ شمینہ کی پڑوسن آفرین بیگم نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مجھے بتایا: ’’ہم اکتوبر کے وسط یا آخر تک گاؤں چھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ نومبر کے بعد یہاں زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ جس جگہ پر کھڑی ہیں وہ یہاں تک برف سے ڈھک جاتی ہے،‘‘ وہ میرے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر سے دور کسی نئے مقام پر رہائش اختیار کرنے کے لیے ہر چھ ماہ بعد سفر کرنا، اور سردیوں کے بعد واپس گھر لوٹنا۔ بادامی رنگ کی فیرن (ایک لمبا اونی لباس کشمیر کی سردیوں میں لوگوں کو گرم رکھنے میں مدد کرتا ہے) میں ملبوس شمینہ کہتی ہیں، ’’وہاں [گاندر بل یا سرینگر میں] کچھ لوگوں کے اپنے رشتہ دار ہیں جبکہ دوسرے لوگ چھ مہینے کے لیے کوئی جگہ کرایے پر لیتے ہیں۔ یہاں ۱۰ فٹ اونچی برف کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ جب تک کہ سال کا وہ وقت نہیں آ جاتا ہے ہم بمشکل گاؤں سے باہر نکلتے ہیں۔‘‘

شمینہ کے ۲۵ سالہ شوہر، غلام موسیٰ خان یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔ اکثر سردیوں میں ان کے پاس کام نہیں ہوتا۔ شمینہ بتاتی ہیں، ’’جب ہم یہاں وزیری تھل میں ہوتے ہیں، تو بڈوگام کے قریب اور کبھی کبھی بانڈی پورہ شہر میں انہیں کام مل جاتا ہے۔ وہ زیادہ تر سڑکوں کی تعمیر کے پروجیکٹوں میں کام کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات انہیں مکانات کی تعمیر میں بھی کام مل جاتا ہے۔ جب کام ملتا ہے، تو انہیں روزانہ تقریباً ۵۰۰ روپے کی آمدنی ہو جاتی ہے۔ لیکن مہینے میں اوسطاً پانچ یا چھ دن بارش کی وجہ سے گھر بیٹھنا پڑتا ہے۔‘‘ شمینہ کے مطابق کام ملنے کے لحاظ سے غلام موسیٰ مہینہ میں تقریباً ۱۰ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔

وہ مزید بتاتی ہیں، ’’لیکن جب ہم گاندر بل جاتے ہیں تو وہاں وہ آٹو رکشہ چلاتے ہیں۔ وہ آٹو رکشہ کرایے پر لے کر سرینگر میں چلاتے ہیں، جہاں موسم سرما میں ہر جانب سے سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس سے بھی ان کی آمدنی کم و بیش اتنی ہی [یعنی ۱۰ ہزار روپے ماہانہ] ہو جاتی ہے، لیکن ہم وہاں کچھ بچا نہیں پاتے ہیں۔‘‘ گاندر بل میں ٹرانسپورٹ کی سہولت وزیری تھل کے مقابلے بہتر ہے۔

Houses in the village made of deodar wood
PHOTO • Jigyasa Mishra
Yak horns decorate the main entrance of houses in Wazirithal, like this one outside Amin’s house
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: گاؤں میں دیودار کی لکڑی سے تعمیر شدہ گھر۔ دائیں: یاک کے سینگ سے وزیری تھل میں گھروں کے مرکزی دروازے کو سجایا جاتا ہے، جیسا کہ یہ امین کے گھر کے باہر نظر آ رہا ہے

شمینہ کہتی ہیں، ’’ہمارے بچے وہیں [گاندر بل میں] رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہاں الگ الگ طرح کے کھانے ملتے ہیں۔ بجلی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن وہاں ہمیں کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب ہم یہاں [وزیری تھل میں] رہتے ہیں، تو کچھ بچت بھی کر لیتے ہیں۔‘‘ گاندربل میں جو رقم وہ کھانے پینے کی چیزوں پر خرچ کرتے ہیں اس سے ان کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ وزیری تھل میں شمینہ کم از کم ایک کچن گارڈن بنا سکتی ہیں، جو کنبے کی سبزیوں کی ضروریات کو پوری کرسکتا ہے۔ اور جس گھر میں وہ رہتے ہیں وہ ان کا اپنا ہے۔ جبکہ گاندر بل میں انہیں کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے، جس پر ہر مہینے ۳۰۰۰ سے ۳۵۰۰ روپے کا خرچ آتا ہے۔

شمینہ ’پاری‘ کو بتاتی ہیں، ’’یقیناً وہاں کے گھر اتنے بڑے نہیں ہیں جتنے بڑے یہاں ہیں، لیکن وہاں اچھے ہسپتال ہیں اور سڑکیں بھی بہتر ہیں۔ قیمت ادا کرنے پر وہاں ہر چیز دستیاب ہے۔ بحیثیت مجموعی وہ ہمارا گھر نہیں ہے۔‘‘ اخراجات کی وجہ سے ہی اس فیملی کو ملک گیر لاک ڈاؤن کے دنوں میں ہی، شمینہ کے پہلے حمل کی آخری سہ ماہی کے دوران واپس وزیری تھل کا سفر کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

شمینہ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’جب مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو میں سات ماہ کی حاملہ تھی؛ فرحاز پیٹ میں تھا۔ وہ وبائی مرض کی پیداوار ہے۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں، ہم نے ایک گاڑی کرایہ پر لی اور گھر آ گئے کیونکہ گاندر بل میں بغیر کسی آمدنی کے زندگی مشکل ہو رہی تھی، اوپر سے وہاں کھانے پینے اور کرایہ پر بھی خرچ کرنا پڑتا تھا۔‘‘

وہ آگے بتاتی ہیں، ’’وہاں سیاح نہیں تھے۔ میرے شوہر کی کوئی آمدنی نہیں ہو رہی تھی۔ ہمیں اپنی دواؤں اور کھانے پینے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے رشتہ داروں سے کچھ قرض لینے پڑے تھے، حالانکہ بعد میں انہیں واپس کر دیا تھا۔ ہمارے مالک مکان کے پاس اپنی گاڑی تھی۔ میری حالت دیکھ کر ہمیں ۱۰۰۰ روپے اور پٹرول کی قیمت کے عوض انہوں نے اپنی گاڑی استعمال کرنے دیا۔ اس طرح ہم گھر واپس لوٹے تھے۔‘‘

لیکن ادھر وزیری تھل میں مسئلہ صرف بجلی کی غیرمستقل فراہمی کا ہی نہیں ہے، بلکہ گاؤں کے گرد و نواح میں سڑکوں اور صحت کی نگہداشت کی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ وزیری تھل سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) ہے، لیکن طبی عملے کی خالی آسامیوں کی وجہ سے یہاں نارمل ڈیلیوری کے لیے بھی سازوسامان اور مہارت دستیاب نہیں ہے۔

وزیری تھل کی ایک آنگن واڑی کارکن، ۵۴ سالہ راجہ بیگم پوچھتی ہیں، ’’بڈوگام پی ایچ سی میں صرف ایک نرس ہے۔ وہ ڈلیوری کہاں کرائیں گے؟‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’خواہ کوئی ہنگامی صورت ہو، مس کیرج ہو، یا اسقاط حمل ان سارے حالات میں انہیں سیدھے گریز جانا پڑتا ہے۔ اور اگر آپریشن کی ضرورت پیش آتی ہے تو سرینگر کے لال دید ہسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ یہ گریز سے تقریباً ۱۲۵ کلومیٹر دور ہے اور خراب موسم میں یہاں تک پہنچنے میں نو گھنٹے تک لگ سکتے ہیں۔‘‘

Shameena soaking in the mild morning sun with her two children
PHOTO • Jigyasa Mishra
Raja Begum, the anganwadi worker, holds the information about every woman in the village
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: شمینہ اپنے دو بچوں کے ساتھ صبح کی ہلکی دھوپ سینک رہی ہیں۔ دائیں: آنگن واڑی کارکن راجہ بیگم، جو گاؤں کی ہر عورت کے بارے میں معلومات رکھتی ہیں

شمینہ کہتی ہیں کہ گریز سی ایچ سی تک سڑکیں خراب ہیں۔ ’’ہسپتال آنے جانے کے ایک طرف کے سفر میں دو گھنٹے لگتے ہیں،‘‘ ۲۰۲۰ میں اپنے حمل کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے شمینہ کہتی ہیں۔ ’’اور پھر ہسپتال [ای ایچ سی] میں میرے ساتھ کیا ہوا! وہاں ایک صفائی کرمچاری نے بچے کی پیدائش میں میری مدد کی تھی۔ ڈیلیوری کے دوران یا بعد میں ایک دفعہ بھی کوئی ڈاکٹر میرا معائنہ کرنے نہیں آیا تھا۔‘‘

گریز کے پی ایچ سی اور سی ایچ سی دونوں طویل عرصے سے طبی افسران اور ماہرین بشمول فَزيشَین، ماہر امراض نسواں اور ماہر امراض اطفال کی شدید کمی سے دوچار ہیں۔ ریاستی میڈیا میں اس پر کافی چرچہ ہوئی ہے۔ راجہ بیگم کہتی ہیں کہ پی ایچ سی صرف ابتدائی طبی امداد اور ایکسرے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس سے آگے کسی بھی مرض کے لیے، مریض کو ۳۲ کلو میٹر دور گریز میں واقع سی ایچ سی بھیجا جاتا ہے۔

لیکن گریز کے سی ایچ سی کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ بلاک میڈیکل آفیسر کی رپورٹ (جسے ستمبر ۲۰۲۲ میں سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا تھا) میں کہا گیا ہے کہ بلاک میں ۱۱ میڈیکل آفیسرز، ۳ ڈینٹل سرجن، ۳ ماہرین بشمول ایک فزیشین، ایک ماہر امراض اطفال اور ایک ماہر امراض نسواں کی آسامیاں خالی ہیں۔ یہ صورت حال نیتی آیوگ کی ہیلتھ انڈیکس رپورٹ کی نفی کرتی ہے جس میں خالی عہدوں کو پر کرنے میں آئی بہتری کی بات کی گئی ہے۔

شمینہ کے گھر سے صرف ۵ سے ۶ مکانوں کے فاصلے پر رہنے والی ۴۸ سالہ آفرین کی اپنی ایک الگ کہانی ہے۔ ’’جب مجھے مئی ۲۰۱۶ میں بچے کی پیدائش کے لیے گریز کے سی ایچ سی میں جانا پڑا، تو میرے شوہر نے مجھے اپنی پیٹھ پر لاد کر مجھے سواری گاڑی تک پہنچایا تھا۔ ظاہر ہے میرا چہرہ مخالف سمت میں تھا۔ میرے لیے ۳۰۰ میٹر دور اس مقام تک پہنچنے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا، جہاں کرایے پر لی گئی سومو انتظار کر رہی تھی،‘‘ ہندی ترجمان کے ساتھ کشمیری زبان میں بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں۔ ’’یہ پانچ سال پہلے کی بات ہے، لیکن صورت حال اب بھی وہی ہے۔ اب ہماری دایہ بھی بوڑھی ہو رہی ہیں اور اکثر بیمار رہتی ہیں۔‘‘

آفرین جس دایہ کا ذکر کر رہی ہیں وہ شمینہ کی ماں ہیں۔ شمینہ کہتی ہیں، ’’اپنی پہلی ڈیلیوری کے بعد میں نے فیصلہ کیا تھا کہ مستقبل میں، میں گھر پر ہی بچے کو جنم دوں گی۔ اور اگر میری ماں نہ ہوتیں تو شاید دوسرے حمل کے دوران پانی کی جھلی کے پھٹنے کے بعد میں زندہ نہ بچتی۔ وہ ایک دایہ ہیں اور انہوں نے گاؤں کی بہت سی عورتوں کی مدد کی ہے۔‘‘ ہم جہاں ہیں وہاں سے بمشکل ۱۰۰ میٹر کے فاصلہ پر شمینہ نے ایک بوڑھی خاتون کی طرف اشارہ کیا جو اپنی گود میں ایک ننھے بچے کو لیے کوئی گیت گا رہی تھیں۔

Shameena with her four-month-old daughter Rashida that her mother, Jani Begum, helped in birthing
PHOTO • Jigyasa Mishra
Jani Begum, the only midwife in the village, has delivered most of her grand-children. She sits in the sun with her grandchild Farhaz
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: شمینہ اپنی چار ماہ کی بیٹی راشدہ کے ساتھ، جس کی پیدائش میں ان کی ماں جانی بیگم نے مدد کی تھی۔ دائیں: گاؤں کی اکلوتی دایہ جانی بیگم نے اپنے زیادہ تر نواسوں کی پیدائش میں مدد کی ہے۔ وہ اپنے نواسے فرحاز کے ساتھ دھوپ میں بیٹھی ہیں

شمینہ کی والدہ، ۷۱ سالہ جانی بیگم بھورے رنگ کا فیرن پہنے اپنے گھر کے باہر بیٹھی ہیں۔ گاؤں کی دوسری عورتوں کی طرح ان کا سر بھی اسکارف سے ڈھکا ہوا ہے۔ ان کے چہرے کی جھریاں ان کے طویل تجربے کی گواہی دے رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں گزشتہ ۳۵ برسوں سے یہ کام کر رہی ہوں۔ برسوں پہلے، میری والدہ جب ڈیلیوری کے لیے جاتی تھیں تو مجھے اس میں مدد کے لیے بلاتی تھیں۔ لہٰذا، میں نے مشاہدہ کیا، مشق کیا اور سیکھا۔ مدد کے قابل ہونا ایک نعمت ہے۔‘‘

جانی نے یہاں اپنی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھی ہے، لیکن کچھ سست رفتار تبدیلیوں کا مشاہدہ ضرور کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’آج کل ڈیلیوری میں خطرہ کم ہے، کیونکہ اب خواتین آئرن کی گولیاں اور دیگر تمام مفید سپلیمنٹس لیتی ہیں، لیکن پہلے ایسا نہیں تھا۔ ہاں، ایک اور تبدیلی ضرور آئی ہے، لیکن یہ بھی دوسرے گاؤں کی طرح نہیں ہے۔ ہماری لڑکیاں اب تعلیم حاصل کر رہی ہیں، لیکن صحت کی نگہداشت کی اچھی سہولیات کے حوالے سے آج بھی ان کی رسائی محدود ہے۔ ہمارے پاس ہسپتال تو ہیں لیکن ہنگامی صورت حال میں وہاں تک پہنچنے کے لیے کوئی سڑک نہیں ہے۔‘‘

جانی کا کہنا ہے کہ گریز سی ایچ سی بہت دور ہے اور وہاں پہنچنے کا مطلب ہے کم از کم ۵ کلومیٹر کا پیدل سفر۔ ۵ کلومیٹر چلنے کے بعد وہاں پہنچنے کے لیے کوئی عوامی سواری ملتی ہے۔ آپ صرف آدھا کلومیٹر پیدل چل کر کوئی نجی گاڑی حاصل کر سکتے ہیں، لیکن یہ بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔

جانی بتاتی ہیں، ’’دوسرے حمل کے دوران تیسری سہ ماہی میں شمینہ بہت کمزور ہو گئی تھی۔  ہم نے اپنی آنگن واڑی کارکن کے کہنے پر ہسپتال جانے کا فصیلہ کیا، لیکن میرے داماد کام کی تلاش میں باہر نکلے ہوئے تھے۔ یہاں گاڑی حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ اگر کوئی گاڑی مل بھی جاتی ہے، تو لوگوں کو حاملہ خاتون کو گاڑی تک اٹھا کر لے جانا پڑتا ہے۔‘‘

آفرین بلند آواز میں جانی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’جب وہ نہیں رہیں گی تو ہمارے گاؤں کی عورتوں کا کیا ہوگا؟ ہم کس پر بھروسہ کریں گے؟‘‘ شام ڈھل چکی ہے۔ شمینہ رات کے کھانے کی تیاری کے سلسلے میں اپنے گھر کے باہر جھاڑیوں میں انڈے تلاش کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مرغیاں اپنے انڈے چھپا دیتی ہیں۔ مجھے انڈے کا سالن بنانے کے لیے انہیں ڈھونڈنا ہے، ورنہ آج رات پھر راجما اور چاول کھانا پڑے گا۔ یہاں کچھ بھی آسانی سے نہیں ملتا۔ جنگل کے درمیان آباد یہ گاؤں اپنے گھروں کے ساتھ ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے، لیکن جب آپ قریب آئیں گے تب آپ کو ہماری زندگیوں کی اصلیت معلوم ہو جائے گی۔‘‘

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

مترجم: شفیق عالم

Jigyasa Mishra

ਜਗਿਆਸਾ ਮਿਸ਼ਰਾ ਉੱਤਰ ਪ੍ਰਦੇਸ਼ ਦੇ ਚਿਤਰਾਕੂਟ ਅਧਾਰਤ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Jigyasa Mishra
Editor : Pratishtha Pandya

ਪ੍ਰਤਿਸ਼ਠਾ ਪਾਂਡਿਆ PARI ਵਿੱਚ ਇੱਕ ਸੀਨੀਅਰ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਜਿੱਥੇ ਉਹ PARI ਦੇ ਰਚਨਾਤਮਕ ਲੇਖਣ ਭਾਗ ਦੀ ਅਗਵਾਈ ਕਰਦੀ ਹਨ। ਉਹ ਪਾਰੀਭਾਸ਼ਾ ਟੀਮ ਦੀ ਮੈਂਬਰ ਵੀ ਹਨ ਅਤੇ ਗੁਜਰਾਤੀ ਵਿੱਚ ਕਹਾਣੀਆਂ ਦਾ ਅਨੁਵਾਦ ਅਤੇ ਸੰਪਾਦਨ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ। ਪ੍ਰਤਿਸ਼ਠਾ ਦੀਆਂ ਕਵਿਤਾਵਾਂ ਗੁਜਰਾਤੀ ਅਤੇ ਅੰਗਰੇਜ਼ੀ ਵਿੱਚ ਪ੍ਰਕਾਸ਼ਿਤ ਹੋ ਚੁੱਕਿਆਂ ਹਨ।

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam