رشیدہ بیگم محض ۸ سال کی تھیں، جب ۱۸ فروری ۱۹۸۳ کو نیلی قتل عام ہوا تھا۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’انہوں نے چاروں طرف سے لوگوں کو گھیر لیا اور انہیں ایک طرف بھاگنے کو مجبور کر دیا۔ لوگ بھالے (نیزہ) چلا رہے تھے؛ کچھ لوگوں کے پاس بندوقیں بھی تھیں۔ اس طرح سے انہوں نے لوگوں کا قتل کیا۔ کچھ لوگوں کی گردن کٹ گئی تھی، کچھ لوگوں کے سینے پر وار کیا گیا تھا۔‘‘
اُس دن، وسط آسام کے موری گاؤں ضلع کے نیلی علاقے میں محض ۶ گھنٹوں کے اندر ہزاروں بنگالی مسلمانوں کا قتل کر دیا گیا۔ الیسنگا، بسون دھاری جلاہ، بوربوری، بھُگدوبا بل، بھُگدوبا ہبی، کھلا پاتھر، ماٹی پربت، مولا دھاری، نیلی اور سلبھیٹا جیسے گاؤوں اس قتل عام سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ آفیشل رپورٹوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تقریباً ۲۰۰۰ تھی، لیکن غیر آفیشل اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ۳۰۰۰-۵۰۰۰ لوگ مارے گئے تھے۔
رشیدہ، جنہیں گھر پر رومی نام سے بلایا جاتا ہے، اس قتل عام سے بال بال بچی تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنی چار چھوٹی بہنوں کو مرتے ہوئے اور اپنی ماں کو بری طرح زخمی ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’انہوں نے مجھ پر بھالے سے حملہ کیا اور میری کمر میں گولی مار دی۔ ایک گولی میرے پیر میں لگی تھی۔‘‘
یہ قتل عام ۱۹۷۹ سے ۱۹۸۵ کے درمیان آسام میں باہر سے آئے لوگوں کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد کے دور میں ہوا تھا۔ اس کی قیادت آل آسام اسٹوڈنٹ یونین (آسو) اور اس کے معاونین نے کی تھی۔ وہ ریاست سے غیر قانونی مہاجرین کو باہر نکالنے اور ان کا نام ووٹر لسٹ سے ہٹانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
فروری ۱۹۸۳ میں، اندرا گاندھی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے آل آسام اسٹوڈنٹ یونین جیسی تنظیموں اور عام لوگوں کے کچھ حلقوں کی مخالفت کے باوجود آسام میں اسمبلی انتخابات کرانے کی اپیل کی۔ آسو نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ پھر بھی، بنگالی مسلمانوں میں سے کچھ نے ۱۴ فروری کو ہوئے انتخابات میں ووٹ ڈالے۔ یہ گروپ طویل عرصے سے غیر ملکی پہچان کے ساتھ جی رہا تھا، اور انہیں جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ان کے لیے ووٹنگ میں حصہ لینے کا مطلب تھا کہ وہ خود کو ہندوستان کا شہری ثابت کر سکتے تھے اور شہریت کے حق پر اپنے دعویٰ کا اظہار کر سکتے تھے۔ حالانکہ، ایسا مانا جاتا ہے کہ ۱۸ فروری کو ان کی برادری کے خلاف ہونے والے تشدد کی فوری وجہ بھی یہی تھی۔
رومی کہتی ہیں، ’’ایک وقت پر میں بھی غیر ملکیوں کے خلاف تحریک میں شامل ہوئی تھی۔ میں بہت چھوٹی تھی، اور ان سب کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے مجھے غیر ملکی بنا دیا ہے، کیوں کہ میرا نام این آر سی میں نہیں ہے۔‘‘ آسام میں ۲۰۱۵ اور ۲۰۱۹ کے درمیان شہریت کی پہچان کے لیے این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) کو اپ ڈیٹ کرنے کی مہم چلائی گئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کل ۱۹ لاکھ لوگوں کو شہریوں کی فہرست سے باہر کر دیا گیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’میری ماں، میرے والد، میرے بھائی بہن، سب کا نام اس میں ہے۔ یہاں تک کہ میرے شوہر اور بچوں کا نام بھی ہے۔ میرا نام کیوں نہیں ہے اس میں؟‘‘
دہائیوں سے بنگالی مسلمانوں اور کچھ بنگالی ہندوؤں کی شہریت پر شک و شبہ کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اسے برطانوی نو آبادیات اور ہندوستان کی تقسیم سے جوڑا جا سکتا ہے۔ رومی آج بھی خود کو انھیں سوالوں سے گھرا ہوا پاتی ہیں، جس سے ان کا سامنا محض ۸ سال کی عمر میں ہوا تھا۔
یہ ویڈیو ’فیسنگ ہسٹری اینڈ اَورسیلف‘ کا حصہ ہے، جسے سُبشری کرشنن نے تیار کیا ہے۔ فاؤنڈیشن پروجیکٹ کو انڈیا فاؤنڈیشن فار دی آرٹس کے ذریعے اپنے آرکائیوز اینڈ میوزیمس پروگرام کے تحت پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کی مدد سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ گوئتھے انسٹی ٹیوٹ/میکس مولر بھون، نئی دہلی کا بھی اس پروجیکٹ میں جزوی تعاون شامل ہے۔ شیرگل سندرم آرٹس فاؤنڈیشن نے بھی اس پروجیکٹ کو اپنا تعاون دیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز