اپنے دو کمروں کے کچے مکان کے دروازے پر چٹائی پر بیٹھیں کانتی دیب گرو اور ان کی بیٹی دھن متی، لال سوت میں دھان کے دانے پرونے میں مگن ہیں۔ اس کے بعد وہ اسے بانس کی تراشی ہوئی ایک کمانی پر باندھیں گی اور انہیں ایک ساتھ سلائی کر کے مالا بنائیں گی۔ کانتی کے شوہر گوپی ناتھ دیب گرو اسے لکشمی کی مورتی بنانے کے لیے استعمال میں لائیں گے۔
گوپی ناتھ ایک تار کا ساز لیے گھر سے باہر نکلتے ہیں۔ کانتی اور دھن متی دھان کی مالا بناتی رہتی ہیں، وہ تار کو چھیٹر دیتے ہیں اور لکشمی پُران کے بند گا کر سنانے لگتے ہیں۔ ۳۵ سالہ کانتی بتاتی ہیں، ’’ہم دھان کے دانوں سے اناج کی دیوی، لکشمی کی مورتی بنانے کی روایت پر عمل کرتے ہیں اور ان کی شان میں گیت گاتے ہیں۔‘‘ وہ اور ان کا کنبہ روایتی مغنیوں کی دیب گرو یا دیو گُنیا برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اور اوڈیشہ کے نوا پاڑہ ضلع کے کھڈ پیجا گاؤں میں آباد ہیں۔
مجھے تاڑ کے پتوں پر لکھے متن کا مخطوطہ دکھاتے ہوئے ۴۱ سالہ گوپی ناتھ کہتے ہیں کہ دیب گروؤں نے اپنے آباء و اجداد سے لکشمی پران سیکھے ہیں۔ لکشمی پران ۱۵ویں صدی کی ایک نظم ہے، جس کی تخلیق بلرام داس نے کی تھی۔ لکشمی پران کی کہانی دیوی لکشمی کی دیومالا اور بھگوان جگن ناتھ سے ان کی شادی کے گرد گھومتی ہے اور اس سے منسلک رسومات اور اپواس کو بیان کرتی ہے۔ گوپی ناتھ ایک تار والی لکشمی وینا (جسے برہم وینا یا دیب گرو بان بھی کہا جاتا ہے) کو بجاتے ہوئے یہ نظم گا کر سناتے ہیں۔ دیب گرو لوکی اور تقریباً تین فٹ لمبے بانس کے ڈنڈے سے اس ساز کو تیار کرتے ہیں۔
لکشمی پُران گانے کے علاوہ دیب گرو کنبے کے مرد دیوی کی پوجا کے لیے مورتیاں اور ان رسومات میں استعمال ہونے والی دیگر اشیاء بھی ہاتھ سے تیار کرتے ہیں۔ ان میں مندر کی شکل کے چبوترے، کھلونوں کے سائز کے رتھ اور پالکیاں، کلس اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔ یہ چیزیں کنبے کی عورتوں کے ذریعہ تیار کردہ دھان کی مالاؤں سے بنائی جاتی ہیں۔ وہ من (دھان کے وزن کا پیمانہ)، پنکھے، کمل کی شکل والی اشیاء، پھولوں کے گلدستے اور ہاتھی کے چھوٹے مجسمے بھی بناتے ہیں۔ کانتی کہتی ہیں، ’’ہمیں یہ روایت [جسے دھان کلا یا دھان لکشمی کے نام سے جانا جاتا ہے] اپنے آباؤ اجداد سے ملی ہے۔‘‘
یہ مغنی لکشمی پُران کے کچھ حصوں کو گا کر سناتے ہوئے سال بھر نوا پاڑہ ضلع کے دیہاتوں میں گھومتے ہیں۔ کہانی کا بیان عام طور پر تین گھنٹے تک جاری رہتا ہے، لیکن مارگسیرا مہینے (نومبر-دسمبر) میں اس کا دورانیہ ۴ سے ۵ گھنٹے تک ہو سکتا ہے۔ دیب گرو درس بھی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے شاگرد عموماً ان گھرانوں کی شادی شدہ عورتیں ہوتی ہیں جہاں وہ جاتے ہیں۔ وہ انہیں اپواس اور دیوی سے منسلک دیگر رسومات کی ادائیگی اور بعض اوقات لکشمی پران سوانگ سکھاتے ہیں، جو متن پر مبنی ایک ڈرامہ ہے۔
گوپی ناتھ کہتے ہیں، ’’کام مشکل ہے لیکن ہم اپنی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے یہ کام کرتے ہیں۔ ہم لکشمی پران گاتے اور دیب گرو بان بجاتے ہوئے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کا سفر کرتے ہیں۔ ہم مورتیوں اور دیگر اشیاء کو گھر والوں کو تحفے [پرساد] کے طور پر پیش کرتے ہیں اور انہیں دیوی کی پوجا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘‘
کچھ عقیدت مند دیب گروؤں کے لائے ہوئے بتوں اور رسومات سے متعلق اشیاء کو قبول کرتے ہیں۔ پیش کی گئی شے کی سائز کی بنیاد پر انہیں ۵۰ روپے سے ۱۰۰ روپے ملتے ہیں یا پھر اناج، دالیں اور سبزیاں ملتی ہیں۔ لیکن دیب گروؤں کا کہنا ہے کہ وہ معاوضے کے طور پر کسی خاص چیز پر اصرار نہیں کرتے ہیں۔ ’’اگر وہ حوصلہ افزائی کرتی ہے اور لکشمی کی بھکت بن جاتی ہے، تو ہمیں ہمارا معاوضہ مل جاتا ہے،‘‘ یہ کہنا ہے گوپی ناتھ کے کزن، جن کی عمر ۶۰ سال ہے اور جن کا نام بھی گوپی ناتھ ہے۔ وہ بھی اپنے کنبے کے ساتھ کھڈ پیجا گاؤں میں رہتے ہیں۔ یہ گاؤں نوا پاڑہ کے کھریار بلاک میں واقع ہے۔
نوا پاڑہ ضلع میں سفری مغنی لکشمی پران کے کچھ حصوں کا بیان کر رہے ہیں۔ ہر بیان کا دورانیہ تقریباً تین گھنٹے کا ہوتا ہے
کانتی تین دنوں میں تقریباً ۴۰ مالائیں تیار کرتی ہیں اور گوپی ناتھ ایک دن میں ۱۰ مورتیاں بنا لیتے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ عام طور پر بھیک میں وصول کیے گئے دھان کا استعمال کرتے ہیں۔ بانس کے ڈنٹھل گاؤں کے کسانوں سے یا کھڈ پیجا سے ہی دریا کے قریب سے منگوائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات کانتی مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم (منریگا) کے تحت اینٹوں کے بھٹوں اور تعمیراتی مقامات پر بھی کام کرتی ہیں۔ دسمبر میں فصل کی کٹائی کے دوران وہ گاؤں کے کسانوں کے لیے دھان کے کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں۔
دیب گرو کے صرف دو کنبے (گوپی ناتھ اور ان کے کزنز کے) کھڈ پیجا میں آباد ہیں۔ بڑے گوپی ناتھ کا کہنا ہے کہ نوا پاڑہ میں اس برادری کے صرف ۴۰ کنبے آباد ہیں، جو اوڈیشہ میں دیگر پس ماندہ طبقے (او بی سی) کے طور پر درج ہیں۔
ماضی میں دیب گروؤں کو بنیادی طور پر نچلی ذات کے ہندو خاندان ہی لکشمی پُران کے بیان کے لیے مدعو کیا کرتے تھے۔ اونچی ذات کی خواتین دیب گروؤں سے زیادہ تر لکشمی کی مورتیاں خریدتی تھیں، خاص طور پر مارگسیرا مہینے کے دوران۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی روایت کو دلت اور آدیواسی برادریوں میں بھی قبولیت ملی ہے۔ (ان کا متن چھواچھوت کی برائی کے خلاف بولتا ہے۔)
گوپی ناتھ صبح اپنی سائیکل پر نکلتے ہیں اور شام تک گھر واپس لوٹتے ہیں۔ لیکن اگر ان کی منزل دور ہے تو وہ ایک دو دن ادھر ہی رک جاتے ہیں۔ ان کے کزن، بڑے گوپی ناتھ، اپنی سیکنڈ ہینڈ موپیڈ پر زیادہ آسانی سے سفر کرتے ہیں۔
ماضی میں کانتی اپنے شوہر کے ساتھ سفر پر جاتی تھیں۔ یہ سلسلہ تقریباً ۷-۸ سال پہلے اس وقت منقطع ہوگیا، جب انہوں نے اپنے بچوں (۱۳ سالہ دھن متی اور ۱۰ سالہ بھومی سوت) کو کھڈ پیجا کے سرکاری اسکول میں داخل کرایا تھا۔ کانتی کہتی ہیں، ’’ہم نے انہیں اسکول بھیجا کیونکہ تعلیم اب مفت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ تعلیم حاصل کریں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارا روایتی ہنر بھی سیکھیں کیونکہ یہ ہمیں ایک شناخت فراہم کرتا ہے۔‘‘ اسکول کی مڈ ڈے میل اسکیم بھی اس فیصلہ کی ایک وجہ تھی۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی، چار سالہ جمنا، مقامی آنگن واڑی سنٹر میں جاتی ہے۔
دراصل، دیب گروؤں کی دھان کے دستکاری کی روایت اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کانتی کا کہنا ہے کہ اسے حکومت کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ بینک کے قرض اور دیہی رہائش سے متعلق اسکیمیں ان کی دسترس سے دور ہیں۔ کانتی کہتی ہیں، ’’حکومت نے ہمیں کاریگروں کے شناختی کارڈ فراہم کیے ہیں۔ لیکن ان کارڈ کا کیا فائدہ، اگر ان سے کوئی مدد نہ ملے؟‘‘
یہ رپورٹر اس اسٹوری میں مدد کے لیے کھریار میں مقیم سینئر صحافی اجیت کمار پانڈا کی مشکور و ممنون ہیں۔
اس مضمون کا ایک ورژن سب سے پہلے پریس انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے ’گراس روٹس‘ کے ستمبر ۲۰۱۹ کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔
مترجم: شفیق عالم