ماروتی وین بھر چکی ہے اور چلنے کو تیار ہے۔ کسانوں نے ہر خالی جگہ پر قبضہ جما لیا ہے، کچھ تو ایک دوسرے کی گود میں بھی بیٹھ گئے ہیں۔ ان کے تھیلے اور واکنگ اسٹکس (چلنے میں مدد کیلئے استعمال کی جانے والی چھڑی) پچھلی سیٹ سے ملحقہ تنگ جگہ میں رکھے ہوئے ہیں۔
لیکن منگل گھڈگے کی ساتھ والی ایک سیٹ خالی ہے۔ وہ کسی کو وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتیں: یہ ’ریزرو‘ ہے۔ پھر میرابائی لانگے وین کے پاس آتی ہیں اور اس خالی سیٹ پر بیٹھ کر اپنی ساڑی درست کرتی ہیں، اور منگل اپنا باتھ ان کے کندھوں کے گرد رکھ دیتی ہیں۔ دروازہ بند ہو جاتا ہے، اور منگل ڈرائیور سے کہتی ہیں: ’’چل رے‘‘ [چلو]۔
۵۳ سالہ منگل اور ۶۵ سالہ میرابائی کا تعلق ناسک ضلع کے ڈنڈوری تعلقہ کے شندواڈ گاؤں سے ہے۔ حالانکہ یہ کئی دہائیوں سے ایک ہی گاؤں میں رہیں، لیکن پچھلے کچھ برسوں میں انہوں نے اپنے تعلقات مضبوط کئے ہیں۔ منگل کہتی ہیں، ’’گاؤں میں ہم کام اور گھر میں مصروف رہتے ہیں۔ احتجاج کے دوران ہمارے پاس بات کرنے کے لیے زیادہ وقت ہوتا ہے۔‘‘
مارچ ۲۰۱۸ میں ناسک سے ممبئی تک کسانوں کے لانگ مارچ کے دوران دونوں ایک ساتھ تھیں۔ انہوں نے نومبر ۲۰۱۸ میں کسان مکتی مورچہ کے لیے ایک ساتھ دہلی کا سفر کیا تھا۔ اور اب وہ ناسک سے دہلی تک گاڑیوں کی ریلی کے جتھے میں شامل ہیں۔ جب میں نے ان سے احتجاج میں شرکت کی وجہ پوچھی تو منگل نے بتایا، ’’ پوٹا ساتھی [پیٹ کے لیے]۔‘‘
اس سال ستمبر میں مرکزی حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے تین زرعی قوانین کے خلاف دسیوں ہزار کسان قومی دارالحکومت کی سرحدوں کے قریب تین مختلف مقامات پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کی حمایت کرنے اور ان کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے ۲۱ دسمبر کو مہاراشٹر کے تقریباً ۲۰۰۰ کسان ۱۴۰۰ کلومیٹر کا سفر طے کر کے دہلی جانے والے جتھے میں شرکت کے لیے ناسک میں جمع ہوئے ہیں۔ انہیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) سے وابستہ تنظیم آل انڈیا کسان سبھا نے متحرک کیا ہے۔
منگل اور میرابائی بھی پرجوش مظاہرین کے اس گروہ میں شامل ہیں۔
ہلکی سفید رنگ کی ساڑی میں ملبوس اور سر کے گرد پلو ڈالے منگل یہ تاثر دے رہی ہیں کہ احتجا ج سے متعلق انہیں سب کچھ معلوم ہے۔ ۲۱ دسمبر سے چلنے والے جتھے میں شامل ہونے کے لیے جس لمحے وہ دونوں ناسک کے میدان میں داخل ہوئیں، منگل اس ٹیمپو کی تلاش کرنے لگیں جس میں بیٹھ کر انہیں آئندہ چند دن سڑک پر گزارنے ہیں۔ میرا بائی نے ہر طرح کی تفتیش کی ذمہ داری منگل کو سونپ دی ہے۔ منگل کہتی ہیں، ’’میں انتظار کر رہی ہوں۔ یہ واضح طور پر کسان مخالف حکومت ہے۔ ہم [دہلی کی سرحدوں پر] دھرنا دینے والے کسانوں کی تعریف کرتے ہیں اور انہیں اپنا تعاون پیش کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
منگل کی فیملی اپنی دو ایکڑ زمین پر دھان، گندم اور پیاز کی کاشت کرتی ہے، لیکن ان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ زرعی مزدوری ہے۔ زرعی مزدوری سے انہیں روزانہ ۲۵۰ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ لہٰذا جب انہون نے ایک ہفتے تک جاری رہنے والے اس احتجاج میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، تو انہوں نے اپنی ماہانہ آمدنی کا ایک چوتھائی حصہ کھو دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں بڑی تصویر کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ احتجاج پوری کسان برادری کے لیے ہے۔‘‘
میدان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھڑی گاڑیوں کی قطار کے درمیان ہماری ملاقات کے تقریباً ۱۰ منٹ بعد میرا بائی، منگل کو تلاش کرتی ہوئی آتی ہیں۔ وہ ان کی طرف ہاتھ کا اشارہ کرتی ہیں کہ اب ہمیں اپنی گفتگو ختم کر دینی چاہیے۔ میرا بائی چاہتی ہیں کہ منگل ان کے ساتھ اسٹیج کی طرف جائیں، جہاں کسان سبھا کے لیڈر تقریر کر رہے ہیں۔ بجائے وہاں جانے کے منگل، میرابائی سے بھی ہماری گفتگو میں شامل ہونے کو کہتی ہیں۔ میرا بائی قدرے شرمیلی ہیں، لیکن دونوں خواتین کسانوں کو بخوبی معلوم ہے کہ وہ اور دوسرے کسان کیوں احتجاج کر رہے ہیں، اور زرعی قوانین کے منفی نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔
منگل کہتی ہیں، ’’ہماری فصل عموماً اپنی فیملی کے استعمال کے لیے ہوتی ہے۔ ہمیں جب بھی پیاز یا چاول فروخت کرنا ہوتا ہے، تو ہم انہیں وانی کے بازار میں لے جاتے ہیں۔‘‘ وانی ان کے گاؤں سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ناسک ضلع کا ایک قصبہ ہے۔ یہاں بازار کا ایک میدان ہے جس میں پرائیویٹ تاجروں کے توسط سے کی جانے والی نیلامی کے ذریعے زرعی پیداوار کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ کسانوں کو بعض اوقات ایم ایس پی (کم از کم امدادی قیمت) مل جاتی ہے، بعض اوقات نہیں ملتی۔ منگل کہتی ہیں، ’’ہم ایم ایس پی اور ایک یقینی مارکیٹ کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ نئے زرعی قوانین اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جن کسانوں کی ایم ایس پی تک رسائی تھی وہ بھی اس سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ افسوسناک ہے کہ ہمیں اپنے بنیادی حقوق کے لیے ہر وقت احتجاج کرنا پڑتا ہے۔‘‘
مارچ ۲۰۱۸ میں کسان لانگ مارچ کے دوران جب کسانوں (جن میں بہتوں کا تعلق آدیواسی برادی سے تھا) نے سات دنوں میں ناسک سے ممبئی تک ۱۸۰ کلومیٹر کا سفر پیدل طے کیا تھا، تو ان کا بنیادی مطالبہ اپنی زمین پر ان کا مالکانہ حق بحال کرنا تھا۔ میرا بائی جو ۵ء۱ ایکڑ زمین پر عموماً دھان کی کاشت کرتی ہیں، کہتی ہیں، ’’ناسک-ممبئی مورچہ کے بعد اس عمل میں تھوڑی تیزی آئی تھی۔ لیکن یہ تھکا دینے والا مارچ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہفتے کے اختتام تک میری کمر میں زبردست درد شروع ہو گیا تھا۔ لیکن ہم نے اپنا سفر پورا کیا تھا۔ میری عمر کے مدنظر یہ سفر منگل کے مقابلے میرے لیے زیادہ مشکل تھا۔‘‘
مارچ ۲۰۱۸ میں ایک ہفتہ تک چلے اس پیدل مارچ کے دوران منگل اور میرابائی نے ایک دوسرے کا خیال رکھا تھا۔ منگل کا کہنا ہے، ’’اگر وہ تھک جاتیں تو میں ان کا انتظار کرتی، اور اگر مجھے چلنے کا من نہیں ہوتا تو وہ میرا انتظار کرتی تھیں۔ اس طرح آپ مشکل وقت سے گزرتے ہیں۔ آخر میں اس کا پھل ملا۔ حکومت کو بیدار کرنے میں ہم جیسے لوگوں کو ایک ہفتہ تک ننگے پاؤں چلنا پڑا۔‘‘
اور اب ایک بار پھر مودی حکومت کو جگانے کے لیے وہ دہلی کے راستے پر ہیں۔ منگل کہتی ہیں، ’’ہم اس وقت تک دہلی میں رہنے کے لیے تیار ہیں جب تک حکومت یہ بل واپس نہیں لے لیتی۔ ہم نے بہت سارے گرم کپڑے پیک کیے ہیں۔ یہ دہلی جانے کا میرا پہلا موقع نہیں ہے۔‘‘
منگل پہلی دفعہ ۱۹۹۰ کی دہائی کے اوائل میں دارالحکومت گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم نانا صاحب مالوسرے کے ساتھ گئے تھے۔‘‘ مالوسرے ناسک اور مہاراشٹر میں کسان سبھا کے ایک بڑے رہنما تھے۔ تقریباً ۳۰ سال بعد بھی کسانوں کے مطالبات برقرار ہیں۔ منگل اور میرا بائی دونوں کا تعلق درج فہرست قبائل میں شامل کولی مہادیو برادری سے ہے۔ یہ کئی دہائیوں سے ایسی زمین پر کاشت کاری کر رہی ہیں جو تکنیکی طور پر محکمہ جنگلات سے تعلق رکھتی ہے۔ حقوق جنگلات قانون ، ۲۰۰۶ کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’قانون کے نفاذ کے باوجود ہم اس زمین کے مالک نہیں ہیں۔‘‘ یہ وہ قانون ہے جو انہیں زمین کی ملکیت کا حق دیتا ہے۔
دوسرے مظاہرین کی طرح وہ بھی کنٹریکٹ فارمنگ کو فروغ دینے والے نئے زرعی قوانین سے خوفزدہ ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس پر تنقید کی ہے، اور کہا ہے کہ ایک بڑے کارپوریشن کے ساتھ معاہدہ کرنے والے کسان اپنے ہی کھیتوں میں بندھوا مزدور بن جائیں گے۔ منگل کہتی ہیں، ’’ہم کئی دہائیوں سے اپنی زمینوں کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہم اپنی زمین پر قبضہ برقرار رکھنے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ہم ساری زندگی اس کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ ہم نے بہت کم پیش رفت کی ہے۔ لیکن اس عمل کے دوران ہم نے اپنے مشترکہ مسائل کے ذریعے دوست بھی بنائے ہیں۔‘‘
ان کی اپنی دوستی کی جڑیں بھی گہری ہو گئی ہیں۔ میرا بائی اور منگل اب ایک دوسرے کی عادات و اطوار سے واقف ہیں۔ چونکہ میرابائی بڑی ہیں، اس لیے منگل ان کا زیادہ خیال رکھتی نظر آتی ہیں۔ ان کے بیٹھنے کے لیے سیٹ روکنے سے لے کر، ان کے ساتھ واش روم جانے تک، دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جب جتھہ کے منتظمین، مظاہرین کے درمیان کیلے تقسیم کرتے ہیں تو منگل، میرا بائی کے لیے ایک اضافی کیلا مانگ لیتی ہیں۔
انٹرویو کے اختتام پر میں منگل کا فون نمبر مانگتا ہوں۔ پھر میرا بائی کا رخ کرتا ہوں۔ ’’آپ کو اس کی ضرورت نہیں پڑے گی،‘‘ منگل تیز لہجے میں کہتی ہیں۔ ’’آپ میرے نمبر پر ان سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔‘‘
پس تحریر: اس رپورٹر نے منگل اور میرا بائی سے ۲۱ اور ۲۲ دسمبر کو ملاقات کی تھی۔ ۲۳ دسمبر کی صبح ان دونوں نے جتھہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب میں نے ۲۴ دسمبر کو ان سے فون پر بات کی تو منگل نے کہا، ’’ہم نے مدھیہ پردیش کی سرحد سے واپس گھر لوٹنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ ہم سردی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔‘‘ پیچھے سے مکمل طور پر کھلی ٹیمپو میں سفر کے دوران آنے والی سرد ہوائیں ناقابل برداشت تھیں۔ یہ سوچ کر کہ آگے سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہونے والا ہے، انہوں نے اپنے گاؤں شندواڑ واپس لوٹ جانے اور اپنی صحت کو خطرے میں نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ منگل کہتی ہیں، ’’میرا بائی کو خاص طور پر زیادہ سردی لگ رہی تھی۔ مجھے بھی لگ رہی تھی۔‘‘ ناسک میں جمع ہونے والے ۲۰۰۰ کسانوں میں سے تقریباً ۱۰۰۰ نے ایم پی کی سرحد سے آگے ملک کی دارالحکومت کی جانب اپنا سفر جاری رکھا ہے۔
مترجم: شفیق عالم