کوئی دور سے آواز دیتا ہے – آرام کرنے کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ ایک سپروائزر اودھی میں بولتے ہوئے سبھی کو کام بانٹنے لگتا ہے اور کام شروع ہو جاتا ہے۔ رام موہن کو میدان کے نسبتاً پرسکون کونے میں ایک چھوٹا ٹینٹ لگانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔

تاریخ ہے ۲۳ جنوری اور سنیچر کا دن ہے؛ اور رام موہن ان ۵۰ مزدوروں میں شامل ہیں جو دو دن سے ۱۰-۱۰ گھنٹے کی شفٹ میں پنڈال لگا رہے ہیں۔ یہ مزدور ان ہزاروں کسانوں کے لیے ٹینٹ لگا رہے ہیں جو تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے اور قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ دہرانے کے لیے، ۲۴ جنوری کی صبح سے آنا شروع ہوں گے۔ ریلی ۲۶ جنوری، یعنی یوم جمہوریہ کے دن ختم ہوگی۔

رام موہن، جنوبی ممبئی میں واقع آزاد میدان میں رک کر کسانوں کے احتجاجی مظاہرہ میں شامل ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جو ہو رہا ہے میں اس پر نظر رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں اور میں سننا چاہتا ہوں کہ باقی کسان کیا کر رہے ہیں – اور ان کے مطالبات سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔‘‘

اتر پردیش کے گونڈہ ضلع کے اُمری بیگم گنج گاؤں میں ان کی فیملی گیہوں اور دھان کی کھیتی کرتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’۷-۶ بیگھے (ایک ایکڑ سے تھوڑا زیادہ) سے ہمارا کیا ہوگا؟ زندگی بسر کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن آپ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ جس ریلی کے لیے وہ پنڈال لگا رہے ہیں انہیں امید ہے کہ یہ ریلی ان کے اور بقیہ کاشتکار خاندانوں کی فصلوں کو بہتر قیمت دلوانے میں مدد کرے گی۔

۴۳ سالہ رام موہن، ۲۳ سالوں سے ممبئی میں دہاڑی مزدوری کر رہے ہیں۔ وہ کام کی تلاش میں شمالی ممبئی میں واقع ملاڈ ریلوے اسٹیشن کے پاس مزدور ناکہ پر انتظار کرتے ہیں – اور جن دنوں میں انہیں کام مل جاتا ہے، وہ دن کے ۷۰۰ روپے تک کما لیتے ہیں۔

Ram Mohan has been working two days to pitch tents for the rally against the new farm laws in Azad Maidan, which he hopes to join
PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

رام موہن گزشتہ دو دنوں سے آزاد میدان میں نئے زرعی قوانین کے خلاف ہونے والی ریلی کے لیے ٹینٹ لگا رہے ہیں۔ وہ اس ریلی میں شامل ہونے کی بھی امید کرتے ہیں

ان کو یہاں ایک ٹھیکہ دار لے کر آیا ہے جو بڑی ریلیوں میں پنڈال اور آرائش و سجاوٹ کا کام کرنے والی کمپنی کے لیے کام کرتا ہے۔ جب تک رام موہن اور ان کی ٹیم پنڈال لگانے کا کام ختم کرے گی، کسان آزاد میدان میں آنا شروع کر دیں گے۔ زیادہ تر لوگ اس احتجاجی مارچ کا حصہ بن کر آئیں گے جو ۲۳ جنوری کو یہاں سے ۱۸۰ کلومیٹر دور ناسک میں شروع ہوا تھا۔ احتجاجی مارچ اور آزاد میدان والی ریلی کو سنیکت شیتکری کامگار مورچہ نے منعقد کیا ہے۔ یہ مورچہ کئی تنظیموں کا ایک اتحاد ہے جو آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈی نیشن کمیٹی ، ٹریڈ یونینز جوائنٹ ایکشن کمیٹی ، نیشن فار فارمرز ، اور ایسی ہی دیگر تنظیموں سے منسلک ہیں، جو ۲۶ نومبر سے دہلی کی سرحدوں پر ہو رہے کسان آندولن کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔

سبھی کسان ستمبر ۲۰۲۰ میں پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے تین زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان قوانین کو سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔ یہ تینوں قوانین ہیں- زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔

کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔

جب تک مظاہرین آزاد میدان نہیں پہنچتے، دیوندر سنگھ بھی – جو آرائش و سجاوٹ والی اس ٹیم میں شامل ہیں جو اسٹیج تیار کرتی ہے – ڈیوٹی پر مامور رہیں گے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ریلی کے لیے ٹینٹ لگانے میں ۳۰۰۰ بانس کی بلّیاں، ۴۰۰۰ میٹر کپڑا، اور جوٹ کی رسی کے کئی سارے بنڈل لگیں گے۔

PHOTO • Riya Behl

دیوندر سنگھ کی فیملی، اتر پردیش میں اپنی تین بیگھہ زمین پر کھیتی کرتی ہے۔ ممبئی میں وہ دہاڑی مزدوری کرنا پسند کرتے ہیں، کیوں کہ اس طرح وہ جب چاہیں اپنے گھر پر پیسہ بھیج سکتے ہیں

۴۰ سالہ دیوندر بھی میدان میں ٹینٹ لگانے والے زیادہ تر مزدوروں کی طرح ہی اتر پردیش کے گونڈہ ضلع سے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’گزشتہ ۲-۱ سالوں سے کورونا کی وجہ سے سرکاریں [مرکزی اور ریاستی] خود ہی مصیبت میں ہیں۔ وہ کسانوں کے لیے کیا کر سکتی ہیں۔‘‘

دیوندر کی فیملی (ماں باپ، بیوی اور تین بچے) کرنیل گنج بلاک کے چھوٹے سے گاؤں راج ٹولہ میں اپنی تین بیگھہ زمین پر گیہوں، دھان، اور مکئی کی کھیتی کرتی ہے۔ وہ ۲۰۰۳ میں کام کی تلاش میں ممبئی آئے تے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے ہر طرح کا کام کیا ہے، لیکن یہ کام مجھے سب سے اچھا لگتا ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ’’اگر آپ کہیں اور کام کرتے ہیں، تو آپ کو مہینہ کے آخر میں تنخواہ ملے گی۔ لیکن اگر گھر میں کوئی پریشانی ہے اور انہیں پیسہ چاہیے، تو اس طرح میں دوسرے ہی دن پیسے بھیج سکتا ہوں،‘‘ وہ ملنے والی دہاڑی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جو عام طور پر ۵۰۰ روپے ہوتی ہے۔

۲۳ جنوری کی دوپہر کا وقت ہے اور مزدوروں نے کھانے کے لیے ایک گھنٹہ کا بریک (دوپہر ۱ بجے سے ۲ بجے) لیا ہے۔ وہ سیاہ اور سرخ رنگ کے کپڑوں سے آدھے بنے ٹینٹ کے نیچے تھوڑی دیر آرام کر رہے ہیں، جو پنڈال کی چھت کی شکل اختیار کرے گا؛ اور کارکن اسے بریک کے بعد پورا کریں گے۔ ان کے بغل میں ۲۰ سالہ برجیش کمار بیٹھے ہیں، جو گونڈہ کے لکشمن پور گاؤں سے ہیں۔ انہوں نے ممبئی میں ۱۶ سال کی عمر سے کام کرنا شروع کر دیا تھا اور مہینہ میں تقریباً ۲۰ دن کام کرتے ہیں اور ۵۰۰ روپے یومیہ کے حساب سے دہاڑی کماتے ہیں۔ برجیش بتاتے ہیں، ’’ہمیں جو کام ملتا ہے، ہم کر لیتے ہیں،‘‘ پُتائی، تعمیراتی اور دیگر کام سمیت۔ انہوں نے یہ اونچے پنڈال لگانا کہاں سے سیکھا؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے، ’’ہم سے پہلے جو بھی لوگ آئے انہیں یہ کام آتا تھا۔ ہم نے ان کے ساتھ کام کیا، انہوں نے ہمیں پنڈال باندھنا اور چڑھنا سکھایا۔ اس طرح ہم سیکھ گئے۔ اگر گاؤں سے کوئی آتا ہے، تو انہیں بھی ہم اپنے ساتھ رکھ کر کام سکھا دیں گے۔‘‘

ٹینٹ کے لیے لگنے والے بانس کا ڈھانچہ ۲۰-۱۸ فٹ کی اونچائی کا ہوتا ہے۔ پچھلے دو دنوں سے، صبح ۹ بجے سے رات کے ۹ بجے تک کام کرتے ہوئے، بغیر کسی حفاظتی آلات کے یہ کارکن ان پر چڑھ رہے ہیں تاکہ سبھی چھوٹے بڑے ٹینٹوں کو وقت پر لگا دیا جائے۔ ۲۲ جنوری کو سورج غروب ہونے کے بعد، انہوں نے ایک اسٹروب لائٹ کے نیچے کام کیا تھا، اور دیوندر اپنی آنکھوں پر زور دیتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے میں لگے ہوئے تھے کہ سبھی بانس ایک ہی اونچائیپر بندھے ہیں یا نہیں۔

'I won’t be joining the protest,' says Santraman (left). Brijesh adds: 'We don’t get any time away from work'
PHOTO • Riya Behl
'I won’t be joining the protest,' says Santraman (left). Brijesh adds: 'We don’t get any time away from work'
PHOTO • Riya Behl

سنت رمن (بائیں) بتاتے ہیں، ’میں مظاہرے میں حصہ نہیں لوں گا۔‘ برجیش کہتے ہیں، ’ہمیں کام سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے‘

وہ بتاتے ہیں کہ وہ لوگ صرف ممبئی میں ہی کام کرتے ہیں۔ اور جب انہیں چھپرے کے کام – بارش کا موسم شروع ہونے سے پہلے ریستوراں، اونچی عمارتوں، اور دیگر عمارتوں کی چھتوں کو ڈھانپنے کے کام – کے لیے بلایا جاتا ہے، تو یہ لوگ ۸۰-۳۰ فٹ کی اونچائی تک بھی چڑھ چکے ہیں۔ دیوندر مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’کسی نئے کاریگر کو ہم بانس اٹھانے کا کام دیتے ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے ہم اسے نیچے والے بانس باندھنے کا کام دیتے ہیں۔ اور پھر ہم اسے چڑھنے کا کام دیتے ہیں۔‘‘

رام موہن بتاتے ہیں، ’’اگر ہم یہاں مزدوری [دہاڑی] نہیں کریں گے، تو کھیتی [اپنے گاؤں میں] بھی نہیں کر پائیں گے۔ کھاد، بیج اور دیگر چیزوں کو خریدنے کے لیے پیسہ چاہیے، جو کھیتی کرنے سے نہیں آتا۔ اس لیے ہم لوگ یہاں [ممبئی میں] کام کرتے ہیں۔‘‘

رام موہن، جنوبی ممبئی کے آزاد میدان میں ۲۴ جنوری سے شروع ہونے والی ریلی میں رکنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، وہیں بقیہ مزدور شمالی ممبئی میں واقع اپنے کرایے کے گھروں میں واپس چلے جائیں گے۔ گونڈہ ضلع کے پارس پور گاؤں کے رہنے والے ۲۶ سالہ سنت رمن بتاتے ہیں، ’’میں احتجاجی مظاہرے میں شامل نہیں ہوؤں گا۔ اور مجھے [زرعی] قوانین کے بارے میں زیادہ پتہ بھی نہیں ہے۔ میں کام کرتا ہوں اور کماتا ہوں، بس۔‘‘ ان کا تعلق ایک بے زمین فیملی سے ہے۔

برجیش کہتے ہیں، ’’کام سے فرصت نہیں ملتی۔ ایک بار جب یہاں کام نمٹ گیا، تو ہم لوگ کہیں اور کام کرنے چلے جائیں گے۔ بہت سے لوگ اس آندولن میں شامل ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم کام نہیں کریں گے، تو کھائیں گے کیا؟‘‘

PHOTO • Riya Behl

ایک بار جب مزدور ٹینٹ لگانے کا کام پورا کر لیں گے، تو ۲۳ جنوری کو ناسک میں شروع ہوئے احتجاجی مارچ میں شامل ہونے والے ہزاروں کسان آزاد میدان آنا شروع کر دیں گے

PHOTO • Riya Behl

میدان میں لگا بانس کا ڈھانچہ، ۲۰-۱۸ فٹ تک اونچا ہوتا ہے۔ پچھلے دو دنوں سے، وقت پر ٹینٹ لگانے کے لیے مزدور اس پر بغیر کسی حفاظتی آلات کے چڑھ رہے ہیں – صبح کے ۹ بجے سے رات کے ۹ بجے تک

PHOTO • Riya Behl

سورج ڈوبنے کے بعد، ان سبھی نے ایک اسٹروب لائٹ کے نیچے کام کیا – ۱۹ سالہ شنکر چوہان سمیت – اور اس بات کو یقینی بنایا کہ سبھی بانس یکساں اونچائی پر باندھے گئے ہیں

PHOTO • Riya Behl

برجیش کہتے ہیں، ’ہمیں جو کام ملتا ہے، ہم وہ کرتے ہیں‘ – پُتائی، تعمیراتی کام، اور دیگر تمام کام

PHOTO • Riya Behl

ریلی کے لیے ٹینٹ لگانے میں تقریباً ۳۰۰۰ بانس کی بلیاں، ۴۰۰۰ میٹر کپڑا، اور جوٹ کی رسی کے کئی سارے بنڈل لگیں گے

PHOTO • Riya Behl

مہندر سنگھ (بائیں) اور روپندر سنگھ (دائیں) کے ساتھ کام کر رہے برجیش (درمیان میں) بتاتے ہیں، ’ہم سے پہلے جو لوگ بھی آئے انہیں یہ کام آتا تھا۔ ہم نے ان کے ساتھ کام کیا، انہوں نے ہمیں ٹینٹ باندھنا اور چڑھنا سکھایا۔ اس طرح سیکھ گئے۔ اگر کوئی گاؤں سے آتا ہے، تو ہم اسے بھی اپنے ساتھ رکھ کر کام سکھا دیں گے‘

PHOTO • Riya Behl

دیوندر بتاتے ہیں، ’ہم نئے مزدور کو پہلے بانس اٹھانے کا کام دیتے ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے ہم اسے نیچے والے بانس باندھنے کا کام دیتے ہیں۔ اور پھر ان کو چڑھنے کا کام دیتے ہیں‘

PHOTO • Riya Behl

کچھ مزدور ۲۴ جنوری کو شروع ہونے والی ریلی میں شامل ہونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، وہیں بقیہ لوگ شمالی ممبئی میں واقع اپنے کرایے کے گھروں میں واپس چلے جائیں گے

PHOTO • Riya Behl

رام موہن (نیچے) بتاتے ہیں، ’اگر ہم یہاں مزدوری (دہاڑی) نہیں کریں گے، تو کھیتی (اپنے گاؤں میں) بھی نہیں کر پائیں گے۔ کھاد، بیج، اور دیگر چیزیں خریدنے کے لیے پیسے چاہیے ہوتے ہیں، جو کھیتی سے نہیں آتے‘

PHOTO • Riya Behl

یوپی کے گونڈہ ضلع سے آئے بقیہ مزدوروں کے ساتھ موجود سنت رمن (ماسک پہنے ہوئے) بتاتے ہیں، ’مجھے قوانین کے بارے میں زیادہ کچھ پتہ نہیں ہے۔ میں کام کرتا ہوں اور کماتا ہوں، بس‘

PHOTO • Riya Behl

برجیش بتاتے ہیں، ’ایک بار جب یہاں پر کام نمٹ گیا، تو ہم لوگ کہیں اور چلے جائیں گے۔ بہت سے لوگ اس آندولن میں شامل ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم کام نہیں کریں گے، تو کھائیں گے کیا؟‘

مترجم: محمد قمر تبریز

ਰੀਆ ਬਹਿਲ, ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ (ਪਾਰੀ) ਦੀ ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ ਫ਼ੋਟੋਗ੍ਰਾਫ਼ਰ ਹਨ। ਪਾਰੀ ਐਜੂਕੇਸ਼ਨ ਵਿੱਚ ਸਮੱਗਰੀ ਸੰਪਾਦਕ ਦੇ ਰੂਪ ਵਿੱਚ ਉਹ ਵਿਦਿਆਰਥੀਆਂ ਦੇ ਨਾਲ਼ ਰਲ਼ ਕੇ ਵਾਂਝੇ ਭਾਈਚਾਰਿਆਂ ਦੇ ਜੀਵਨ ਦਾ ਦਸਤਾਵੇਜੀਕਰਨ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Riya Behl
Editor : Sharmila Joshi

ਸ਼ਰਮਿਲਾ ਜੋਸ਼ੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਸਾਬਕਾ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਅਤੇ ਕਦੇ ਕਦਾਈਂ ਲੇਖਣੀ ਅਤੇ ਪੜ੍ਹਾਉਣ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique